پیلو :بیشترافراد مسواک کے حیرت انگیز فوائد سے ناآشنا ہیں

835

میدانی اور پہاڑی علاقوں میں کثرت سے پیدا ہونے والا خود رو درخت پیلو ہمارے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یوں تو اس کے پتے‘ پھول‘ پھل‘ چھال اپنے اندر بے شمار خوبیاں رکھتے ہیں اور بطور دوا استعمال کیے جاتے ہیں‘ لیکن اس درخت کا جو حصہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے وہاس کی شاخیں ہیں جنہیں مسواک کہا جاتا ہے۔ مسواک کے بارے میں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کے استعمال کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ مسواک دیگر درختو ں مثلاً زیتون‘ نیم‘ کیکر‘ سکھ چین وغیرہ کی بھی استعمال کی جاتی ہے لیکن اس مضمون میں چونکہ صرف پیلو کے خواص پر گفتگو ہو رہی ہے اس لیے ہم اپنی تحریر کو پیلو تک ہی محدود رکھیں گے۔
پیلو دانتوں کی صفائی کے لیے دنیا کے بیشتر ملکوں میں ٹوتھ برش کے طور پر رائج ہے اسی لیے اسے ’’ٹوتھ برش ٹری‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جس فرد نے ٹوتھ برش ایجاد کیا اس کے ذہن میں ٹوتھ برش بنانے کا خیال مسواک کو دیکھ کر ہی آیا ہوگا گو کہ آج کل ٹوتھ برش کی تشہیر زیادہ ہونے‘ اس کے خوب صورت اور خوش رنگ ہونے کی وجہ سے ٹوتھ برش کا استعمال زیادہ ہے اور بدقسمتی سے ٹوتھ برش کا استعمال ہماری سماجی حیثیت کے تعین کا پیمانہ بھی بن گیا ہے‘ لیکن اگر سرسری نگاہ سے ہی جائزہ لے لیا جائے تو تب بھی مسواک کو کئی اعتبار سے ٹوتھ برش پر فوقیت حاصل ہے۔
٭ آپ مسواک کے ریشوں کو اپنے ہاتھ کی پشت پر پھیر کر دیکھیں۔ آپ کو ان کا لمس بہت نرم اور ملائم محسوس ہوگا اور ان سے کسی طرح کی خراش پیدا نہ ہوگی۔ اس کے مقابلے میں نرم سے نرم ٹوتھ برش بھی چبھن اور خراش کا باعث بنتا ہے۔
٭ مسواک جس درخت سے حاصل کی جاتی ہے اس درخت کے سفید خواص اس میں موجود ہوں گے اور دانتوں‘ مسوڑھوں‘ منہ اور حلق کے لیے یہ مسواک فائدہ مند ہوگی۔ ٹوتھ برش پہلے جانوروں کے بالوںسے بنائے جاتے ہیں اب زیادہ تر مصنوعی اور کیمیائی اشیا سے بنائے جاتے ہیں۔ یہ برش کسی قسم کے طبی خواص سے قاصر ہیں۔
٭ مسواک قدرتی شے ہے اس لیے انسانی اعضا کے لیے اجنبیت پیدا نہیں کرتی اور جسم پر اس کا مضر ردعمل ظاہر نہیں ہوتا جب کہ ٹوتھ برش کی صورت میں ایسا ممکن ہے۔
٭ قیمت کے لحاظ سے بھی مسواک بہت سستی ہے۔
یہ تو صرف مسواک کی ظاہری شکل کے لحاظ سے چند باتیں بیان کی گئی ہیں اب ہم اس کے مفید خواص کا تذکرہ کریں گی۔ دیکھیے تو قدرت نے پیلو میں کتنی ساری خوبیاںی کجا کر دی ہیں۔
اطباء کہتے ہیں کہ پیلو کی مسواک دانتوں کا میل کچیل صاف کرکے انہیں چمکاتی ہے‘ جلا بخشتی ہے‘ رطوبات کو اپنے اندر جذب کرتی ہے‘ اس طرح مسوڑھوں کے اندر موجود گندی رطوبات پیلو میں جذبت ہو جاتی ہیں اور مسوڑھے صاف اور تندرست رہتے ہیں۔ چنانچہ دانت بھی مضبوطی سے جمے رہتے ہیں۔ مسواک منہ کی بدبو دور کرکے اسے خوشبو دار بنا دیتی ہے جس کے نتیجے میں سانس بھی خوش گوار ہو جاتی ہے۔ پیلو خشکی پیدا کرتی ہے یعنی منہ میں رطوبت اور لعاب کی جو کثرت ہوتی ہے اسے کم کر دیتی ہے اور بلغم کو خارج کرتی ہے۔ پیلو گلے کے امراض میں بھی مفید ہے۔
پیلو کی شاخوں اور جڑوں کو تو بطور مسواک استعمال کیا جاتا ہے اس کے پتے اور پھل بھی کام آتے ہیں۔ پتوں کو سر ے درد‘ جوڑوں کے درد‘ بواسیر‘ جذام‘ خارش اور جل جانے کی صورت میں مختلف طریقوں سے استعمال کروایا جاتا ہے۔ منہ میں دانے ہو جانے (منہ آنے) کی صورت میں پیلو کے پتے پانی میں ابال کر اس پانی سے کلیاں کروائی جاتی ہیں۔ سائے میں خشک کیے ہوئے پیلو کے پھول ایک گرام کی مقدار میں دن میں تین بار تھوڑے سے شہد میں ملا کر کھائے جائیں تو آنتوں کے زخم بھر جاتے ہیں۔
ویدوں نے پیلو کے درخت کو متعدد امراض کے علاج کے لیے استعمال کیا ہے۔ پیلو کے پتوں کا رس زیتون کے تیل میں ملا کر بواسیری مسوں پر لگایا جاتا ہے۔ جوڑوں کے درد کی صورت میں بھی اسے آزمایا جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں مفید ہے۔ پیلو کے درخت کی چھال چھ ماشہ اور سیاہ مرچ سات دانے پانی میں پیس لیے جائیں اور اسے چھان کر سات دن تک پلایا جائے تو بواسیر جاتی رہتی ہے بلکہ جذام کی صورت میں بھی فائدہ ہوتا ہے۔ سانپ کے کاٹے کے علاج اور گردے و مثانہ کی پتھری کو خارج کرنے میں بھی پیلو کو استعمال کیا جاتا ہے۔
آیئے اب جدید سائنسی تحقیقات پر بھی ایک نظر ڈال لیں جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ قدیم اطبا نے پیلو کی تعریف میں جو کچھ کہا ہے وہ محض من گھڑت داستان ہے یا اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔
پیلو کے درخت کے کیمیائی تجزیہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں بڑی مقدار میں کلورین پائی جاتی ہے جو دافع تعفن (اینٹی سپٹک) اثرات کی حامل ہے اور پانی کو صاف کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس میں بیروزہ بھی موجود بہے جو دافع تعفن اثرات رکھنے کے ساتھ ساتھ جراثیم کو ہلاک کر دیتا ہے‘ زخموں کے بھرنے میں مددگار ہے اور دانتوں کو پالش کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔ اس میں ٹینک ایسڈ بھی پایا جاتا ہے جو بہتے ہوئے خون کو بند کرنے‘ زخموں کے بھرنے اور مسوڑھوں میں سکڑن پیدا کرکے ان میں بھری ہوئی خراب رطوبت کو خارج کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مسوڑھوں میں سکڑن پیدا ہونے سے ہلتے ہوئے دانت بھی مضبوط ہو جاتے ہیں۔
پیلو کی مسواک میں بڑی مقدار میں نمکیات موجود ہوتے ہیں جو جراثیم کو ہلاک کرنے‘ منہ کے تعفن کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ مسوڑھوں اور منہ سے لعاب خارج کرتے ہیںح‘ اس طرح گندی رطوبتیں بھی خارج ہو جاتی ہیں۔ پیلو میں گندھک بھی پائی جاتی ہے اور اس کی جراثیم کو ہلاک کرنے اور زخموں کو بھرنے کی صفت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسے اجزا بھی پائے گئے ہیں جو رنگوں کو کاٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اجزا دانتوں پر لگے داغ دھبے اور پیلاہٹ کو دور کر دیتے ہیں۔ ایک جزو ایسا بھی ہے جو دانتوں کی جڑوں میں جمے ہوئے سخت میل کو کھینچ کر باہر نکال دیتا ہے۔ پیلو میں ریتیلے اجزا بھی موجود ہیں جو دانتوں کو مانجھنے اور چمکانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ حیاتین ج (وٹامن سی) کافی مقدار میں موجود ہے جو دانتوں کو مضبوط بناتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دورِ جدید کے سائنس دان بھی اس بات پر متفق ہیں کہ پیلو کے پتے‘ شاخیں‘ جڑیں‘ نرم ٹہنیاں اور پھل‘ فوائد سے بھرپور ہیں۔ اس کے پتوں سے اسقربوط (اسکروی‘ ایک مرض جس میں مسوڑھے پھول جاتے ہیں) کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کا تیل جوڑوں کے درد‘ جذام‘ بواسیر اور سوزاک میں مفید ہے۔ پیٹ کے کیڑوں کو بھی اس سے ہلاک کیا جاسکتا ہے۔
بھارت میں سائنس دانوں نے مذکورہ بالا فوائد کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ پیلو کو تلّی کے امراض میں بھی مفید بتایا ہے اور حیض کو جاری کرنے میں مددگار گردانا ہے۔ ان کے خیال میں پیلو میں مقوی باہ تاثیر بھی ہے اور یہ سانپ کے زہرکا تریاق بھی ہے۔ اس کے علاوہ رسولیوں کو گھلانے اور سانس کی نالیوں کی سوز رفع کرنے میں بھی پیلو مفید ہے۔
کویت کے ڈاکٹروں نے تحقیق کی ہے۔ اس تحقیق کو کویت میں ہونے والی پہلی طب اسلامی کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ اس کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالے کے مطابق منہ کی صفائی اور دانتوں اور مسوڑھوں کی تندرستی کے لیے پیلو سے بہتر کوئی شے نہیں۔
پاکستان میں بھی طب یونانی کے معالجوں نے پیلو پر تحقیق کی ہے۔ ایک بڑے دوا ساز ادارے نے تو پیلو کے مفید اجزا کو یکجا کرکے ٹوتھ پیسٹ کی شکل میں پیش کر دیا ہے جسے مروّجہ ٹوتھ برش کے ذریعے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مسواک کے یہ طبی خواص تو اپنی جگہ ہیں ہی اس کا استعمال باعث ثواب بھی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پابندی کے ساتھ مسواک استعمال فرمائی اور اپنی امت کو بھی ہدایت کی کہ وہ مسواک استعمال کیا کریں۔ آپؐ نے یہاں تک فرمایا کہ ’’اگر مجھے اپنی امت پر بوجھ کا خدشہ نہ ہوتا تو میں ہر نماز سے قبل مسواک کرنا فرض قرار دیتا۔‘‘ (موطاء امام مالکؒ حاکم)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہوسلم جب گھر میں تشریف لاتے تو پہلا کام مسواک کرنا ہوتا تھا۔
مسواک کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسی شاخ منتخب کی جائے جو بہت پرانی اور سخت نہ ہو۔ پیلو کے درخت کی جڑ کی مسواک زیادہ مفید ہوتی ہے۔ مسواک کو اچھی طرح دھو کر کسی ایک سرے پر تقریباً ڈیڑھ انچ کے فاصلے پر چاقو سے اس طرح حلقہ بنا دیا جائے کہ صرف اس کی چھال کٹ جائے‘ اب اس حصے کو کسی چیز سے کوٹ لیا جائے یا دانتوں سے چبا لیا جائے‘ کچھ دیر میں اس کا چھلکا الگ ہو جائے گا اور اندر سے نرم اور باریک ریشے نکل آئیں گے۔ مسواک کو ہاتھ میں تھام کر اس کے ریشوں کو دانتوںکے اندر‘ باہر‘ سامنے‘ اوپر ہر زاویے سے پھیرا جائے۔ دانتوں کے علاوہ اسے مسوڑھوں‘ تالو‘ زبان اور منہ کے اندرونی سطحوں پر بھی پھیرنا چاہیے۔ اس طرح دانت صاف ستھرے رہیں گے بلکہ آپ منہ اور مسوڑھے کے متعدد امراض سے بھی محفوظ رہیں گے۔

حصہ