عدد ’’6‘‘ کا اردو املا ’’چھ‘‘ یا ’’چھے؟‘‘

492

عموماً عدد ’’6‘‘ کا اردو املا ’’چھ‘‘ کیا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔
وجہ: کیوں کہ ’’چھ‘‘ حرفِ تہجی ہے اور مفردہے‘ لفظ نہیں اور لفظ ہمیشہ مرکب ہوتا ہے‘ مفرد نہیں۔ اس لیے عدد ’’6‘‘ کو ’’چھ‘‘ لکھنا ایسا ہی جیسے :
-1 میں اس پر ’’صاد‘‘ کرتا وں (یعنی اس کی تصدیق کرتا ہوں) کو لکھا جائے میں اس پر ’’ص‘‘ کرتا ہوں۔
-2 یہ بات اس پر ’’دال‘‘ ہے (یعنی اس پر دلیل ہے) کو لکھا جائے یہ بات اس پر ’’د‘‘ ہے۔
-3 یہاں مٹی ’’ڈال‘‘ دو کو لکھا جائے یہاں مٹی ’’ڈ‘‘ دو۔
-4 اللہ ’’رے‘‘ اللہ کو لکھا جائے اللہ ’’ر‘‘ اللہ۔
-5 ’’عین‘‘ نوازش ہوگی کو لکھا جائے ’’ع‘‘ نوازش ہوگی۔
درج بالا مثالوں میں ص‘ د‘ ڈ‘ ر اور ع الفاظ نہیں حروف تہجی ہیں نیز مرکب نہیں مفرد ہیں۔
ان تمام مثالوں سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ عدد ’’6‘‘ کا اردو املا ’’چھ‘‘ نہیں ہوگا کیوں کہ یہ لفظ نہیں حرفِ تہجی ہے اور مفرد ہے بلکہ ’’چھے‘‘ ہوگا جو کہ لفظ ہے اور مرکب ہے۔
اعتراض نمبر1
پہلے ’’6‘‘ کا املا ’’چھ‘‘ بھی تو لکھا جاتا تھا۔
جواب: لکھا جاتا تھا‘ مگر یہ کاتب حضرات کی کارستانی تھی۔ اہلِ لُغت اور ماہرینِ لسانیات نے اسے کبھی صحیح نہیں مانا۔ نیز وقتی طور پر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو معلوم ہونا چاہیے کہ ’’چھ‘‘ لفظ ہے اور مرکب ہے نہ کہ حرفِ تہجی اور نہ ہی مفرد کیوں کہ یہ ’’چھ‘‘ اور ’’ہ‘‘ کا مرکب ہے۔
اعتراض نمبر2
مثالوں کے ردمیں کہا جاسکتا ہے کہ ’’اِدھر آ‘‘ میں ’’آ‘‘ تو مفرد ہے‘ اس لیے آپ کا کہنا غلط ہے کہ لفظ ہمیشہ مرکب ہوتا ہے‘ مفرد نہیں۔
جواب: یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ’’آ‘‘ مفرد ہے بلکہ یہ ’’اا‘‘ (دو الف) کا مرکب ہے۔ دوسرے الف کو مد کی شکل میں لایا گیا ہے پہلے آم کو اام‘ آس کو ااس اور آن کو اان لکھتے تھے۔
اعتراض نمبر3:
چلیے یہ تو مان لیا کہ ’’آ‘‘ جو حرفِ تہجی ہے‘ مرکب ہے تو اس اصول کا کیا ہوا کہ حروفِ تہجی مفرد ہوتے ہیں مرکب نہیں؟
جواب: اصولوں میں کچھ استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں اس لیے ’’آ‘‘ کو بھی استثنا حاصل ہے یعنی حروفِ تہجی ہونے کے باوجود اسے لفظ کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے۔
خلاصہ: عددد ’’6‘‘ کا اردو ’’چھے‘‘ ہے ’’چھ‘‘ نہیں۔
بہادر شاہ ظفر
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
اکبر شاہ ثانی کے بیٹے اور مغلیہ سلطنت کے آخری فرماں روا ابوظفر سراج الدین بہادر شاہ ظفر 24 اکتوبر 1775ء کو پیدا ہوئے۔ والدہ کا نام لال بائی تھا۔ فارسی کے عالم اور اردو کے فصیح شاعر تھے۔ خطاطی میں خطِ نسخ کے استادِ کامل تھے۔ شاعری میں ذوق دہلوی سے تلمذ تھا اور ظفرؔ تخلص کرتے تھے۔ ان کے چاروں مطبوعہ دیوان ’’کلیاتِ ظفر‘‘ کے عنوان سے یکجا شائع ہوچکے ہیں۔ ’’بیاضِ ظفر‘‘ کے نام سے ان کا غیر مطبوعہ کلام بھی شائع ہوچکا ہے۔ 28 مئی 1837ء کو تخت نشین ہوئے۔ 1857ء کے ہنگامہ آزادی (غدر) میں دہلی کا پایہ تخت انہی کے قبضے میں تھا۔ ان پر بغاوت کا الزام لگایا گیا۔ اکتوبر 1858ء میں ان کو قید کرکے رنگون بھیج دیا گیا، جہاں 7 نومبر 1862ء کو ان کی وفات ہوئی اور وہیں پر تدفین ہوئی۔
مفلسی
٭مجھے غریبوں میں تلاش کرو، کیوں کہ غریبوں کے ذریعے ہی سے تمہیں مدد اور روزی ملتی ہے۔
٭کوئی فقیر اور غنی ایسا نہیں جسے قیامت میں یہ تمنا نہ ہو کہ اس کو بقدرِ ضرورت یعنی گزارے کے لائق دیا جائے۔ (حضور پاکؐ)
٭فقیر وہ ہے جس کے پاس نہ دنیا کی کوئی چیز ہو نہ اُسے کسی چیز کے ملنے کی خوشی ہو اور نہ کسی چیز کے تلف کرنے سے رنج ہو۔ (حضرت داتا گنج بخشؒ)
٭مساکین کو ناخوش رکھ کر خدا کی خوشنودی ناممکن ہے۔ جو مصیبت تم پر آئے اس کا علاج مسکین کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ (حضرت جنید بغدادیؒ)
سنہرے اقوال
٭ خوش کلامی صراطِ مستقیم تک لے جاتی ہے۔
٭ اللہ کا ڈر ہر قسم کے ڈر کو ختم کر دیتا ہے۔
٭ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت کو جائے تو ستر ہزار فرشتے دعا کرتے ہیں اور بہشت میں باغ تیار کرتے ہیں۔
٭ بے جا خرچ کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔
٭ سب سے اچھا عمل زبان کی حفاظت ہے۔

حصہ