ہم کیوں مسلمان ہوئے

147

پیکی راڈرک (ہندوستان)
میںہندوستان میں برطانوی راج کے دوران ایک اینگلو انڈین خاندان میں پیدا ہوا۔ میں نے ابتدائی تعلیم ایک مشن اسکول میں حاصل کی جہاں مذہب پر بطور خاص توجہ دی جاتی تھی۔ میں مسیح علیہ السلام کی زندگی سے بہت متاثر ہوا‘ مگر ابتداء ہی سے مجھے احساس ہونے لگا کہ انجیل کی تعلیمات اور انسانی فطرت اور حقیقت کے برخلاف ہیں۔ چنانچہ اگر ہم انہیں بروئے کار لائیں تو انسانی تہذیب کا جنازہ نکل جائے۔ اس ضمن میں ذیل کی مثالیں ملاحظہ فرمایئے۔
’’اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے آپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بھائیوں اور بہنوں اور اپنی جان سے بھی دشمنی نہ کرے تو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔‘‘ (لوقا 23-14)
’’پس اس طرح تم میں سے جو کوئی اپنا سب کچھ ترک نہ کرے وہ میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔‘‘ (لوقات: 23-14)
’’کیوں کہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیںجن کو آدمیوں نے خوجہ بنایا اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہی کے لیے اپنے آپ کو خوجہ بنایا جو قبول کر سکتا ہے وہ قبول کرے۔‘‘ (متی 12-19)
’’لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرو بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اسی کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کرتہ لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے اور کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔‘‘ (متیص 41-29-5)
ظاہر ہے یہ تعلیمات یا تو خانقاہوں میں رہنے والے راہبوں کے لیے ہو سکتی ہیں یا تارک الدنیا صوفیوں کے لیے روز مرہ کی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی مرد یا عورت اپنے معمولات میں ان کی اتباع کر سکتا ہے۔ چنانچہ عہد حاضر میں اگر کوئی حکومت ان ’’اصولوں‘‘ کے مطابق قانون سازی کرے اور افراد اپنی زندگی میں ان پر عمل کریں تو ہر طرف لاقانونیت اور افراتفری کا سماں پیدا ہو جائے گا۔
دوسری چیز جس پر مجھے کسی طرح اطمینان نہیں ہوتا تھا وہ عیسائیت میں مذہب اور سیاست کی تفریق ہے۔ اسی نظریے نے یورپ میں میکاویلین نقطۂ نظر (دھونس‘ دھاندلی اور دھوکے کی سیاست) پیدا کیا۔ بائبل کے مطابق یسوع مسیح نے کہا تھا:
’’یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں میں صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔‘‘ (متیص 34-10)
چنانچہ اس نے اپنے شاگردوں کو ہدایت کی۔
’’جس کے پاس تلوار نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خریدے۔‘‘ (لوقا 36-22)
مگر خرابی یہ ہوئی کہ عیسائیوں کو تلوار کا جائز استعمال نہ سکھایا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں کے ہاتھ میں ہمیشہ ہی تلوار نظر آتی ہے۔ یہی تلوار تھی جس کا صلیبی جنگوں میں بار بار استعمال کیا گیا اور غیر مسیحی علاقوں میں بے گناہ انسانوں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ یہاں تک کہ ایک مسیحی فرقے نے دوسرے مسیحی فرقے کا بے دریغ قتلِ عام کیا۔ پھر سامراجی طاقتوں نے بھی چرچ کی مقدس آشیرباد کے ساتھ تلوار اٹھائی اور ایشیا اور افریقہ میں قتل و غارت گری اور ہمہ نوع استحصال کی حد کر دی حتیٰ کہ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا اور شمالی امریکا کے قدیم باشنوں کو بالکل ہی ملیامیٹ کر دیا۔ میری زندگی میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب 1945ء میں امریکیوں نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔ لاکھوں کی تعداد میں مرد‘ عورتیں اور بچے لقمۂ اجل بن گئے جب کہ اَن گنت ایسے لوگوں کی تھی جو بدقسمتی سے موت کے منہ سے تو بچ گئے تھے مگر ناقابلِ تصور اذیتوں اور عقوبتوں میں مبتلا ہو کر رہ گئے تھے۔ میرا دل خوف سے بھر گیا اور اس وقوع کے بعد میں کئی راتوں تک اطمینان کی نیند نہ سو سکا۔ پھر جب میں نے پڑھا کہ امریکی فوجیوں نے جاپان میں کیا کہرام مچایا ہے تو مجھے شدید نفرت کے احساس نے گھیر لیا اور اس وقت تو میرے جذبات میں آگ لگ گئی جب میں نے سنا کہ جنرل میکارتھر کی سرپرستی میں عیسائی پادریوں کے غول جاپانی جزیروں پر اتر آئے ہیں تاکہ مقامی باشندوں کے ضمیر خرید کر انہیں عیسائی بنائیں اور ان سے جاسوسی کا کام لے سکیں۔ سامراجی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہی چال رہی ہے۔ وہ لالچ دے کر مقامی لوگوں میں سے ایک طبقے کو عیسائی بناتے ہیں اور پھر یہ طبقہ اپنی قوم سے غداری کرکے سفید فام آقائوں کی حاشیہ برداری کرتا ہے۔
جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو مختلف عقیدوں کے مردوں اور عورتوں سے میرا تعارف تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ تمام غیر عیسائی لوگ کافر اور گمراہ ہیں‘ مگر ان لوگوں کے قریب آیا اور غور سے ان کے رہن سہن اور نظریات کا مطالعہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کافر لوگ اور غلط مذہب عیسائیوں اور عیسائیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ رواداری‘ مروت اور احترامِ انسانیت کے قائل ہیں۔ میرے دل میں ان مذاہب کے لیے خوش گوار جذبات پیدا ہونے لگے۔ خصوصاً ایک مسلمان میرا بہت گہرا دوست تھا۔ اس نے مجھے اپنے عقیدے کے بارے میں ضروری تفصیلات بتائیں تو میں نے بہت جلد یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ عیسائیت کے مقابلے میں اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسانی فطرت اور عقل کو مطمئن کرتا ہے۔ خاص طور پر اسلام میں توحید کا عقیدہ تثلیث کی نسبت عقل و شعور کے ذریعے خدا سے جوڑتا ہے اور یہ عین عقلی بات نظر آتی ہے‘ مگر عیسائی ہر دوسرے مذہب کو کفر سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات مثالی نوعیت کی ہیں جن کو اختیار کرکے ایک انسان بھرپور قسم کی دنیاوی زندگی گزارنے کے باوجود اللہ کے قریب بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں مذہب اور سیاست میں کوئی تفریق نہیں چنانچہ وہ اصول جو ایک انسان اپنی انفرادی زندگی میں بجا لاتا ہے انہی کو ایک حکومت عوام سے معاملہ کرتے ہوئے بروئے کار لائے گی اور وہی اصول ایک ریاست کو دوسری ریاستوں سے تعلقات استوار کرتے وقت کام دیں گے۔ اس طرح اسلام میں کسی ناانصافی یا استحصال کی کوئی گنجائش نہیں نہ نو آبادیاتی نظام‘ سامراجیت‘ طبقاتی کشمکش یا غیر منصفانہ اور جارحانہ جنگوں کی کہیں اجازت ہے۔ ظاہر ہے جب تک بنی نوع انسان ایک ہی جامع اور منصفانہ نظام کے تحت نہیں آجاتے‘ دفاع کی ضرورت اور افادیت اپنی جگہ برقرار رہے گی‘ مگر اسلام کے قانونِ صلح و جنگ میں عین فلطری اور انسانی مفاد میں ہیں۔
اسلام کا نظریۂ جہاد عورتوں‘ بچوں‘ بوڑھوں اور نہتوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یہاں اسپتالوں‘ اسکولوں‘ عبادت گاہوں اور رہائشی مکانوں پر بم باری کی کہیں گنجائش نہیں۔ اسلام صرف انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دینے کے لیے لڑتا ہے یا پھر اس وقت تلوار اٹھاتا ہے جب تبلیغ دین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں یا دشمن جارحیت پر اتر آئیں۔ مگر یہاں کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا نہ وہ کسی سامراج کے مظلوم و بے سہارعا عوام پر ظلم و ستم کو برداشت کرتا ہے۔ مسلمان ہر وقت جنگ بندی اور صلح پر تیار رہتا ہے۔ خواہ دشمن اس بہانے انہیں دھوکا ہی کیوں نہ دے رہا ہوں۔ اسلام امن و آشتی کا مذہبی ہے‘ اسلام میں سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ خلقِ خدا کی خدمت کی جائے اور ان کی مشکلات کا مداوا کیا جائے چنانچہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے اچھا ہے تو آپؐ نے فرمایا ’’کسی انسان کا دل خوش کر دینا‘ بھوکے کو کھانا کھلانا‘ مظلوم کی دادرسی کرنا‘ کسی پریشان حال کا دکھ بانٹ لینا اور کسی زخمی کا علاج معالجہ کر دینا۔‘‘
میں اسلام کے نظریۂ اخوت سے بے حد متاثر ہوا ہوں جو رنگ‘ نسل اور قبیلے کے امتیازات سے بلند ہو کر سب کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ اسلام میں سب لوگ برابر ہیں اور مساوات کا یہ عمل بین الاقوامی اور عالمگیر ہے۔ اسلام نے عملی طور پر انسانوںکے درمیان حائل خلیجوںکو پاٹ دیا ہے اور صحیح معنوں میں بنی نوع انسان کو خدا کا کنبہ بنا دیا ہے جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کی ساری مخلوقات اس کا کنبہ ہے اور خدا کو وہی سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بھلائی سے پیش آتا ہے۔‘‘

حصہ