بلاتبصرہ

230

ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی غیر متوقع ہنگامی پریس کانفرنس

گذشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے غیر متوقع ہنگامی پریس کانفرنس کی جس کو مبصرین نے وطن عزیز کی تاریخ میں انوکھی پریس کانفرنس قرار دیا ہے کیوں کہ یہ ہماری سیاسی و فوجی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہ نے ذرائع ابلاغ سے براہ راست گفتگو کی۔ جس کے آغاز میں ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے بتایا گیا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد سینئر اور ممتاز صحافی ارشد شریف کی کینیا میں وفات اور اس سے جڑے حالات و واقعات کے بارے میں آپ کو کچھ آگاہی دینا ہے۔ یہاں ہم بلا تبصرہ اس کانفرنس کے اہم نکات جس کی یقیناً تاریخی اہمیت ہے اور رہے گی پیش کر رہے ہیں .
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ آپ سب مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں، میں آپ سب کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، میری ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی ایک سال سے واضح ہے جس پر میں اور میری ایجنسی سختی سے پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے اور میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا ہے، لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، جس کے جوان دن رات اس وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کی دفاع کا ہراول دستہ بن کر کام کرتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ اگر آپ کی نظر میں سپہ سالار غدار ہے تو اس کی ملازمت میں توسیع کیوں دینا چاہتے تھے؟ اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی چھپ کر اس سے کیوں ملتے ہیں؟ اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے؟
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کسی کو شواہد کے بغیر میر جعفر، میر صادق کہیں تو اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ بالکل 100 فیصد جھوٹ پر بنایا گیا نظریہ ہے، لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نظریہ کیوں بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میر جعفر کہنا، غدار کہنا، نیوٹرل کہنا، جانور کہنا یہ سب اس لیے نہیں ہے کہ میں نے، میرے ادارے نے یا آرمی چیف نے کوئی غداری کی، یہ اس لیے بھی نہیں کہ انہوں نے کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی کام کیا ہے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ ادارے نے غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرنے سے انکار کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی آپ کو بتادوں کہ مارچ میں آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی بھی پیش کش کی گئی، یہ پیشکش میرے سامنے کی گئی، یہ بہت پُرکشش پیش کش تھی، لیکن انہوں نے اس بنیادی فیصلے کی وجہ سے یہ پیش کش بھی ٹھکرا دی کہ ادارے کو متنازع کردار سے ہٹا کر آئینی کردار پر لانا ہے۔ڈی جی آئی ایس آئی نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعلق بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ جنرل باجوہ چاہتے تو اپنےآخری چھے سات مہینے سکون سے گزار سکتے تھے، جنرل باجوہ نے فیصلہ ملک اور ادارے کے حق میں کیا، جنرل باجوہ اور ان کے بچوں پر غلیظ تنقیدکی گئی۔ڈان کے مطابق ’’ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے تاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا ابہام اور قیاس آرائی پیدا نہ ہو اور قوم سچ جان سکے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جہاں تک سائفر کا معاملہ ہے تو آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں سابق وزیر اعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا تھا جس پر انہوں نے فرمایا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا گیا اور ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 31 مارچ کے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پیشہ وارانہ انداز میں قومی سلامتی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ یہ پاکستانی سفیر کا ذاتی تجزیہ ہے اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہی لائحہ عمل قومی سلامتی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو تجویز کیا۔ انہوں نے کہا کہ پھر اس حوالے سے امریکا کے دنیا بھر میں رجیم چینج آپریشن کے حوالے دیے گئے اور ان کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا‘ پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے اجلاسوں اور اعلامیے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا حتیٰ کہ دوسرے اجلاس میں اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو کہ آئین پاکستان کے خلاف ہے، نیوٹرل اور غیر سیاسی جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مرحوم ارشد شریف کے علاوہ دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیویٹس نے بھی سائفر کے حوالے سے باتیں کیں اور بہت سخت باتیں بھی کیں، ارشد شریف تو نومبر 2021 سے ’اے آر وائی‘ چینل کے پلیٹ فارم سے اداروں پر تنقید کر رہے تھے جس میں انہوں نے مختلف اداروں کے حوالے سے سخت تنقیدی پروگرامز بھی کیے، لیکن اس کے باوجود ان کے حوالے سے ہمارے دل میں کسی قسم کے منفی جذبات تھے نہ ہیں، کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کر رہے تھے لیکن وہ پاکستان میں نہیں رہے، آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے اداروں پر اعتماد برقرار رکھیں، اگر ہم سے ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو ہم گزشتہ 20 برس سے اپنے خون سے ان کو دھو رہے ہیں، یہ آپ کی فوج ہے، 35 سے 40 سال وردی پہننے کے بعد کوئی غداری کا طوق لٹکا کر گھر نہیں جانا چاہتا، ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ہم غدار اور سازشی ہرگز نہیں ہو سکتے، اس چیز کا ادراک سب کو کرنا ہو گا کیوں کہ فوج عوام کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہائبرڈ اور ففتھ جنریشن وار فیئر کی ایپلی کیشن کے مترادف ہوبہو عملدرآمد پاکستان میں ہو رہا ہے لہٰذا ہم اس سے نبرد آزما ہیں اور اس سے باہر نکلیں گے، ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہماری شناخت سب سے پہلے پاکستان ہے اور ہم نے بطور ادارہ اپنی قوم کو کبھی مایوس کیا ہے، نہ کریں گے، یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ارشد شریف شہید بہت قابل اور محنتی صحافی تھے، میں ذاتی طور پر ان کی عزت کرتا ہوں، ان کے سیاسی آرا سے کچھ احباب کو غالباً اختلاف ہے لیکن ان کے نام، کام اور لگن سے کسی کو انکار نہیں، مگر جو معلومات ہیں اور تحقیق کی بنیاد پر آپ کو بتا سکتا ہوں کہ شہید ارشد شریف کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے خاندان میں غازی بھی ہیں اور شہید بھی، جب وہ یہاں پر تھے تو ان کا اسٹیبلشمنٹ سے اور میرے اپنے ادارے کے لوگوں سے رابطہ تھا، جب وہ باہر چلے گئے تب بھی رابطہ تھا، اس مہینے بھی انہوں نے میرے ساتھ کام کرنے والے (بی جی سی) جنرل صاحب سے رابطہ رکھا، اپنی واپسی کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کینیا میں اس کی انکوائری ہو رہی ہے، میں وہاں اپنے ہم منصب سے بھی رابطے میں ہوں، ان کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق شناخت کی غلطی کے باعث یہ حادثہ پیش آیا، اس پر حکومت پاکستان اور ہم شاید مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے حکومت نے ایک ٹیم بنائی ہے جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی، حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی بنایا ہے، میں نے دانستہ طور پر ان دونوں فورمز سے آئی ایس آئی کے ارکان کے نام نکال لیے تاکہ قوم کے سامنے غیر جانبدار اور 100 فیصد شفاف تحقیقات ہوں اور جو بھی اس کا نتیجہ آئے گا اس سے ان شا اللہ ڈی جی آئی ایس پی آر آپ کو آگاہ رکھیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کا کہنا تھا کہ مارچ 2021 کے بعد سینیٹ کا الیکشن ہوا تھا جس میں آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا، اس کے بعد کسی بھی الیکشن میں آپ دیکھ لیں، ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ الیکشنز، بلدیاتی انتخابات دیکھ لیں، رواں برس ہونے والے انتخابات دیکھ لیں، کہیں پر بھی بھی فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا کوئی ثبوت کسی کو ملا ہو تو بتائیں، بار بار دھاندلی کا کہا جاتا ہے، ہم نے بارہا اس بارے میں بات کی کہ اگر کوئی ثبوت ہے تو لے کر آئیں، مجھے یقین ہے کہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بہت سے انٹرنیشنل چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان دنیا میں اسٹریٹجیک بنیادوں پر ایک اہم ملک ہے، اس کے چیلنجز ہمیشہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہر چیلنج کے ساتھ مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں، اس لیے عالمی سطح پر ہمارے لیے بہت سے مواقع بھی موجود ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے تمام ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، اور ان شا اللہ ہم اس سے نمٹ لیں گے۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی و معاشرتی عدم برداشت ہے، سوشل میڈیا پر بڑے بڑے قابل احترام اور معزز لوگ جو زبان استعمال کرتے ہیں اس سے عدم استحکام پیدا ہوٓتا ہے۔ عدم استحکام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آئینی و قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے، جب ہم چور دروازے اور غیر آئینی و غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں تو اس سے بھی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑٓتا ہے، آئی ایس آئی نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ادارہ صرف وہ کام کرے گا جو قومی امنگوں کا مظہر ہے اور اسی انداز میں کرے گا جو آئین میں لکھا ہے، اس سے باہر نہیں جائے گا۔
نیوٹرل کے القابات سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پر آر نے کہا کہ نیوٹرل کا لفظ ہم نے خود کبھی استعمال نہیں کیا، ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم اے پولیٹکل (غیر سیاسی) ہیں جو کہ ہمارا آئینی کردار ہے، اس کو نیوٹرل کہہ دینا، جانور سے تشبیہ دے دینا اور دین کا حوالہ دینا مناسب نہیں، میں کوئی عالم دین نہیں ہوں، لیکن جتنا دین مجھے سمجھ آتا ہے میرا خیال ہے اس کردار کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ہمارا آئینی کردار ہے اور پاکستان کا آئین شریعت کے عین مطابق ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، پاکستان کا آئین ایک اسلامی مملکت کا آئین ہے، اسی آئین میں یہ لکھا ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں، اسی آئین پر ہم حلف لیتے ہیں۔ایوان صدر میں ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ یہ ملاقاتیں ضرور ہوئیں، میں ان ملاقاتوں میں کوئی ممانعت نہیں دیکھتا کیونکہ اس کی نیت ملک میں سیاسی استحکام اور ٹھہراؤ لانا اور رویوں میں تلخی کو کم کرنا تھا، لیکن وہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں، وہ کیوں نہ پہنچیں اور اس کے علاوہ کون سی ملاقاتیں ہوئیں؟ اس حوالے سے میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ بلا ضرورت سچ شر ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ فوج کے غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ کرنے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے آئندہ 15 سے 20 برسوں میں اس ادارے کی قیادت سنبھالنی ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ مارچ میں میری ذات کے خلاف جھوٹی اور غلیظ مہم چلائی گئی، مجھے ایجنسی سے بھی فون آیا کہ آپ کے خلاف ٹوئٹر پر جھوٹی مہم چلائی جارہی ہے ہم کیا کریں، میں نے ان کو کہا کہ جب کسی ٹوئٹ کے ری ٹوئٹ 8 ہزار ملین سے بڑھ جائیں تو مجھے بتائیے گا، اس سے پہلے آپ میری ذات کی فکر نہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو 20 سال سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں، ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہم غدار اور سازشی نہیں ہوسکتے، ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہم بطور ادارہ کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے۔

حصہ