منزل بے نشاں ٹھہری

308

اُس نے آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا… عکسِ خوبرو نے OK کا اشارہ دیا۔ اس نے ہاتھوں کی پوروں سے اسٹیپس میں کٹے بالوں کو سیٹ کیا اور مسکرا دی۔ آج اس کا برسوں پرانا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے جارہا تھا۔ اے۔کے انڈسٹری کی بی ایم بننے جارہی تھی۔
سحر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک عام سی لڑکی تھی لیکن قدرت نے ذہانت کی دولت سے مالامال کررکھا تھا۔ یونیورسٹی کی ٹاپرز میں شامل سحر گولڈ میڈلسٹ تھی۔ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنا کیریئر بنانا تھا۔ قدرت بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ سو اِدھر رزلٹ آیا اُدھر اسے اے۔کے انٹرپرائز میں جو شہر کی نامور فرم تھی، جاب آفر ہوگئی۔ وہ بے حد خوش تھی، اس نے دن رات محنت کی اور آج اسے اس کا پھل ملنے جا رہا تھا۔
وہ کوریڈور سے گزر کر کار پورچ کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اس کی نظر لاؤنج میں تخت پوش پہ بیٹھی اماں کی طرف پڑی جو ہمیشہ کی طرح تلاوتِ قرآن مجید میں مصروف تھیں۔ مغرب سے عشا تک وہ اسی میں مصروف رہتیں۔ اس نے پیار سے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور ان کے پاس چلی آئی۔
’’اماں! میں جا رہی ہوں۔کیسی لگ رہی ہے آپ کی بیٹی؟ آج میری زندگی کا خوب صورت ترین دن ہے، میرا خواب پورا ہونے جا رہا ہے… اماں میری ترقی ہوگئی ہے اور اب ہم بڑا سا گھر لیں گے۔‘‘ سحر نے روشن مستقبل کے خواب بُنے۔
اماں نے اس کی طرف تاسف بھری نگاہ ڈالی۔ اس کے بالوں میں اترنے والی چاندی ان کا دل دہلاتی، وہ اسے شادی کا کہتیں تو وہ ہتھے سے اکھڑنے لگتی کہ ابھی اس کا سوچیے گا بھی نہیں، میں پہلے اپنا کیریئر بناؤں گی۔
’’اچھا اب ان نظروں سے مت دیکھیں، اپنی بیٹی کو دعاؤں میں رخصت کریں۔‘‘ اس نے لاڈ سے بانہیں اُن کی گردن میں ڈال کر کہا۔
بلیک کرولا اسے کمپنی کی طرف سے ملی تھی، وہ خوشی سے سرشار ڈرائیو کررہی تھی۔ آج اس نے ٹریفک سگنل پر رکتے ہوئے فقیر بابا کو سو کا نوٹ دیا تھا، اور بابا جی نے اپنے سر سے بھی اوپر ہاتھ کرکے اسے اچھے نصیبوں کی دعا دی۔
فائیو اسٹار ہوٹل کے وسیع ہال میں قدم رکھا تو تھوڑی نروس ہوگئی۔
’’لو آ گیا وہ شاہکار، تھا جس کا انتظار…آ بگ ہینڈ فار سحر صدیقی۔‘‘
یہ نوید بیگ تھے، آر کے انٹرپرائز کے لیگل ایڈوائزر، جن کی پیغام دیتی آنکھیں اسے ہمیشہ الجھا دیتیں۔
وہ ایک دم سے اپنے کانفیڈنس میں واپس آئی اور تالیوں کی گونج میں مسکراتی ہوئی آگے بڑھی۔ اسے لگ رہا تھا آج وہ سب سے خوب صورت اور قابلِ ستائش لگ رہی ہے کہ اچانک داخلی دروازے سے آنے والے جوڑے نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔
آر۔کے انٹرپرائز کے چیف شہریار آفندی اور ان کی مسز تالیوں کی گونج میں آگے بڑھے۔ وہ ان کی مسز کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ اس کی پیاری دوست اور یونیورسٹی فیلو فارحہ تھی۔
تعارفی پروگرام کے بعد سب کھانے میں مصروف ہوگئے تو وہ فارحہ کی طرف بڑھی۔ ’’کیسی ہو فارحہ؟‘‘
’’الحمدللہ، تم سناؤ؟‘‘ فارحہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میں تمھارے سامنے ہوں… تم سناؤ کیا کررہی ہو آج کل؟‘‘ سحر نے دل چسپی سے اسے دیکھا، جو سادہ مگر پُروقار لگ رہی تھی۔
’’میں… بس شہریار اور بچے…‘‘ وہ کھل کے ہنسی۔
مگر تمہارا کیریئر… میرا مطلب ہے تمہارے تو بڑے خواب تھے نا اپنے کیریئر کے حوالے سے…‘‘ سحر نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’ہاں یہ خناس کچھ عرصے میرے دماغ پہ چھایا تھا مگر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ عورت کا کیرئیر اس کا گھر، اُس کی کامیاب ازدواجی زندگی میں پوشیدہ ہے۔‘‘ فارحہ نے وضاحت کی۔
’’مگر میں یہ سب نہیں مانتی، انسان کے لیے اس کا کیرئیر سب سے اہم ہے… شادی میں کیا رکھا ہے! اب اتنی اچھی ڈگری لے کر کیا میں چولہا ہانڈی کروں… بچے پالوں…؟‘‘سحر نے ناک سکیڑتے ہوئے کہا۔
فارحہ نے محبت پاش نظروں سے اپنے شریکِ حیات کو دیکھا اور کہا ’’میری پیاری دوست! میرا تو یہی کیرئیر ہے اور میں اس پہ بہت مطمئن ہوں۔‘‘
سحر نے مزید بحث کرنا مناسب نہ سمجھا اور اسے پھر ملنے کی دعوت دے کر آگے بڑھ گئی۔
سحر بہت تھک گئی تھی۔ اس نے اماں کو سلام کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اماں اُس وقت تک نہ سوتی تھیں جب تک وہ گھر نہ آجاتی۔ اس کے بالوں میں آج انھوں نے چاندی اترتے دیکھ لی تھی، وہ تب سے بے چین تھیں۔ اُن کی دو بیٹیاں بیاہی جا چکی تھیں مگر سحر نے ضد پکڑ لی تھی۔
سحر چینج کرکے آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ آج اس نے کچھ خالی پن سا محسوس کیا۔ اتنی بڑی کامیابی کے بعد بھی دل کا خالی پن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
’’سحر بی بی… سحر بی بی…!‘‘ ملازمہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہی تھی ’’اماں جی اٹھ نہیں رہیں۔‘‘
سحر بجلی کی سی تیزی سے بستر سے اتری اور اماں کے کمرے کی طرف بھاگی۔
’’انجائنا کا ہلکا سا اٹیک ہوا ہے لیکن احتیاط کریں… کوئی بھی ایسی بات نہ ہو جو ان کو ٹینشن دے۔‘‘سحر اماں کے پاؤں کے پاس بیٹھی بچوں کی طرح رو رہی تھی۔
’’سحر بیٹا! اب گھر بسا لے…میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں۔ عورت تنہا زندگی نہیں گزار سکتی۔‘‘ اماں نے دکھ اور تاسف سے اسے دیکھا۔
وہ سر جھکائے بیٹھی رہی… موبائل کی بیپ ہوئی۔
’’ہیلو سحر! فارحہ بات کررہی ہوں، شہریار نے بتایا تمھاری امی کا۔ کیسی ہیں اب وہ؟‘‘
’’ٹھیک ہیں اب… شکریہ۔‘‘ اس کی نظروں کے سامنے فارحہ اور شہریار کے مسکراتے پُرسکون چہرے آگئے۔
اُسے آج احساس ہوچلا تھا کہ فطرت سے بغاوت میں خسارہ صرف انسان کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ اماں نہ رہیں تو وہ اکیلی زندگی کا سفر کیسے طے کر پائے گی؟ اُسے گھبراہٹ سی ہونے لگی۔ اس کیریئر کے چکر میں اس نے عمر کے خوب صورت سال ضائع کردیے تھے۔ اچانک اسے نوید بیگ کا خیال آیا۔ مگر وہ تو بیوی بچوں والا تھا، تو کیا وہ کسی عورت کا سہاگ چھین لے…؟ نہیں وہ ایسا نہیں کرے گی۔آج اس کے پاس سب کچھ تھا مگر تنہائی کا ناگ پھن پھیلائے اسے ڈسنے کو تیار تھا۔

حصہ