ہم کیوں مسلمان ہوئے

220

سر جلال الدین لارڈ برنٹن (انگلستان)
سر جلال الدین لارڈ برنٹن آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ انگلستان کے ایک ممتاز جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور زبردست عزت و افتخار اور نیک نامی کے حامل تھے۔

قبولِ اسلام کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں میں اللہ تعالیٰ کا بے پناہ شکر ادا کرتا ہوں۔ آج میرا دل مسرت و انبساط کے ایسے جذبات سے بھرپور ہے جنہیں میں بیان کرنے پر اپنے آپ کو قادر نہیں پاتا۔

میرے والدین عیسائی تھے۔ وہ مجھے ابتدا ہی سے پادری بنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ میں نے عیسائیت کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور فارغ ہونے کے بعد چرچ آف انگلینڈ سے وابستہ ہو گیا‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کا م میں کبھی گہری دل چسپی سے نہ لے سکا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مجھے جس عقیدے نے سخت پریشان کرنا شروع کیا وہ انسان کے ازلی گناہ گار ہونے کا عقیدہ تھا۔ پھر اس پر یہ تصور کہ معدودے چند افراد کے سوا باقی ساری مخلوق دائمی عذاب سے دوچار ہوگی۔ یہ نظریات اتنے مکروہ تھے اور مجھے ان سے اتنی گھِن آتی تھی کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میں تقریباً بے دین ہو گیا۔ مذہب کا سارا ڈھانچہ میری نظروں میں مشکوک ہو گیا۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ انسان خدا کا شاہکار ہے‘ ساری مخلوقات پر برتری رکھتا ہے‘ پھر اسے ازلی گناہ گار قرار دینا اور ہمیشہ کے عذاب کا مستحق ٹھیرانا کہاں کی دانش مندی ہے۔ یہ تصور تو براہِ براست خالقِ کائنات پر اہتمام کی حیثیت رکھتا ہے اور اس آئینے میں تو اس کی تصور کچھ ایسی پسندیدہ نہیں ہے۔ میں اگرچہ اب بھی موہوم انداز میں خدا پر یقین رکھتا تھا مگر خدا تعالیٰ کی کنہ تک پہنچنے کے لیے میں نے دوسرے مذاہب کا مطالعہ شروع کیا۔

اسلام کے مطالعے کی ابتدا ہی سے یہ راز مجھ پر کھل گیا کہ یہ مذہب انسانی فطرت کے قریب ہے‘ شکوک و شبہات کی گرہیں کھلتی چلی گئیں اور میرے اندر سچے خدا کی عبادت اور خدمت کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ میں نے دیکھا کہ عیسائیت کے سارے عقائد کی بنیاد بائبل کی تعلیمات پر استوار بتائی جاتی ہے مگر ان میں تو زبردست تضاد پایا جاتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بائبل اور حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات تحریف کا شکار ہو چکی ہیں؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے میں نے بائبل کا گہرا ناقدانہ مطالعہ جاری رکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعی یہ کتاب تغیر و ترمیم سے محفوظ نہیں ہے اور اس میں بہت سے لوگوں کے خود ساختہ عقائد راہ پا گئے ہیں۔

اسلام کے مطالعے نے مجھے بتایا کہ انسان میں ’’روح‘‘ نام کی ایک غیر مرئی قوت ہوتی ہے جو کبھی نہیں مرتی۔ گناہوں کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی اور اگر انسان خلوصِ دل سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی ساری رحیمی و کریمی کے ساتھ گناہوں کو معاف کرنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔

اب میں نے اپنا تمام وقت صرف اسلام کے مطالعے کے لیے وقف کر دیا اور اس نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ تلاشِ حق کے لیے میں نے جو مطالعہ اور غور و فکر کیا وہ رائیگاں نہیں گیا اور میں نے اپنے اندر اس دین کے لیے بے پناہ کشش محسوس کی‘ یہی کشش مجھے برصغیر کے ایک شہر لاہور میں لے گئی۔ یہاں میں نے ایک نواحی بستی اچھرہ میںقیام کیا جہاں کی بیشتر آبادی اسلام کے ماننے والوں پر مشتمل تھی۔ میرے شب و روز انہی لوگوں کے درمیان گزرتے تھے جو جفاکش اور سادہ دل تھے اور غربت و افلاس کے باوجود صابر و قانع اور خوش و خرم تھے۔ میں نے ان سے اسلام کا عملی سبق لیا۔ دین داری اور بھائی چارے کا احساس یہاں کے سارے ماحول پر حاوی تھا۔ میں نے ان لوگوں کے ساتھ بذات خود خون پسینہ ایک کیا اور خاصے عرصے تک ان کے ساتھ رہ کر ان کی عادات اور عقائد کا بغور مشاہدہ کیا۔

اب تک میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ عیسائی رسولِ عربیؐ کے شدید مخالف اور نکتہ چیں ہیں۔ بہرحال میں نے اس طرف توجہ کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ شروع کیا اور بہت جلد محسوس کر لیا کہ آپؐ حق و صداقت کا روشن مینار ہیں اور خدا تک آپ کو مکمل رسائی حاصل ہے۔

میں نے دیکھا کہ انسانیت پر اس بشرِ کاملؐ کے اتنے احسانات ہیں کہ ان کے خلاف بغض کا اظہار کرنا ظلمِ عظیم ہے۔ وہ لوگ جو وحشی تھے‘ بتوں کی پوجا کرتے تھے‘ جرم و گناہ اور بے حیائی میں سر تاپا سر ڈوبے ہوئے تھے۔ آپؐ نے ان کو عزتِ نفس‘ وقار‘ احترامِ انسانیت اور پاکیزگی کا درس دیا اور ان ساری صفات کے ساتھ خدائے واحد کے حضور میں لا کھڑا کیا۔ اعلیٰ انسانی قدروں نے فروغ پایا۔ شراب نوشی کا قلع قمع ہو گیا اور اسلامی معاشرہ پاکیزگی اور تقدس کی اس سطح تک پہنچا کہ تاریخ میں کہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ میں نے سوچا ان عدیم النظیر کارناموں کے علاوہ پیغمبرِ اسلام کی اپنی ذات جس قدر بے عیب اور منزّہ تھی‘ اس کی موجودگی میں ان پر عیسائیوں کی خردہ گیری بدترین شقاوت اور سیاہ قلبی کے سوا کچھ نہیں۔

عیسائیت کے خلاف میری بغاوت لحظہ بہ لحظہ تیز ہوتی جا رہی تھی اور میں اکثر غور و فکر کی حالت میں رہتا کہ ایک دن ایک مسلمان میاں امیر الدین سے میری ملاقات ہوئی۔ اسلام کے موضوع پر ان سے باتیں ہوئیں۔ میں نے بہت سے سوال کر ڈالے اور میاں صاحب نے ہر بات کا جچے تلے انداز میں جواب دیا۔ مجھے کامل اطمینان اور یکسوئی حاصل ہو گئی۔ میاں امیر الدین نے میری چنگاری کو شعلے میں تبدیل کر دیا اور جب مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام ہی دینِ حق اور مکمل ضابطۂ زندگی ہے تو میں نے ایک روز اس کے حلقہ بگوش ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ بحمدللہ اب میں مسلمان ہوں اور اسلام کی روحانی نعمتوں سے بہرور ہوں۔ میں نے عزم کر لیا کہ ان نعمتوں سے دوسری انسانیت کو بھی فیض یاب کروں گا‘ ان شاء اللہ۔

حصہ