معاشرتی زندگی میں بگاڑ پیدا کرنے ولی خصلتیں

414

سلمیٰ: اماں میں نے اپنے کانوں سے سنا ارشد انکل آپ کے اور بابا کے خلاف بول رہے تھے اور وہ آپ کی کزن وہ ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی تھی۔
حسینہ: (سلمیٰ کی اماں) ’’ارے دفع کرو کم بختوں کو تمہارے بابا نے ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا لیکن یہ احسان فراموش لوگ ہیں میرا بس چلے تو میں تو ان کی مشکل بھی نہ دیکھوں…‘‘
سلمیٰ کے ابا صادق کمرے میں داخل ہوئے تو دونوں ماں بیٹی کی گفتگو سنی انہیں بہت افوس ہوا کہ اس کی بیوی بھی اپنی بیٹی کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔
صادق صاحب: ’’نیک بخت بجائے بیٹی کو اس فعل سے روکنے کے اس کے ساتھ شامل ہو جاتی ہو… تمہاری ان باتوں کی وجہ سے تو میں نے بھی ان سے ملنا جلنا کم کر دیا ہے ہمارے درمیان دوریاں آگئیں ہیں۔‘‘
…٭…
سکینہ: دیکھا آپ نے شہلا بھابھی کا رویہ اپنے بیٹے کی شادی میں؟ کسی کو خاطر میں ہی نہیں لا رہی تھیں نہ ساس کو نہ نندوں اور دیوروں کو، ہر جگہ اپنی مرضی ہی چلا رہی تھیں۔
دردانہ (بڑی نند) وہ ویسے ہی کسی کو کہاں اتنی اہمیت دیتی ہیں۔ ہمیشہ تو اسی طرح اکھڑی اکھڑی رہتی ہیں۔ وہاں بیٹھے سب لوگوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی…
…٭…
مس زرینہ: ویسے میڈم آپ نے مس عابدہ کو بہت زیادہ… میرا مطلب ہے کہ جس طرح آپ نے اس کو اختیارات دیئے ہیں کیا وہ اس قابل ہے اب دیکھیں نا پروگرام کے لیے تمام اشیاء و سامان کی خریداری عابدہ کے حوالے کی ہوئی ہے… (رک کر) یہ جو کیٹرنگ والے کو اس نے آرڈر دیا ہے… وہ اس نے پیسے تو زیادہ لگائے ہیں میرے خیال میں وہ اپنا حصہ بھی الگ کرتی ہو گی۔ (کن آنکھوں کو میڈم کو دیکھتے ہوئے)
مس زرینہ تو یہ کہہ کر چلی گئی لیکن میڈم کے دل میں عابدہ کے لیے اچھا ’’بیج بو‘ کر نہیں گئی خیر میڈم نے اپنے طور پر تحقیق کی تو زرینہ کی بات غلط ثابت ہوئی بلکہ اس نے جس باورچی کو آرڈر دیا تھا اس نے بہت کم ریٹس (قیمت پر) آرڈر بک کیا تھا کیونکہ وہ ان کے والد کا جاننے والا تھا۔
یہ تو میڈم نے معلومات حاصل کروالی ورنہ اس کے دل میں مس زرینہ جو بغض اور بدگمانی پیدا کرکے گئی تھی اس کے نتائج منفی بھی نکل سکتے تھے۔ بلکہ یقیناً نکلتے…
…٭…
قارئین یہ تین حقیقی جھلکیاں آپ کے سامنے پیش کی ہیں یقیناً آپ کے اردگرد بھی ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہوں گے جس کی وجہ سے بد گمانیاں، فساد و دوریاں پیدا ہو جاتیں ہیں بلکہ بعض اوقات اس قدر نفرتیں پیدا ہو جاتیں ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنا گوارا نہیں کرتے بھائی بھائی سے ناطہ توڑ دیا ہے گھروں میں خاندانوں میں تو اکثر و بیشتر ان خصلتوں کی وجہ سے انتشار کی فضا قائم رہتی ہے۔ پھر ایسے حالات میں سامنے والے فائدہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔
یعنی مفاد پرست لوگ ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں میرا دین جو ضابطہ حیات ہے، زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ہدایات سے نبی نوع کو نوازا ہوا ہے غیبت، ٹوہ میں لگنا لوگوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا یہ ایسی برائیاں ہیں جن کے بارے میں قرآن و احادیث مبارکہ سے واضح ہدایات و تعلیمات ملتی ہیں۔ بلکہ استحکام معاشرت کے روشن پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے تعلیمات سے نوازا گیا ہے۔
سورۃ الحجرات آیت12 میں رب العزت کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند (فرمائے گا) کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
سورۃ الحجرات میں پھر دوسری طرف سننے والے کو بھی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ’’اسے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دیے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی کو (قوم کو) ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھائو‘‘ آیت نمبر 6
ان دونوں آیات کی روشنی میں نہ صرف بات کرنے والے بلکہ سننے والے کے لیے بھی واضح ہدایات موجود ہیں۔
اسی طرح احادیث نبوی سے بھی حسن معاشرت کے لیے تعلیمات واضح ہیں آپؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’آپؐ نے فرمایا! تم جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا، اللہ اور (اللہ کے بتانے سے) اللہ کا رسولؐ خوب جانتے ہیں، آپؐ نے فرمایا سنو! غیبت یہ ہے کہ اپنے (مسلمان) بھائی کا اس طرح ذکر کرنا کہ (اگر وہ سن پائے تو) اس کو ناگوار لگے، کہا گیا اگر وہ بات (عیب اور بدی) اس میں (فی الواقع) ہو تو؟ آپؐ نے فرمایا اگر وہ بات جو تو کہتا ہے اس میں ہو تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے جو تو کہتا ہے پھر تو نے اس پر بہتان باندھا (مسلم شریف)
یہ مذکورہ بالا حدیث صرف واحد نہیں بلکہ آپ کی کئی احادیث مبارکہ میں اس قسم کی خصلتوں کی سختی سے ممانعت فرمائی گئی ہے جو دو گروہ یا دو بندوں کے درمیان اختلاف، لڑائی، فساد یا بدگمانی کی وجہ بنے لیکن افسوس بے حد افسوس آج ہمارے گرد کتنے لوگ ہیں جو ان خصلتوں و برائیوں سے اپنی ذات کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ برائیاں اوپر سے نیچے ہر ادارے، محکمے اور تقریباً ہر دوسرے خاندان میں نظر آتیں ہیں پھر ان کے منفی اثرات سے متاثرہ افراد کو تکلیف سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ جیسا کہ میں نے مضمون کے شروع واقعات کے ذریعے اسبات کو واضح کیا ہے۔
ایسے لوگ جو ان خصلتوں میں مبتلا ہیں یا آس پاس کے لوگوں کی ٹوہ میں لگتے ہیں، غیبت کرتے ہیں بدگمانی پھیلاتے ہیں ان کے نقصانات سے بچنے کے لیے لازمی امر یہ ہے کہ سامنے والا بغیر تحقیق کے ان کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین نہ کرے بلکہ تحقیق کرے کہ آیا صحیح بھی ہے یا نہیں، جیسا کہ تاریخ اسلام کے بہت سے واقعات سے بھی ثابت ہے۔ اللہ رب العزت نے اس بات کو سورۃ الحجرات میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’اے مسلمانوں اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھائو‘‘
اور معذرت کے ساتھ آج اگر ہم کوئی اس قسم کی خبر سن لیں تو غصہ میں اگر مخالف کے لیے دل میں بدگمانی پیدا کر لیتے ہیں اور لڑائی نہ بھی کریں تو قطح تعلق کر لیتے ہیں بلکہ اکثر تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کی بات آپ کو دو جملوں میں بتائی اگلا اس میں ایک آدھ جملہ بڑھا کر اگلے تک پہنچاتا ہے اور جب تک اس ’’اصل شخص‘‘ تک بات پہنچتی ہے تو وہ ایک گھمبیر صورت حال تک پہنچ جاتی ہے میرے اللہ نے اور اس کے رسول اللہ نے اسی لیے اس قسم کی خصلتوں سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے کہ یہ خصلتیں آس پاس کے بہت سے لوگوں کو اپنی زد میں لے لیتی ہیں محبتیں نفرتوں میں ڈھل جاتی ہیں میں نے اپنے آس پاس ایسے کئی خاندان دیکھے ہیں جو اس صورت حال کی وجہ سے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے کے روا بھی نہیں…
یہ تمام برائیاں معاشرتی بگاڑ کا سبب تو بنتی ہی ہیں لیکن اللہ کی ناراضگی کا موجب بھی بنتی ہیں جبکہ اللہ تو اپنے بندوں کا ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارہ جاہتا ہے۔
جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ سنو! مسلمان تو سب بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان اصلاح کر دیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(پارہ نمبر 26 ،4 تا 14)
اس آیت کریمہ سے یہ بھی واضح ہے کہ جب آپ کے سامنے دو بندوں کے درمیان ایسی صورت حال پیش آئے تو تیسرے کو ان کے درمیان صلح کروانی چاہیے جس کا اجر و ثواب اللہ کے یہاں زیادہ ہے (سبحان اللہ) ایک ایک بات کو صاف اور واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جس کی روشنی میں عمل پیرا ہونے سے یہ معاشرہ حقیقت میں اسلامی معاشرہ بن سکتا ہے ہر ایک سکھ اور اطمینان سے محبت اور اخوت و بھائی چارے سے مل جل کر رہ سکتا ہے۔
nn

حصہ