قیصرو کسریٰ قسط(75)

274

کلاڈیوس نے جھجکتے ہوئے سوال کیا۔ ’’جنگ کی کیا حالت ہے؟‘‘۔
تینوں کپتان پریشانی کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ اُن کی مغموم نگاہوں سے یہ ـظاہرہورہا تھاکہ کلاڈیوس نے کوئی ناخوشگوار موضوع چھیڑ دیا ہے۔ بالآخر ولیریس نے کہا۔ ’’جنگ کے متعلق شاید ہم آپ کو کوئی اچھی خبر نہ سنا سکیں۔ جب آپ قسطنطنیہ کے قریب پہنچیں گے تو آپ کو آبنائے باسفورس کے مشرقی کنارے پر حد نگاہ تک ایرانی لشکر کے خیمے دکھائی دیں گے‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’یہ خبر میرے لیے غیر متوقع نہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ روم کے جنگی جہاز برسوں تک دشمن کو قسطنطنیہ کے قریب نہیں آنے دیں گے‘‘۔
ولیریس نے کہا۔ ’’ان دنوں قسطنطنیہ پر ایرانیوں کے حملوں کی بہ نسبت ہمارے لیے اپنے مغربی علاقوں پر سیتھین قبائل کی پے در پے یلغار زیادہ تشویشناک بن چکی ہے۔ ہم چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ لیکن یہ وقت جنگ کی تفصیلات پر بحث کرنے کے لیے موزوں نہیں۔ اس وقت آپ اور آپ کے ساتھیوں کو آرام کی ضرورت ہے‘‘۔
عاصم جو نقاہت کے باعث انتہائی تکلیف کی حالت میں کھڑا تھا، ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گیا۔
انطونیہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر پوچھا۔ ’’آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘۔
’’مجھے ذرا چکر آگیا تھا‘‘۔ اُس نے جواب دیا۔
ولیریس نے اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکوں گا، لیکن کلاڈیوس کو قسطنطنیہ پہنچانا ضروری ہے‘‘۔
ایک جہاز کے کپتان نے کہا۔ ’’ہمیں صرف اِس بات کا افسوس ہے کہ انہیں صرف ایک جہاز کی ضرورت ہے اور ہم سب ان کے ساتھ نہیں جاسکتے۔ بہرحال اب ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’میں جانے سے پہلے آپ کو بھی ایک خدمت سونپنا چاہتا ہوں۔ میں نے کشتی کے ملاحوں سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں بحفاظت واپس پہنچادیا جائے گا۔ آپ انہیں ساتھ لے جائیں اور مصر کے ساحل کے آس پاس کسی محفوظ مقام پر اُتار دیں۔ ان لوگوں کوبحری سفر کا کوئی تجربہ نہیں اور یوں بھی اس کشتی کو واپس لے جانا ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔
ایک کپتان نے کہا…’’وہ کشتی بہت خوبصورت ہے، اور میں اُسے ضائع کرنا پسند نہیں کروں گا… ہمیں قرطاجنہ میں اس کی معقول قیمت مل سکے گی‘‘۔
’’بہت اچھا، تم کشتی اپنے ساتھ لے جاسکتے ہو۔ ان ملاحوں کے ساتھ میں تم سے انتہائی فیاضانہ سلوک کی توقع رکھتا ہوں‘‘۔
’’آپ ان کی فکر نہ کریں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد کلاڈیوس، اُس کی بیوی، فرمس اور عاصم اس جہاز سے اُتر کر، ولیریس کے جہاز میں سوار ہوچکے تھے۔
اور ایک لوہار کلاڈیوس کے گلے کا آہنی طوق اُتار رہا تھا۔
عاصم کے لیے جہاز کا سفر کشتی کی نسبت زیادہ آرام دہ تھا۔ اُس کی صحت بتدریج بہتر ہورہی تھی۔ ایک شام فرمس، انطونیہ اور کلاڈیوس سمندر کی خوشگوار ہوا کا لطف اٹھا رہے تھے۔ عاصم اور ولیریس جہاز کی نچلے حصے سے نمودار ہوئے اور آگے بڑھ کر اُن کے قریب کھڑے ہوگئے۔
فرمس نے عاصم کو دیکھتے ہی سوال کیا۔ ’’آپ کہاں تھے؟‘‘
عاصم نے مغموم لہجے میں جواب دیا۔ ’’میں ولیریس کے ساتھ جہاز کے نچلے حصے کی سیر کررہا تھا‘‘۔
ولیریس نے معذرت طلب نگاہوں سے فرمس، کلاڈیوس اور انطونیہ کی طرف دیکھا اور پھر عاصم سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’مجھ سے غلطی ہوئی لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ چپو چلانے والے غلاموں کو دیکھ کر اس قدر مفطب ہوجائیں گے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں ایران کے جنگی قیدیوں اور غلاموں کو اس سے بھی زیادہ بری حالت میں دیکھ چکا ہوں، لیکن میرا خیال تھا کہ…‘‘
’’آپ کا کیا خیال تھا؟‘‘ ولیریس نے سوال کیا۔
’’میرا خیال تھا کہ آپ اپنے دشمنوں کے ساتھ بہتر سلوک کرتے ہوں گے‘‘۔
ولیریس نے کہا۔ ’’وہ ہمارے غلام ہیں اور ہم اپنے غلاموں کو دوستوں یا دشمنوں کی حیثیت سے نہیں دیکھتے۔ اور اُن سے کام لینے کا بہترین طریقہ وہی ہے جو آپ دیکھ چکے ہیں‘‘۔
’’میں نے صرف یہ دیکھا ہے کہ وہ بھوکے اور پیاسے تھے اور اُن پر کوڑے برسائے جارہے تھے‘‘۔
ولیریس بولا۔ ’’آپ کو یہ پسند نہیں کہ ہوا تھم جائے تو بھی ہمارے سفینے دوڑتے رہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میری پسند یا نا پسند سے کیا ہوتا ہے؟‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’ولیریس یہ صحرا کے باشندے میں اور صرف اونٹوں یا گھوڑوں سے کام لینا جانتے ہیں‘‘۔
عاصم بولا۔ ’’لیکن ہم اپنے اونٹوں اور گھوڑوں کو بھوکا اور پیاسا نہیں رکھتے۔ میں نے آج ایک خوبصورت نوجوان کو دیکھا، وہ بھوک، پیاس اور تھکاوٹ سے نڈھال تھا اور اُس پر بے تحاشا کوڑے برسائے جارہے تھے۔ اگر یہ آپ کے قانون کی خلاف ورزی نہ ہو تو میں چاہتا ہوں کہ آج سے میرے حصے کا کھانا اور پانی اُسے پہنچادیا جائے‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’نہیں، نہیں اگر آپ اِس بات سے خوش ہوسکتے ہیں تو میں بذاتِ خود اُس کا خیال رکھوں گا، آپ کو اُس کے لیے قربانی دینے کی ضرورت نہیں۔ ولیریس تم میرے ساتھ آئو، میں اُس نوجوان کو دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
وہ چلے گئے۔ فرمس کچھ دیر خاموشی سے عاصم کی طرف دیکھتا رہا، بالآخر اُس نے کہا۔ ’’عاصم ہم دُنیا کے ساتھ چلنے سے انکار کرسکتے ہیں لیکن اسے بدل دینا ہمارے اختیار میں نہیں۔ اگر تم یہ اُمید لے کر جارہے ہو کہ روم کے عیسائی ایران کے مجوسیوں سے بہت زیادہ رحم دل ثابت ہوں گے تو تمہیں مایوسی ہوگی۔ یہ دنیا فرمانروائوں اور محکوموں کی دنیا ہے۔ اور تمہیں ہر جگہ ظالم اور مظلوم کے رشتے میں یکسانیت نظر آئے گی…‘‘
’’لیکن آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ عیسائیت اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی رحم اور محبت کی تعلیم دیتی ہے‘‘۔
’’میرا یہ دعویٰ غلط نہیں۔ لیکن میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اِس مذہب نے شہنشاہیت کا مزاج بدل دیا ہے۔ آج عیسائیت کے علم بردار مظلوموں اور بے بسوں کے لیے ڈھال کا کام نہیں دیتے بلکہ انہیں اپنی مظلومیت پر قانع رہنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اور موجودہ دور کے حکمران انہیں اپنے دشمن نہیں بلکہ حلیف سمجھتے ہیں۔ آج اِس جہاز پر تم نے ہمارے شہنشاہ کے غلاموں کی بے بسی کا مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن تم یہ نہیں جانتے کہ جب اقتدار کی خواہش رہبانیت کے چولوں میں نمودار ہوتی ہے تو وہ انسانیت کی تذلیل کے کتنے اسباب پیدا کرلیتی ہے۔ ہماری بیشتر خانقاہیں اُن راہبوں کی سلطنتیں ہیں جن کی ہوس اقتدار قیصر سے کم نہیں۔ آج مجھے کلیسا کی عظیم الشان عمارتوں میں وہ چراغ نظر نہیں آتے جن سے کبھی غریبوں کے جھونپڑے روشن ہوئے تھے۔ آج فرزندان آدم کو ایسے دین کی ضرورت ہے جو اُن کے سینوں میں ظلم اور وحشت کی طغیانیوں کے خلاف سینہ سپر ہونے کی جرأت پیدا کرسکے۔ جو طاقتوروں کے ہاتھ سے ظلم کی تلوار چھین لے، جو نسلوں اور قبیلوں اور قوموں کے درمیان منافرت کی دیواریں توڑ ڈالے اور کالے اور گورے ادنیٰ اور اعلیٰ، امیر اور غریب کو ایک ہی صف میں کھڑا کردے۔ میں جنگ سے نفرت کرتا ہوں، لیکن اگر کوئی ایسا دین ہوتا جو اِس دنیا کو عدل و مساوات کی تعلیم دے سکتا تو میں اُس کی فتح کے لیے تلوار اُٹھانے سے دریغ نہ کرتا۔ سچ کہو عاصم! اگر اس دنیا میں کوئی ایسا حکمران آجائے جس کا دل انسانیت کے درد سے لبریز ہو۔ جس کا مقصد اس دنیا کو عدل و انصاف کی نعمتوں سے مالا مال کرنا ہو۔ جس کے دشمن بھی اُس کی نیکی اور شرافت کی گواہی دیں، جس میں اُن جابر اور مغرور شہنشاہوں کے تاج نوچنے کی ہمت ہو جو اپنی قہر ماں قوتوں کے بل بوتے پر اس دنیا میں خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں تو کیا تم اس کے اشاروں پر جان دینے میں ایک راحت محسوس نہیں کرو گے؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’اگر کوئی ایسا انسان ہوتا تو اُس کی رفاقت میں صرف ایک بار جان دینے سے میری تسلی نہ ہوتی، لیکن یہ ایک خواب ہے‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’نہیں یہ ایک خواب نہیں، رات جتنی تاریک ہو اُسی قدر روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم جس رات کے مسافر ہیں اُس کی بھیانک تاریکیاں ہمیں ایک نئے آفتاب کی آمد کی بشارت دے رہی ہیں۔ وہ آئے گا اور زمانے کے ٹھکرائے ہوئے انسان اُس کے راستے میں آنکھیں بچھائیں گے۔ اُس کا دین دنیا کی ہر گمراہی کے خلاف اعلانِ جنگ ہوگا۔ اُس کے غلام قیصر اور کسریٰ کے اقتدار کی مسندیں اُلٹ دیں گے۔ اور اُس کی فتح انسانیت کی فتح ہوگی۔ میں کئی ایسے خداداد بیوہ بزرگوں سے مل چکا ہوں جو زمانے کی نگاہوں سے چھپ کر اُس کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ تم شاید اسے ایک خود فریبی سمجھو لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ پروردگار جس نے زمین اور آسمان بنائے ہیں۔ جس کے حکم سے جھلستے ہوئے صحرائوں کی پیاس بجھانے کے لیے بادل حرکت میں آتے ہیں۔ جس نے ایک ادنیٰ جاندار کو بھی راحت اور تکلیف کا نور عطا کیا ہے۔ اپنے بندوں کے حال سے غافل ہوسکتا ہے۔ عاصم مجھے یقین ہے کہ اُس کی بارگاہ سے ستم رسیدہ انسانیت کی چیخوں کا جواب آنے والا ہے‘‘۔
عاصم کے پاس فرمس کی باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ اُس نے کہا۔ ’’اگر آپ ان حالات میں بھی انسانیت کے مستقبل کے متعلق پُرامید ہیں تو آپ مجھ سے زیادہ خوش قسمت ہیں۔ لیکن مجھے اپنے متعلق صرف یہ احساس ہے کہ میں زندگی کی تمام امیدوں سے کنارہ کش ہونے کے باوجود زندہ ہوں۔ میری نگاہوں سے ماضی کے سراب روپوش ہوچکے ہیں اور اب مجھ میں کسی نئے سراب کے پیچھے بھاگنے کی ہمت نہیں۔ اس وقت مجھے یہ صرف احساس ہے کہ میں قسطنطنیہ جارہا ہوں اور مجھے یہ خیال پریشان نہیں کرتا کہ وہاں میرے لیے کیا ہوگا۔ شاید میری نجات اِسی میں ہو کہ میں زندگی کی ہر خواہش سے بے نیاز ہو جائوں‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’میں کلاڈیوس سے تمہاری سرگزشت سن چکا ہوں اور میرے لیے تمہاری مایوسی اور بددلی کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں۔ لیکن تمہیں یاد ہے، جب تم اپنا وطن چھوڑنے کے بعد رات کے وقت ہمارے پاس پہنچے تھے تو تمہاری مایوسی کا کیا عالم تھا؟ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ جس طرح اُس رات سین کی بیوی اور بیٹی کی مصیبت نے تمہیں ایک نئے راستے پر ڈال دیا تھا۔ اسی طرح قسطنطنیہ میں کوئی خوشگوار حادثہ تمہاری زندگی کا رُخ بدل دے؟‘‘۔
عاصم نے سراپا احتجاج بن کر کہا۔ ’’آپ کا یہ مطلب ہے کہ میں اب ایران کی بجائے روم کی فوج میں شامل ہوجائوں گا؟‘‘۔
’’نہیں میرا یہ مطلب نہیں۔ وہاں آپ کے لیے زندگی کی اور دلچسپیاں بھی ہوسکتی ہیں‘‘۔
عاصم کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن کلاڈیوس اور ولیریس کو واپس آتے دیکھ کر خاموش ہوگیا۔
جہاز درہ دانیال کے پُرسکون پانی سے گزرنے کے بعد بحیرئہ مارمورا میں داخل ہوا اور پھر ایک دن عاصم اور اُس کے ساتھی آبنائے باسفورس کے مغربی کنارے قسطنطنیہ کا دلفریب منظر دیکھ رہے تھے۔ بازنطینی دارالحکومت کے قریب مارمورا اور باسفورس میں رومیوں کے جہاز اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ سمندر میں ابھی تک اُن کا پلّہ بھاری ہے۔ لیکن مشرقی کنارے پر حدنگاہ تک ٹیلوں اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے دامن ایرانی لشکر کے خیموں سے اٹے ہوئے تھے۔
ولیریس نے کلاڈیوس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اب ایرانیوں کا کوئی جہاز باسفورس میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتا۔ ہم سمندر میں اُن سے اپنی برتری کا لوہا منوا چکے ہیں۔ لیکن ہم پر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا، جب دُشمن کے جہاز شہر کی مشرقی فصیل تک جا پہنچتے تھے۔ ایرانیوں نے پے در پے ناکامیوں کے بعد اپنا جنگی بیڑا یہاں سے ہٹالیا ہے، لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ ایک طرف بحیرئہ اسود اور دوسری طرف بحیرئہ مارمورا کی بعض مشرقی بندرگاہوں میں نئے جنگی جہاز تیار کررہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اُن کا نیا حملہ پچھلے حملوں سے زیادہ شدید ہوگا۔ ادھر دیکھیے اُس ٹیلے سے آگے ایک پہاڑی پر ایرانیوں کے سپہ سالار کا سُرخ خیمہ نصب ہے۔ پہلے اُس کا خیمہ باسفورس کے کنارے سے اتنا قریب تھا کہ ہم قسطنطنیہ کی فصیل پر کھڑے ہو کر اُسے دیکھ سکتے تھے۔
(جاری ہے)

حصہ