جواب دہی کا احساس اور روز جزا کا ڈر ہمیں بہترین قوم بناسکتا ہے

558

معروف مصنفہ شاعرہ ،اور ریڈیو میزبان ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی سے جسارت میگزین کی گفتگو

جسارت میگزین: اپنی ابتدائی زندگی کے متعلق بتائیں۔
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: میں اپنے والدین کی آٹھویں اولاد تھی، میرے والدین کا تعلق دہلی سے تھا۔ ابا جان وزارتِ خزانہ میں ملازم تھے۔ ابا جان کے بارے میں امی بتاتی تھیں کہ وہ وقت کے انتہائی پابند تھے، آفس کے لیے نکلتے تو لوگ انہیں دیکھ کر گھڑیاں ملا لیا کرتے تھے کہ اس وقت مرزا صاحب آفس جا رہے ہیں تو یقینا صبح کے نو بجے ہوں گے۔ یہ وقت کی پابندی ہم سب کی سرشت میں داخل ہوگئی۔ قیامِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان سے پہلے ہم ہندوستان میں مل جل کر رہتے تھے۔ قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی سب ہندو جو ہر وقت امی سے مختلف کھانوں کی فرمائش کیا کرتے تھے، ان کی نظریں بھی ایسی پھریں کہ انہوں نے سب سے پہلے ہمارے گھر پر حملہ کیا۔ بچپن سے پینٹنگ کا بھی شوق تھا۔ چھوٹی چھوٹی تصاویر چینی کی پلیٹوں پر بناکر گھر میں دیواروں پر لگاتی تھی۔ لکھنے کا شوق بھی اسی عمر سے ہوا۔ ابتدا میں کسی اور نام سے لکھا کرتی۔ بہت شوخ، تیز طرار، باتونی نہیں تھی۔ بولنا کم اور سننا زیادہ اچھا لگتا تھا۔ پڑھنے کی بھی شوقین تھی۔ شادی سے قبل ایم اے کیا اور گولڈ میڈلسٹ رہی۔ شادی کے بعد بھی تعلیمی سلسلہ چلتا رہا۔ بی ایڈ، ایم ایڈ اور ہومیو پیتھک ڈاکٹری (DHMS) کی ڈگری بھی حاصل کی۔ تقریباً پچیس برس کلینک بھی کرتی رہی۔
جسارت میگزین: آپ کا ادبی سفر کب اور کیسے شروع ہوا؟ کون کون سے میدان میں طبع آزمائی کی؟ نیز اپنی مشکلات اور کامیابیوں کے بارے میں بتائیں۔
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: پتا نہیں یہ ادبی سفر تھا یا کچھ اور۔ یہ وہ دور تھا جب میں چھٹی جماعت میں تھی۔ بزمِ ادب کے تحت اسکول سے ہر ماہ رسائل شائع ہوتے۔ انہی دنوں افسانوں کا مقابلہ ہوا اور اتفاق سے میرے افسانے کو پہلا انعام ملا۔ اُس وقت کی ڈائریکٹر آف ایجوکیشن نے مجھے انعام دیتے ہوئے کہا ’’اتنی منی سی تو ہو، اتنا عمدہ افسانہ تم نے کیسے لکھ لیا؟‘‘
ان کے اس جملے نے مجھ میں عجیب سی قوت بھر دی۔ پھر بچوں کے رسالوں میں لکھنا شروع کیا۔ انعامی مقابلے میں پھر اوّل انعام ملا۔ یہیں سے لکھنے کی ابتدا ہوئی۔ پھر اسکول اور بعدازاں کالج کے رسائل کی مدیرہ بھی رہی۔ اس کے علاوہ شاعری بھی کی۔ بے شمار افسانے اور مضامین لکھے، تعداد یاد نہیں، تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیتی رہی اور میڈل جیتے۔ ریڈیو پاکستان کے پروگرام بھی کیے۔ 1965ء کی جنگ میں نغمے لکھے اور ریڈیو پر پیش بھی ہوئے۔
جسارت میگزین: آپ کیا سمجھتی ہیں کہ آج کی عورت مضبوط ہے؟ معاشرہ جن خطوط پر پروان چڑھ رہا ہے اس سے آپ مطمئن ہیں؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: عورت کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار حقوق سے نوازا ہے اور اس کا دائرۂ کار بھی مقرر کردیا۔ اسی دائرے کے اندر رہ کر وہ ہر تعمیری اور مثبت کام کرسکتی ہے۔ میں اس ضمن میں سمجھتی ہوں کہ عورت مضبوط ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے چینی، افراتفری، بے راہ روی کی وجہ مائوں کی بے توجہی اور حکمرانوں کی لوٹ مار ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کو اسلامی ماحول نہیں دیا۔ ماں باپ جو تلقین کرتے ہیں بچوں کے سامنے، اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ قول و فعل کا تضاد اس بربادی کا ذمے دار ہے۔ مگر میں سمجھتی ہوں کہ آج کی نسل بہت سمجھ دار ہے، صحیح راستہ دکھایا جائے تو بہت کچھ بلکہ ہم سے بہتر کرسکتی ہے۔ اس نسل سے بہت اچھی امیدیں ہیں۔
جسارت میگزین: 1971ء میں وطنِ عزیز کو دولخت ہوتے دیکھا، نقوش تو آج بھی تازہ ہوں گے؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: اُف آپ نے رستے ہوئے ناسور میں نشتر چبھو دیا۔ سقوطِ ڈھاکہ ایسا سانحہ ہے جو شاید زندگی بھر نہ بھلا پائوں۔ ہمارا بازو کٹ کر الگ ہوگیا۔ جو بات یا اسباب اس علیحدگی کا سبب بنے ان پرغور و خوض نہ کیا گیا۔ میرا بچپن جہاں گزرا وہاں آدھی آبادی بنگالیوں کی تھی۔ میری بچپن کی ساری سہیلیاں اور کالج کی تمام دوست بنگالی تھیں۔ ہمارا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ساتھ ہوتا تھا۔ مجھے آج بھی اپنی بنگالی سہیلی یاد ہے جو میری پڑوسن بھی تھی اور کالج میں بھی ساتھ تھی۔ اُس کی آواز اتنی خوب صورت تھی کہ ہم آل پاکستان میوزک کانسرٹ لاہور سے کئی مرتبہ اُسی کی وجہ سے جیت کر آئے۔ ٹرینوں میں، بسوں میں ایک ساتھ سفر کرتے۔ 1971ء کے واقعے نے میرے دل میں ایسا خلا پیدا کیا ہے جو شاید کبھی پُر نہ ہوسکے۔
جسارت میگزین: آج کی نسل کی تعلیم و تربیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا آپ مطمئن ہیں؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ایک انگلی کے اشارے پر دنیا آپ کے سامنے اپنی آب و تاب کے ساتھ آکھڑی ہوتی ہے، اب یہ آپ کے ضمیر پر ہے کہ آپ دین کا انتخاب کرتے ہیں یا دنیا کا۔ آپ ترقی کے لیے قدم بڑھاتے جائیں مگر ہر قدم اللہ کی بندگی اور رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ علم میں اضافے کے لیے ہر لمحے دعا کرنی چاہیے لیکن مقصدِ حیات متعین کرنے کے بعد۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ناجائز طریقے سے پیسے کمانا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔
جسارت میگزین: آپ ریڈیو سے بھی منسلک رہیں، اُس دور میں خواتین کا کام کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، کتنے دشوار گزار مراحل رہے؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: میں بچپن سے ہی ریڈیو سے منسلک رہی، ابتدا بچوں کے پروگرام سے کی، کمرشل سروس میں بہت عرصہ کام کیا۔ ریڈیو پاکستان ہمارے کالج کے قریب واقع تھا۔ پرنسپل کی اجازت سے پروگرام کے وقت سے کچھ دیر قبل جایا کرتی۔ ایک اہم واقعہ 1965ء کا مجھے آج تک یاد ہے۔ میرا پروگرام کمرشل سروس میں عموماً بارہ بجے شروع ہوتا تھا۔ 6 ستمبر 1965ء کو میں اپنے وقت پر ریڈیو اسٹیشن پہنچی۔ اس دن ریڈیو پاکستان کے احاطے میں غیر معمولی رونق تھی۔ میں ریڈیو پروڈیوسر کے پاس پہنچی تو پتا چلا چونکہ صدر پاکستان خطاب کریں گے اس لیے پروگرام ملتوی کردیا گیا ہے۔ بتایا گیا کہ ہندوستان نے حملہ کردیا ہے۔ صدر پاکستان قوم سے خطاب کرکے صورتِ حال سے آگاہ کریں گے۔ اُس وقت ایسا جوش اور ولولہ قوم میں تھا جو پھر کبھی نظر نہیں آیا۔ پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح تن گئی۔ میں اُس وقت فوجی بھائیوں کے لیے سید ناصر جہاں صاحب کے ساتھ شام میں پروگرام کیاکرتی جس میں خطوط اور ان کے جواب ہوتے۔ بعدازاں ریڈیو کے لیے ڈرامے، خاکے اور خواتین کے پروگرام بھی کیے۔ شادی کے بعد میرا لکھا ڈراما ’’یہ کہانی کس کی ہے‘‘ نشر ہوا۔ یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا۔
میرے بڑے بھائی صاحب ریڈیو پر پروگرام پروڈیوسر رہے۔ پھر شادی کے بعد شوہر کا ہر طرح کا تعاون رہا۔ ریڈیو پاکستان کی گاڑی گھر سے لیتی اور گھر پر چھوڑتی۔ میرے شوہر خود ریڈیو سے دینی موضوعات پر تقاریر کرتے، سو میرے لیے ریڈیو اور وہاں سے وابستہ ماحول اور لوگ نئے نہیں تھے۔ بھائی صاحب کی وجہ سے بھی سب ویسے بھی میرا خیال رکھتے تھے، اس لیے مجھے اس سلسلے میں کبھی کوئی دشواری نہیں ہوئی۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک زندگی کیا ہے؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: زندگی اللہ کی دی ہوئی قیمتی امانت ہے جس کی ہر ہر لمحے حفاظت کرنی ہے اور ہر لمحے کا حساب بھی دینا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو جواب دہی کے ڈر سے زندگی کے ہر لمحے کو اللہ کی رضا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق گزارتے ہیں، جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، مذہب و قوم اور زبان سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور اس کا معاوضہ بھی انسانوںسے طلب نہیں کرتے۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک صحت مند ادب کیا ہے؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: معاشرے کو بنانے، سنوارنے اور بگاڑنے میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سائنسی زبان، با ادب رکھ رکھائو، تعمیری سوچ، مثبت رویہ، خوب صورت الفاظ کہ جن سے انسان کا دل بھی بدل جائے اور اس کو پتا بھی نہ چلے کہ کہنے والے نے کتنے دھیمے انداز میں اس کے دل و دماغ سے منفی خیالات نکال پھینکے ہیں۔ ادب کے لیے ثقیل، مسجع و مقفیٰ عبارت اہم نہیں۔ وہ بات اہم ہے جو آپ تک پہنچتی ہے۔ میں اُن کتابوں کو پڑھتی ہوں جومیرے دل کو چھو جائیں، میں اُن تفاسیر سے اپنے موضوعات چنتی ہوں جو سادہ اور عام الفاظ میں لکھی ہوں، ادب کو باادب ہونا چاہیے۔ فحاشی، عریانی اور بے حیائی کے موضوعات کو میں ادب میں شمار نہیں کرتی۔
جسارت میگزین: دن کا آغاز کیسے کرتی ہیں، مطلب آپ کی مصروفیات کیا ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: میرے دن کا آغاز عموماً صبح ساڑھے تین بجے ہوتا ہے۔ تہجد، صلوٰۃ التسبیح، بے شمار تسبیحات، پھر فجر کے بعد قرآن کی تلاوت، پھر تھوڑی دیر لیٹنا، صبح تقریباً نو بجے اٹھ کر اشراق، پھر ناشتا، چاشت و تلاوت کے بعد کھانا پکانا۔ پہلے کھانا پکانے میں زیادہ وقت لگتا تھا، اپنے ہمدم کی فرمائش پر کھانا پکتا تھا۔ اب جو مل جائے کھا لیتی ہوں۔ دوپہر میں تھوڑی دیر قیلولہ کرتی ہوں۔ پہلے میرے گھر قرآن کا درس ہوتا تھا، اب خود جاتی ہوں۔ عصر کی نماز کے بعد احادیث پڑھنا معمول ہے، ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ پھر کوئی کتاب پڑھتی ہوں یا لکھنے کا کام کرتی ہوں۔
جسارت میگزین: کس طرح کا ادب پڑھنا اچھا لگتا ہے؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: سیرت النبویؐ، تاریخی موضوعات پر لکھی بامقصد کتابیں، سوانح حیات۔ آج کل سید منور حسن کی یادداشتیں زیر مطالعہ ہے۔ شہاب نامہ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، آوازِ دوست، شکستِ آرزو۔ سفرنامے اکثر پڑھتی رہتی ہوں۔ رات کو جب تک کوئی کتاب نہ پڑھوں نیند نہیں آتی۔ اس لیے میرے بستر پرکتابوں کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: بحیثیت قوم ہم میں آپ کے خیال میں کیا خوبیاں اور خامیاں ہیں اور بہتری کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: بحیثیت مسلمان ہم ایک بہترین امت ہیں اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہم تھوڑے جذباتی ہیں۔ ہم وقت کا ضیاع کرنے میں ماہر ہیں۔ افسوس آج قوم کا ہر فرد چاہے بچہ ہو، بوڑھا ہو یا جوان… موبائل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہے۔ مقصد سے دور ہوتے جارہے ہیں، یہی سب سے بڑی خامی ہے، مگر مشکل وقت میں سب ایک ہوجاتے ہیں، یہ بہت بڑی خوبی ہے۔ اگر اس میں مقصدیت شامل ہوجائے تو شاید بہتری کی امید پیدا ہوجائے۔ اس کے علاوہ جھوٹ، دھوکہ دہی، فریب، لوٹ کھسوٹ اگر ہماری زندگیوں سے نکل جائیں تو یہ قوم دنیا کی بہترین قوم کہلائی جائے گی، مگر ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہمارے حکمران صالح ہوں، ہر شخص میں جواب دہی کا احساس اور روزِ جزا کا ڈر ہی ایک بہتر قوم بنا سکتا ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے خیال میں معاشرے کی تربیت ادب کے ذریعے ممکن ہے؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: جی ہاں بالکل۔ ادب لکھنے والے اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں وہ رہتے بستے ہیں۔ وہ اگر صالح معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں تو انہیں ایسا ادب تخلیق کرنا پڑے گا جو اُن کی آئندہ نسلوں کے ذہنوں کی مثبت آبیاری کرے۔
جسارت میگزین: موجودہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اپنی ذمے داریاں پوری کررہا ہے؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: میں سمجھتی ہوں کہ ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں، تو ہمارا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اپنی ذمے داری پوری نہیں کررہا۔ میڈیا چاہے تو ہماری نئی نسل کو شیرشاہ سوری، ٹیپوسلطان اور بے شمار دیگر سپہ سالار بنا سکتا ہے، لیکن آپ خود بھی دیکھتی ہوں گی کہ جو ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں جس سے نئی نسل خاص طور پر بچیاں بہت کچھ سیکھنا چاہتی ہیں اور سیکھ رہی ہیں ان میں سوائے عشق و محبت، واہیات باتوں اور فیشن کے کوئی پیغام نہیں۔ میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ڈراموں کے ذریعے مشترکہ خاندانی نظام کو بھی خاصا نقصان پہنچایا گیا۔ بغض، عداوت، ساس بہو کے جھگڑے دکھانا مناسب نہیں، حالانکہ یہ سب موضوعات ایسے ہیں جن کو مثبت انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ مشترکہ محبتیں دکھائیں، ایثا و قربانی دکھائیں تو میرا خیال ہے یہ میڈیا بہت کچھ کرسکتا ہے، بہت کچھ دے سکتا ہے، لیکن نہیں دے رہا۔ میڈیا کے ذریعے ہی دنیا سے جڑنے کا موقع ملتا ہے، دنیا کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ باہر کی دنیا اس میڈیا کی وجہ سے ترقی کررہی ہے، میڈیا نے اُن کو کہیں سے کہیں پہنچادیا۔
جسارت میگزین: کوئی پیغام؟
ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی: میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ محبت، خلوص، دردمندی، پیار، ایثار، صبر و شکر… یہ ایسی خوبیاں ہیں کہ بڑے بڑے ظالم اور کٹھور دل نرم پڑ جاتے ہیں۔ ایثار ہر لمحہ قیمتی اور آخری سمجھ کر صرف کریں۔ دوسروں کی غیبت، ٹوہ، بہتان تراشی، حسد و بغض میں نہ لگیں، اپنے آئینۂ دل کوصاف رکھیں کہ اس میں صرف اللہ کی تصویر رہے۔ وہی آپ کا محبوب اور محب رہے۔ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ فضولیات میں وقت ضائع نہ کریں۔ جو وقت گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔
جسارت میگزین: اپنا قیمتی وقت دینے پر آپ کا بہت بہت شکریہ۔

حصہ