جامعہ اردو عبدالحق کیمپس میں مذاکرہ بعنوان ’’علمِ عروض‘‘

134

وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ اردو میں تربیتی نشست بہ عنوان ’’علم عروض‘‘ عبدالحق کیمپس کراچی کے سیمینار ہال میں منعقد ہوئی۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے شعبہ اردو کی چیئرپرسن ڈاکٹر یاسمین سلطانہ نے کہا کہ علم عروض سے کسی بھی شعر کے وزن اور صحت کا اندازہ کیا جاتا ہے عروض کا علم پیچیدہ بھی ہے اور سادہ بھی۔ علم عروض سیکھے بغیر بھی شاعری کی جاسکتی ہے کیوں کہ شاعری ودیعت الٰہی ہے۔ بزمِ یارانِ سخن کراچی کے سینئر نائب صدر رانا خالد محمود قیصر نے علم عروض پر کلیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کی نظر میں علم عروض ’’میزانِ فن‘‘ ہے نیز اس علم کو علم ادب کا ایک ضروری جزو قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے مثالوں کے ذریعے بحور/اشعار کی تقطیع پیش کی ان کا یہ بھی مؤقف تھا کہ شاعری اور اس کے فن کو سمجھنا علم عروض کے بغیر ممکن نہیں گو کہ مختلف شعرا نے بحروں میں اضافے کا دعویٰ ضرور کیا ہے مگر وہ بحریں ابھی غور طلب ہیں کہ اساتذہ نے بھی اسی انداز میں اشعار پیش کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علمِ عروض کی ابتدا خلیل بن احمد نے مکہ میں کی تھی۔ اساتذہ قوم نے عروض کی پندرہ بحریں کو بنیادی بحریں قرار دیا تھا ابوالحسن اخفش نے ایک بحر‘ بحر متدارک اور تین بحرین بحر قریب‘ بحر مدید اور بحر متقارب متاثرین نے ایجاد کیں اس طرح علم عروض کی 19 بحرین ہو گئیں ان بحروں کے علاوہ 9 بحرین اور بھی ہیں جو فارسی میں رائج ہیں ان کے نام یہ ہیں حریم‘ کبیر‘ بدیل‘ حمید‘ اصیم‘ جنب‘‘ عریض‘ عمیق اور صوفیہ۔ شعر کے وزن کو ہم بحر کہتے ہیں بعض طویل بحروں میں زحافات بھی ہوتے ہیں زحافات کے لغوی معنی گرائو اور کمی کے ہیں۔
کراچی ادبی فورم کا نعتیہ مشاعرہ
کراچی ادبی فورم کے زیر اہتمام قاسم جمال کی رہائش گاہ پر خالد عرفان کی صدارت میں نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا جس میں غلام علی وفا مہمان خصوصی تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں یامین وارثی‘ شاہد کمال‘ سید صلاح الدین اور زین انصاری شامل تھے۔ اس موقع پر خالد عرفان نے کہا کہ آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تمام زمانوں کے لیے رسول و نبی ہیں‘ اب کوئی رسول و نبی نہیں آئے گا۔ آپؐ کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں‘ آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کرکے ہم دین و دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ سید صلاح الدین نے کہا کہ آپؐ کا ذکر قیامت تک جاری رہے گا۔ اب نعت نگاری صنفِ سخن کا اہم حصہ ہے۔ نعتیہ ادب کی ترویج و اشاعت جاری ہے۔ قاسم جمال نے کہا کہ آج جو نعتیں پڑھی گئیں ان میں فن کی پختگی‘ جذبۂ فکر کا ترفع اور مضامین کا تنوع نمایاں ہے۔ نعت مکمل صنفِ سخن کا درجہ رکھتی ہے اور مختلف ہستیوں میں مثلاً قصیدہ‘ رباعی‘ نظم اور دیگر اصنافِ سخن میں نعت کہی جا رہی ہے۔ نعت میں مطالعاتی اور تحقیقی کام بہت تیزی سے جاری ہے ان شاء اللہ نعتیہ ادب کی ترقی جا رہی رہے گی۔

حصہ