جن سنکھ :حیات بخش بوٹی

737

اس وقت دنیا میں سب سے گراں بکنے والی بوٹی جن سنکھ ہے۔ بیشتر ممالک اس دوڑ میں آگے نکل جانے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں کہ اس بوٹی کو زیادہ سے زیادہ پیدا کرکے زرمبادلہ کما سکیں۔ چونکہ اب سائنسی تحقیقات نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ جن سنکھ بوٹی میں طاقت کا خزانہ پوشیدہ ہے اور طویل عمر تک صحت برقرار رکھنے کے لیے بہترین چیز ہے۔ اسے انگریزی میں ’’جن سینگ‘‘ کہتے ہیں۔
جن سنکھ کے پودے سے انسان تقریباً چار ہزار سال سے واقف ہے۔ سب سے پہلے اس کا علم چینیوں کو ہوا۔ا س کی دریافت کے بارے میں دو روایات عام ہیں۔ پہلی یہ کہ ایک رات گائوں شن ٹیانگ (جو شین سی صوبے میں واقع ہے) کے رہنے والوں کوقر یب سے عجیب و غریب آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ لوگ ان آوازوں کی طرف دوڑے قریب جا کر دیکھا تو ایک پودے کے اندر سے آوازیں آرہی تھیں۔ ان لوگوں نے وہاں کھودنا شروع کیا تو آواز پودے کی جڑ سے آرہی تھی جو اپنے فو ائد بیان کر رہی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جڑ کی شکل و شباہت بھی انسانی جسم سے ملتی جلتی تھی اسی لیے اس کا ایک نام ’’زمینی روح‘‘ بھی رکھا گیا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ اس کے فوائد کے بارے میں انسان کو خوابوں میں مطلع کیا گیا۔ ان روایات میں کہاں تک صداقت ہے اس کا علم تو اللہ کو ہی بہتر ہو سکتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ اب تک جتنی بوٹیوں پر تحقیقات ہوئیں ان میں سے جن سنکھ انسانی جسم کی ساخت کے بہت قریب ہے یعنی انسانی جسم میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا اور جن سنکھ میں پائے جانے والے کیمیائی اجزا میں بہت حد تک مماثلت ہے اور شاید یہی وجہ ہو کہ ایہ انسانی جسم کے لیے اس قدر مفید ہے۔
اسے ’’بادشاہ بوٹی‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ چوں کہ قدیم زمانے میں یہ صرف چین کے بادشاہوں کے پاس ہوا کرتی تھی۔ اسے یا تو وہ خود استعمال کرتے تھے یا اگر کسی سے بہت خوش ہو جائیں تو اسے عطا کیا کرتے تھے اور یہ ایک بڑا انعام تصور کیا جاتا تھا۔ اگر کسی عام شہری کے پاس سے یہ برآمد ہو جاتی تو سے سزائے موت دے دی جاتی تھی۔
یہ پودا ’’ارالیاسیائی‘‘ فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ سب سے پہلے ایک جرمن ماہر نباتات نے اسے ’’پے ناکس شین سینگ نیس‘‘ کے نام سے منسوب کیا جو کہ 1942ء میں ’’پے ناکس جن سنگھ‘‘ کے نام سے لکھا جانے لگا۔ اس پودے کا قد تقریباً تین فٹ بلند ہوتا ہے اس کی جڑ دراصل استعمال میں آتی ہے اور اسی میں فوائد پوشیدہ ہیں۔ اس میں بو کوئی نہیں ہوتی اور ذائقہ کسی قدر تلخ ہوتا ہے۔ جڑ کا جوشاندہ زیادہ مفید ہے۔ جب اسے کاشت کیا جاتا ہے تو بیج بونے کے اٹھارہ ماہ بعد اس کا پودا زمین سے باہر نکلتا ہے۔
جوں جوں قومیں غلامی کی زنجیر سے آزاد ہوتی چلی گئیں اس بوٹی کے استعمال پر پابندی ختم ہوتی گئی۔ لہٰذا اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی‘ اس کی بڑھتی ہوئی مانگ چونکہ جنگلوں میں خود سے پیدا ہونے والی بوٹی سے پوری نہیں ہوتی تھی اس لیے اس کی باقاعدہ کاشت شروع کر دی گئی۔ پھر کچھ اور ممالک نے اسے پانے جنگلوں میں دریافت کر لیا اور اس کی کاشت شروع کر دی۔
کوریا میں یہ 1300ء سے کاشت کی جارہی ہے اور اب کوریا سالانہ ستر ملین ڈالر کی جن سنکھ برآمد کرتا ہے۔ روس نے اس پودے کو کوریا سے ہی حاصل کیا اور باقاعدہ اس کی کاشت شروع کی۔ آج وہاں اس کی پیداوار اس قدر ہے کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں جن سنکھ روس میں سستی ہے اور وہ برآمد بھی کرتا ہے۔ کینیڈا میں یہ اتفاقاً دریافت ہو گئی تھی بعد میں امریکا نے بھی اس کی کاشت شروع کردی اور اب اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد 20 ملین ڈالر سالانہ زر مبادلہ اس بوٹی سے کما رہا ہے۔ چین‘ روس‘ امریکا‘ کوریا اور جاپان میں کثیر مقدار میں کاشت کی جارہی ہے۔
ابتدا میں برطانوی انسائیکلوپیڈیا میں اسے بے کار گردانا گیا‘ مگر بعد کے ایڈیشن میں اسے طاقت کا سرچشمہ لکھا گیا۔ پہلے روس‘ کوریا اور بلغاریہ کی لیبارٹریز میں اس پر تحقیقات کی گئیں جن سے پتا چلا کہ جن سنکھ کے استعمال سے دل کی حرکات منظم رہتی ہیں۔ بلڈ پریشر طبعی حالت پر رہتا ہے اور دماغی صلاحیتیں بڑھ جاتی ہیں اس کے بعد ایک امریکی سائنس دان فن فولڈر نے اس کی شہرت سے متاثر ہوئے انہوں نے خود بھی اسے استعمال کیا اور اپنے دوستوں میں بھی اسے تقسیم کیا۔ ان میں سے بیشتر کی رائے تھی کہ اس کے استعمال سے جسمانی طاقت میں اضافہ ہوا‘ جسم ہلکا رہا اور تکان نہیں ہوئی۔ ساتھ ہی نزلہ و زکام کے اثرات سے بھی محفوظ رہے۔ چلسی کالج کے شعبہ فارماکو گینسی کے سربراہ پروفیسر ایڈورڈ شیلڈ نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا کہ میں اکثر تھک جایا کرتا تھا مگر جب سے جن سنکھ زیر استعمال ہے یہ کیفیت نہیں رہی۔
تحقیقات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ جن سنکھ دل کے مریضوں کے لیے خصوصاً جنہیں دل کا دورہ پڑ چکا ہو اچھی طاقت ور دوا ہے۔ ڈاکٹر ’’لی‘‘ جو کہ امریکا محکمۂ صحت سے متعلق ہیں اور چینی جڑی بوٹیوں پر تحقیقات کے کام پر مامور ہیں‘ ان کی رائے ہے کہ یہ بوٹی ان لوگوں کے لیے جنہیں دل کا دورہ پڑ چکا ہو مفید ثابت ہوتی ہے۔ چونکہ یہ قلب کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ اس کی حرکات کو بھی منظم کرتی ہے اور بڑھا ہوا بلڈ پریشر اعتدال پر آجاتا ہے۔ بلڈ پریشر کے ذیل میں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ جن سنکھ کے استعمال سے ابتدا میں بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے اس کے بعد بڑھ جاتا ہے اور آخر کار اعتدال پر آجاتا ہے۔ خون میں بڑھے ہوئے کولسٹرول میں بھی یہ کمی کر دیتی ہے۔
جن سنکھ کی بڑی خوبی طاقت کو بحال رکھنا اور تھکاوٹ کا احساس نہ ہونے دینا ہے۔ جو لوگ اسے پابندی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ان میں بڑھاپے کی علامات دیر سے شروع ہوتی ہیں۔ ذہنی کام کرنے والوں پر جب اس بوٹی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ ان کا حافظہ بڑھ گیا۔ دماغی تکان کم ہوئی اور کسی ایک نقطہ پر اپنے ذہن کو دیر تک مرکوز رکھنے میں مدد ملی۔ جسمانی کام کرنے والوں میں نہ صرف کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا بلکہ تکان بھی برائے نام ہوئی۔ نظامِ ہضم پر بھی بڑا خوش گوار اثر ڈالتی ہے اور جگر کے فعل کو تیز کر دیتی ہے۔ جن سنکھ بیماری سے اٹھے ہوئے کمزور لوگوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ان کی کمزوری بہت تیزی کے ساتھ دور ہو جاتی ہے اور اینٹی بائیوٹک دوائوں کے مضر اثرات بھی رفع ہو جاتے ہیں۔ یہ بوٹی ذیا بیطس کا علاج تو نہیں ہے مگر اس کے استعمال کے دوران خون میں شکر کا تناسب زیادہ نہیں بڑھ پاتا۔
جن سنکھ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لیے بھی یکساں مفید ہے۔ خصوصاً سن یاس پر پہنچ کر عورتوں میں جسمانی ٹوٹ پھوٹ بہت تیزی سے شروع ہو جاتی ہے‘ جلد شکن دار ہونے لگتی ہے‘ جوانی سے یکایک بڑھاپے کی حدود میں قدم رکھنا کوفت زدہ کر دیتا ہے۔ اس عمر اور حالات میں عورتوں کو جن سنکھ استعمال کرائی گئی اور نتائج بڑے حوصلہ افزا برآمد ہوئے۔ برطانیہ میں 29 جون 79ء کو اخبار میںیہ خبر شائع ہوئی کہ جن سنکھ کے استعمال سے عورتوں کی صحت میں کافی بہتری آئی۔ کمر کا درد اور اعصابی کھچائو جاتا رہا‘ سر درد اور ٹھنڈا پسینہ آنا بند ہوگیا۔ جن سنکھ کی یہ صفت ہے کہ جسم میں ہارمون کی پیدائش کو متوازن رکھتی ہے۔
جن سنکھ کو ایک اور وجہ سے دوسری بوٹیوں پر فوقیت حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی طرح بھی جسم کے لیے مضر نہیں ہے حتیٰ کہ مقررہ مقدار خوراک سے کئی گنا زیادہ بھی استعمال کر لی جائے تب بھی یہ نقصان نہیں پہنچاتی۔ دنیا کی تقریباً تمام صحت کی وزارتوں نے اسے بے ضرر قرار دیا ہے اور اس کے استعمال پر پابندی عائد نہیں کی۔ ایک سائنس دن نے دس گرام جن سنکھ چوہیا کو استعمال کرائی جس کا اگر حساب لگایا جائے تو انسان کے لیے وہ مقدار خوراک 700 گرام بنتی ہے‘ مگر اس کے باوجود کوئی مضر اثرات وہ نوٹ نہیں کرسکے۔ ہاں اگر اصل مقدارِ خوراک سے ایک ہزار سے لے کر پانچ ہزار گنا زیادہ استعمال کرائی جائے تو مضر اثرات ظاہر ہوتے ہیں وہ بھی صرف اس قدر کی غنودگی بڑھ جاتی ہے۔ دراصل جن سنکھ مقوی و مسکن اعصاب ہے اور جہاں قوت و تسکین پیدا ہو رہی ہو وہاں غنودگی کا بڑھ جانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ جن سنکھ کے بے ضرر ہونے کے لیے تو یہ دلیل ہی کافی ہے کہ یہ چار ہزار سال سے انسان کے زیر استعمال ہے۔ اگر یہ مضرِ صحت ہوتی تو اب تک متروک ہو چکی ہوتی۔ اس کے برخلاف روز بہ روز اس کی مانگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں جن سنکھ کی چائے پینا ایک عام رواج بن گیا ہے۔
جن سنکھ کے استعمال کے لیے کچھ مشورے دیے گئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں‘ چوں کہ دوا کتنی ہی بے ضرر کیوں نہ ہو اسے اصول و ضابطوں کے اندر رہ کر ہی استعمال میں لانا چاہیے۔
٭ موسم کے لحاظ سے خزاں اور سرما اس کے استعمال کے لیے بہترین موسم ہیں۔
٭ جن سنکھ کو ایک ماہ متواتر استعمال کرکے پھر ایک ماہ ناغہ کرکے دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔
٭ عمر کے لحاظ سے چالیس سال کی عمر سے تجاوز کر جانے والے حضرات اس کے صحیح حق دار ہیں۔
٭ بیماری سے اٹھے ہوئے نحیف و ناتواں لوگوں کے لیے بھی یہ ایک نعمت ہے۔
٭ بیماری کے دوران کے اس کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
٭ جو لوگ پہلے سے قوی اور طاقتور ہوں وہ بھی اسے استعمال نہ کریں۔
٭جب جن سنکھ استعمال ہو رہی ہو تو دوران خون تیز کرنے والی‘ کیفین رکھنے والی چیزیں مثلاً چائے‘ کافی‘ کوکو وغیرہ یا تو ترک کر دی جائیں یا ان کا استعمال کم کر دیا جائے۔
ہمارا ملک پاکستان اب تک اس حیرت انگیز مفید بوٹی سے محروم ہے۔ چند سال پہلے کوریا سے درآمد ہونا شروع ہوئی تھی مگر بعد میں اس پر قانوناً پابندی لگا دی گئی۔ پابندی کی وجوہات کا تو علم نہیں ہے چونکہ ان حالات میں جب کہ یہاں ادنیٰ سے ادنیٰ چیزیں کھلے عام درآمد ہو رہی ہیں اور بازاروں میں فروخت ہو رہی ہیں اس قدر مفید بوٹی کو روک دینے میں کیا مصلحت شامل ہوسکتی ہے۔ یہ قیاس سیژ باہ ہے۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے کسی اور ملک میں اس پر پابندی نہیں ہے دوسرے‘ سرکاری سطح پر اس نباتی سونے کی تلاش کا کام شروع کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے تلاش نہ کرلیں۔ چونکہ پاکستان کی وہ طویل سرحدیں جو چین سے ملی ہوئی ہیں بہت سی گراں قدر جڑی بوٹیوں سے مالا مال ہیں اور چین میں یہ بوٹی کثرت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اسے کاشت کرنے کا منصوبہ بنایا جائے تو وہ آب و ہوا اور قدرتی ماحول ہمارے زر خیز ملک میں موجود ہے جس کی اس بوٹی کو ضرورت ہے۔

حصہ