بندھ باندھنے کی گھڑی

179

ملک بہت سے مسائل سے اٹا پڑا ہے۔ قدم قدم پر مشکلات دامن گیر رہتی ہیں۔ کیا عوام اور کیا خواص، سبھی پریشان ہیں۔ سب کی اپنی اپنی پریشانیاں ہیں۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ صرف اُسی کے نصیب میں سارے غم لکھ دیئے گئے ہیں۔ یہاں کسی کے لیے کوئی رعایت نہیں۔ رعایت ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ سبھی ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ معاملات ایک دوسرے میں یوں پیوست ہیں کہ اُنہیں الگ کرنا اب بہت حد تک ناممکن ہوچکا ہے۔ معاشرے کا کوئی ایک طبقہ بھی ایسا نہیں جو یہ دعوٰی کرسکے کہ کوئی بڑی الجھن اُسے دامن گیر نہیں یا ہم یہ دعوٰی کرسکیں کہ اُسے تو صرف راحت ہی راحت ملی ہوئی ہے۔ معاشرے کے تمام طبقوں اور گروہوں کے مفادات آپس میں یوں جُڑے ہوئے ہیں کہ کسی ایک بحران کا اثر دوسروں پر بھی مرتب ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ہاں، کسی کو تھوڑی بہت رعایت مل جائے یعنی تکلیف محسوس ہو تو الگ بات ہے۔
فطری مشکلات اپنی جگہ۔ معاشرے میں بہت کچھ ایسا ہے جو خود بہ خود ہوتا جاتا ہے۔ بہت سی الجھنیں کسی واضح شعوری کوشش کے بغیر بھی پیدا ہوتی ہیں اور ہماری زندگی کا حصہ بنی رہتی ہیں۔ اِس معاملے میں ہم ایک خاص حد تک بے بس ہیں۔ یہ بے بسی اُس وقت زیادہ خطرناک شکل اختیار کرلیتی ہے جب ہم ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم کسی بھی بحرانی کیفیت کو سر پر سوار کرتے ہوئے چلیں تو وہ بحرانی کیفیت اپنے منطقی اثرات مرتب کیے بغیر جاتی نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اب اِس معاشرے میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو فطری مشکلات کو بھی عذاب کے درجے میں رکھنے کے قائل ہیں۔ جب یہ ذہنیت پروان چڑھ جائے تو انسان میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ مشکل سے پیدا ہو پاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں بہت کچھ محض اشتراکِ عمل اور تفاعل کے نتیجے میں پیدا ہوتا رہتا ہے۔ اِس میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خرابیاں بھی۔ اس حوالے سے کسی کو زیادہ موردِ الزام بھی نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ کسی کی ترقی کسی کے لیے بحران بھی بنتی ہے۔ جب کوئی کاروباری ادارہ زیادہ کامیاب ہوتا ہے تو بہت سے چھوٹے کاروباری اداروں کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں اور بعض صورتوں میں تو بقاء کا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ فطری عمل ہے۔ بڑے کاروباری ادارے مارکیٹ کا بڑا حصہ اپنے تصرف میں کرلیتے ہیں تو چھوٹوں کے لیے بحرانی کیفیت کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ یہ سب کچھ منصوبہ سازی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور مارکیٹ فورسز کے تفاعل کا بھی۔ کسی بھی شعبے میں چند بڑے کاروباری ادارے جب مل کر کارٹیل یا مافیا کی شکل اختیار کرتے ہیں تب چھوٹوں کے لیے زندہ رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بہت حد تک فطری معاملہ نہیں رہتا۔ مارکیٹ فورسز کو کام نہ کرنے دیا جائے تو ایسی ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس میں چند بڑے ہی زندہ رہ پاتے ہیں اور چھوٹوں کے لیے گزارے کی سطح پر جینا بھی انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
مستحکم معاشروں میں کاروباری دنیا کو چند حدود میں رکھنے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے۔ ریاستی مشینری جانتی ہے کہ ہر معاملے کو آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا۔ کاروباری دنیا کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو معیشت جامد ہو جاتی ہے۔ بیشتر پس ماندہ معاشروں کا یہی معاملہ ہے۔ چند بڑے کاروباری ادارے اپنے مفادات کے لیے ایک ہو جاتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں معیشت کی ٹرین پٹڑی سے اتر جاتی ہے۔ چند ادارے پنپتے ہیں مگر قوم بند گلی میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ عوام اور خواص دونوں ہی کے لیے پریشان کن ہوتا ہے۔ عوام کے لیے یوں کہ اُن کے لیے گزارے کی سطح پر جینا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور خواص کے لیے یوںکہ وہ مل کر بہت کچھ اپنے ہاتھ میں کر تو لیتے ہیں مگر ایک دوسرے سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں اور دوسری طرف ضمیر پر بوجھ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ کوئی کیسا ہی سنگ دل ہو، جب پورے معاشرے کے حقوق پر ڈاکا ڈالتا ہے تو ضمیر کچوکے ضرور لگاتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ضمیر کبھی نہیں مرتا؟ ہاں، اُسے سُلانے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے اور تواتر سے کی جاتی ہے۔ ضمیر کی آواز کو دبانے اور چُبھن محسوس کرنے سے بچنے کے لیے کوئی نشے کا سہارا لیتا ہے تو کوئی عیاشی کا۔ کوئی دنیا کی چمک دمک میں خود بھی گم رہتا ہے اور اہلِ خانہ کو بھی گم رکھتا ہے۔ عالی شان گھروں میں رہنے والوں نے اگر بہت سوں کے حقوق پر ڈاکا ڈال کر یہ سب کچھ حاصل کیا ہو تو اندر ہی اندر کوئی چیز اُنہیں جھنجھوڑتی ضرور ہے۔ اس اندرونی کشمکش پر قابو پانے کا توڑ بہت سوں کے نزدیک صرف یہ ہوتا ہے کہ ضمیر کی صدا پر لبیک کہنے کے بجائے اُسے سُلادیا جائے۔ جب ضمیر کو سُلادیا تو پھر کیسی الجھن اور کاہے کی کسک۔ شیطان جب بُرائی کی راہ پر چلنے کے طریقے سُجھاتا ہے تب بُرائی پر ندامت کے احساس سے نجات پانے کی راہیں بھی سُجھاتا ہے۔ اگر کسی کام پر ندامت محسوس ہو تو شیطان آگے بڑھ کر ’’راہ نمائی‘‘ کرتا ہے اور سمجھاتا ہے کہ جو کچھ بھی کیا ہے اُس کے عواقب کے بارے میں سوچنے سے سارا مزا جاتا رہے گا! کسی نے خوب کہا ہے کہ ضمیر گناہ کرنے سے تو نہیں روکتا مگر ہاں گناہ کا سارا مزا کِرکِرا کردیتا ہے! شیطان بھی ہر بُرے انسان کو یہی بات سمجھاتا ہے کہ اگر کچھ غلط کیا ہے تو اُس پر شرمندہ ہوکر سارا مزا غارت نہ کرو اور آنکھیں بند کرکے، سوچے بغیر جیے جاؤ!
آج پاکستانی معاشرہ اُس مقام پر کھڑا ہے جہاں کسی بھی بُرائی کے ارتکاب کے وقت کوئی خاص ذہنی الجھن محسوس نہیں ہوتی۔ نادم ہونا تو بہت دور کا معاملہ رہا، لوگ نادم ہونے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں۔ یہ عمومی روش ہے۔ چند ایک لوگ اس قبیح روش پر گامزن ہونے سے محفوظ ہیں۔ اُن کی تعداد اِتنی کم ہے کہ معاشرے کے عمومی چلن پر وہ اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہر طرف مفادات کا تصادم دکھائی دے رہا ہے۔ سبھی اپنے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ کوئی بھی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں۔ ع
جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
ریاستی مشینری کسی بھی معاشرے کو مکمل درستی کی حالت میں رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ہماری ریاستی مشینری کی بھی بنیادی ذمہ داری یہی ہے مگر یہاں تو کچھ اور ہی معاملات چل رہے ہیں۔ ریاستی مشینری اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے کترا رہی ہے۔ معاملہ محض نیت کی خرابی کا نہیں، عمل سے گریز کا بھی ہے۔ ہر طرح کی قباحتوں نے ہماری ریاستی مشینری کو اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے۔ ریاستی و انتظامی مشینری میں کرپشن اِتنی بڑھ چکی ہے کہ اب کوئی بھی معاملہ درست دکھائی نہیں دے رہا۔ اہلِ سیاست کے اپنے مفادات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی سوچ ہے۔ کاروباری برادری نے اہلِ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے ساتھ مل کر اپنے لیے الگ ہی راہ نکالی ہوئی ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کتنا کرپٹ ہے اور کسے کس سے زیادہ کرپٹ تصور کیا جائے۔ عام آدمی کے لیے یہ سب کچھ سوہانِ روح ہے۔ اُس کے نصیب میں بظاہر کُڑھنا، دل مسوس کر رہ جانا لکھا ہوا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی زندگی میں الجھنوں کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ پورے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انفرادی سطح پر کچھ زیادہ پریشانی پیدا کرتا ہے۔ ہر پس ماندہ معاشرے کا یہی المیہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ نجات کی راہ کیسے نکالی جائے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی پریشان کن ہے۔ تو پھر یہ سب کچھ کیسے بدل جائے؟ عام آدمی کے بس میں تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان میں عوام کا یہ حال ہے کہ مل کر بھی کچھ کرنا چاہیں تو شاید کچھ زیادہ نہ کر پائیں۔ کوئی تبدیلی آئے بھی تو کیسے؟ یہاں تو اب تبدیلی کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کیا جارہا ہے۔ عوام کے بس میں تو کچھ ہے نہیں اور جن کے بس میں کچھ ہے، جو تھوڑی بیت کوشش کرسکتے ہیں وہ بھی آنکھیں بند کیے چل رہے ہیں۔ اُنہیں بظاہر کچھ غرض ہی نہیں کہ معاشرے میں ہو کیا رہا ہے۔ سب کو اپنے اپنے مفادات کو مستقل نوعیت کا تحفظ فراہم کرنے سے غرض ہے۔ یہ کیفیت پورے معاشرے پر یوں طاری ہے کہ اب ایسی کسی بھی تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی نہیں دے رہی جس سے عام آدمی کے لیے بہتری کا سامان ہوسکے۔
پژمردگی پورے معاشرے کو گرفت میں لے چکی ہے۔ بے عملی نمایاں ہے۔ تدبر کو خیرباد کہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ کیا عوام اور کیا خواص، سبھی ایسی زندگی بسر کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں جس میں سوچنے کی گنجائش زیادہ نہ ہو اور معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی ذہنیت زیادہ کارفرما ہو۔ کوئی بھی حقیقی نوعیت کی تبدیلی نہیں چاہتا۔ کسی کو بھی اپنے مفادات سے ذرا سی بھی محرومی گوارا نہیں۔ ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی کے حصے میں پریشانیاں ہیں تو پریشانیاں ہی رہیں گی اور اگر کسی کا نصیب یاوری کر رہا ہے تو یاوری ہی کرتا رہے گا۔
یہ تو ہوئی معاشرے کی عمومی اندرونی کیفیت۔ ہمارا معاملہ محض اندرونی خرابیوں کا نہیں۔ یہاں تو بیرونی ایجنڈے بھی ہر طرف کارفرما دکھائی دے رہے ہیں۔ تعلیم، تفریحِ طبع اور سماجی خدمات کے شعبوں میں بیرونی ایجنڈے بھی پوری توانائی کے ساتھ رُو بہ عمل ہیں۔ ہم سب یہ تماشا عشروں سے دیکھ رہے ہیں۔ غیر ملکی این جی اوز اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ اچھی خاصی ملمّع کاری کے ساتھ ہو رہا ہے۔ عام آدمی یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ بیرونی این جی اوز کسی بڑے ایجنڈے کا حصہ ہوتی ہیں۔ وہ جو کچھ ظاہر سطح پر کر رہی ہوتی ہیں وہ عام آدمی کو بہت پُرکشش دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ کشش اس لیے زیادہ ہوتی ہے کہ عام آدمی کے لیے تھوڑی بہت راحت کا سامان ہو رہا ہوتا ہے۔ عام آدمی کی سوچ فوری راحت سے آگے نہیں جاتی۔ جسے بھوک لگی ہو وہ صرف روٹی کے بارے میں سوچتا ہے۔ جس کے سر پر چھت نہ ہو وہ دو وقت کی روٹی اور چھت سے آگے سوچنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں۔ ہمارا بھی یہی معاملہ، بلکہ المیہ ہے۔ ایک طرف تو اندرونی سطح پر بہت سی خرابیاں ہیں اور دوسری طرف بیرونی ایجنڈوں کے تحت کام کرنے والے بھی میدان میں ہیں۔ بعض بیرونی ایجنڈوں کو آسانی سے روکا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ وہ ریاستی مشینری کے اشتراکِ عمل سے، اُس کی چھتر چھایا میں کام کرتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔ بین الریاستی تعلقات کی بدلتی ہوئی نوعیت بھی خوب گُل کھلا رہی ہے۔ امریکا اور یورپ کی طرف ہمارے جھکاؤ نے قومی سطح پر عزتِ نفس کے لیے جو مسائل پیدا کیے ہیں وہ کچھ ایسے پوشیدہ بھی نہیں کہ دکھائی نہ دیں اور اِتنے مشکل بھی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکیں۔
بہت کچھ ہے جو سیلابی ریلوں کی طرح ہمیں گھیرے ہوئے ہے۔ ہم اچھے خاص ڈوبے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی یہ ریلے خود ہی کمزور پڑتے ہیں تو خرابیوں کے پانی کی سطح کچھ گر جاتی ہے۔ ہم نے خرابیوں کے آگے بند باندھنے کی روایت کو ترک کردیا ہے۔ معاشرتی سطح پر پژمردگی اِتنی زیادہ ہے کہ ہم زندگی کا معیار بلند کرنے کی ہمت اپنے اندر پیدا ہی نہیں کر پاتے۔ کوئی بھی مسئلہ اصلاً اس لیے ہوتا ہے کہ اُسے حل کیا جائے۔ اگر ہر مسئلے کے حوالے سے بے عملی کی روش پر گامزن رہنے کو ترجیح دی جاتی رہے تو؟ کیا ایسی حالت میں کوئی بھی معاشرہ پنپ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب، ظاہر ہے، نفی ہی میں ہونا چاہیے۔ آج ہم پر، اجتماعی اعتبار سے، بہت ہی بھاری ذمہ داری آ پری ہے۔ یہ ذمہ داری ہے خرابیوں کے آگے بند باندھنے کی۔ اندرونی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بیرونی ایجنڈوں سے بھی نجات پانے کے بارے میں کچھ سوچنا اور کرنا ہے۔ بیرونی امداد شرائط کے بغیر نہیں ملتیں۔ وہ دن گئے جب شرائط محض معاشی نوعیت کی ہوا کرتی تھیں۔ اب بیرونی امداد اور قرضوں سے جُڑی ہوئی شرائط معاشرتی نوعیت کی ہوتی ہیں یعنی معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اور تبدیلی تو ہم کہتے ہیں، یہ شرائط اصلاً تو محض خرابیاں پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ طاقتور معاشرے کمزور معاشروں کو مختلف طریقوں سے الجھائے رکھتے ہیں۔ کوشش صرف یہ ہے کہ وہ مضبوط ہوکر اقتصادی طور پر پنپنے کے قابل نہ ہوسکیں۔ جس طور کوئی بھی مسئلہ اس لیے ہوتا ہے کہ حل کیا جائے بالکل اُسی طور کوئی بھی ایجنڈا اس لیے ہوتا ہے کہ اُس کا سامنا کیا جائے، اُس سے نجات پانے یا اُسے ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ یہ کوشش ہم پر فرض ہے۔ معاشرت و معیشت کی اندرونی خرابیوں سے نمٹن کے ساتھ ساتھ ہمیں بیرونی ایجنڈوں پر کام کرنے والوں سے بھی نمٹنا ہے۔ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ کچھ کیا تو ٹھیک اور نہ کیا ٹھیک۔ اس معاملے میں تو باعمل ہونا ہی پڑے گا۔ بیرونی ایجنڈوں کو یونہی بے لگام نہیں رہنے دیا جاسکتا۔ آج اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف اور امریکی اداروں کے دیئے ہوئے ڈالرز کے ساتھ ایجنڈے بھی ہمارے ہاں رُو بہ عمل لائے جارہے ہیں۔ معاشرے کا تانا بانا بکھیرنے کی ہر وہ کوشش کی جارہی ہے جو کی جاسکتی ہے۔ ہم محض تماشائی کا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں تو یہ ساری خرابیوں ہمیں کھا جائیں گی، ہمارا نام و نشان مٹادیں گی۔ ضرورت سوچنے اور اٹھ کھڑے ہونے کی ہے تاکہ اِن ساری خرابیوں کے آگے بند باندھنی کی ذہنیت پروان چڑھے اور ہم عمل نواز رویے کی طرف جائیں۔

حصہ