ہمارا ڈرامہ اور ہماری اسکرین ایسی بن گئی ہے کہ کوئی شریف آدمی اس کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا

178

دنیا میں ہر جگہ فحاشی اور عریانی شیطان کا ایسا حربہ ہے جس کے جھانسے میں لوگ آجاتے ہیں،پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد سے تفصیلی تبادلہ خیال

(آٹھویں اور آخری قسط)
س: جو چیزیں آپ بیان کررہے ہیں وہ نظر بھی آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سے تعلیم پر کیا کوئی اثر پڑتا ہے؟ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس طرح لوگوں کو کھلا ماحول نہیں ملتا، آزادانہ خیالات کی ترویج کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:ہمارے ہاں کے تعلیمی نتائج دیکھ لیں۔ ہمارے مقابلے میں کوئی اور نجی ادارہ جو طلبہ کو اسناد دے رہا ہے اُس کے جو سی جی پی اے ہیں اس کی نوعیت کیا ہے، وہ کن گریڈز میں کامیاب ہورہے ہیں؟ دوسرے، کامیابی کے بعد عملی زندگی میں وہ کہاں پر ایڈجسٹ ہورہے ہیں؟ ان کا کن مقامات پر استعمال کیا جارہا ہے؟ یہ وہ پیمانے ہیں جن سے آپ طے کرسکتے ہیں۔ میں خود اپنے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ میری معلومات کے مطابق ہمارے طلبہ ملک سے باہر بھی گئے ہیں جہاں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئی، کیونکہ وہ الگ ہونے کے باوجود صلاحیت کے لحاظ سے، تعلیم کے لحاظ سے اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ گلا گھونٹنے کا معاملہ اُس وقت اٹھایا جاسکتا ہے جب والدین یہ بات نہ جانتے ہوں اور ویب سائٹ پر لکھا ہوا نہ ہو کہ ہماری شرائطِ داخلہ یہ ہیں۔ جب ویب سائٹ اور مطبوعہ پراسپیکٹس پر لکھا ہوا ہے کہ جو طالب علم یا طالبہ آئے گی اسے یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے، تو وہ گلا گھٹوانے خود آرہا ہے یا ہم گلا گھونٹ رہے ہیں؟ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی صحیح ماحول ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے، وہ اپنے بچوں کو اعتماد سے بھیجتے ہیں، اور بچے اس پر فخر کرتے ہیں۔ نہ گلا ان کا گھٹتا ہے اور نہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے۔
س: اس کا مطلب ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں آپ کے ہاں طالب علم آرہے ہیں، اور ظاہر ہے آپ کی شرائط کے مطابق آرہے ہیں، اور دیگر یونیورسٹیوں سے بھی بڑی تعداد میں اس کے باوجود آرہے ہیں۔ مطلب یہ کہ معاشرے میں لوگ بڑی تعداد میں اس طرح کے اداروں کا قیام چاہتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:یہ وہ پہلو ہے جو ہمارے ہاں ذرائع ابلاغ پر نہ ہی دکھایا جاتا ہے اور نہ ہی پڑھایا جاتا ہے۔ آج بھی والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بچی یا بچہ ایسے ماحول میں ہو جہاں وہ نشہ آور اشیاء سے دور رہے، جہاں پر جنسی اشتہا انگیز سرگرمیاں اور ماحول نہ ہو اور یہ اُسی وقت ہوگا جب اسلامی اخلاقیات پر عمل کیا جائے۔ اگر والدین یہ چاہتے ہوں کہ ان کے بچے نیک ہوں اور تعلیمی لحاظ سے اعلیٰ معیار رکھتے ہوں توکیا وہ ایسے اداروں پر اعتماد کریں گے۔جہاں تعلیم گاہ کے اندر لڑکے لڑکیاں کلاس سے نکلتے ہی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے سگریٹ پی رہے ہوں، گھنٹہ گھنٹہ گفتگو کررہے ہوں تو آپ خود سوچ لیں کہ نتائج کیا ہوں گے؟ اس کے مقابلے میں اگر طلبہ و طالبات کو تربیت کا شعبہ مختلف موضوعات پر تقاریر اور سرگرمیاں کروا رہا ہو۔اسٹوڈنٹس سروس ڈپارٹمنٹ ان کے لیے الگ سہولتوں کے ساتھ کھیل، تقریری مقابلے، سالانہ دن وغیرہ منعقد کر رہا ہو۔ اگر معلمین اور معلمات، طلبہ اور طالبات کو الگ الگ گروپ کی شکل میں ہر دو ہفتہ میں ایک نشست میں ان کے مسائل پر تبادلہ خیالات کریں جسے ہم Mentoring کہتے ہیں تو یہی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے کردار وسیرت کے لحاظ سے دیگر جامعات سے مختلف ہوں گے۔ہمارے ہاں ہر سرگرمی الگ ہوتی ہے اور کسی کو بھی آج تک دقت پیش نہیں آئی کہ جس بچی نے رفاہ میں ڈبیٹ میں حصہ لیا ہے چار پانچ سال تک، اگر وہ کسی مقابلے میں مخلوط یونی ورسٹی میں گئی ہے تو ٹرافی لے کر آئی ہے۔ یہ خیال بے بنیاد ہے کہ جب تک کاندھے سے کاندھا نہیں ٹکرائے گا اور وہ ساتھ نہیں پڑھیں گے اُن میں صلاحیت پیدا نہیں ہوگی۔ علمی اور تجرباتی بنیاد پر ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی۔
س: ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں عریانی اور فحاشی کا ایسا سیلاب آگیا ہے کہ اُس کے لیے عریانی اور فحاشی کی اصطلاحیں بھی ناکافی محسوس ہونے لگی ہیں۔ اور ہمارے دو ڈراما نگاروں نے بھی اس صورتِ حال پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ شاہ نواز فاروقی نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ حسینہ معین نے کہا تھا کہ جو ڈرامے بن رہے ہیں وہ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیںدیکھے جاسکتے، اسی طرح ہمارے ممتاز شاعر اور ڈراما نگار امجداسلام امجد نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اب ایسے ڈرامے پروڈیوس ہورہے ہیں جو میاں، بیوی بھی بیٹھ کر نہیںدیکھ سکتے۔کیا یہ کام کسی ایجنڈے کے تحت ہورہا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: میں ان دونوں ادیبوں کی بے انتہا تائید کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ حق بات کہنا ہر صاحب ایمان کا حق ہے بلکہ ہر وہ فرد جو شعور رکھتا ہے وہی بات کہے گا جو ان دونوں نے کہی ہے، اور سچ بات یہی ہے کہ ہمارا ابلاغ عامہ، ہمارا ڈراما اور ہماری اسکرین ایسی بن گئی ہے کہ کوئی شریف آدمی اس کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجوہات تین ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مغرب سے در آمدشدہ نام نہاد آزادی کے عنوان سے ہر ہر برائی کو اسٹیج پر آنے کی اجازت دے دی ہے اور اگر حکومت کا مقرر کیا ہوا ایک ادارہ جس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ نگرانی کرے، سنسر کرے اور تادیب کرے سخت ناکام رہا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ فحاشی اور عریانی شیطان کا ایسا حربہ ہے جس کے جھانسے میں لوگ آجاتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں دنیا میں عریاں فلموں کی بڑی مانگ ہوتی ہے تو وہ بھی چاہتے ہیں کہ مالی فائدے کے لیے یہ کام عام ہواور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوں۔ اس صورت حال میںریگولیٹری اتھارٹیز کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ریاستی آئین و قانون کی روشنی میں نشر شدہ مواد کا ذمہ دارنہ جائزہ لیں۔دوسری ذمہ داری ناظرین کی ہے۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ کوئی بھی پروگرام ایسا ہے جس میں ناظرین کی بڑی تعدادوہ پروگرام دیکھنا بند کر دے پھر بھی وہ پروگرام چل سکے۔ آپ کس بنا پر وقت دیتے ہیں یا فروخت کرتے ہیں۔ اس بنا پر کہ اتنے ناظرین نے اسے دیکھا اور اس کی قیمت آپ وصول کررہے ہیں۔ اگر دیکھنے والے یہ طے کرلیں کہ اس طرح کے پروگرام ہم نہیں دیکھیں گے، اور وہ اپنا ایک نیٹ ورک بنالیں جس میں کچھ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، نہ کوئی ہال کرائے پر لینا ہے نہ مظاہرہ کرنا ہے، صرف اپنے موبائل شریف سے پیغام نشرکرنا ہے، اپنے پچاس جاننے والوں سے کہنا ہے کہ جو فلاں پروگرام ہے یہ آپ نہ دیکھیں، اور وہ نہ دیکھیں۔ ان پچاس کو ضرب دیجیے آپ پانچ سو گھرانوں میں سے اگر کوئی بھی پروگرام نہیں دیکھ رہا تو وہ ڈرامہ کس بنیاد پر چلے گا؟ کون فنڈ دے گا؟ تیسری بات، جو حضرات کھلے طور پر بیرونی امداد کا اعتراف کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وائس آف امریکہ، نیویارک ٹائمز اور فلاں فلاں کے تعاون سے ہم یہ کام کررہے ہیں، تو اس کی کون اجازت دے رہا ہے؟ حکومت یا معاشرہ؟ ذمہ داری کس کی ہے؟ اگر حکومت یہ جانتی ہے کہ ان اداروں کی فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے، کس ذریعے سے ہورہی ہے، کس عنوان سے ہورہی ہے تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کا تدارک کرے۔ اور یہ لازمی طور پر ایک ایجنڈے کے تحت ہورہا ہے۔
س: اس وقت مغرب اور اس کے متاثرین جو ہمارے یہاں بھی پائے جاتے ہیں ، سائنس کو خدا سمجھتے رہے ہیں کیا کورونا وائرس نے ان کے اس بت کو پاش پاش نہیں کر دیا کہ سائینس بے بس اور رسوا نظرآ رہی ہے ؟کرونا کے بعد کی دنیا اور خاص طور پر امریکہ اور مغرب کے مستقبل کو کس طرح دیکھ رہے ہیں ؟
پروفیسرڈاکٹر انیس احمد :جی ہاں ،مغرب و مشرق میں ہر جگہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتے تھے، وہ سڑکوں پر رکوع اور سجدے میں گر کر اپنے رب کے سامنے التجائیں پیش کرتے نظر آ رہے ہیں۔دنیا کے ہر خطہ میں ایسے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں ۔ مسلم دنیا میں ہی نہیں وہ مسلمان جو دیگر ممالک میں تعلیم یا کاروبار کے لیے مستقل طور پر مقیم ہیں ان سے سوشل میڈیا سے مصدقہ اور غیر مصدقہ اذکار کا تباد لہ ہو رہا ہے ۔ اسماء الحسنیٰ اور دیگر دعائیہ کلمات کو بچے ہوں ، یا جوان اور خواتین ہوں یا مرد عالمی طور پر کثرت سے استعمال کر رہے ہیں اور فضائیں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے معمور ہیں ۔اس وبا نے سائنس پر اعتماد کو کمزور کر دیا ہے اور سائنس کے حتمی ہونے پر اور نہ صرف سائنسدانوں بلکہ حکومتوں کے اپنے وقت کے فرعون (انا ربکم الا اعلیٰ)ہونے کے دعوؤں کو چکنا چور کر دیا ہے ۔سب سے زیادہ وہ یک قطبی طاقت جسے اپنی برتری پر ناز تھا ، وہ سب سے زیادہ اس وبا کا شکار ہوئی ہے۔ اس کے پاس نہ ہسپتالوں کی کمی تھی نہ مال کی ، نہ دواؤںکی ، نہ ڈاکٹروں کی لیکن یہ سب اللہ کی مشیت کے سامنے بے بس ہو گئے ۔ دنیا ٹھوکریں کھا کر آخر اپنے رب کی طرف لوٹ آئی ۔

حصہ