قیصروکسریٰ قسط(71)

188

’’نہیں! آپ کی تلوار یہیں ہے۔ میں نے صرف آپ کی تکلیف کے احساس سے اُتار دی تھی۔ لیجیے!‘‘ کلاڈیوس نے یہ کہہ کر نیام سمیت تلوار اُٹھائی اور اُسے پیش کردی۔ لیکن عاصم نے نیام کے بجائے اچانک تلوار کا دستہ پکڑ کر تلوار کھینچ لی اور پیشتر اِس کے کہ کلاڈیوس کوئی مزاحمت کرسکتا، تلوار کی نوک اُس کے سینے سے چھو رہی تھی۔
عاصم نے کہا۔ ’’کلاڈیوس! میں بیمار ہوں، لیکن اتنا بے بس نہیں ہوں کہ تم میرے گلے میں رسّی ڈال کر جہاں چاہو، لے جائو‘‘۔
کلاڈیوس نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’اگر ایک بہادر آدمی کی جان بچانا جرم ہے تو تم مجھے قتل کرسکتے ہو‘‘۔
’’ملاحوں سے کہو کہ وہ یا تو کشتی واپس لے چلیں ورنہ کنارے پر لگادیں‘‘۔
’’یہ ملاح میری زبان نہیں سمجھتے‘‘۔
’’تو پھر ارکموس کو جگائو‘‘۔
’’میں جاگ رہا ہوں‘‘ ارکموس نے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’اور اگر آپ اُس بستی میں دفن ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو میں کلاڈیوس کو یہ مشورہ دوں گا کہ اُسے آپ کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
’’آخر تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘۔ عاصم نے تذبذب ہو کر پوچھا۔
ارکموس نے کہا۔ ’’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اپنے گھر پہنچ جائوں اور مرنے سے پہلے اُس شہر کی ایک جھلک دیکھ لوں جہاں میری بیوی اور بچے میرا انتظار کررہے ہیں اور آپ میرا راستہ نہیں روک سکتے۔ اپنی زندگی کی اِس آخری خواہش کی تکمیل کے لیے میں دریا میں کودنے کے لیے بھی تیار ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ مجھے مگرمچھ نگل جائے لیکن آپ کا ہاتھ مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا۔ کلاڈیوس کی خواہش مجھ سے مختلف نہیں ہوسکتی، لیکن یہ آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر بھاگنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ ورنہ سردار کے بیٹے نے ہم سے یہ بھی کہا تھا کہ تم طیبہ جا کر کسی اچھے طبیب کو لے آئو۔ آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب آپ بے ہوش تھے تو آپ کی تلوار کلاڈیوس کے ہاتھ میں تھی‘‘۔
عاصم نے تلوار ایک طرف پھینک دی اور کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’کلاڈیوس! تم جانتے ہو کہ میں تمہیں قتل نہیں کرسکتا‘‘۔
اُس نے جواب دیا۔ ’’میں جانتا ہوں اور اگر مجھے یہ اطمینان نہ ہوتا تو میں یہ تلوار آپ کے حوالے نہ کرتا۔ ابھی میں آپ کی طرح زندگی سے مایوس نہیںہوا‘‘۔
’’تم مجھے طیبہ لے جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’نہیں میں آپ کو بہت دُور لے جانا چاہتا ہوں۔ کسی ایسی جگہ جہاں آپ اپنا کھویا ہوا سکون تلاش کرسکیں۔ لیکن میرے سامنے پہلا مسئلہ آپ کو اس بیماری سے نجات دلانا ہے۔ اگر طیبہ میں آپ کی صحت ٹھیک نہ ہوئی تو ہم آپ کو بابلیون لے جائیں گے۔ جب آپ تندرست ہوجائیں گے تو اِس بات کا فیصلہ کرنا آپ کے اختیار میں ہوگا کہ آپ جس چیز کی تلاش میں گھر سے نکلے تھے وہ آپ کو کہاں مل سکتی ہے۔ ممکن ہے کسی منزل پر ہمارے راستے ایک دوسرے سے جُدا ہوجائیں لیکن مجھے اتنا اطمینان ضرور ہوگا کہ میں اپنی ہمت کے مطابق اُس شریف دشمن کے احسان کا بدلہ دے چکا ہوں، جس نے مجھے موت کے منہ میں سے نکالا تھا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’لیکن میرے ساتھی کیا کہیں گے؟ سپہ سالار میرے متعلق کیا خیال کرے گا۔ اور میں اپنی زندگی کی رہی سہی دلچسپیوں سے کنارہ کش ہو کر کیا کروں گا۔ کلاڈیوس! مجھے کنارے پر اُتار دو۔ اس کے بعد تم آزاد ہوگے‘‘۔
کلاڈیوس نے ایک فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔ ’’اس وقت مجھے اپنی آزادی سے زیادہ تمہاری زندگی عزیز ہے۔ اور میں تمہاری یہ غلط فہمی دور کردینا چاہتا ہوں کہ سپہ سالار تمہارا انتظار کررہا ہے۔ اُسے صرف یہ خدشہ تھا کہ اگر تم راستے میں چل بسے تو عرب رضاکاروں میں بددلی پھیل جائے گی لیکن اُس کا یہ خدشہ دُور ہوچکا ہے۔ اور چند منزلیں اور طے کرنے کے بعد تمہارے ساتھی اگر ایرانیوں کی فتوحات کے لیے نہیں تو کم از کم اپنی بقا کے لیے ہی اُس کا حکم ماننے پر مجبور ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر سردار کی بستی کا کوئی آدمی اس کے پاس تمہاری موت یا تمہارے روپوش ہوجانے کی خبر لے جائے تو اُس کی انتہائی کوشش یہ ہوگی کہ یہ وہ عرب رضا کاروں پر ظاہر نہ ہواور پھر اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ فوج کا ساتھ چھوڑنے کے بعد تمہاری زندگی میں کوئی بہت بڑا خلا پیدا ہوجائے گا تو یہ ایک غلطی فہمی ہے۔ آج میں تمہارے یہ خودفریبی دُور کردینا چاہتا ہوں کہ اس مہم کا کوئی مقصد تھا۔ تمہارا سپہ سالار یہ جانتا ہے کہ اس فوج کے ساتھ اُس کے لیے حبشہ فتح کرنا ناممکن ہے وہ صرف اِس لیے پیش قدمی کررہا ہے کہ اپنے حکمران کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ جس سپہ سالار کی آخری اُمید یہ ہو کہ کسی نہ کسی دن اُسے واپسی کے لیے بلاوا آجائے گا اور وہ شکست یا پسپائی کی ذلّت سے بچ جائے گا۔ میں اُس کے جھنڈے تلے کسی عظیم مقصد کے حصول کے لیے جان دینا بھی طاقت خیال کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ کسریٰ اب اپنی ساری قوت قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے جمع کررہا ہوگا اور اس مہم کی کامیابی یا ناکامی اُس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ کمک بھیجنے میں اس قدر تساہل سے کام نہ لیتا۔ عاصم! تم اب آرام سے لیٹ جائو۔ مجھے یقین ہے کہ جب زمانے کے حالات بدلیں گے تو تم مجھے اپنا دشمن نہیں سمجھو گے‘‘۔
عاصم نے لیٹتے ہوئے کہا۔ ’’کلاڈیوس! تم مجھے پھر اُس ویرانے کی طرف دھکیل رہے ہو، جہاں میرے لیے بے نشان راستے کے سوا کچھ نہیں ہوگا‘‘۔
طلوع سحر کے وقت، رات بھر کشتی کھینچنے والے ملاحوں نے اپنے ساتھیوں کو جگایا اور کشتی اُن کے سپرد کرکے سو گئے۔ صبح کی تازہ ہوا میں عاصم کا بخار ہلکا ہوچکا تھا اور وہ فضا میں اُڑنے والے اور دریا کے کناروں پر اِدھر اُدھر بھاگنے والے عجیب و غریب جانوروں کی طرف دیکھا رہا تھا۔ دریا کے ایک موڑکے قریب پہنچتے ہی اُسے اچانک نقاروں کی صدائیں سنائی دینے لگیں۔ عاصم اور اُس کے ساتھی اضطراب کی حالت میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ارکموس نے ملاحوں سے چند باتیں کرنے کے بعد عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’آپ پریشان نہ ہوں، یہ نقارے آپ کو دوستی کا پیغام دے رہے ہیں۔ کل ہماری روانگی سے قبل سردار کے بیٹے نے راستے کی بستیوں کو خبردار کرنے کے لیے اپنے ایلچی روانہ کردیے تھے‘‘۔
دریا کے موڑ سے آگے کنارے کے ایک ٹیلے پر انہیں سیاہ فام انسانوں کا ہجوم دکھائی دیا۔ ایک آدمی گھوڑے کی باگ تھامے اُن کے درمیان کھڑا ہاتھ سے اشارے کررہا تھا۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’وہ سردار کا بیٹا ہے۔ لیکن وہ یہاں کیا کررہا ہے؟‘‘
عاصم بولا۔ ’’ممکن ہے وہ مجھے واپس لے جانا چاہتا ہوں‘‘۔
کلاڈیوس نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’مجھے یقین نہیں کہ وہ آپ کے ساتھ اس قدر دشمنی کرے گا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’کلاڈیوس اگر میں اُس کے ساتھ جانا چاہوں تو مجھے روکنے کی کوشش کرو گے؟‘‘
’’نہیں! اب میں آپ کو روکنے کی کوشش نہیں کروں گا، بلکہ خود بھی آپ کے ساتھ واپس چلا جائوں گا‘‘۔
کلاڈیوس کے طرزِ عمل میں یہ تبدیلی عاصم کے لیے ناقابل فہم تھی، اُس نے پوچھا۔ ’’کیا تم اُس منزل سے منہ پھیر لو گے جہاں زندگی کی تمام راحتیں تمہارا انتظار کررہی ہیں؟‘‘
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’میرے لیے یہ ایک مجبوری ہوگی۔ میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کا ساتھ چھوڑ کر میرے لیے بابلیون پہنچنا ناممکن ہے۔ ایرانی مجھے طیبہ سے آگے نہیں جانے دیں گے۔ لیکن مجھے اس بات کا افسوس ہوگا کہ آپ کسی مجبوری کے بغیر زندگی سے اپنا رشتہ توڑ رہے ہیں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’کلاڈیوس! زندگی سے میرے سارے رشتے اُس دن ٹوٹ گئے تھے جب میں اپنے وطن سے نکلا تھا۔ اِس کے بعد مجھے اپنی تمام خواہشیں اور دلچسپیاں ایک مذاق معلوم ہوتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات مجھے یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ میں کبھی زندہ تھا۔ میرا ماضی ایک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں۔ میں نے چاروں طرف سے مایوس ہو کر جنگ کے ہنگاموں میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی لیکن اب مجھے اپنے عظیم ترین کارنامے بھی ایک مذاق معلوم ہوتے ہیں۔ میرے دوست! تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ میں اب واپس نہیں جائوں گا۔ اور شاید طیبہ میں قیام کرنا بھی پسند نہیں کروں گا۔ رات تم سے باتیں کرنے کے بعد میں زندگی کے بجائے موت کے متعلق سوچ رہا تھا اور میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ اب اگر میں ایک ایسے انسان کے کام آسکوں جس کے مستقبل کا راستہ سدا بہار نخلستانوں کی طرف جاتا ہے تو اِس کے بعد میرے لیے موت کا چہرہ شاید اس قدر بھیانک نہ ہوگا۔ میں تمہارے ساتھ جائوں گا کلاڈیوس! اور اگر بابلیون پہنچ کر میری کوئی تدبیر کارگر ہوسکی تو تم بہت جلد اپنے وطن کی ہوا میں سانس لے سکو گے۔ لیکن میں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں‘‘۔
’’کہیے!‘‘ کلاڈیوس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’کیا مجھے تمہارے وطن میں اپنی بیکاری کے لمحات کاٹنے کے لیے ایک چھوٹی سی چراگاہ اور چند بھیڑیں مل جائیں گی؟‘‘۔
’’ہاں‘‘ کلاڈیوس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر ایرانی وہاں پہنچ گئے تو آپ کو وہاں بھی اپنی چھوٹی سی چراگاہ اور چند بھیڑوں کی حفاظت کے لیے تلوار اُٹھانی پڑے گی‘‘۔
عاصم گہری سوچ میں پڑ گیا۔ کشتی کنارے پر لگی تو سردار کا بیٹا گھورے سے اُتر کر بھاگتا ہوا آگے بڑھا اور اُس نے عاصم سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ مجھے ساری رات یہ خیال پریشان کرتا رہا کہ دن کی تیز دھوپ میں کسی چھپر کے بغیر کشتی پر سفر کرتے ہوئے آپ کو بہت تکلیف ہوگی۔ یہ لوگ ہمارے دوست ہیں اور میرا پیغام سن کر آپ کو الوداع کہنے آئے ہیں۔ یہ آپ کے لیے ہرن، پرندوں اور مچھلیوں کا تازہ شکار بھی لائے ہیں۔ آپ کشتی سے اُتر کو تھوڑی دیر آرام کرلیں، میں کشتی پر چھپر ڈلوا دیتا ہوں‘‘۔
مترجم نے سردار کے بیٹے کا مفہوم بیان کیا اور عاصم اُس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کشتی سے اُتر کر دریا کے کنارے ایک درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
سردار کا بیٹا اور مقام معززین اُس کے گرد بیٹھ گئے اور چند آدمی کشتی پر گھاس پھونس کا چھپر ڈالنے میں مصروف ہوگئے۔
ایک ساعت بعد یہ کام ختم ہوچکا تھا اور کشتی پر شکار لادا جارہا تھا۔ عاصم نے اُٹھ کر سردار کے بیٹے سے مصافحہ کرتے ہوئے دوبارہ اُس کا شکریہ ادا کیا اور کشتی پر سوار ہوگیا۔ جب کشتی روانہ ہونے لگی تو سردار کے بیٹے نے کنارے سے بلند آواز میں کہا۔ ’’میں اب واپس جارہا ہوں۔ آپ کو اگلی منزلوں پر میری ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم نے راستے کے دوسرے قبائل کو خبردار کرنے کے لیے ایلچی بھیج دیے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کی ہر ممکن اعانت کریں گے۔ اس گھوڑے کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ مجھے اس جانور پر سواری کرنے کا بہت شوق تھا‘‘۔
عاصم نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے سلام کیا اور کشتی وہاں سے چل پڑی۔
ایک دن طیبہ کا ایرانی حاکم انتہائی پریشانی کی حالت میں قدیم شاہی محل کے ایک کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ ایک سپاہی کمرے میں داخل ہوا اور اُس نے جھک کر سلام کرتے ہوئے کہا۔ ’’حضور! اسکندریہ کا ایلچی حاضر ہونے کی اجازت چاہتا ہے‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے غصے کی حالت میں سپاہی کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اُسے لے آئو‘‘۔
سپاہی نے سلام کرکے واپس چلا گیا اور وہ نڈھال سا ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان جو اپنے لباس سے، ایک معزز ایرانی معلوم ہوتا تھا، کمرے میں داخل ہوا اور انتہائی بے تکلفی کے ساتھ طیبہ کے حاکم کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔ ’’میں صبح سے آپ کے حکم کا انتظار کررہا ہوں، آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟‘‘۔
طیبہ کے حاکم نے جواب دیا۔ ’’میں کل علی الصباح آپ کے ساتھ سواروں کا ایک دستہ روانہ کرسکتا ہوں لیکن اس بات کا ذمہ نہیں لے سکتا کہ آپ بخیریت وہاں پہنچ جائیں گے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ