اعتماد

163

آج یونیورسٹی کا آخری دن تھا، سب لڑکیاں کلاس سے باہر چلی گئی تھیں، لڑکے پہلے ہی جا چکے تھے، مگر حرا اپنا نقاب ٹھیک کرنے کے لیے رکی تھی کہ سامنے سے مِس سپنا آگئیں۔
’’تم تو بہت جاذبِ نظر لگ رہی ہو، بالآخر یونیورسٹی کے آخری دن تم نے چہرہ دکھا ہی دیا اپنا۔‘‘
مس سپنا مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ’’ارے… ارے یہ کیا، یہ نقاب کیوں کررہی ہو؟کیا کانوکیشن میں نقاب لے کر شرکت کرو گی؟‘‘
’’میم مجھے ایسے ٹھیک لگتا ہے۔‘‘ حرا نے دوٹوک جواب دیا۔
’’ہاں ٹھیک لگتا ہوگا، مگر ہر وقت نہیں۔ مجھے تو سوچ کر ہی ہنسی آرہی ہے، بعد میں تمہارے بچے یا سسرال والے کیسے یقین کریں گے کہ یہ تصویر میں ڈگری والی لڑکی تم ہی ہو؟‘‘
’’میم! میں ایسے زیادہ کمفرٹیبل ہوں۔‘‘ایک اور دوٹوک جواب کے بعد حرا جانے لگی۔
’’اچھا رکو حرا! جاؤ نہیں، آج آخری دن کون تمہیں دیکھے گا؟ دیکھ بھی لیا تو پسند کرنے کا ٹائم ہی کہاں ہے آخری دن۔ تم یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہونے والی ایک باوقار لڑکی ہو، مجھے چار سال میں تمہاری اِس دقیانوسیت کی سمجھ نہیں آئی، دیکھو بُرا ضرور ماننا، بُرا مانو گی تو ساری زندگی اپنی اِس مس سپنا کی باتیں یاد رہیں گی، نہیں تو سب کو صرف میرے نام کے ساتھ میری کٹے بال ہی یاد رہتے ہیں۔‘‘
’’نہیں میم! لوگوں کو آپ اور بھی طرح سے یاد رہتی ہیں۔‘‘
مس سپنا مسکرانے لگیں۔
’’تم طنز اچھا کرتی ہو مگر آخری دن تمہیں یہ بھی معاف کرتی ہوں… کیا ہوا جو میں تھوڑی لبرل ہوں! مجھے یہ پردے داریاں، یہ جھجکنا اچھا نہیں لگتا… میرے قصے کسی بھی نام سے مشہور ہوں، مگر تمہیں صحیح کہہ رہی ہوں آگے بڑھو، زندگی میں اتنی حیا داری لے ڈوبی گی تمہیں۔‘‘
’’میم میں بالکل ٹھیک ہوں، پلیز میرے اسکارف کی پِن مجھے واپس کردیں، میں اپنے معیار پہ سمجھوتا نہیں کرتی، نہ پہلے کبھی کیا ہے۔ اِس کھلے معاشرے میں صرف میری ماں کی تربیت ہے جس نے میرا معیار بلند کیا ہے، میں اکیلے ہوتے ہوئے بھی مضبوط ہوں۔ میرے نقاب پہ انگلی اٹھانے والوں کے جواب میں میرے کان میں امی کے جملے گونجتے ہیں، جو اس دور میں مجھے مجاہد کی اذان لگتے ہیں، میں اس اذان پر ہمیشہ لبّیک کہتی آئی ہوں اور کہوں گی۔‘‘
مس سپنا حیران تھیں۔ ’’مجھے نہیں لگتا حرا تم اس یونیورسٹی سے کچھ سیکھ کر جارہی ہو، ضائع کردیے تم نے چار سال، جیسی آئی تھیں ویسے ہی جارہی ہو۔ تم نے جو پڑھا ہے، کچھ کام نہ آئے گا جب سوچ ہی بلند نہ ہوئی۔ چولہے میں جھونک دینا اپنی ڈگری… یہ مردوں کا معاشرہ ہے، تم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔‘‘ اِس دفعہ مس سپنا بھی دوٹوک تھیں۔
’’میم! میں معذرت چاہتی ہوں، کیا مجھ سے بات کرنے سے پہلے آپ کو لگ رہا تھا کہ میں آپ کا مقابلہ کر پائوں گی؟ نہیں نا۔ میری جیسی لڑکیاں خاموش ہوتی ہیں، مگر مضبوط ہوتی ہیں، میں مثال ہوں ہر اُس لڑکی کے لیے جو پڑھنا بھی چاہتی ہے اور بچنا بھی۔ میں اطمینان بنوں گی بیٹیوں کو پڑھانے کے خواہش مند شریف والدین کا۔ میرا نقاب میرا فخر تھا، مگر شاید یونیورسٹی کے آخری دن میرا غرور بن گیا۔‘‘
مس سپنا اس حوصلے پر مزید حیران ہوئیں۔
’’تھینک یو میم میری پِن واپس کرنے کے لیے۔ امید ہے آپ کے ادب میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہوگی۔‘‘
’’ Have a successful future my girl‘‘مس سپنا نے دعا دی اور دونوں مرکزی ہال کی طرف چلی گئیں۔

حصہ