سوشل میڈیا اور ٹرانس جینڈر ایشو

215

غیر شرعی ، کالا ،ڈریکونین ٹرانس جینڈرایکٹ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا۔جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے صورت حال کے مطابق ’خنثیٰ افراد کے حقوق کے تحفظ‘ کا بل سینیٹ میں پیش کر کے اپنا فرض پورا کیا، اور فاب سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کے پاس چلا گیا۔ان کا مطالبہ تھا کہ پچھلا ایکٹ بھی ختم کیا جائے۔مگر لوگ ’’ہاتھ دھو کر‘‘ پرانے ایکٹ کے پیچھے پڑے ہیں۔ یہاں تک کہ ربیع الاول کے جلسوں میں بھی اس قانون کی مخالفت کی گونج سنائی دی۔
مزے دار بات یہ بھی ہے کہ احتجاج دونوں جانب سے شروع ہو گیا ہے، خواجہ سرا کمیونٹی سمیت سول سوسائٹی ، ٹرانس جینڈر و دیگر لبرل لابیاں بھی میدان میں آگئی ہیں،وہ بھی آئے دن پریس کانفرنس اور مظاہرے کر رہی ہیں۔ سعودیہ سے ڈاکٹر رضوان اسد تلخ حقیقت لکھتے ہیں کہ ’’اگر تمہاری اپنی ٹرانز ایکسکلوزیو ریڈیکل فیمنسٹس، اپنے احمقانہ فلسفے کی بنیاد پر ٹرانس جینڈر خواتین(حقیقتاً پیدائشی اور بائیو لوجیکل مرد) کو بطور عورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو ہماری عورت بھی خدا کے آفاقی دین کی بنیاد پر انہیں رد کرنے کا حق رکھتی ہے۔‘‘ یوں اب ان میں بھی کئی تقسیم ہو چکی ہیں ،خواجہ سرا کے ایک گروہ کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون صرف ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نہیں آیا۔ اس میں ٹرانس جینڈر کو شامل کر کے غلط کیا گیا ہے، اس کے علاوہ ہر قسم کے میڈیکل ٹیسٹ کے سب خلاف ہیں کہ ایسا کوئی ٹیسٹ ان کے نزدیک یہاں ہے ہی نہیں اور دوسرا یہ کہ اپنی جنس کے بارے میں وہ خود بتانا چاہتے ہیں۔ سب سے اہم نکتہ جو یہ خواجہ سرا کمیونٹی متفقہ طور پر اُٹھا رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس ایکٹ سے ہم جنس افراد کی شادی کا تصور ہی نہیں کیوں کہ ان کو ’’ایکس کارڈ‘‘جاری ہوگا جس کو شادی کی اجازت پہلے سے نہیں ہے۔ا ن سوالات کا جواب کوئی نہیں دے رہا ہے ۔
صنف اور جنس کی تقسیم جیسے خطرناک عمل کو علمی بنیادوں پر رد کرنے کے بجائے جینڈر اسٹڈیز کی دکانیں ہر جگہ کھول دی گئیں۔ایک جانب انسانی حقوق کی بنیاد پر ’’خنثیٰ‘‘ افراد کو عوام کے درمیان ان کے سیاسی حقوق دینے کی حمایت کی جا رہی ہے تو دوسری جانب ایک گروہ کو شناخت دینے سے “رد” کیا جا رہا ہے، وہ بھی تو انسان ہی ہیں ۔یہا ں آپ کی بنیاد شرع اسلامی توہے ہی نہیں ، انسانی حقوق ہیں تو انسان ہونے کی حیثیت سے ’’ٹرانسجینڈر‘‘ کو کب تک رد کر سکیں گے؟
میڈیکل سائنس ہی تو وہ علم ہے جس نے جنس کی اقسام بنا کر دی ہیں۔یہی تو وہ علم کی شاخ ہے جس میں مستقل تحقیق ہو رہی ہے، جو حتمی ہےہی نہیں۔ 50سال قبل جنس کی تعداد میڈیکل سائنس کے نزدیک کچھ اور تھی، اب آج کچھ اور ہو چکی ہے۔ یہ سب تحقیق کی بنیاد پر ہو رہا ہے،آئندہ کچھ اور ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ یہ سارا علم ہے ہی مغرب سے درآمد شدہ ،پیمانے وہیں کے، ٹیسٹ ، مشینیں سب کے سب مغرب ہی سے آ رہے ہیں۔یہ جو کیٹسٹریشن، جنسی اعضاء کی سرجری کرانا ہے یہ خود ایک مکمل میڈیکل عمل ہی ہے ناں۔تو کیسے جنس کے تعین کے لیے میڈیکل سائنس کو فیصلہ کن بنا کر چھوڑا جا نا مبنی برحکمت مل ہوسکتا ہے؟میڈیکل سائنس میں جو ٹیسٹ ہوگااس میں کروموزوم کی تعداد سے فیصلہ ہوگا،اگر کسی مکمل مرد میں کسی وجہ سے زنانہ کروموسوم زیادہ نکلے تو کیا ہوگا؟یہ ٹیسٹ بھی 1980کی پیداوار ہیں ، تحقیقی سفر جاری ہے،مزید کیا کیا پیدا کردے گا ، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔پھر جو ملک بھر کی نجی اور سرکاری جامعات میں ’’جینڈرا سٹڈیز‘‘ کی ڈگریاں نہیں نظریات بانٹے جا ر ہے ہیں، یہ کتنا معاونت کرے گی جنس کی اقسام بڑھوانے میں، یہ کسی نے سوچا ہے؟ ایک بار خنثیٰ افراد کی سیاسی شناخت مان لینے ، ریاست پر بے جا اعتماد کے بعد سب اُسی دائرے میں داخل ہوجائیں گے جس کی وہ خود مخالفت کر رہےہیں۔یہ ہے اس ایشو کا سب سے اہم ترین سوال۔
اس دوران پشاور میں2 خواجہ سرا کے قتل کی واردات نے ایشو کو مزید ہوا دی۔شور تو بہت مچایا گیا ،مگر سوشل میڈیا پر ایک اور خواجہ سرا نے یہ بات بتا دی کہ مقتول جرائم پیشہ افراد اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ان معاملات میں جب چیزیں قابو سے باہر ہوتی ہیں وہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔میڈیا پر صرف قتل رپورٹ ہوتا ہے ، وجوہات کوئی سامنے نہیں لاتا۔اب کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو طرفین اس کو سیدھا جواب ہی نہیں دیتے ۔جتنا سمجھا لو، جتنی مثالیں دے دو، زبردستی حقیقت سے نظریں چراتے ہیں۔ میںاس معاملے میں جامع مطالعے و حقائق کو انگیز کرنے کے بعد اپنے اساتذہ سے مشاورت سےاس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سارے مسئلے کا حل ، صرف شناختی کارڈ سے جنس کا خانہ نکال دینے سے ہو جائے گا ۔ایک دوست غصہ میں آگئے کہ میں عجیب بات کر رہا ہوں۔ میں نے سمجھایاکہ سارے ٹرانس جینڈر ، خواجہ سرا اچانک انڈوں سے تو نہیں نکلے ۔زیادہ پیچھے مت جائیے ، اپنے والدین سے پوچھ لیں، کہ 1973سے پہلے لوگ جنس کی شناخت کیسے کرتے تھے ؟کیا اُس وقت کوئی الگ دُنیا تھی ؟ جب1973 سے پہلے پاکستان میں شناختی کارڈ ہی نہیں تھے تو کسی کو کہیں کوئی مسئلہ نہیں تھا ، سب کی شادیاں بھی ہوتی تھیں ،بچے بھی ہوتے تھے،خواجہ سر ابھی ہوتے تھے،جن کو لوگ ازخود پہچان لیتے تھے۔مگر موجودہ سوشل میڈیا کی نسل تو پیدا ہی 2000 میں ہوئی ہے ، اس نے آنکھیں ہی نادرا ، ب فارم کے دور میں کھولی ہیں تو کیا کہیں، ان کو یہی حقیقت لگتی ہے۔ یہ لوگ 3000سال پیچھےلوط علیہ السلام تک چلے جائیں گے مگر اپنے ہی ملک میں 40-50 سال پیچھے جانے سے منہ چرائیں گے۔بھائی جب آپ کے اپنے والدین ، پورا معاشرہ اسلامی شرع کے عین مطابق مشاہدے کی بنیاد پر فیصلے کرتا تھا تو اب کیوں ایک ’ریاستی شناخت ‘ کے کارڈ پر اتنا زور دیا جا رہاہے ۔ جب صدیوں سے بغیر کسی شناختی کارڈ کے شادیاں روایتی طریقے سے ہو رہی ہیں ، تو اب کیوں معاملہ ریاست پر ڈالا جا رہا ہے؟
ایک صاحب تو جوش میں آگئے ،کہنے لگے، ’’ کہ آپ چاہتے ہیں کہ خانہ نکال دیں پھر جس کی مرضی جس سے چاہے شادی کرے۔یہ تو تباہی ہے‘‘ میں نے بہت نرمی سے سمجھایا کہ ’’بھائی کیسی بات کرتے ہیںٗ ایسا کوئی قانون ہی نہیں۔اب یہاں آکر وہ زچ ہوگئے، گو کہ میرا مقصد معاشرتی حقیقت سمجھانا تھا، جسے سب بار بار نظر انداز کرےجا رہے ہیں۔یہی دلیل خواجہ سرا کمیونٹی کے افراد بار بار میڈیا پر دے رہےہیں کہ لائیں ہمارے سامنے لائیں ایسے افراد جنہوں نے ٹرانسجینڈر کارڈ لیا اور پھر شادی بھی کی ۔ یقین مانیں 28000 شناختی کارڈ کا واویلا کرنے والے بغلیں جھانکتے ہیں اس سوال پر کہ وہ 28000 افراد جنہوں نے قانون سے استفادہ کرکے شناختی کارڈ بنوائے ، اب وہ کہاں ہیں۔کدھرشادی کر کے رہ رہے ہیں؟ اتنی بات کرو تو کہتے ہیں کہ ’’ـپھر کیاکریں‘‘۔ ارے بھائی کیا ’خاموش رہنا کام نہیں؟‘کیا ضروری ہے کہ کچھ کیا جائے ؟پھر وہ کام جس کے آپ نہ مکلف ہو ۔۔ اور ناہی آپ کے دائرہ اختیار میں ہو۔ تو بس یہ بھڑاس نکالنی ہے کہ پکڑ پکڑ کر لوگوں کو زبردستی ایک ایسی بات سمجھائی جائے جو ان کو پہلے سے معلوم ہے اور اس پر ان کو کوئی شک یا ابہام بھی نہیں ہے۔پاکستان میں ہم جنس پرستی کرنے والا ،یہاں تک کہ زبردستی یہ بدترین فعل انجام دینے والا بھی اس کو برا، گناہ ہی جانتا ہے تبھی وہ دوسرے کو قتل کردیتا ہے کہ پکڑا نہ جائے ۔ وہ جو ایک دو شادیوں کے کیسز سوشل میڈیا پر بیان کیے گئے اس میں بھی وہ بندہ بھاگ گیا۔ تو سوال ہے کہ کیوں بھاگ گیا جب قانون میں تحفظ تھا ؟یہ ہے معاشرتی حقیقت۔ اب ایک اور ثبوت اس ہفتہ لاہور پولیس افسر کے خط کی شکل میں سوشل میڈیا پرگھوم رہا ہے۔ وہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ چاہے جتنا اور جو قانون بنا لو۔
ایسی جذباتی باتیں کرتے ہوئے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج پورے عورت کے میک اپ میں،عورت کے لباس ،چال ڈھال کے باوجود ، بس میں کوئی خنثیٰ چڑھتا ہے تو وہ مردانہ حصہ میں ہی جاتا ہے ۔ رفع حاجت کے لیے کسی عوامی جگہ جاتا ہے تو مردانہ ہی میں جاتا ہے ۔ اس لیے کہ زنانہ میں اسکی قبولیت ہی نہیں ، چاہے جتنے ، جیسے قوانین بن جائیں۔ ایک ہوتی ہے معاشرتی حقیقت ایک ہوتا ہے ریاستی جبر اور قانون سازی ، پاکستان میں ابھی دونوں کے درمیان بہت بڑا شگاف ہے ، جسے پاٹنے میں کئی نسلیں اب بھی لگیں گی۔توکیا یہ بہتر یہ نہیں کہ یہ فاصلے بڑھائے جائیں ، ریاستی جبر کو ہدف تنقید بنایا جائے ،اس سے لاتعلقی و بےزاری کو فروغ دے کرمعاشرتی و خاندانی اقدار پر زور دیا جائے ۔ ویسے یہ بھی انسانی نفسیات کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ جس کی مخالفت کی جائے یا منع کیا جائے تو وہ کام از خود توجہ پاتا ہے۔
بلاشبہ یہ قانون مکمل غیر شرعی ہے اور اس کی جڑ “فیمن ازم” ہے ۔خوشی ہوئی کہ اس معاملے میں “یوگیا کارتا ” کا نام تو ڈسکس کیا گیا، بالکل درست کیا گیا،مگر اس کے باپ CEDAW کو نظر انداز کردیاگیا۔”انسانی حقوق”وہ اصل بیج ہے ، جس سے یہ شاخیں دھڑا دھڑنکل رہی ہیں، بلا شبہ ان سب کا ہدف خاندان ہے،مگر اس کو ایسے طریقے سے ڈیل نہیں کیا جا سکتا۔قانون ختم کرانا ہے تو لوگوں کو نکال کر لے آئیے ، جیسا ناموس کے معاملے پر لوگ نکالے گئے۔عوام نکال سکتے ہیں تو نکال لیں، مگر سب کو پہلے جینڈر اسٹڈیز پڑھانی ہیں، پھر کہنا ہے کہ ہم نے تو کوشش کر لی لوگ نہیں نکلے، یہ درست نہیں۔ پاکستان کا معاشرہ الحمدللہ ، پوری طرح جدید ریاست کے قالب میں نہیں ڈھلا ہے۔سر توڑ کوشش جاری ہیں،آپ تو اس قانون کو رو رہے ہیں ، میں نے 9مئی2021کو مدینہ جیسی ریاست پاکستان میں ’’پروٹیکشن آف پیرنٹس‘‘ کے صدارتی آرڈیننس کی منظوری دیکھی ہے۔کہنے کو تو بڑی اچھی لگ رہی ہے مگر یہی اصل بم ہے۔جانتے ہیں کیا وجہ لکھی ہے اس صدارتی آرڈیننس کی منظوری کی ؟ملک میں سینیٹ و قومی اسمبلی سیشن میں نہیں تھے، صدر پاکستان ضروری سمجھتے تھے کہ ملک بھر میں ایسے حالات ہوگئے تھے کہ اولادیں اپنے والدین کو گھروں سے باہر پھینک رہے تھے، اس لیے اس معاملے میں سزائیں دینے کے لیے تحفظ والدین کا قانون بنایا گیا۔اسکے مطابق اگر کوئی بیٹا، اسکی بیوی، اسکے بچےاپنے باپ، سسر یا دادا کو گھر سے نکالیں گے خواہ کرائےکا ہو یا ذاتی، اسکو ایک سال قید و جرمانے کی سزا ہوگی۔دوسری شق کے مطابق والدین کواجازت ہوگی کہ وہ اپنے بچے، بہویاپوتے کو اپنے گھر سے نکال سکتے ہیں۔اگر وہ نہ نکلے تو 30 دن قید اور 50ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔یقین مانیں ، آگے لکھا نہیں جا رہاکہ یہ ہے حقیقی خاندان کا ٹائم بم۔والدین کی عزت ، انکا مقام ، انکی خدمت کے لیے خوف خداکے بجائے اگر ریاستی قانون آلہ بنے گا تو یہ رشتوں کو بنانے، جوڑنے کا نہیں ختم کرنے کا سبب بنے گا۔فارمولا یہاں بھی وہی ہے کہ یہ والا قانون بھی پہلے بھارت کی پارلیمنٹ سے منظور ہوا،جیسے ٹرانسجینڈ رکاہوا تھا۔اب والدین کی خدمت قانون کرائے گا؟60 سال کا آدمی ، سگے ماںباپ کیسے اپنی اولاد کے خلاف تھانے جا کر پرچہ کٹوائے گا؟بیٹے کو جیل بھجوائے گا تو اس کی بہو اور پوتے اس کی خدمت کرسکیں گے؟اب چونکہ یہ 2021 میں ہوا تو 4 سال بعد یہ بھی کسی کو یاد آئے گاتوڈسکس ہوگا ، اس لیے اس طریقے سے خاندانی تباہی کا کوئی ذکر ہی نہیں۔شراب عام ہے، مگر لوگ مطمئن ہیں کہ یہ شراب غیر مسلموںکے نام پر سب کو قانونی طور پر فروخت ہورہی ہے۔سود حرام ہے مگر 80سال سے لٹکا ہوا ہے۔

حصہ