قیصروکسریٰ قسط(72)

158

ایلچی نے کہا۔ ’’اسکندریہ کے گورنر کے نام شہنشاہ کا فرمان یہ تھا کہ حبشہ کی طرف پیش قدمی کرنے والے لشکر کو کسی تاخیر کے بغیر آگے بڑھنے سے روک دیا جائے۔ اور نصف فوج ایشیائے کوچک کے محاذ کی طرف روانہ کردی جائے۔ آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس حکم کی تعمیل میں ذرا سی کوتاہی کے نتائج ہمارے لیے کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں‘‘۔
’’میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں لیکن ہمارے گورنر نے یہ کیسے فرض کرلیا ہے کہ آپ کسی روک ٹوک کے بغیر وہاں پہنچ جائیں گے۔ اب ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ فوج کتنی دور جاچکی ہے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ نوبہ میں ہمارے سیکڑوں آدمی ہلاک ہوچکے ہیں اور جب سپہ سالار نے یہ پیغام بھیجا تھا کہ ایک زبردست کمک کے بغیر اس مہم کی کامیابی کی کوئی اُمید نہیں تو اُن کے ایلچی کو بابلیون سے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا تھا کہ شہنشاہ تمہاری طرف سے حبشہ کی فتح کے سوا کوئی اور خبر سننا پسند نہیں کریں گے‘‘۔
ایلچی نے جواب دیا۔ ’’شہنشاہ نے حبشہ فتح کرنے کا ارادہ ترک نہیں کیا۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ کسی اور محاذ پر توجہ دینے سے پہلے قسطنطنیہ فتح کرلیا جائے۔ آپ اگر مجھے کل ہی یہاں سے روانہ کردیتے تو بہتر ہوتا‘‘۔
’’ایک دن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میں سپاہیوں کو تیار رہنے کا حکم دے چکا ہوں، آپ رات کے پچھلے پہر یہاں سے روانہ ہوجائیں گے‘‘۔
ایک ایرانی افسر ہانپتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ ’’جناب! پہریداروں نے ایک رومی کو گرفتار کیا ہے لیکن وہ یہ کہتا ہے کہ میں حبشہ کی طرف پیش قدمی کرنے والی فوج کے عرب دستوں کے سالار کا غلام ہوں اور نوبہ سے کشتی پر سوار ہو کر یہاں پہنچا ہوں۔ میں نے سپاہیوں کو کشتی کی تلاشی لینے کے لیے بھیج دیا ہے‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے پوچھا۔ ’’وہ غلام کہاں ہے؟‘‘۔
’’جناب! ہم نے اُسے قید خانے میں بند کردیا ہے۔ لیکن وہ آپ سے ملنے پر مصر ہے‘‘۔
’’اُسے یہاں لے آئو۔ نہیں! میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔ طیبہ کا حاکم یہ کہہ کر افسر کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا، اسکندریہ کا ایلچی چند ثانیے تذبذب کی حالت میں بیٹھا رہا پھر وہ اچانک اُٹھا اور بھاگتا ہوا اُن کے پیچھے ہو لیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ قید خانے کی ایک کوٹھڑی کے دروازے کے باہر کھڑے تھے۔ افسر کا اشارہ پا کر پہرے داروں نے کوٹھڑی کا دروازہ کھول دیا۔ کلاڈیوس لپک کر باہر نکلا اور اُس نے طیبہ کے حاکم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ عاصم کو جانتے ہیں۔ وہ حبشہ کی مہم پر جانے والی فوج میں عرب رضا کاروں کا سالار تھا‘‘۔
’’میں اُسے جانتا ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ اُس کے ساتھ میں تمہیں بھی دیکھ چکا ہوں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’عاصم دریا کے کنارے کشتی میں پڑا ہوا ہے، وہ بیمار ہے اور سپہ سالار کا یہ حکم ہے کہ اُسے بابلیون یا اسکندریہ پہنچا دیا جائے۔ اگر یہاں کوئی اچھا طبیب ہے تو آپ اُسے ہمارے ساتھ روانہ کردیں‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے سوال کیا۔ ’’پہلے یہ بتائو کہ تم یہاں کیسے پہنچ گئے؟‘‘
’’ہم کشتی پر آئے ہیں، اُن کے لیے گھوڑے پر سوار ہونا ممکن نہ تھا‘‘۔
’’تمہیں راستے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی؟‘‘۔
’’نہیں بلکہ راستے کے تمام قبائل نے ہمیں ہر ممکن مدد دی ہے‘‘۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہمیں تو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ قدم قدم پر مزاحمت کررہے ہیں‘‘۔
یہ اطلاع درست تھی لیکن اب ایک لڑائی میں نقصان اٹھانے کے بعد وہ آپ کی فوج کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ اگر اُن کے ایک بااثر قبیلے کا سردار ہمارے حال پر مہربان ہو کر ہمیں کشتی اور ملاح مہیا نہ کرتا تو ہمارے لیے یہاں تک پہنچنا ناممکن تھا۔
طیبہ کے حاکم نے کہا۔ ’’چلو ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد طیبہ کا حاکم، شہر کا ایک مشہور طبیب اور اسکندریہ کا ایلچی پہنچ چکے تھے۔ عاصم انہیں دیکھتے ہی اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ لیکن طبیب نے جلدی سے آگے بڑھ کر اُس کی نبض دیکھی۔ اُسے دونوں بازوئوں سے پکڑ کر لٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم آرام سے لیٹے رہو ہم تمہارے لیے ڈولی منگوا رہے ہیں‘‘۔
عاصم نے طیبہ کے حاکم سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’اگر آپ مجھے کشتی سے اُتارنے کی بجائے ہمیں کھانے پینے کا سامان مہیا کردیں تو میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔ مجھے اس حالت میں کشتی سے اُترنا پسند نہیں۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میرے لیے بابلیون یا اُس سے آگے سمندر کے کنارے سے کسی شہر کی آب و ہوا بہتر ہوگی‘‘۔
طبیب نے کہا۔ ’’لیکن تمہیں سخت بخار ہے اور میں اس حالت میں سفر جاری رکھنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ تمہارے لیے چند دن یہاں ٹھہرنا بہتر ہوگا‘‘۔
’’نہیں! اس علاقے کی گرمی کی شدت مجھے تندرست نہ ہونے دے گی‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے کہا۔ ’’ہم تمہاری مرضی کے خلاف تمہیں یہاں روکنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
لیکن پہلے تم ہمیں یہ بتائو کہ ہمارے لیے سپہ سالار تک کوئی پیغام پہنچانے کی آسان ترین صورت کیا ہے؟۔ یہ ایلچی شہنشاہ کی طرف سے فرمان لے کر آیا ہے کہ فوج کو آگے بڑھنے سے روک دیا جائے اور سواروں کے دستے قسطنطنیہ کے محاذ پر بھیج دیے جائیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’اگر آپ میرے لیے نئے آدمیوں کا انتظام کرسکیں تو یہ ملاح کسی وقت کا سامنا کیے بغیر آپ کے ایلچی کو سپہ سالار کے پاس پہنچا سکتے ہیں‘‘۔
’’ہم تمہیں اِس سے زیادہ کشادہ اور آرام دہ کشتی اور انتہائی قابل اعتماد ملاح دے سکیں گے لیکن تم کو اس بات کی ذمہ داری لینی پڑے گی کہ یہ لوگ راستے میں ہمارے آدمیوں کو دھوکا نہیں دیں گے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’ان کا سردار ہمارا دوست بن چکا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ان کی رفاقت کی بنا پر راستے کا کوئی قبیلہ آپ کو پریشان نہیں کرے گا۔ میرے ساتھ راستے کے تمام قبائل کا سلوک انتہائی دوستانہ تھا‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے کہا۔ ’’نوبہ میں فوج کی مشکلات کی اطلاعات سننے کے بعد میں یہ محسوس کررہا تھا کہ سپہ سالار کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کے لیے بھی ہمیں ایک اچھی خاصی فوج روانہ کرنا پڑے گی لیکن اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ قدرت نے تمہیں ہماری اعانت کے لیے یہاں بھیجا ہے‘‘۔
ایلچی نے کہا۔ ’’میں جلد از جلد سپہ سالار کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں اور آپ ان لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ ان کی خدمات فراموش نہیں کی جائیں گی۔ اور سپہ سالار انہیں بڑے سے بڑے انعام کا حق دار سمجھے گا‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’یہ لوگ آپ سے کوئی معاوضہ نہیں چاہیں گے لیکن اگر آپ ان کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک ایک گھوڑا عنایت کردیجیے، اس کے بعد یہ آپ پر اپنی جانیں نچھاور کرنے پر تیار ہوجائیں گے۔ گھوڑا ان کے لیے نایاب چیز ہے‘‘۔
ایلچی نے طیبہ کے حاکم کی طرف دیکھا اور اُس نے کہا۔ ’’میں انہیں اپنے اصطبل کے بہترین گھوڑے دینے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
عاصم کچھ دیر ارکموس کے ذریعے ملاحوں سے باتیں کرتا رہا اور پھر طیبہ کے حاکم کی طرف متوجہ ہو کر بولا۔ ’’یہ آپ کے ایلچی کو سپہ سالار کے پاس پہنچانے کا ذمہ لینے کو تیار ہیں لیکن ان کے ساتھ کسی ایسے آدمی کو بھیجنا ضروری ہے جو ان لوگوں کی زبان جانتا ہو‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے ارکموس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’یہ کون ہے؟‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’یہ ایک قیدی ہے اور میں اسے بابلیون پہنچتے ہی آزاد کرنے کا ارادہ کرچکا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو طیبہ میں ایسے لوگ مل جائیں گے جو ان لوگوں کی زبان جانتے ہوں‘‘۔
ارکموس نے کہا۔ ’’نوبہ کے سیکڑوں باشندے مقامی لوگوں کے ہاں ملازمت کرتے ہیں۔ آپ اُن میں سے کسی کو ان کے ساتھ بھیج سکتے ہیں‘‘۔
طیبہ کا حاکم ارکموس کو مضطرب دیکھ کر مسکرایا۔ ’’تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر عاصم تمہیں آزاد کرنے کا وعدہ کرچکا ہے تو ہم تمہیں واپس نہیں بھیجیں گے‘‘۔ پھر وہ عاصم سے مخاطب ہوا۔ ’’تم مجھے سفر کے قابل نظر نہیں سمجھتے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ چند دن یہاں قیام کرو؟‘‘۔
’’نہیں! آپ مجھے جانے دیں۔ میں اِس علاقے کی گرمی میں صحت یاب نہ ہوسکوں گا‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے طبیب سے پوچھا۔ ’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘۔
’’میرا تو یہی مشورہ ہے کہ انہیں آرام کرنا چاہیے لیکن اگر یہ جانے پر بضد ہیں تو میں انہیں چند دن کے لیے دوائی دے سکتا ہوں‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے عاصم سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’بہت اچھا! اگر تمہارا یہی ارادہ ہے تو ہم ابھی تمہارے سفر کا بندوبست کیے دیتے ہیں۔‘‘
ایک ساعت بعد عاصم، کلاڈیوس اور ارکموس ایک خوبصورت بادبانی کشتی میں بابلیون کا رُخ کررہے تھے۔
ایک روز آدھی رات کے قریب انطونیہ اور فرمس اپنے مکان کے صحن میں سورہے تھے۔ اچانک انطونیہ کو ایسا محسوس ہوا کہ باہر سے کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی اور پریشان ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ جب رات کے سناٹے میں اُسے فرمس کے خراٹوں کے سوا کوئی اور آواز نہ سنائی دی تو وہ دوبارہ لیٹ گئی لیکن چند ثانیے کے بعد کسی نے پھر دستک دی اور اُس کا دل دھڑکنے لگا۔ وہ فرمس کو جگانے کی نیت سے اُٹھی لیکن اچانک کچھ سوچ کر رُک گئی اور پھر دبے پائوں دروازے کی طرف چل پڑی۔ ایک نوکر دروازے کے قریب سو رہا تھا۔ انطونیہ دروازے سے دو قدم کے فاصلے پر، چند ثانیے تذبذب کی حالت میں کھڑی رہی اور پھر اچانک آگے بڑھ کر نحیف آواز میں بولی۔ ’’کون ہے؟‘‘۔
’’میں کلاڈیوس ہوں۔ انطونیہ دروازہ کھولو‘‘۔ اور انطونیہ کو ایسا محسوس ہوا کہ آسمان کے تمام ستارے اچانک اُس کے قدموں میں آگرے ہیں۔ ایک ثانیے کے لیے وہ مسرت کے بے پایاں سمندر میں غوطے کھا رہی تھی۔ باہر سے پھر آواز آئی۔ ’’انطونیہ! دروازہ کھولو! جلدی کرو!‘‘۔ اُس کے لرزتے ہوئے ہاتھ دروازے کی کنڈی کی طرف بڑھے اور ایک ثانیے بعد کلاڈیوس اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن اُس کی قوتِ گویائی سلب ہوچکی تھی۔
’’یہ خواب نہیں، انطونیہ! میں سچ مچ آگیا ہوں‘‘۔ ’’کلاڈیوس! کلاڈیوس!‘‘ اُس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ’’کاش تمہیں معلوم ہوتا کہ میں نے کتنی بار یہ خواب دیکھا ہے کہ تم دروازہ کھٹکھٹا رہے ہو اور میں یہ سمجھ رہی ہوں کہ میرے کان پھر ایک بار پھر مجھے دھوکا دے رہے ہیں۔ میں اس گلی میں ہر آہٹ کو تمہارے قدموں کی آہٹ سمجھا کرتی تھی۔ لیکن تم آدھی رات کے وقت یہاں آئے ہو، سچ کہو تمہیں کوئی خطرہ تو نہیں؟‘‘۔
’’نہیں مجھے کوئی خطرہ نہیں انطونیہ! تمہارے ابا جان کہاں ہیں؟‘‘۔
’’وہ سو رہے ہیں، میں انہیں جگاتی ہوں‘‘۔ انطونیہ بھاگتی ہوئی فرمس کے بستر کے قریب پہنچی اور اُس کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔ ’’ابا جان! ابا جان! وہ آگئے ہیں‘‘۔ فرمس نے ہڑبڑا کر اُٹھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’کیا ہوا؟ کون آگیا؟‘‘
’’کلاڈیوس آگیا ہے ابا جان‘‘۔ اُس نے بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔
فرمس اُٹھا۔ کلاڈیوس آگے بڑھا اور وہ ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
’’بیٹا! تم یہاں کیسے پہنچے؟ تم فوج سے بھاگ کر تو نہیں آئے؟ سچ کہو، تمہیں کوئی خطرہ نہیں؟‘‘۔ فرمس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔
(جاری ہے)

حصہ