انقلاب کا فلسفہ دیہات سے نہیں،شہروں سے آتا ہے

420
ڈاکٹر اسرار احمد کا ایک یادگار انٹریو

ڈاکٹر اسرار احمد سے اللہ تعالیٰ نے خدمت ِ قرآن کا وہ مہتمم بالشان کام لیا جس کی عصرِ حاضر میں کوئی اور مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کو قرآن حکیم کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے وقف کردیا بلکہ ان کی قائم کردہ قرآن اکیڈمی کے ذریعے عربی زبان کی تعلیم و تدریس کو ایسا فروغ نصیب ہوا کہ آج قرآن حکیم کو براہِ راست سمجھنے کے سیکڑوں شائق اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ اردو ترجمے سے بے نیاز ہوکر اللہ کی اس لافانی عمیق کتاب سے کسبِ نور کرسکیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے رب سے ملاقات کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، لیکن آج بھی ان کے دروسِ قرآن ٹیلی ویژن کے مختلف چینلوں سے پابندی سے پیش کیے جاتے ہیں‘ ان کی وڈیو کیسٹ بازاروں میں دستیاب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس خطے کے پہلے مفسرِ قرآن ہیں جنہوں نے چھپے ہوئے الفاظ (Printed Words) کے بجائے قرآن حکیم کی تفہیم اور اس کے پیغام کو عام کرنے کے لیے برقی ذرائع ابلاغ (Electronic Media) کا بھرپور استعمال کیا۔ یقیناً ڈاکٹر صاحب اس حقیقت کو پا چکے تھے کہ عام مسلمان کو قرآنی تعلیمات سے وابستہ کرنے کے لیے کتاب سے زیادہ برقی اسکرین مؤثر رہے گی۔ چھپی ہوئی تفاسیر کی کمی نہ تھی‘ اگر ڈاکٹر صاحب تفسیر لکھنے کی طرف مائل ہوتے تو ان گراں قدر تفاسیر میں ایک اور تفسیر کا اضافہ ہوجاتا، لیکن ہمارے معاشرے میں عاداتِ مطالعہ کے تقریباً فقدان کی وجہ سے یہ تفسیر بھی مذہبی و دینی کتابوں کی دکانوں یا گھروں کی الماریوں میں بہ عزت و احترام محفوظ رکھ دی جاتی اور مطالعے کی نوبت بھی شاذ و نادر ہی آتی۔ ویسے بھی ڈاکٹر صاحب تحریر سے کہیں زیادہ تقریر کے آدمی تھے۔ مطالعہ‘ غور و فکر اور فنِ خطابت پر عبور وہ اوصاف ہیں جن کی وجہ سے ان کے دروسِ قرآن حکیم آج بھی سننے والوں میں مقبول ہیں۔

ڈاکٹر اسرار احمد اپریل 1932ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع حصار میں پیدا ہوئے۔ تحریک پاکستان کے آخری دو برسوں میں جب کہ وہ میٹرک کے طالب علم تھے‘ مسلم لیگ مسلمانانِ ہند کی نمائندہ تنظیم بن چکی تھی‘ ڈاکٹر صاحب اپنی عمل پسند طبیعت کے زیر اثر مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوکر ایک نہایت متحرک کارکن اور اس کے عہدے دار بن گئے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ’’ترجمان القرآن‘‘ اور اپنی معرکہ آرا کتابوں کے ذریعے دعوتِ دین نہ صرف دے چکے تھے بلکہ جماعت اسلامی کا قیام بھی عمل میں آچکا تھا۔ مولانا محترم کی یہ دعوت ڈاکٹر اسرار کے لیے اتنی پُرکشش تھی کہ جب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے حلقوں میں مولانا کی فکر یا ان کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا، یا انہیں تنقید و طنز کا نشانہ بنایا جاتا تو ڈاکٹر صاحب پوری قوت سے مولانا کا دفاع کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی اظہار احمد بھی مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے متاثر تھے بلکہ پاکستان بنتے ہی وہ جماعت میں شامل ہو کر اس کی رکنیت حاصل کرچکے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد کا گھرانا ہجرت کرکے لاہور میں بس گیا۔ یہاں آنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے جماعت اسلامی کے لٹریچر کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا، ساتھ ہی جماعت لاہور کے حلقہ کرشن نگر کے ساتھ عملاً وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی کے طالب علم تھے۔ جماعت اسلامی پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے اور اسلامی آئین تشکیل دینے کی مہم میں سرگرمی سے مصروف تھی‘ ڈاکٹر صاحب نے اس مہم میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ 1949ء میں جب انہوں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو انہیں احساس ہوا کہ ان کا اب تک جماعت سے تعلق اور مولانا مودودیؒ کی دعوتِ دین سے واقفیت نہایت سطحی اور سرسری ہے۔ چنانچہ انہوں نے جماعت اور اس کی تحریک کی بابت سنجیدگی اور گہرائی سے سوچنا شروع کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے جیسا کہ انہوں نے نومبر 1950ء کی ایک تقریر میں فرمایا:

’’ہماری بنیادی کمزوری یہ رہی ہے کہ ہم نے تحریک اسلامی کی بنیادی دعوت کو کبھی سمجھا ہی نہیں‘ ہم نے دو چار کتب کے مطالعے سے سمجھ لیا کہ ہم اپنے مسلمان ہونے کا مفہوم جان گئے ہیں۔ دو چار پمفلٹ اِدھر اُدھر بانٹ کر اور محض ذہنی تعیش کے لیے دو چار بحث نما گفتگوئیں کرکے ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ اس تحریک میں اپنا حصہ ہم نے ادا کردیا۔‘‘؎

آگے چل کر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے سچا اور کھرا تعلق‘ دل میں اللہ ہی کا خوف، ہر آن ہر ساعت اسی کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی کوششیں۔ یہی ہے اصل دین اور اسی کی فکر ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر اسرار احمد اپنے زمانۂ طالب علمی میں 1950ء سے 1954ء تک اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن رہے۔ یہاں تک کہ وہ جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب کیے گئے۔ انہوں نے اپنے حالات میں لکھا ہے کہ ”یہ واقعہ ہے کہ اس پورے چار سال کے عرصے میں ایک دن بھی مجھ پر ایسا نہیں گزرا کہ جس میں‘ میں نے جمعیت کو (اصول اور تحریک کی حد تک) جماعت سے علیحدہ کوئی چیز سمجھا ہو۔‘‘

ڈاکٹر صاحب کا اس عرصے میں مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی سے ذاتی رابطہ بھی قائم ہو چکا تھا۔ اکتوبر 1954ء میں انہوں نے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرتے ہی جمعیت کی رکنیت سے استعفا دیا اور جماعت اسلامی میں رکنیت کی درخواست دے دی، لیکن جماعت سے وابستگی کے دو سال کے اندر اندر انہیں اپنی محبوب جماعت اور اس کی قیادت سے فکری اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے اختلافات کی بنیاد یہ نقطۂ نظر تھا کہ مولانا مودودی نے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے ’’اصلاحِ معاشرہ‘‘ یعنی ایک مسلمان کو عقیدے اور عمل کے اعتبار سے صالح مسلمان بنانے کو اپنا لائحہ عمل قرار دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ جب ذہن سازی اور کردار سازی کا یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا تو اس کے نتیجے میں اسلامی ریاست ازخود قائم ہو جائے گی یا اس کا قیام ممکن ہوجائے گا۔

ڈاکٹر اسرار احمد کو عوامی سطح پر مقبولیت پی ٹی وی کے درسِ قرآن کے پروگرام ’’الہدیٰ‘‘ سے ملی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے بعض بیانات کی وجہ سے ایک زمانے میں جدید طبقے اور خصوصاً ماڈرن خواتین میں بہت زیادہ متنازع ہو گئے تھے۔ قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونے‘ کرکٹ کے کھیل میں بولر کے اپنی پتلون پر گیند رگڑنے، اور مغرب زدہ خواتین کی بابت ان کے متنازع بیانات نے قومی پریس کی پیالی میں طوفان اٹھائے رکھا۔ پاکستان جیسے ملک میں.. جو غربت و افلاس‘ ظلم و ناانصافی‘ عدم مساوات‘ سول و خاکی بیورو کریسی کی چیرہ دستیوں کا شکار رہا.. ناقابلِ توجہ مسائل کو مرکزِ توجہ بنانا غیر دانش مندانہ ہی نہیں مصلحتِ دینی کے بھی خلاف بات تھی۔ زندہ مسائل کو مخاطب (Address) کرنے کے بجائے ڈاکٹر صاحب نے غیر اہم اور نہایت ناقابلِ التفات فقہی مسائل پر تعلیم یافتہ طبقے کو بحث میں الجھا کر خدمتِ دین کا کون سا کارنامہ انجام دیا؟ یہ سمجھنے سے کم از کم میری ناقص عقل ہمیشہ قاصر رہی۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ خلافت کے احیا کی دعوت لے کر اٹھنے والے ہمارے ڈاکٹر صاحب نے خود اپنی تنظیم اسلامی میں ملوکیت کا افسوس ناک نمونہ پیش کیا اور اپنی زندگی ہی میں اپنے صاحب زادے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔

ڈاکٹر اسرار احمد کے اخلاص‘ دین سے گہری محبت اور قرآن حکیم سے شغف کے اعتراف و احساس کے باوجود اُن کی طبیعت اور روّیے کی سخت گیری نے دین دار مگر نرم مزاج لوگوں کو بھی وحشت زدہ رکھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کی تنظیم اور اس کے وابستگان میں بھی بالعموم اسی سختی اور درشتی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں مجلس شوریٰ تشکیل دی گئی تو فوجی آمر کی دعوت پر ڈاکٹر اسرار احمد مجلس کے رکن بن گئے۔ لیکن انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ فوجی جنرل نے محض توسیع ِاقتدار کے لیے مجلس ِشوریٰ کا ناٹک رچایا ہے اور دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اسے ملک کے اہلِ فکر و دانش کی حمایت حاصل ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے بہ عجلت تمام مجلس شوریٰ سے اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا۔ یہ الگ بات کہ مطلوبہ مقاصد حاصل ہو جانے کے بعد خود جنرل نے بھی مجلس شوریٰ کا خاتمہ کر دیا کہ ’’لو ہو چکی نماز‘ مصلا اٹھائیے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر تھے لیکن دینی مشاغل نے عملاً انہیں اپنے پیشے سے لاتعلق و بے گانہ رکھا۔ ان میں بڑی توانائی (Energy) تھی‘ گھنٹوں بولتے تھے اور تھکتے نہ تھے۔ 1999ء میں منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹ کر اقتدار پر جبری قبضہ کرنے والے جنرل پرویزمشرف کے عہدِ نامسعود میں اس بات چیت میں میرے ہمراہ برادرِ عزیز شفیق احمد فاروق بھی تھے جو خود ڈاکٹر صاحب کی فکر سے متاثر تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی امامت میں نمازِ ظہر ادا کریں اور انہوں نے اپنی اس تمنا کا اظہار بھی کیا، لیکن شومیِ قسمت سے انہیں یہ سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ ہماری یہ گفتگو ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں واقع قرآن اکادمی میں ہوئی۔

طاہر مسعود: آپ نے اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ اس ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی جدوجہد میں صرف کر دیا‘ کیا آپ کو امید ہے کہ آپ اس ملک میں اپنی آنکھوں سے اللہ کے قانون کو نافذ ہوتے دیکھ سکیں گے؟ اگر نہیں دیکھ سکیں گے تو اس کی وجوہ کیا ہیں؟

ڈاکٹر اسرار احمد: میں اپنی آنکھوں سے شاید اس ملک میں اللہ کے قوانین کا نفاذ نہ دیکھ سکوں‘ مجھے اس سے زیادہ دل چسپی بھی نہیں ہے، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اسے ہونا چاہیے اور یہ ہوگا۔ اس کا مجھے یقین ہے لیکن ٹائم فریم اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے‘ وہ خود فیصلہ کرتا ہے کہ کس وقت کون سا کام مناسب ہے، اس لیے اِن شاء اللہ تعالیٰ پاکستان میںاسلامی نظام کا قیام ہوگا اور پاکستان اور افغانستان سے اِن شاء اللہ تعالیٰ ایک عالمی نظام خلافت کا آغاز ہوگا۔ اس کی صریح پیش گوئیاں احادیث میں موجود ہیں۔ قرآن مجید میں تو تین مقامات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد غلبۂ دین کو قرار دیا گیا ہے۔ پانچ مرتبہ قرآن مجید میں یہ آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پورے عالم کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ گویا آپؐ کی آمد کا مقصد اسی وقت پورا ہوگا جب کُل عالم پر آپؐ کا دین غالب ہو جائے گا۔ قرآن میں تو یہ کبرا اصغر ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اس زمین پر نہ اینٹ اور گارے کا بنا ہوا کوئی گھر رہے گا اور نہ کمبلوں کا بنا ہوا کوئی خیمہ رہے گا‘ جس میں اللہ کلمہِ اسلام کو داخل نہ کردے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اللہ نے میرے لیے ساری زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے سارے مشارق بھی دیکھ لیے اور سارے مغارب بھی دیکھ لیے اور میری امت کی حکومت اس پورے روئے ارض پر قائم ہوگی جس کے مشارق و مغارب اللہ نے مجھے دکھا دیے۔ تو یہ ہو کر رہے گا اور اس کا نقطۂ آغاز کسی ایک ہی جگہ سے ہوگا۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے یہ نظام جزیرہ نمائے عرب میں قائم ہوا، پھر خلافتِ راشدہ کے دوران یہ پھیلا۔ دریائے آکسس سے لے کر اٹلانٹک تک چلا گیا۔ پھر عبداللہ ابن ِ سبا کا کردار جس نے مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا اور حضرت عثمانؓ غنی کی شہادت ہوئی‘ پھر چار ساڑھے چار سال خانہ جنگی رہی۔ ایک لاکھ مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے ختم ہوئے۔ پھر مسلمانوں کا زور ٹوٹ گیا ورنہ تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا۔ خارج میں کوئی طاقت ایسی نہیں رہی تھی جو اسلام کو پھیلنے سے روک سکتی۔ داخلی سبوتاژ نے اس تحریک کو نقصان پہنچایا۔ اب اسلام کی اشاعت کا آغاز اِن شاء اللہ پاکستان سے ہوگا۔

طاہر مسعود: لیکن اس مبارک پیش گوئی کا آپ عرصہ متعین نہیں کرسکتے؟

ڈاکٹر اسرار احمد: وقت بتانا مشکل ہے لیکن میرے خیال میں اب یہ بہت زیادہ بعید نہیں ہے۔ میں یہ بات کئی سال پہلے کہہ چکا ہوں کہ حضرت مہدی کا ظہور بھی قریب ہی ہے اور حضرت مہدی کا ایک تصور تو اہلِ تشیع کا ہے کہ وہ ان کے بارہویں امام ہیں۔ ساڑھے گیارہ بارہ سو برس سے روپوش ہیں۔ امام غائب ہیں پھر وہ ظاہر ہوں گے۔ ایک تصور ہم اہلِ سنت کا ہے کہ وہ ایک مجدد ہیں جیسے اور مجدد ہیں مثلاً حضرت مجدد الف ثانی ہیں‘ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ہیں‘ سید احمد شہید ہیں اسی طرح وہ بھی ایک مجدد ہوں گے، اور میرا گمان یہ ہے کہ پندرہویں صدی کے مجدد امام مہدی ہوں گے اور ان کے ہاتھوں عرب میں ایک صحیح اسلامی حکومت قائم ہوگی۔ لیکن احادیث میں آتا ہے کہ ان کی حکومت قائم کرنے کے لیے فوجیں ایک ایسے علاقے سے آئیں گی جو عرب کے مشرق میں واقع ہوگا۔ اس میں پاکستان‘ افغانستان اور ایران آتے ہیں۔ گمان غالب یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ہی سے اس کا آغاز ہوگا۔

طاہر مسعود: پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر ہوا‘ پاکستان کے عوام مسلمان ہیں اور شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں‘ پاکستان میں بہت سی جماعتیں اور تنظیمیں بھی ایسی آئیں جو اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ کون سی رکاوٹیں ہیں جو اس ملک میں شریعت ِاسلامیہ کے نفاذ میں مزاحم ہیں؟

ڈاکٹر اسرار احمد: اس ملک میں شریعت ِاسلامی کی رکاوٹ میں مزاحم وہ طبقہ ہے جو انگریزی دور میں انگریزی تعلیم یافتہ ہو کر وجود میں آیا۔ لارڈ میکالے کے الفاظ میں چمڑی کے اعتبار سے تو وہ مشرقی ہوں گے لیکن ذہن اور سوچ کے اعتبار سے وہ یورپین بن جائیں گے۔ پاکستان میں اقتدار اسی طبقے کے ہاتھ میں رہا ہے اور ان سے یہ توقع نہیں تھی کہ یہاں وہ اسلام نافذ کریں گے۔ ہمارا ایلیٹ طبقہ (طبقۂ اشرافیہ) سب کا سب ویسا ہی تھا چاہے وہ آرمی کا ہو، سول ہو‘یا بیورو کریسی کا۔ ان کی تربیت برطانوی روایت کے ماتحت ہوئی تھی، انہوں نے الیکشن کا راستہ اختیار کیا، حالانکہ یہ کام مطالباتی سیاست کی سطح پر ہونا چاہیے تھا جیسے مولانا مودودی نے 1948ء میں مطالبہ کیا تھا کہ یہ ملک چوں کہ اسلام کے نام پر بنا ہے لہٰذا اس کا دستور اسلامی ہونا چاہیے اور پہلے یہ چیزیں طے ہونی چاہئیں۔ انہوں نے اسی بنیاد پر مہم چلائی اور سب لوگوں نے اس میں اُن کا ساتھ دیا۔ مسلم لیگیوں نے بھی ساتھ دیا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے اسمبلی کے اندر اس مہم کی حمایت کی۔ چنانچہ قراردادِ مقاصد منظور ہوگئی، حالانکہ یہ معجزہ تھا۔ پوری دنیا میں سوشلزم کا ڈنکا بج رہا تھا اور پاکستان کے عوام یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اللہ کی حاکمیت مانتے ہیں‘ عوام کی حاکمیت نہیں مانتے۔ عوام کے پاس جو بھی اختیارات ہیں وہ اللہ کی عطا کردہ مقدس امانت ہیں۔ چنانچہ قراردادِ مقاصد کے ذریعے دستوری نظام کا سنگ ِبنیاد رکھ دیا گیا ،لیکن اس کے بعد مولانا مودودی نے پنجاب کے الیکشن میں حصہ لیا۔ اب وہ ایک پارٹی بن گئے اور پارٹی سیاست میں آگئے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں دوسری جماعتیں آپ کی کیسے تائید کریں گی۔

طاہر مسعود: آج آپ کو پاکستان میں ایسے حالات نظر آرہے ہیں کہ کوئی ایک پارٹی انقلاب لا سکے، یا ساری اسلامی پارٹیاں مل کر اس انقلاب کا راستہ ہموار کرسکتی ہیں؟

ڈاکٹر اسرار احمد: میں عرصہ دراز سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ دینی جماعتیں پاور پالیٹکس اور الیکشن سیاست سے علیحدگی اختیار کریں اور مل کر ایک محاذ بنائیں‘ نفاذِ شریعت کا مطالبہ کریں اور اس مطالبے کو تسلیم کروانے کے لیے وہ اپنی پوری طاقت کا استعمال کریں۔ بینکوں کے باہر پکٹنگ کریں‘ سودی معیشت کے خلاف مظاہرے کریں‘ جیسے ضیا الحق کے دور میں پچاس ہزار شیعوں نے اسلام آباد میں سیکرٹریٹ کو گھیر لیا تھا اور کہا تھا کہ ہم زکوٰۃ نہیں دیں گے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی ناک رگڑوا دی، حالانکہ اس وقت مارشل لا بوڑھا نہیں ہوا تھا۔ مارشل لا لگے ہوئے صرف تین سال ہوئے تھے۔ یہ 1980ء کا واقعہ ہے اور ضیا الحق صاحب 1977ء میں آئے تھے۔ سود کے معاملے کو دیکھیے، 1991ء میں سود کے خلاف فیڈرل شریعت کورٹ نے فیصلہ دیا، اب 2001ء ہے۔ دس برس ہو چکے ہیں۔ پھر سپریم کورٹ کا بھی سود کے خلاف فیصلہ آگیا حالانکہ اس وقت نوازشریف کی حکومت تھی اور اس نے کہا تھا کہ میں اس کے خلاف اپیل نہیں کروں گا۔ لیکن پھر اس نے اپنا وعدہ جھوٹا ثابت کیا اور اپیل دائر کردی۔ آٹھ سال تو اپیل میں لگ گئے اور شریعت اپیلٹ بینچ بنایا ہی نہیں جو اپیل سن سکے۔ اس کے بعد بڑی مشکل سے شریعت اپیلٹ بینچ بنا، اس نے بھی فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی لیکن ٹائم دے دیا کہ اتنے عرصے کے اندر اندر نافذ کیا جائے۔ اب ایک سال کی توسیع کی گئی ہے۔ لیکن اگر دینی جماعتیں حکومت کے گرد گھیرا ڈالیں‘ دھرنا دے کر بیٹھ جائیں تو حکومت کو بھی سود کی ممانعت کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ میری تجویز یہ ہے کہ دینی جماعتیں الیکشن اور پاور پالیٹکس سے دست بردار ہوں اور ایک پریشر گروپ اور مظاہراتی اور مطالباتی کردار اختیار کریں۔ اگر یہ نہیں کرتے تو پھر کسی جماعت کو یہ بیڑا لے کر اٹھ کھڑے ہونا چاہیے، لیکن اس جماعت کو بڑا ہونا چاہیے۔ میں ایک ایسی جماعت بنانے کی کوشش کررہا ہوں۔ ابھی مجھے Responce بہت کم ملا ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت میں یہ کام میرے ہاتھوں ہونا لکھا ہے تو ہوسکتا ہے اس کے راستے نکل آئیں۔ میں نے اس مشن کا بیڑا اٹھایا اور اس میں اپنی زندگی کھپائی ہے، اور اپنی آخری عمر تک اس کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا۔ لیکن اگر دینی جماعتوں کے دل میں یہ خیال آجائے اور وہ اس مقصد کے لیے متحد ہوجائیں تو کام آسان ہوجائے گا۔

طاہر مسعود: آپ کی جماعت ہو یا جماعت اسلامی‘ ان میں ایک کمی یہ نظر آتی ہے کہ یہ بنیادی طور پر شہروں کی پارٹیاں ہیں جو پڑھی لکھی مڈل کلاس کو اپنا مخاطب بناتی ہیں، ان پارٹیوں کے عوامی رابطے نہیں ہیں، جو عوام دیہات میں کروڑوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے، شہروں کے پسماندہ علاقوں میں ان کا کوئی کام نہیں، تو ظاہر ہے ماس کنٹیکٹ نہ ہونے کی صورت میں انقلاب کیسے آسکتا ہے؟

ڈاکٹر اسرار احمد: دیکھیے انقلاب کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ کبھی دیہات سے نہیں آتا‘ شہروں سے آتا ہے اور مڈل کلاس سے آتا ہے۔ پڑھے لکھوں سے آتا ہے۔ البتہ ایک فائنل اسٹیج ہوتی ہے جس میں وہ عوام کو موبلائز کرلیتے ہیں۔ لیکن پہلے جو جماعت بنتی ہے وہ شہروں میں بنتی ہے اور شہروں میں ہی کام کرتی ہے۔ ہاں انتخابی عمل میں وہ چیز فیصلہ کن ہوجاتی ہے کیوں کہ ووٹ پورے عوام کا ہوتا ہے اور اس میں وڈیرے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ قبائلی سردار‘ خوانین اور وڈیرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی طاقت کو کوئی توڑ نہیں سکتا‘ الیکشن پالیٹکس میں یہ پارٹیاں اسی لیے ناکام ہوجاتی ہے۔ بھٹو کو گرانے میں سب سے اہم کردار مذہبی جماعتوں نے ادا کیا تھا۔ پی این اے کے اندر اگر مذہبی جماعتیں نہ ہوتیں تو پیر پگارا‘ ولی خان اور اصغر خان کے کہنے پر کوئی گولی کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ پی این اے کا مطلب ہے پاکستان نیشنل الائنس۔ اس میں اسلام وغیرہ کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ لیکن جب قربانی مانگنے کا وقت آیا تو اس تحریک کو نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی تحریک قرار دے دیا گیا۔ تو اصل میں مطالباتی تحریک کے لحاظ سے مذہبی جماعتیں بہت طاقت رکھتی ہیں۔ اسٹریٹ پاور ان کے پاس ہے‘ مساجد ان کے پاس ہیں‘ ہر جمعے میں ان کا جلسہ ہوتا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس لیے انقلاب لانے کے لیے یہ جماعتیں الیکشن کے راستے سے مؤثر نہیں ہوسکتیں‘ وہ ایک تحریک کے ذریعے ہی مؤثر ہو سکتی ہیں۔

اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے ایک عام آدمی گریبان کھول کر گولی کھانے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے 1953ء کی تحریک میں‘ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے کہ لاہور میں جلوس آرہا ہے‘ پولیس گولی چلا رہی ہے‘ لوگ گرتے ہیں اور پیچھے سے آنے والے گریبان کھول کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ چلائو گولی۔ آپریشن تھیٹر میں پتا چلا کہ مرنے والوں میں دو سگے بھائی تھے۔ ایک پہلی صف میں تھا اور دوسرا پچھلی صف میں۔ لوگوں نے گریبان کھول کر گولیاں کھائیں حالانکہ نہ وہ نمازی تھے اور نہ روزے دار تھے، بلکہ جن کو ہم کہتے ہیں غنڈے‘ وہ ان میں تھے اور اللہ اور رسولؐ کے نام پر انہوں نے اپنے سینے کھول دیے۔

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

لیکن مسجد کی حرمت پر یہ کٹ مرنے والے ہیں۔ کان پور میں کتنے لوگوں نے گولیاں کھائی تھیں۔ اس حوالے سے ان جماعتوں کا صحیح راستہ یہ ہے کہ یہ الیکشن کے طریقے کو چھوڑ دیں اور دین کے نفاذ کے لیے لوگوں کو میدان میں لے کر آئیں۔

طاہر مسعود: ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک تو ہے لیکن یہ اس لیے قائم نہیں کیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہو، اور اس سلسلے میں قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر سے دلیل لاتے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اب آپ آزاد ہیں‘ مسجدوں اور مندروں میں جانے کے لیے۔ اس تقریر کے حوالے سے یہ دلیل لانا کس حد تک درست ہے؟

ڈاکٹر اسرار احمد: یہ بہت بڑا مغالطہ ہے‘ دھوکا اور فریب ہے۔ قائداعظم کی ایک تقریر کو لے کر دس سال کے اندر ان کی پچاس تقریروں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسجدوں اور مندروں میں جانے سے اسلام بھی نہیں روکتا۔ اسلامی نظام ہندوئوں کو مندروں میں جانے سے روکے گا نہ سکھوں کو گردوارے میں جانے سے روکے گا۔ وہ ان کا پرسنل قانون ہے‘ لہٰذا اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قائداعظم اسلام کا نفاذ نہیں چاہتے تھے، غلط بات ہے۔ البتہ اس تقریر میں ایک جملہ ایسا ہے یعنی ”مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے“ اس میں کچھ اشتباہ پیدا ہوتا ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ ان کی پچاس تقریریں ایسی ہیں جن میں انہوں نے پاکستان میں قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کو منزل قرار دیا ہے۔ تو ہم ان پچاس تقریروں کی وجہ سے اس ایک جملے کی تردید کریں گے؟ یا اس ایک جملے کی بنیاد پر ان پچاس تقریروں کو رد کریں گے؟ اور سب سے آخری بات یہ ہے کہ پروفیسر ریاض علی شاہ ہوتے تھے‘ ٹی بی اسپیشلسٹ، جب میں میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا تو وہ استاد ہوتے تھے۔ انہیں قائداعظم کی بیماری کے دوران زیارت میں بلایا گیا تھا۔ پروفیسر ریاض علی شاہ نے لکھا کہ قائداعظم اتنے نحیف ہوگئے تھے کہ ہم نے ان پر گفتگو کرنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ ایک روز میں ان کے قریب بیٹھا ہوا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بار بار کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن رک جاتے ہیں کیوں کہ بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے سوچا کہ اگر وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں اور نہ کہہ سکے تو بات ان کے دل میں رہ جائے گی اور اس کا الٹا اثر ہوگا، تو میں نے ان سے کہا کہ قائداعظم آپ جو کچھ فرمانا چاہتے ہیں مختصر الفاظ میں فرما دیں۔ اُس وقت انہوں نے کہا کہ تمہیں اندازہ نہیں ہوسکتا کہ مجھے کس قدر اطمینان ہے کہ پاکستان قائم ہوگیا۔ یہ قائم نہ ہوسکتا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تائید شاملِ حال نہ ہوتی۔ اب یہ یہاں کے مسلمانوں کا کام ہے کہ اس ملک میں خلافتِ راشدہ کا نظام قائم کریں۔ یہ ان کے آخری الفاظ ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ یہاں اسلامی نظام قائم ہو، لیکن یہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلام کا ڈھنڈورا پیٹ کر پوری دنیا کو دشمن بنا لیا جائے۔ ملک بن گیا جس میں 80 فیصد مسلمان ہیں تو اس اکثریت کی رائے کی بنا پر اسلامی قانون سازی ہوسکتی ہے، پھر ہم ڈنکا بجا کر دنیا کو مخالفت میں متحد کیوں کریں؟ جیسے آج افغانستان کے خلاف ساری دنیا متحد ہے۔

طاہر مسعود: ڈاکٹر صاحب! ایک ذاتی سوال کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے قارئین کی معلومات کے لیے آپ یہ فرما دیں کہ آپ کی بچپن میں دینی تربیت کس ماحول میں ہوئی اور آپ کی دل چسپی دین سے کیسے قائم ہوئی؟

ڈاکٹر اسرار احمد: اصل میں میری والدہ مرحومہ کا بڑا گہرا مذہبی مزاج تھا۔ والد صاحب شریف انسان تھے۔ نماز روزہ بھی کرتے تھے، لیکن ان کی افتاد طبع دینی نہیں تھی۔ ہمیں دینی جذبہ والدہ سے ملا۔ باقی یہ وہ زمانہ تھا جب علامہ اقبال کی شاعری کا ڈنکا بج رہا تھا۔ میری پیدائش 1932ء کی ہے‘ میں چھ برس کا تھا لیکن علامہ اقبال اور مصطفیٰ کمال اتاترک کے انتقال کو میں نے ذاتی سانحے کے طور پر لیا تھا۔ لوگوں کا شعور اُس وقت بیدار تھا کیوں کہ ہندو مسلم کش مکش انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا تو میرے بھائی صاحب نے ’’بانگ درا‘‘ لا کر دی تھی، اس کی شاعری میرے اندر رچ بس گئی تھی۔

کتابِ ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

ایک امید پیدا ہوئی کہ ملتِ اسلامی کے اندر پھر ایک نئی روح پیدا ہورہی ہے، اور یہ شعر بھی جوابِ شکوہ کا ذہن میں چمٹ کر رہ گیا کہ:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

پھر میں نے علامہ کا اردو کلام چھٹی ساتویں جماعت میں پڑھ ڈالا۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی قائم ہوچکی تھی اور میں مسلم لیگ کی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ورکر تھا، اور جب میں نویں جماعت میں تھا تو حصار ڈسٹرکٹ کی مسلم لیگ کا جنرل سیکرٹری تھا۔ ہمارے ضلع میں مسلمانوں کا کوئی کالج نہیں تھا۔ ہندوئوں کا ایک کالج تھا، ہائی اسکول تھے۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جو تھی وہ ہائی اسکول کے طلبہ کی تھی۔ میں اس کا جنرل سیکرٹری تھا۔ 1946ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک بہت بڑا جلسہ ہوا تھا اسلامیہ کالج لاہور میں، جس میں ہر ضلع سے دو‘ دو آدمیوں کو بلایا گیا تھا۔ ضلع حصار سے میں اور عبدالواحد صاحب اس جلسے میں شرکت کے لیے لاہور گئے تھے۔ میرا تعلق علامہ اقبال کی شاعری اور مسلم لیگ کی سیاست سے قائم ہوگیا تھا اور اسی میں میرا بچپن گزرا ہے، لیکن اس زمانے میں مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے میرا تعلق ہوگیا تھا۔ میں نے مولانا کے کئی کتابچے پڑھے تھے اور ایم ایس ایف اور مسلم لیگ کے حلقوں میں جب مولانا مودودی پر تنقید ہوتی تھی تو میں ان کا دفاع کیا کرتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد ہم بیس دن پیدل چل کر پاکستان پہنچے تھے۔ حصار سے سلیمان ہیڈ ورکس 170 میل کا فاصلہ ہے اور ہم بیس دن تک واقعتاً خاک اور آگ کا دریا عبور کرکے پاکستان پہنچے تھے۔ پاکستان میں مولانا مودودی کھڑے ہو گئے کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔ یہ ہمیں اپنے دل کی آواز محسوس ہوئی‘ تو میں جماعت اسلامی سے منسلک ہو گیا اور ان کے حلقہ ہمدرداں میں شامل ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے میں نے ایف اے کیا، پھرمیں میڈیکل کالج میں آیا اور جمعیت طلبہ میں شامل ہو گیا۔ اس میں‘ میں نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی۔ میں اس کا ناظم اعلیٰ رہا‘ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلبہ کا بانی میں ہوں۔ ورنہ مجھ سے پہلے جمعیت کا بہت چھوٹا سا حلقہ تھا لیکن میں نے اسے ڈائنمک بنایا۔ 1951-54 میں میرے پاس دو عہدے تھے‘ میں جمعیت پنجاب کا بھی ناظم تھا اور جمعیت لاہور کا بھی ناظم تھا۔ پھر جماعت اسلامی کے ساتھ میرا دس برس کا عرصہ گزرا۔ ایم بی بی ایس کے بعد میں جماعت اسلامی کا رکن بن گیا۔ تین سال رکن رہا۔ اس کے بعد میں نے سوچا جماعت نے انتخابی سیاست میں حصہ لے کر غلطی کی ہے اور اب یہ انقلابی جماعت نہیں رہی بلکہ ایک قومی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ اس حوالے سے میں اس سے علیحدہ ہو گیا۔ البتہ اس پورے عرصے کے دوران قرآن مجید سے میرا شغف بڑھتا چلا گیا۔ عربی میں میری مہارت اچھی ہو گئی تھی۔ قرآن مجید کا درس میں نے جمعیت طلبہ کے زمانے میں دینا شروع کر دیا تھا، اس اعتبار سے درسِ قرآن کا میرا پچاس برس کا کیریئر ہے اور وہ سب Self Study ہے۔ میں نے کسی دینی مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ اگرچہ کراچی یونیورسٹی سے 1965ء میں،میں نے ایم اے اسلامک اسٹڈیز کر لیا تھا اور یونیورسٹی میں اوّل آیا تھا، لیکن میں اسے کوئی حیثیت نہیں دیتا۔ اصل میں میرا دینی معاملے میں جو مطالعہ ہے وہ Self Study ہے۔

طاہر مسعود: ہمارے یہاں جو قدیم علما ہیں وہ کہتے ہیں کہ دینی مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل نہ کریں تو دینی فہم میں استناد پیدا نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر اسرار احمد: ان کی بات صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ ایک ہے کسی شخص کا مفتی بننا، کہ وہ یہ کہہ سکے کہ یہ چیز جائز ہے یا ناجائز ہے۔ حلال ہے یا حرام ہے۔ یہ بات بتانے کے لیے دینی مدرسے کی تعلیم ضروری ہے۔ لیکن ایک چیز ہے قرآن کی دعوت پیش کرنا۔ قرآن کی حکمت کو عام کرنا۔ اس کے لیے دینی مدرسے کی تعلیم ضروری نہیں ہے۔ عربی زبان اتنی آنی چاہیے کہ آپ براہِ راست قرآن کو سمجھیں اور فقہی مسائل کے اندر آپ سلف کے ساتھ جڑے رہیں‘ خود مجتہد نہ بن جائیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کی رائے ہے۔ ان میں سے کسی ایک سلف کی رائے کے ساتھ آپ کی رائے ہونی چاہیے۔ یہاں تک کہ حدیث موجود ہے کہ پہنچائو میری جانب سے خواہ ایک ہی آیت ہو۔ یہاں خواتین میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی کا درس مقبول ہورہا ہے۔ اونچے گھرانوں کی خواتین جمع ہورہی ہیں، تو یہ اچھی بات ہے، لیکن اب وہ مفتی بن کر بیٹھ جائیں تو یہ غلط بات ہوگی، حالانکہ وہ اس اعتبار سے کوالی فائیڈ ہیں کہ ڈاکٹریٹ بھی ہیں، لیکن ڈاکٹریٹ انہوں نے انگلستان کی یونیورسٹی سے کی ہے۔ انگلستان سے ڈاکٹریٹ کرنا ہمارے علما کے نزدیک کوالی فکیشن نہیں ہے بلکہ ڈس کوالی فکیشن ہے۔ اس کے باوجود میں یہ کہتا ہوں کہ دین اور قرآن کی دعوت کو عام کرنے کے لیے کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

طاہر مسعود: آپ نے فرمایا تھا کہ بچپن میں آپ مصطفیٰ کمال پاشا سے متاثر تھے۔ جنرل پرویزمشرف صاحب بھی مصطفیٰ کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل قرار دے چکے ہیں۔

ڈاکٹر اسرار احمد: میں چھ برس کا تھا، اُس وقت مجھے کیا پتا تھا! پوری دنیا میں مصطفیٰ کمال کو غازی قرار دیا جارہا تھا۔ یہ پتا ہی نہیں تھا کہ اُس نے ترکی میں اسلام کی جڑیں کاٹ دی ہیں۔ وہ بھی Zionist ایجنٹ تھا۔ وہ فری میسن تحریک کا باقاعدہ رکن تھا۔ اس کی کھودی ہوئی جڑیں ہیں کہ ترکی کے دستور کے اندر سیکولرازم لکھا ہوا ہے، کہ سیکولرازم کے خلاف کوئی ایک لفظ بولے تو اس کی زبان کھینچ لی جاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں کہ میرا آئیڈیل مصطفیٰ کمال ہے اور انہوں نے کتے کو بغل میں لے کر تصویر کھنچوائی ہے اور مغرب کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ میں فنڈامنٹلسٹ نہیں ہوں اور ہمارے ہاں فنڈامنٹلسٹ تو صرف ایک فیصد لوگ ہیں۔ اس پر میں نے کہا تھا کہ اگر یہ ایک فیصد لوگ جمع ہوگئے تو تمہیں جان بچانی مشکل ہوجائے گی۔ غنیمت یہ ہے کہ یہ ایک فیصد بنے ہوئے ہیں دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث‘ شیعہ.. اور پھر ان کے بھی دھڑے بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک فیصد بھی بہت ہوتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر میرے ساتھ دو لاکھ آدمی آجائیں اور سر سے کفن باندھ لیں تو میں یہاں اسلام نافذ کردوں گا، بشرطیکہ یہ وہ لوگ ہوں جو اپنی ذات اور گھر پر اسلام نافذ کرچکے ہوں۔

(ڈاکٹر طاہرمسعود کی کتاب ’’یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ جلد دوم کے انٹرویو کی تلخیص)

حصہ