شیطان کی پٹائی

181

بچو دنیا میں طرح طرح کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ کچھ افراد اندر اور باہر سے نیک ہوتے ہیں لیکن کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جو باہر سے تو بہت نیک اور اچھے دکھائی دیتے ہیں لیکن اندر سے بہت زیادہ خراب اور دھوکے باز ہوا کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں اور لوگ ان کی ظاہری اچھائی دیکھ کر ان سے دوستی تو کر بیٹھتے ہیں لیکن جب ان کے ساتھ کوئی بڑا دھوکا ہو جاتا ہے تو وہ اپنا دل پکڑ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ دکھ اٹھانے والوں کو اس بات کا گمان تک نہیں ہوتا ان کا دوست، ساتھی، پڑوسی یا رشتہ دار ان کے ساتھ دھوکا کرے گا۔ ایسا صدمہ حقیقتاً نقصان پہنچ جانے کا نہیں ہوتا بلکہ بظاہر اچھا نظر آنے والے ساتھی یا دوست سے اعتماد اٹھ جانے کا ہوتا ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ نہ تو ہم اچھے دوست بن کر کسی کو نقصان پہنچائیں اور نہ ہی کوئی ہمارے ساتھ ایسا کرے اسی لئے ہمارے بنی (ص) نے کسی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے پہلے اللہ سے اچھی دعا مانگنے کی ہدایت کی ہے تاکہ خراب دوستوں سے ہمارا واسطہ نہ پڑ سکے۔
ہر معاشرے میں بظاہر نیک اور شریف نظر آنے والے شیطان صفت لوگ پائے جاتے ہیں جو آپ کو قدم قدم پر اچھے راستوں سے بھٹکانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں لیکن جو لوگ ہر کام کرنے سے پہلے اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمانے لگتا ہے اور بسم اللہ کی برکت سے وہ ایسا کام جس میں اللہ کی رضا شامل نہ ہو، اسے کرنے سے آپ کا دل منع کر دیتا ہے۔
بد قسمتی سے بظاہر اچھا اور اندر سے برا انسان مجھ میں بھی گھس آیا تھا۔ جب میں آپ کی طرح بچہ ہونے کے بعد کچھ بڑا ہوا تو گھر والوں کی اعلیٰ تربیت کا اتنا اثر تو تھا کہ میری کوئی بھی نماز کیا جماعت بھی قضا نہیں ہوا کرتی تھی۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جایا کرتی تھی۔ اذان کی آواز کے ساتھ ہی اٹھ جانا، وضو کرنا، رات والے کپڑے تبدیل کرکے مسجد کی جانب روانہ ہوجانا، نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک کرنا۔ گھر آکر اسکول یونیفام زیبِ تن کرنا، ناشتہ کرکے اسکول کے لیے روانہ ہوجانا۔ اب ایسے بچے کو کون برا کہہ سکتا تھا۔ ہزاروں آنکھیں جس کے معمولات کو دیکھتی ہوں، گھر ہی کیا محلے والے، عزیز، رشتے دار، اسکول کے اساتذہ اور اسکول میں پڑھنے والے تمام بچے میری اس ظاہرہ صورت کو میرے اعلیٰ کردار سے تشبیہہ دیتے نہیں تھکا کرتے تھے۔ ہر زبان پر میری اچھائی کے تذکرے تھے جس کی وجہ سے مجھ میں نیکی کا غرور پیدا ہونے لگا۔ غرور صرف طاقت کا، دولت کا یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو بہت نیک سمجھ لینا بھی شیطانی فعل بن جاتا ہے اور دل میں یہ احساس گھر کرنے لگتا ہے کہ مجھ جیسا کوئی اور نیک ہو ہی نہیں سکتا۔ اب کسی کو اس بات کا شک کیسے ہو سکتا تھا کہ اتنا نیک دکھائی دینے والا کسی کا “لنچ” کھا جاتا ہوگا، کسی کی پنسل اس کے بیگ سے نکال لیتا ہوگا، گھر کی کم یا بیش قیمت چیز چپکے سے بازار میں بیچ کر طرح طرح کی چیزیں مزے لے لے کر کھاتا ہوگا۔
اکثر یہ بھی ہوتا کہ گھر میں ہم عمر یا عمر میں کچھ بڑے، رشتے کے بھائی بہن جمع ہوتے تو اور ان میں سے کوئی تڑپ تڑپ کر چیخ رہا ہوتا تو کسی کو بھی یہ پتا نہ چلتا کہ اس کے بدن میں چبھنے والی سوئی میری ہی کسی شرارت کا نتیجہ تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ سب سے زیادہ دکھ کا اظہار کرنا، رونے والے سے ہمدردی جتانا اور اگر بچہ چھوٹا ہو تو اس کو خوب پیار کر کرے خاموش بھی تو میں ہی کراتا تھا، عجیب بات یہ تھی کہ چھٹپن سے ایسی تکلیف دہ حرکتیں کرتے کرتے میں اتنا ماہر ہو چکا تھا کہ بڑی سے بڑی واردات کی خبر بھی کسی کو کان و کان نہ ہو پاتی۔
یہ بات بھی نہیں کہ ہر اذیت پہنچانے والی حرکت کے بعد دل اندر سے مغموم نہیں ہوا کرتا تھا۔ اکثر میں اپنے آپ کو دل ہی دل میں بہت برا بھلا کہا کرتا تھا لیکن کیا کروں کہ جب بھی کوئی ایسا موقع جس میں کسی کو اذیت پہنچانے کا کوئی پہلو دکھائی دیتا، مجھ سے رہا نہیں جاتا، شیطانی خصلت جاگ جاتی اور میں نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتا۔
ایک دن میری وجہ سے میرے چھوٹے بھائی کو میرے ہاتھوں بہت ہی خطرناک چوٹیں آئیں۔ ہوا یوں کہ ہلکی سردیوں کا زمانہ تھا۔ سردیوں میں دھوپ سب ہی کو بہت اچھی لگتی ہے۔ چھوٹا بھائی بھی اپنی کرسی لیکر برآمدے میں بیٹھ جایا کرتا تھا۔ یہ کچے صحن سے ایک فٹ کے قریب اونچا تھا۔ کرسی لگا کر وہ کسی کام سے اندر گیا تو میں نے پھرتی کے ساتھ اس کی کرسی کے پایوں کے نیچے بیر کی گٹھلیاں رکھ دیں اور اپنے کمرے میں جا چھپا۔ چھوٹا بھائی باہر آکر جونہی کرسی پر بیٹھا، کرسی ڈگمگا کر صحن میں جا گری اور وہ سر کے بل زمین پر گرا۔ شکر ہے کہ شدید زخمی ہونے کے باوجود دماغی طور پر اسے کچھ نقصان نہ پہنچا لیکن میرے دل نے کچھ کچا اور کچھ پکا عہد کیا کہ اب کسی کے ساتھ ایسا نہیں کروںگا جس سے کسی بھی قسم کی اذیت پہنچے۔ ایسے عہد تو میں نہ جانے کتنی مرتبہ کر چکا تھا۔ اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اپنے عہد پر میں قائم بھی رہ سکوں گا یا نہیں لیکن ایک ایسا واقعہ میرے ساتھ پیش آیا کہ میرا اندر اور باہر ایک جیسا ہو گیا۔ ہوا یہ کہ بھائی کی آہیں، بہتا خون، اس کے آنسو اور خون میں تر بتر کپڑے مجھ پر ایسا اثر چھوڑ گئے کہ میں رات سونے سے پہلے خوب رویا اور روتے روتے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ تو میرے اندر کے شیطان کو مار دے۔ نہ جانے کب گہری نیند کے عالم میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے بدن کے اندر سے اچانک ایک شکل نکل کر میرے مد مقابل آن کھڑی ہوئی۔ بہت خوبصورت اور بہت حسین لیکن وہ جتنی حسین تھی اتنی ہی کافرانہ باتیں اور حرکتیں کر رہی تھی۔ مجھ پر اس کا جادو جیسے چلنے لگا تھا کہ میرے اندر سے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کے الفاظ نکلنا شروع ہوئے۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی وہ خوبصورت شکل نہایت بھیانک ہوتی چلی گئی اور اس نے میرا گھلا دبانے کی کوشش کی ہی تھی کہ میں نے اس کی ٹھوڑی پکر ایک زور دار تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کیا۔ تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ تھپڑ کھا کر شیطان کی اتنی زور دار چیخ نکلی کہ میری آنکھ کھل گئی۔ مگر یہ کیا، وہ چیخ تو میری خود کی تھی اور میں نے اپنی ہی ٹھوڑی پکڑ کر اپنے ہی منہ پر طماچہ رسید کیا تھا جس کی جلن مجھے اپنے چہرے پر صاف محسوس ہو رہی تھی۔ چیخ سن کر میری امی دوڑی دوڑی میرے کمرے میں آکر پوچھتی رہیں کہ کیا ہوا لیکن میں کوئی جواب دینے کی بجائے سوئے رہنے کی اداکاری کرتا رہا۔ جب یہ اطمینان ہو گیا کہ والدہ صاحبہ کمرے سے جا چکی ہیں تو سامنے لگے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ چہرے پر پانچوں انگلیوں کے نشانات صاف نظر آ رہے تھے۔ بس اسی دن میں سمجھ گیا کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے اور میں نے اپنے اندر چھپے ہوئے شیطان کو اپنے ہی ہاتھوں مار کر بھگا دیا ہے۔

حصہ