ارہر کا کھیت

808

دیہات میں ارہر کے کھیت کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ہائیڈ پارک کو لندن میں ہے۔ دیہات اور دیہاتیوں کے سارے منصبی فرائض، فطری حوائج اور دوسرے حوادثات یہیں پیش آتے ہیں۔ ہائیڈ پارک کی خوش فعلیاں آرٹ یا اس کی عریانیوں پر ختم ہوجاتی ہیں، ارہر کے کھیت کی خوش فعلیاں اکثر واٹرلو پر تمام ہوتی ہیں۔ یورپ کی عورتوں کو حقوق طلبی کا خیال بہت بعد میں پیدا ہوا لیکن ارہر کے کھیت میں کتنی گائوں والیاں مسز پنکھرسٹ سے پہلے یہ مہم سر کرچکی ہیں۔ یہ دیہاتوں کی اسمبلی ہے جہاں عورتوں اور بچوں کو گائوں کی انتظامی حکومت میں اتنا ہی دخل ہوتا ہے جتنا ہندوستانیوں کو اسمبلی یا کونسل میں۔ دونوں بولتے ہیں ضد کرتے ہیں، جھگڑتے ہیں روتے بسورتے ہیں اور اپنے اپنے گھر کا راستہ لیتے ہیں۔ دیہاتی عورتیں اور بچے کچھ اور مفید کام کر جاتے ہیں جس سے ان کو اور کھیت دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے ارکان حکومت وہ کرتے ہیں جس سے وہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسرے نقصان۔
شام کا دھندلکا اور گائوں کا دھواں پھیلنے لگتا ہے۔ کتے بھونکنے لگتے ہیں۔ کسان اور ان کے تھککے ہوئے مویشی ایک دوسرے سے سرگوشی کرتے ہوئے دیہات کو واپس ہوتے ہیں۔ دونوں کے ذہن میں ایک ہی بات ہے، یعنی گھر پہنچ کر کھانا ملے گا۔ سونے کو ملے گا اور عافیت ملے گی۔ مویشی اور مالی مالک دونوں کا خاندان ایک ہی ہوتا ہے کسان کی بیوی اس کے بچے بچیاں اور اس کا بوسیدہ جھونپڑا کسان کے لیے اتنا ہی عزیز اور کارآمد ہوتے ہیں جتنا خود مویشی کے لیے۔ کسان اور مویشی دونوں ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں اس لیے زندگی کی تکالیف کو خاطر میں نہیں لاتے کسان کتنا ہی فلاکت زدہ کیوں نہ ہو روشن خیال میاں بیویوں سے زیادہ جری اور پر امید رہتا ہے۔
گائوں کے قریب کنویں کے سامنے سے ایک راستہ کھیت کی سمت گیا ہے ایک طرف گڑھا ہے جس میں کھاد جمع ہے دوسری طرف ببول کا پرانا کھوکھلا درخت ہے جیسے کوئی کہن سال و تمغہ یافتہ فوجی۔ جس پر دو ایک شب بیدار بزرگ اس طور سے بیٹھے ہوئے گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہوتے ہیں جیسے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر یورپ کے سورما شاخ زریں پر بیٹھیٖ ہوئے گرد و پیش اور نزدیک و دور قبضہ جمانے کی فکر میں ہوں۔ عورتوں کی کچھ تعداد جمع ہوئی تھوڑی دیر تک مزید کمک کا انتظار کیا گیا۔ ان میں جو جوان تھیں کنویں کی جگت پر تھیں پائوں لٹکاتے ہوئے گنگاتے ہنستی بوڑھیوں کو برہمی و بیزاری کی دعوت دیتی ہوئی کچھ بوڑھیاں تھیں وہ جگت کے نیچے بیٹھی کراہ رہی تھیں۔ کبھی کھانسنے لگتیں۔ ایک ٹولی اور آپہنچی۔ اور سب ایک دوسرے کے پیچھے چلنے لگیں۔ جسم کو تولتے ہوئے نوجوان لڑکھڑاتیں تو ایک ہلکی سی چیخ اور بلند قہقہے کے ساتھ سنبھل جاتیں۔ بوڑھیوں کا قدم ڈگمگاتا تو زمیندار، وہ کسان جس کا کھیت حاشیے پر ہوتا موسم، پاس کے لڑکا یا لڑکی یا خوش خرام نوجوان عورتوں کو گالیاں دینے لگتیں۔ چلتے چلتے قافلہ ایک تاریک ناقابل عبور فصیل کے سامنے رک گیا یہ دیہاتی بلجیم کے قلعے تھے۔
……٭٭٭……
ناظرین سمجھ گئے ہوں یہ لشکر کس مہم پر روانہ ہوا تھا یہاں وہ سب کچھ ہوگا جس کے لیے ہم چورن یا مار کھاتے ہیں یہیں سے شاعری کا اختتام اور تعزیرات ہند کا آغاز ہوتا ہے اور حفظان صحت کے طرح طرح کے جراثیم کا انکشاف ہوتا ہے۔ کچھ منچلے یا مظلوم پہلے سے پہنچ چکے ہیں اور کسی سے وعدۂ دید و اند کے مزید کا قول و قرار ہے تو وہ سراپا شوق چلا آرہا ہے اور کسی کا گدھا کھویا گیا ہے وہ بھی بھٹکتا ہوا آپہنچا ہے۔ یہ ارہر کے کھیت کا کرشمہ ہے کہ بچھڑے یہاں ضرور ملتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی گدھے والے کا ہاتھ عشاق کی گردن پر ہوتا ہے یا خود گدھا کسی محبوب کے پہلو میں۔ کبھی یورپ میں ماسکو ریڈ (جشن نقاب پوشی) منایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اس کا سماں اکثر ارہر کے کھیت میں نظر آجاتا ہے!
جوانی کھونے کے ہندوستان میں دو بڑے جانے پہچانے مقام تھے۔ شہر کی گلیاں اور ارہر کے کھیت! اب ان میں یونیورسٹیوں اور کارخانوں کا بھی اضافہ کرلیا گیا ہے۔ یہاں کے بھٹکے یا راندہ و درماندہ یا تو شفا خانے پہنچتے ہیں یا جیل خانے! اسپتال سے زندگی اور جیل خانے سے موت گھبراتی ہے شباب اور مفلسی کا اجتماع اتنا ہی بے کیف ہے جتنا بے مرچوں کا سالن یا بے تمباکو کا پان۔ مانا کہ مرچ اور تمباکو صحت کے لیے مضر ہیں لیکن تندرستی کا مصرف تندرستی کا ہر قیمت پر قائم رکھنا ہی نہیں ہے۔ اس سے لطف اٹھانا بھی ہے۔ شباب میں بڑھاپے کا لطف، اگر اسے لطف کہہ سکتے ہیں، اٹھانا ممکن ہے لیکن بڑھاپے میں شباب کا کیف کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ شباب اور پیری دونوں حالات منتظرہ ہیں۔ ایک کا مقصود انتظار ’’دشمن ایمان و آگہی‘‘ یا رہزن تمکین و ہوش‘‘ ہے اور ہمیشہ عقل سے شرمسار ہونے پر اصرار ہے۔ دوسری طرف پیری ہے جو عقل ہی نہیں ہر حواس سے شرمسار رہتی ہے!
ارہر کے کھیت میں عقل سے شرمساری کی نوبت آتی ہے تو گائوں والے بسولے سے کام لیتے ہیں اور عدالت رندے سے خبر لیتی ہے۔ کسی منچلے شہری کا ارہر کے کھیت میں دیہاتیوں کے ہاتھ سے مار کھانا اتنا ہی دلچسپ منظر ہے جتنا کسی پبلک مشاعرے میں بھلے مانس شاعر کا اپنا کلام سنانا۔
کسان سمجھتا ہے کہ جب تک زمیندار اور پٹواری موجود ہیں اس کی ساری ملکیت منقولہ ہے الآ عورت۔ شہری اس کا قائل ہے کہ جب تک یورپ اور دولت کی کارفرمائی ہے اس وقت تک سب کچھ غیر منقولہ ہے لیکن عورت۔ دیہات کا آدمی، عورت کو مایہ عزت سمجھتا ہے، شہری وسیلہ تفریح دیہاتی کے نزدیک عورت کا تصور یہ ہے کہ وہ اس کا مکان ہے جہاں وہ ہنستا بولتا ہے آرام کرتا ہے، پناہ لیتا ہے اور فشار حیات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تازہ دم ہوکر نکلتا ہے۔ تعلیم یافتہ کے نزدیک عورت ایک جنسی تقاضا ہے یا ایک وسیلہ تفنن جس کے لیے اس لیے چوپاٹی اور اپالو تعمیر کرلیا ہے۔ کسان پناہ اور آرام چاہتا ہے شہری عیاشی و ہوس ناکی کے درپے رہتا ہے۔ گائوں میں محنت،دیانت اور عورت ہے۔ شہری عورت کا طالب رہتا ہے لیکن محبت کے لیے نہیں لذت کے لیے!
ارہر کا کھیت دیہات کی زنانہ پارلیمنٹ ہے۔ کونسل اور اسمبلی کا تصور یہیں سے لیا گیا ہے۔ گائوں کا چھوٹا بڑا واقعہ یہاں معرض بحث میں آتا ہے۔ فلاں کی شادی کب اور کہاں ہورہی ہے، داروغہ جی کیوں آئے اور کیا لے کر گئے۔ پٹواری کی بیوی نے اس سال کون کون سے نئے زیور بنوائے۔ رکمنیا کے بچے کیوں نہیں پیدا ہوتے اور سکھیا کو حمل کیسے ٹھہرا۔ ایک نے کہا میری گائے کے بچھیا ہوگی دوسری پہلوٹھی کی بچھیا ہوچکی ہے اب کے بچھوا ہوگا۔ اس پر اختلاف آرا ہوا اور ہمارے لیڈروں کی طرح دونوں بھول گئیں کہ دراصل کس شغل میں مصروف تھیں اور اب کیا ہورہا تھا۔ ایک غوغا بلند ہوا، بھگدڑ مچ گئی۔ کھیت کے چاروں طرف سے مرد عورت، بچے، گیدڑ، کتے، لومڑی، بن بلائو نکلنے بھاگنے لگے، جیسے اسمبلی میں بم گرا ہو!
ایک روز مقرر وقت سے نصف گھنٹہ پہلے کلاس پنچ گیا معلم کی حیثیت سے کلاس میں تنہا پایا جانا پانے والوں کے لیے بڑی دلچسپی کا موجب ہوتا ہے۔ جیسے کسی غیر متوقع مقام پر کسی نادرالوجود جانور کا ڈھانچہ مل جاتا۔ ایسی صورت میں ہر اس گزر جانے والے کو مخاطب کرنا اور اسے اظہار برتری کرنا ضروری ہوجاتا ہے جس کے متعلق یہ اندیشہ ہوکہ یہ ہماری ہیئت کذائی پر سوچنے کا اہل ہے۔ اس اثنا میں ایک کتا سامنے سے گزرا اور ہم نے اس طرح للکارا اور آمادۂ ’’نقص امن‘‘ ہوئے اور گویا اردو پڑھانے کے علاوہ یونیورسٹی نے ہم کو کتوں کے دفعیہ کے لیے تھانیدار بنادیا تھا۔ پھر ایک بہشتی سامنے آگیا۔ ہم نے انتہائی بڑے سرپرستانہ لہجے میں پوچھا کیوں، اس طرف کا دروزہ کھل جانے سے تم لوگوں کو آنے جانے میں بڑی آسانی ہوگئی ہوگی؟ اس نے نہایت انکسار اور تشکرانہ انداز میں حامی بھری۔ ابھی یہ تکلفات ختم نہیں ہوئے تھے کہ ایک خوانچہ والا دکھائی دیا۔ بولا میاں اس دروازے کی کنجی آپ ہی کے پاس رہتی ہے۔ دروازے کھلنے سے بڑا آرام ہوگیا۔ (خوانچہ کے اندر جو سر پر رکھا ہوا تھا کچھ ٹٹولتے ہوئے) خدا آپ کو سلامت رکھے یہ لیجیے بریلی کا بڑا تحفہ امرود ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ یونیورسٹی نے معلمین کے لیے کس مصلحت کی بنا پر گائون پہننا ضروری قرار دیا ہے۔ اتنے میں ایک طرف سے حاجی بلغ العلٰی اس طور پر جھپٹتے ہوئے نکلے گویا کملی اور داڑھی کے علاوہ:
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے!
حاجی صاحب کا عربی نام ’’بلغ العلا‘‘ اور فارسی ’’جریب زیتونی‘‘ ہے کچھ لوگ ’’سابق دیوانہ ہمدرد‘‘ ’’حال ابوالمجنون‘‘ کہتے ہیں کچھ دنوں ’’خشت الپزایہ‘‘ پر زور لگاتے ہوئے ان دنوں ’’قانون مسعودی‘‘ کا ترجمہ کررہے ہیں۔
ملتے ہی فرمانے لگے جلدی سنائو جلدی۔ میں نے کہا کیا۔ فرمایا کوئی اچھا سا شعر میں نے کہا مثلاً
وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد سے مُردے نکل پڑے
یہ میری جبین نیاز تھی کہ جہاں دھری تھی دھری رہی
گردن ہلاکر ’’بجلوہ ریزی کمل‘‘ و ’’بہ پرفشانی ریش‘‘، ’’سکوت سخن شناس‘‘ کا اظہار کیا میں نے کہا کوئی موضوع بتایئے تو مضمون لکھوں۔ فرمایا:
’’ارہر کاکھیت‘‘
دریافت کیا کیوں جناب اس شعر کا یہ معاوضہ، سخن فہمی کی داد دیتا ہوں، کمل کو حاجی صاحب نے جناب ’’کراما‘‘ کے سر سے اٹھا کر ’’کاتبین‘‘ پر ڈال دیا (میں نے سہولت کی خاطران ’’تسمہ پا‘‘ بزرگوں کے نام علیحدہ کردیئے ہیں)۔ اگر کوئی صاحب ان کے نام و نشان، حسب نسب وطن اور مشاغل کی بابت اپنا ذخیرہ معلومات وسیع کرنا چاہتے ہوں تو نیاز صاحب سے رجوع کریں۔ امید ہے کہ نیاز صاحب باب الاستفسار کے جن نمبر میں اس پر اظہار خیال فرمائیں گے۔ فرمایا نواب صاحب کہاں ملیں گے۔ میں نے کہا نواب مزمل اللہ خاں صاحب کو یہ شعر سنایئے گا۔ کہنے لگے نہیں جی وائس چانسلر صاحب، نواب مسعود یار جنگ بہادر میں نے کہا ان کو سناناہے تو پھر یہ سنایئے گا۔
ترا کہ زور ببازوئے تیغ زن باقیست
بگیر تیغ کہ آن حسرتِ کہن باقیست
فرمایا یہ کیا، میں نے کہا اس لیے کہ:
من آن علم و ہنر رابا پر کام ہے نمی گیرم
کہ از تیغ و سپر بیگانہ ساز و مرد غازی را!
حاجی صاحب قبلہ نے کچھ اکتا کر کچھ بے اختیار ہوکر فرمایا ارے میاں یہ سب تو ہوا۔ کلاس میں بیٹھ کر تمہارا لیکچر سنوں گا۔ میں نے کہا اور کلاس کی ڈسپلن کا کون ذمے دار ہوگا۔ فرمایا، السلام علیکم!

حصہ