مغرب کے عروج کا سبب؟

324
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد سے تفصیلی تبادلہ خیال

(چوتھی قسط)
س: مسلمانوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب مسلمانوں نے جہاں جہاں بھی بڑے کارنامے اور معرکے انجام دیے اس کی بنیاد یا تو اُن کی للہیت تھی یا اُن کی علمی فضیلت۔ لیکن اب کئی صدیاں گزر گئی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان للہیت کے حوالے سے بھی تہی دامن ہوتے جارہے ہیں، علمی فضلیت بھی اُن کے پاس نظر نہیں آتی۔ آخر اس صورت حال کا سبب کیا ہے اور اس سے مسلمان کیسے نکل سکتے ہیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد : میں سمجھتا ہوں کہ ہم آج بھی ان دونوں صفات کے لحاظ سے کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر ہزارہا دینی مدارس ایسے ہیں جن کے ہاں کم از کم دو گرم کھانے فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ ہاتھ پھیلا کر کسی سے نہیں مانگتے۔ یہ پیسے آسمان سے آتے ہیں ان کے پاس؟ اگر ایک یونیورسٹی اپنا کانووکیشن کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے وہ بجٹ بناتی ہے اور بمشکل ایک چائے یا ایک کھانا دے کر سمجھتی ہے کہ بہت احسان کردیا، لیکن یہ جو تین سو پینسٹھ دن ان کے پاس وسائل آرہے ہیں کہاں سے آرہے ہیں؟ للہیت ہے ناں! کیا جو ان کو دے رہا ہے اس لیے دے رہا ہے کہ اس کا اشتہار آئے گا؟ اس کو ٹی وی پر چیک دیتے ہوئے دکھائیں گے؟ نہیں! میرے علم میں نہیں ہے۔ کسی ایک دینی مدرسے کے لیے جو رقم لوگ دیتے ہیں کبھی آپ نے دیکھا ہو ٹی وی یا کسی کیمرے نے اسے دکھایا ہو۔ یہ کیا ہے؟ للہیت ہی تو ہے، لیکن ہم ایسا کبھی سوچتے نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کا زاویۂ نگاہ درست ہے تو آپ کو للہت اور تقویٰ جگہ جگہ مل جائے گا، کمی نہیں ہے اس کی۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ للہیت اور تقویٰ اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں پر وہ حالات کو تبدیل کرنے کے لیے ذریعہ بن جائے۔ ذریعہ بنے گا اُس وقت جب اس کے پاس اختیار ہو، قوتِ تنفیذ ہو۔ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جہاں تک بات رہی علمی برتری کی، میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ نصف صدی میں جتنا علمی کام مسلمانوں نے کیا مجھے بتائیے جو کام ترکی زبان میں، حتیٰ کہ فارسی کے اندر کسی سائنس دان نے کیا ہے کیا ہمارے کسی علمی جریدے میں اس کی خبر آئی ہے؟ جو کام سوڈان میں ہوا ہے ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات ہے؟ اگر کوئی پاکستانی کوئی کام کرلیتا ہے تو کیا ہم اسے قرار واقعی اہمیت دیتے ہیں؟۔ کام ہر جگہ ہوا ہے اور ہورہا ہے لیکن ہم جس چیز کو دیکھتے ہیں وہ مخصوص یورپی اور امریکی اداروں کی علمی درجہ بندی ہےQuality enhancement کے مطابق وہ کیا مقام رکھتا ہے۔لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ہم نے کوشش کی ہو یہ معلوم کرنے کی کہ ترکی میں اسلام پر، معیشت پر، معاشرت پر جو کچھ طبع ہوا ہے گزشتہ دو سے پانچ سال میں ان مطبوعات کو کس حد تک لوگوں نے پڑھا ہے۔ آپ کو جان کر شاید حیرت ہو کہ ترکی اور ایران میں بالعموم جو چیز بھی مغربی جامعات سے طبع ہوتی ہے وہ چند مہینوں میں ترجمہ ہوکر مقامی زبان میں آجاتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں جو چیز 1960ء میںطبع ہوئی ہے اسے آج تک ہم گھس رہے ہیں۔ آپ علم کی وسعت، نئے زاویے اور علم کے دروازے بند کردیں گے تو علم کیسے پھیلے گا؟ اس کے باوجود پاکستان میں کام ہوا ہے اور آپ ہی کے ملک سے معیشت پر لوگوں نے ایوارڈ حاصل کیے ہیں، اسلامی معیشت اور اسلامی فکر پر مولانا مودودی کے علاوہ دو پاکستانیوں کو فیصل ایوارڈ دیا گیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں کمی تو کہی جاسکتی ہے لیکن کام برابر ہوا ہے اور ہورہا ہے، اور امپیکٹ فیکٹر مضامین میں ہمارے بہت سے مسلم ممالک بہت آگے بڑھے ہیں، بہت اضافے ہوئے ہیں، لیکن مزید آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
س: ایک سادہ سا سوال ہے کہ مغرب کے عروج کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا واقعی مغرب اور مغربی تہذیب زوال پذیر ہے؟ اور ہے تو زوال کا یہ سفر کچھ لمبا نہیں ہوگیا؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: مغرب کے عروج کا سبب وہی ہے جو کبھی ہمارا تھا، ہم نے محنت کی توجہ کے ساتھ، قربانی کے ساتھ، عالمی تحقیق کو وقت دیا، نتائج نکلے۔ فرق یہ تھا کہ ہم نے کام اس لیے کیے کہ اس کا مطالبہ ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا، جبکہ مغرب نے یہ کام اس لیے کیا کہ اس میں اُس کے لیے منفعت تھی، مادّی فائدہ تھا۔ اہداف مختلف تھے لیکن کام ایک تھا۔ مجھے بتائیے کہ مغرب کی کون سی یونیورسٹی یا ادارہ ایسا ہوگا کہ جہاں پر ایک شخص جب داخل ہوتا ہے اور جب نکلتا ہے، اس پورے عرصے میں وہ اپنے کام میں مصروف رہتا ہے توجہ کے ساتھ؟ مقابلہ کیجیے جس جامعہ سے آپ نے پڑھا،یا جو آج کل کالج یا جامعات ہیں کیا وہاں پر ہر استاد یا طالب علم اس طرح داخل ہوتا ہے کہ جب وہ داخل ہورہا ہے تو یہ سمجھے کہ یہ مادرِ علمی ہی نہیں ہے بلکہ ایک مسجد ہے جہاں پر وہی اہتمام ہو جو ایک مسجد کا اہتمام ہوتا ہے۔ آپ مسجد میں جاکر فٹبال نہیں کھیلتے، مسجد میں جاکر آپ توجہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں، آخر وقت تک کرتے ہیں۔ تو کیا وہ یہ کررہا ہے؟ نہیں کرے گا تو نتائج کیا ہوں گے؟ گویا جو چیز ہم نے کی اور ہم کامیاب ہوئے اسی سے مغرب کامیاب ہوا۔ رہی بات زوال کی، تو اقبال نے تو بہت صاف یہ بات کہہ دی تھی کہ اس کی ظاہری چمک اور نمائش ہے جسے آپ دیکھ رہے ہیں، جبکہ اس کی اصل قوت تو ختم ہوچکی۔اقبال مغربی تہذیب کی اپنے ہاتھوں خود کشی کا تذکرہ کر چکے ہیں اور تمام سائینسی ترقی کے باوجود مغرب آج جس اخلاقی اور معاشرتی زوال کا شکار ہے یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اقبال کے بعد قائد نے بھی کہا تھا اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر کہ یہ معیشت کینسر زدہ معیشت ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔ ان دونوں افراد کے کہنے کے بعد آپ نے دیکھا جو کرائسز 2008ء میں ہوئے، سو معاشی شہروں میں جلوس نکالے گئے یہ طالبان نہیں تھے بلکہ کاروبار سے وابستہ افراد تھے، اور انہوں نے کہا کہ Capitalism and Secularism has failed جس پر کتابیں لکھی گئیں بلکہ آج تک لکھی جارہی ہیں۔ مجھے بتائیے کہ ایک ایسا ملک جو طاقتور ہونے کے دعوے کرتا ہے اُس کے اندر اِس وقت اگر آپ گزشتہ ایک سال کا نیویارک ٹائمز اٹھا کر دیکھ لیں تو وہ کوف مین ہو یا دوسرے افراد ہوں، روزانہ جو بات لکھ رہا ہے وہ کیا ہے؟ کہ یہ زوال کی آخری حد ہے۔ یہ چیز تحریری طور پر بار بار آرہی ہے۔ فرید زکریا نے امریکہ کے زوال پر پوری کتاب لکھ دی۔ خاندان مکمل ٹوٹ چکا، معیشت گروی رکھ دی گئی، امریکی ریاست خود 16ٹریلین ڈالر کی مقروض ہے، ہم اس سے قرضہ مانگتے ہیں جو خود اپنے عوام کا مقروض ہے۔ ہماری تو ہر چیز ہی نرالی ہے، لیکن ہم مشاہدہ نہیں کرتے، مطالعہ نہیں کرتے۔ زوال تو ہورہا ہے اور ہے، جیسے اقبال نے کہا تھا، مولانا مودودی نے کہا تھا۔ انہوں نے یہ بات کہی تھی کہ وہ وقت آرہا ہے جب اشتراکیت ماسکو میں اور سرمایہ داری واشنگٹن میں کانپے گی، پریشان ہوگی۔ تو اشتراکیت کا جنازہ تودفن بھی ہو چکا اب دوسرا مریض اس راستے پر چل رہا ہے۔
س: مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو گزشتہ دوسو سال میں ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مغرب سے ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ امت مسلمہ اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ نہیں کرسکی۔ امتِ مسلمہ میں کئی گروہ پائے جاتے ہیں، ایک گروہ مغرب کو حق سمجھتا ہے اور اسی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اسلام اور مغرب کا امتزاج بنانا چاہتا ہے۔ اور ایک بہت چھوٹا سا طبقہ جو مغرب کو اصولوں کی سطح پر،کلیات کی سطح پر دیکھتا ہے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ آخر امتِ مسلمہ میں مغرب کے حوالے سے اتنا کنفیوژن کیوں موجود ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:جس چیز کا نام اسلام ہے وہ ایک ہدایت ہے، دعوت ہے اور پیغام ہے، اور وہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اس لیے مغرب ہو یا مشرق، ایک مسلمان کا زاویۂ نظر یہ ہونا چاہیے کہ اسے اپنے دین کے پیغام کو بھلے انداز سے پھیلانا اور پہنچانا ہے، اس کا تعلق ایک داعی اور مدعو کا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تعلق دشمنی کا نہیں ہوسکتا، نفرت کا نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ایک مسلسل مکالمے کا تعلق ہے۔ گویا اسلام یہ چاہتا ہے کہ اسلام کا ہر ماننے والا مشرق اور مغرب کے ساتھ ایک مکالمہ جاری رکھے جس میں وہ اپنی بات کو وضاحت کے ساتھ، آسانی کے ساتھ پیش کرتا رہے۔ اور اگر اس میں کامیابی ہوجاتی ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ نہیں ہوتی ہے جب بھی اسے مطمئن ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ہمارا تصور یہ نہیں ہے کہ ہر وہ چیز جو مغرب کی ہے وہ اچھی یا بری ہے، بلکہ ہمارا تصور یہ ہے کہ ہمیں مشرق و مغرب دونوں کو اسلام کی اچھائیوں سے متعارف کرانا ہے، آگاہ کرنا ہے، اور اگر وہ کچھ چیزیں ایسی کررہے ہیں جو ہمارے اصول سے متصادم نہیں ہیں تو ہم اس کو منع نہیں کریں گے۔ فرض کیجیے کہ اگر ایک مغربی سرجن کان کی سرجری کا کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرتا ہے جس سے لوگوں کی سماعت میں آسانی ہوجاتی ہے تو چونکہ وہ مغربی سرجن ہے ہم یہ کہیں گے کہ ہم اس طریقے کو اپنے اسپتالوں میں استعمال نہیں کریں گے؟ ہمارا دشمن ہے؟ نہیں! اگر کوئی فکر ایسی ہے جو انسانی حقوق سے تعلق رکھتی ہے اور وہی اسلام کہتا ہے ہم اس کی مخالفت تو نہیں کریں گے۔ اسلام کہتا ہے کہ حیا ایک قیمتی چیز ہے، اور مغرب کہتا ہے کہ حیا بے کار چیز ہے، یہ تو انسان کو دقیانوسی بناتی ہے، جتنا انسان عریاں ہوگا اتنا ترقی یافتہ ہوگا،ہم اس تصور کو لازماً رد کر دیں گے۔ گویا مغرب ہو یا مشرق، ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارا اپنا پیمانہ کیا کہتا ہے۔ اگر اسلام کہتا ہے کہ یہ چیز ہمارے لیے قابل قبول یا قابلِ گوارا ہے تو ہم اس کو گوارا کریں گے، اور اگر نہیں ہے تو اسے رد کریں گے، اس کا انکار کریں گے۔ ہمارا تعلق ہوگا مکالمے کا اور دعوتِ فکر کا۔ ہمارا تعلق وہ نہیں ہوگا جیسا بعض لوگ کہتے ہیں مستقل ٹکرائوکا اور جہاد قرار دے کر اس کے خلاف برسرپیکار رہنے کا۔ بلکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ آپ پوری دنیا کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں حکمت کے ساتھ، محبت کے ساتھ، خلوص کے ساتھ، اور اس کو آخرکار اسلام کی آماجگاہ بنائیں۔
س: اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دو سو سال سے یہ طے نہیں کرپارہے ہیں کہ ہمارے تعلقات مغرب کے ساتھ کس نوعیت کے ہونے چاہئیں؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد:میرے خیال میں کنفیوژن بعض لوگوں کو ہوبھی سکتا ہے لیکن میری نگاہ میں کوئی کنفیوژن نہیں پایا جاتا۔ میں مطمئن ہوں کہ قرآن جو مجھے بتاتا ہے وہ راستہ مکالمے کا ہے، وہ راستہ اپنی بات کو پیش کرنے کا دلائل کے ساتھ، بھلائی کے ساتھ، اس میں کوئی ٹکرائو نہیں پایا جاتا ہے۔
س: ایک عمومی خیال ہے کہ مسلمانوں کا زوال اس وجہ سے ہوا کہ وہ علم وہنر وفنون میں اور تسخیر کائنات میں پیچھے رہ گئے، مغرب نے ان میدانوں میں سبقت حاصل کی اور اُس نے عروج پایا ؟
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد: اس بات میں وزن ہے لیکن دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا ترقی، کامیابی اور فلاح محض سائنسی ایجادات، جلیبی نما شاہراوں اور طویل پلوں کی تعمیر کا نام ہے یا ایسے انسانی معاشرہ کے قیام کا نام ہے جہاں امن و سکون، عزت نفس، رشتوں کا احترام، خواتین، معمر افراد اور بچوں کی عزت و تحفظ پایا جاتا ہو، جہاں معاشی عدل ہو، جہاں دینی آزادی ہو، جہاں آنے والی نسلوں کے لیے محبت ہو یا ترقی کامیابی اور فلاح اس کا نام ہے کہ آپ گھر پر تنخواہ کتنی لے کر جاتے ہیںاور آپ کا مکان کتنے رقبے پر تعمیر ہوا ہے۔اور آپ کی سواری کی گاڑی کی قیمت کیا ہے؟
میں سمجھتا ہوںکہ معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کے باوجود اور اپنی بہت سی اسلامی اقدار کو بھلا دینے کے باوجود ہم آج بھی مغرب و مشرق سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ہم خود اپنی قدر سے آگاہ نہیں ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مغرب کی سائنسی ترقی سے آگے نکلنے کی کوشش نہ کریں۔اسلام ہر معاملہ میں نقطہ کمال یا اتقان کے حصول کا نام ہے۔اس لیے ہمیں تجرباتی علوم میں آگے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ (جاری ہے)

حصہ