جو،ایک سادہ غذا جو بے حد شفا بخش ہے

405

نان جویں کا ذکر آتے ہی نفس کشی اور خدا ترسی کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ ’’جَو‘‘ اور تزکیۂ نفس کے تعلق کا اندازہ وہی لوگ بہتر طور پر لگا سکتے ہیں جنہیں کبھی خالی پیٹ صرف جَو کی سادہ روٹی میسر آئی ہو اور اسے نگلنے کی لذت سے وہ آشنا ہوئے ہوں۔ یہ سستا اناج اپنے اندر نہ صرف تمام ضروری غذائی اجزا رکھتا ہے بلکہ بنی نوع انسان کو متعدد تکالیف سے نجات دلانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

جو کو عربی میں ’’شعیر‘‘ اور انگریزی میں ’’بارلے‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو کا پودا اور اس کے بیج دونوں ہی گندم سے مشابہت رکھتے ہیں۔ تمام میدانی گرم علاقوں میں اسے کاشت کیا جاسکتا ہے۔ جو کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زود ہضم ہے‘ اسے دستوں کی روک تھام کے لیے استعمال کروایا جاتا ہے۔ گردے اور مثانہ کے امراض میں بھی مفید ہے‘ کھانسی اور گلے کی خراش کے مریضوں کو بھی جو فائدہ پہنچاتا ہے۔ جو ہی سے مالٹ بنایا جاتا ہے جو غذائیت رکھنے کے ساتھ ساتھ دوائوں کو خوش ذائقہ بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے خاص طور پر روغن جگر ماہی (کاڈلیور آئل) جن نسخوں میں شامل ہو ان میں مالٹ ملا کر اس کی بدمزگی کو دور کر دیا جاتا ہے۔

وہ مریض جنہیں نگلنے میں دشواری ہو یا وہ جگر‘ معدے اور آنتوں کی تکالیف کی بنا پر سخت دیر ہضم یا تیز غذائیں ہضم نہ کر سکتے ہوں‘ انہیں جَو کا استعمال کرنا چاہیے۔ ایسے مریضوں کو چاہیے کہ جَو اور گندم برابر مقدار میں پسوا کر ملا لیں اور اس کی روٹی کھائیں ایسی روٹی قبض اور تیزابیت معدہ میں مبتلا لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ جَو کو پانی میں خوب پکا کر گلا لیا جاتا ہے پھر اسے گھوٹ کر کھایا جاتا ہے۔ اسے ’’کٹک الشعیر‘‘ کہا جاتا ہے یہ بھی معدے کے مریضوں اور دست کے شکار لوگوں کو خاص طور پر استعمال کروایا جاتا ہے۔ ایک اور مفید غذا آبِ جو (بارلے واٹر) ہے۔

آبِ جو تیار کرنے کا طریقہ ہے کہ ایک حصہ جَو لے کر پہلے اسے پانی سے اچھی طرح دھو لیا جائے اس کے بعد نو حصے پانی میں اسے بیس منٹ تک پکا کر چھان لیا جائے۔ چھنے ہوئے پانی میں شکر یا شہد ملا کر نوش کیا جائے۔ پھلوں کا رس بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ آبِ جو ان مواقع پر بہت مفید ثابت ہوتا ہے جب کوئی غذا ہضم نہ ہو رہی ہو اور جسم میں پانی کی قلت ہونے کے ساتھ ساتھ کمزوری بڑھتی جا رہی ہو۔ آبِ جَو سہولت کے ساتھ ہضم ہو جاتا ہے‘ جسم میں پانی کی کمی اور کمزوری دور کر دیتا ہے اور ضروری غذائی اجزا فراہم کرتا ہے۔ یہ جگر پر بار بننے کے بجائے اس کے فعل اور حالت کو درست کرتا ہے۔

جَو چونکہ پیشاب آور ہے اس لیے اس کے استعمال سے پیشاب بھی کھل کر آتا ہے اور گردوں و مثانہ کی حدت اور جلن رفع ہو جاتی ہے۔آبِ جَو میں ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ معدے اور آنتوں کے زخموں کو مندمل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جَو کا مزاج چونکہ ٹھنڈا ہے اس لیے اس کی وجہ سے معدے کی بڑھی ہوئی حدت کم ہو جاتی ہے پھر اس کا ردعمل کھاری ہے‘ کھاری چیزیں معدے کی تیزابیت کو دور کر دیتی ہیں۔ اپنے مزاج کی ٹھندک اور پیشاب لانے کی صلاحیت کی وجہ سے تیز بخار کی صورت میں آبِ جوَ پلایا جاتا ہے اس طرح بخار کی تیزی کم ہوجاتی ہے اور مریض کو ضروری غذائیت بھی فراہم ہو جاتی ہے۔

جَو میں چونکہ گندم کے مقابلے میں غذائیت کم ہے اس لیے ایسے لوگوں کو خاص طور پر استعمال کروایا جاتا ہے جن کا وزن بڑھا ہوا ہو اور وہ زیادہ کھانے کے عادی ہوں۔ ایسے افراد کے لیے جَو کا ستو بہت مناسب رہتا ہے۔ جَو کا ستو اسی طریقے سے بنایا جاتا ہے جس طرح دیگر اناج کے ستو بنائے جاتے ہیں یعنی جو کو ہلکی آنچ پر بھون کر باریک پسوا لیا جائے۔ بڑھے ہوئے وزن کے حامل افراد کو تو چاہیے کہ جو کا ستو پانی میں ملا کر کھانے کی جگہ لیں۔ اس طرح پیٹ بھی بھر جاتا ہے‘ غذائیت بھی کم حاصل ہوتی ہے اور معدے کی تیزابیت کم ہونے کی وجہ سے بھوک بھی کم لگتی ہے۔ دیگر افراد جو کی ستو کو دودھ میں ملا کر استعمال کر سکتے ہیں اس میں شکر ملائی جاسکتی ہے۔ جَو کا ستو استعمال کرنے سے پیشاب کھل کر آتا ہے اور جلن اور سوزش رفع ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ جنہیں گردہ یا مثانہ کی پتھری کی شکایت ہو‘ اسے اپنی غذا میں خاص طور پر شامل کر سکتے ہیں۔ جَو کے ستو میں گرمی کو تسکین دینے کی خصوصیت ہے اس لیے موسمِ سرما میں اور افطار و سحر کے وقت بھی استعمال کرنا چاہیے۔

جَو آنتوں پر قابض اثرات رکھتی ہے‘ جب اسے بھون لیا جائے تو اس کے یہ اثرات بڑھ جاتے ہیں اس لیے جَو کا ستو ان لوگوں کو بھی استعمال کرنا چاہیے جنہیں دست کی شکایت ہو یا جن کی آنتیں کمزور ہوگئی ہوں۔

آنتوں کی ایک بیماری ’’زلق المعاء‘‘ (آنتوں کی پھسلن) کہلاتی ہے اس مرض میں ہوتا یہ ہے کہ جو بھی غذا کھائی جائے وہ معدہ اور آنتوں میں ٹھہرتی نہیں ہے بلکہ ہضم کا عمل مکمل ہونے سے قبل ہی پھسل کر خارج ہو جاتی ہے اس لیے کھانے کے فوراً بعد فراغت کے لیے جانا پڑتا ہے اور اکثر غیر ہضم شدہ چیزیں فضلہ کے ساتھ خارج ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں جَو کا ستو بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ یہ آنتوں کی پھسلن کو کم کرکے قبض کی صورت پیدا کرتا ہے اس طرح غذا آنتوں میں اتنی دیر ٹھیرنے لگتی ہے کہ وہ آسانی سے ہضم ہو جائے۔

بھارت کے ماہرین طب نے زچہ کے دستوں کی صورت میں جَو کے ستو کو مفید بیان کیا ہے۔ وہ جَو کے ساتھ مسور بھی پانی میں ابال کر یہ پانی زچہ کو پلواتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح کمزوری بھی دور ہو جاتی ہے۔

جو کھانسی اور گلے کی خراش و خشکی میں بھی فائدہ دیتا ہے۔ اس غرض سے آبِ جو پلایا جاتا ہے اور اسے مختلف دوائوں کے ساتھ جوش دے کر پینے کی ہدایت بھی کی جاتی ہے خاص طور پر گرمی اور خشکی کی وجہ سے ہونے والی کھانسی اور حلق کی سوزش میں یہ بہت مفید ہے۔ دق کے مریضوں کے لیے بھی جَو عمدہ غذا ہے کیوں کہ اس مرض میں مبتلا افراد کی آنتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جو کا پانی بخار کو کم کرتا ہے‘ جسم کی پرورش کرتا ہے اور خشکی دور کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نظام ہاضمہ پر بار نہیں بنتا۔ آبِ جو تیار کرتے وقت اگر اس میں کیکڑا بھی شامل کرکے ’’کریب بارلے سوپ‘‘ بنا لیا جائے تو یہ سوپ دق کے مریضوں کے نہ صرف پھیپھڑوں کے زخموں کو بھرنے کا باعث بنے گا بلکہ انہیں غذائیت بھی فراہم کرے گا۔

جِو کے پودوں کو جلا کر ان کی راکھ سے مخصوص طریقے پر ’’جواکھار‘‘ تیار کیا جاتا ہے۔ ’’جواکھار‘‘ کئی امراض میں مفید ہے‘ یہ پیشاب آور ہے‘ اس لیے گردے اور مثانے کے امراض نیز یرقان کی صورت میں کثرت سے استعمال کروایا جاتا ہے۔ پیشاب لانے کے ساتھ ساتھ یہ پتھری کو بھی توڑ دیتا ہے۔ وہ مریض اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جنہیں بھوک نہیں لگتی یا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے جواکھار کو بہت سی ہاضم دوائوں خصوصاً چورن میں شامل کیا جاتا ہے۔ جواکھار بلغم کو خارج کرتا ہے اس لیے بلغمی کھانسی اور دمہ کے مریضوں کو بھی استعمال کروایا جاتا ہے۔ اس کی مقدار نصف سے ایک گرام تک ہے زیادہ مقدار میں لینے سے متلی اور قے ہونے لگتی ہے اور طویل عرصے تک استعمال کرنے سے آنتیں کمزور ہو جاتی ہیں اور دست آنے لگتے ہیں۔

جو کو زمانہ قدیم سے رنگ روپ نکھارنے اور آرائش حسن کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جَو کو تنہا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور مختلف غازوں (ابٹن) میں اسے شامل کیا جاتا ہے۔ جلد کی رنگت صاف کرنے‘ داغ دھبے مٹانے اور جلد کو تر و تازہ رکھنے کی غرض سے بھنے ہوئے جَو کے آٹے کو دودھ‘ روغن چنبلی یا روغن بادام میں گوند کر ابٹن کی طرح پورے جسم یا چہرے پر ملنا چاہیے ایک اور طریقہ یہ ہے کہ جَو‘ گندم اور چنوں کو بھون کر ان کا آٹا تیار کروا لیا جائے‘ اس میں نصف وزن کے برابر خربوزے کے چھلکے اور چوتھائی وزن کے برابر بالچھر‘ باریک سفوف بنا کر ملائے جائیں پھر روغن بادام تلخ‘ تھوڑا سا شامل کرکے پانی کی مدد سے آٹے کی طرح گوندھ لیا جائے۔ اب اسے جلد پر اچھی طرح ملا جائے۔ نصف گھنٹے بعد غسل کر لیا جائے اس طرح جلد ملائم اور صاف ستھری ہو جاتی ہے اور داغ دھبے دور ہو جاتے ہیں۔

آبِ جَو بھی چہرے کی جلد کو تروتازہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس غرض سے کھانے کے تین چمچے جَو‘ تین پیالی پانی میں ہلکی آنچ پر پکا لیں۔ اس کے بعد اسے چھان کر ٹھنڈا کر لیں اب اس پانی سے چہرے کو اچھی طرح تر کر لیا جائے۔ چہرہ خشک ہونے لگے تو جلد کے پانی سے پھر تر کر لیں۔ اس طرح بیس منٹ تک یہ عمل جاری رکھیں اس کے بعد ٹھنڈے پانی سے منہ دھو کر خشک کر لیا جائے۔ اگر زیادہ دنوں تک استعمال کرنا ہو تو آپ جَو زیادہ مقدار میں تیار کرکے فریج میں رکھ سکتے ہیں۔ آبِ جَو کے اس بیرونی استعمال کے ساتھ ساتھ آبِ جو کو پھلوں کے رس میں ملا کر یا اس میں شہد ملا کر پیا جائے تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

حصہ