آن لائن گیم کا خطرناک نشہ

440

بچوں کی دل چسپی کھیل کود مٹی میدان، پارک سے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی جارہی ہے اور اب بچوں کی اکثریت موبائل فون کی وجہ سے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے‘ ان بچوں میں موبائل فون کے ذریعے آن لائن گیم کا نشہ وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس صورت حال نے سوچنے سمجھنے والوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آن لائن گیمنگ بچوں اور نوجوانوں‘ دونوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں کیوں کہ یہ متاثرکن انداز میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیے جاتے ہیں‘ ورچوئل دنیا اور دوستوں کے ساتھ کھیلنے کا‘ اپنی صلاحیت کے اظہار‘ جیت کی لذت اور ہار کا ڈپریشن یہ سب کچھ آن لائن گیمز میں موجود ہوتاہے۔
اس کے حیران کن اثرات کی وجہ یہ ہے کہ یہ گیمز شعوری طور پر ہماری نفسیاتی ضروریات اور ماحول کو دیکھ کر ڈیزائن کیے جاتے ہیں جس کے اکثر منفی اثرات ہی پڑھتے ہیں۔
اس وقت یہ آن لائن گیم دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر کھیلا جارہا ہے، والدین بچوں سے پریشان ہیں۔ جس کو اس کی لت لگ جاتی ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے، یہ ایک ایسا نشہ ہے جو آہستہ آہستہ ایک بڑی تعداد کو منشیات اور ہیروئن جیسے نشے میں تبدیل کردیتا ہے اور پھر اس میں مبتلا شخص کی حالت بھی ایک نشئی جیسی ہوجاتی ہے۔ یہ گیمز، کارٹون اور ویب سیریز اشتعال انگیزی، غصے اور مار دھاڑ کو فروغ دیتے ہیں اور بچوں کے معصوم ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں جس سے بچہ خود سر ہوجاتا ہے اور اس کے جذباتی پن میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے باعث وہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
جدید دنیا میں انٹرنیٹ اور موبائل نے جہاں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں ان کے مضر اور خطرناک اثرات کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ تباہ کن انداز میں آتی رہتی ہیں.
بھارت کے شہر دہلی میں رونما ہونے والے ایک واقعہ کی یہ خبر ایک سال قبل ہماری نظر سے گزری تھی جہاں ایک 12 سالہ بچے نے گیم اَپ ڈیٹ کرنے کے لیے اپنے والد کی جیب سے کچھ پیسے نکالے جو پورے نہ تھے، اس کمی کو پوری کرنے کے لیے اس نے اپنی ماں کی سونے کی چین چوری کر کے 20 ہزار روپے میں فروخت کردی۔ بچہ آن لائن گیم فری فائر کھیلنے میں مصروف تھا کہ اس دوران اسے گیم میں کچھ ہتھیار خریدنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑی اور اگر وہ ہتھیار نہ خریدتا تو گیم مزید نہیں کھیل سکتا تھا۔ یہ چاول کی بڑی دیگ کا صرف ایک دانہ ہے‘ اس طرح کی خبروں کا اخبارات اور چینل پر بھرمار ہیں یاد رہے کہ اس طرح کی خبروں کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو میڈیا پر رپورٹ ہونے سے رہ جاتی ہے۔
وطن عزیز میں بھی متعدد ایسے واقعات رونما کی خبریں آتی رہتی ہیں۔.اس پر کئی ریسرچ موجود ہیں اور بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ نفسیاتی، جسمانی و سماجی مسائل کے ساتھ بچے بے ہنگم عادت کا شکار ہوکر خودکشی کررہے ہیں۔ یہ بظاہر ایسا ہی ہے جیسا کہ لوگ تفریح کے لیے فٹ بال، کرکٹ شطرنج کھیلتے ہیں یا مطالعہ کرتے ہیں‘وہ وڈیو گیمز سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور جوش و خروش کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔
انڈیپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ دن میں دو گھنٹے سے زیادہ اس گیم کا کھیلنا خطرے کی نشانی بن سکتا ہے۔ نوجوان اکثر وقت کو ذہن میں نہیں رکھتے۔
اس کھیل سے آپ پر درج ذیل منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
1۔ آپ کی فطرت کو جارح بناسکتا ہے۔
2۔ سماجی بے چینی میں اضافہ ہو سکتاہے۔
3۔ ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔
4۔ سونے میں دشواری ہوسکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں اس کے مثبت اثرات یہ بتائے جاتے ہیں:
1۔ نظر کو بہتر کرتا ہے۔
2۔ ٹریک کرنے کی صلاحیت۔
3۔ ملٹی ٹاسکنگ کی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں ان گیمز کی وجہ سے کئی بچوں اور نوجوانوں نے اپنی زندگی تک کا خاتمہ کیا ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ بچے حقیقت اور خیالی دنیا میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔ ان کا ذہن ایک فرضی دنیا کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ ان خونی گیمز میں دوسروں کو قتل کرکے اُن کی املاک تباہ کرنے کا ہدف ہوتا ہے اور بچے اس میں محو ہو کر ہوش کھو دیتے ہیں اور یہ بات پھر محض گیم تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس طرح بچے نت نئے جرائم کی دنیا اور تجربات میں حقیقی طور پر داخل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ کچھ سیکھتے ہیں جو اُن کی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
اس وقت ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ بچہ نہ گھرکے باہر محفوظ ہے اور نہ ہی گھر کے اندر۔ باہر جرائم پیشہ عناصر اور نشے کے عادی لوگ تاک میں بیٹھے ہیں تو گھر میں انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے ویب سیریز اور گیمز بچوں کو جرائم اور نشے کی دنیا میں دھکیل رہے ہیں۔ خطرناک ویب سیریز اور گیم نت نئے عنوان کے ساتھ مستقبل میں بھی سامنے آتے رہیں گے۔ اس ضمن میں جہاں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر ایسے مواد کو روکے، ان پر پابندیاں لگائے، بچوں کو محفوظ آن لائن مواد فراہم کرنے کے انتظامات کرے، وہاں والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ اپنا کردار بڑھانے اور خصوصی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ پر آج کے دور میں مکمل پابندی تو ممکن نہیں نہ ہی عملی طور پر ایسا ممکن ہے، لیکن اس کو مثبت سمت میں ڈالا جاسکتا ہے، بچوں کے اسکرین ٹائم کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس سلسلے میں اقدامات بھی کیے گئے ہیں اور شعور بھی اجاگر کیا جا رہا ہے اور اس کام میں میڈیا بھی اپنا مؤثر کردار ادا کر رہا ہے، روزانہ کی بنیاد پر تحقیقات ہورہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں دیگر مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں ہے، حالانکہ یہ سب سے زیادہ توجہ کی متقاضی ہے۔ ہم نے اپنے مستقبل کو اسکرین اور جرائم کی دنیا میں لے جانے والے گیمز اور ویب سیریز کے حوالے کردیا ہے، گیم کی وبا اور نشہ بڑھتا جارہا ہے اور اب یہ گھر گھر کی کہانی بن گیا ہے اچھے بھلے گھر کے والدین پریشان ہے ایسے میں جو کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے‘ والدین کو خود اپنے بچوں کو اس وبا سے محفوظ رکھنا ہے‘ وہ آگے بڑھیں اور اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ مل کر کچھ قوانین بنائیں کہ کب اور کتنا اسکرین کودیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا ہے، اور لوگوں کے درمیان ہی اسکرین کا استعمال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے الگ مصروفیت اور مشاغل تلاش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پارک، کھیل کود اور دوستی مٹی میدان یہ ساری بنیادی ضرورت ہیں۔ جب بچہ ان صحت مند سرگرمیوں میں مشغول ہوگا تو خودبخود اسکرین ٹائم کم ہوگا اور موبائل سے بے رغبتی بڑھے گی۔ اگر آج ہم نے بچوں کو موبائل فون اور اس کے خطرناک اثرات سے بچانے کے لیے عملی قدم نہیں اٹھایا تو آنے والے دنو ں میں یہ کھیل گھر گھر میں ماتم کا سبب بن جائے گا اور ہم اپنی اپنی نسل کو بے بسی برباد ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ یہ سوچنے سے زیادہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے کا وقت ہے۔ کہیں یہی بچے جنہیں اضافی لاڈ پیار ہم دے رہیں اور وہ اس کا غلط استعمال کررہے ہیں‘ کل سوال پلٹ کر نہ کرلیں کہ آپ نے کیوں ہمیں اس تباہی کے راستے پر جانے سے نہیں روکا؟ اور وقت جو ہمیں دینا تھا نہیں دیا۔ ذرا سوچیں ہماری اس وقت کیا حالت ہوگی۔

حصہ