ایک صدی پر محیط شخصیت علامہ یوسف القرضاوی

609

ڈاکٹر یوسف القرضاوی کو میں اپنے بچپن سے جانتا ہوں، میں نے تقریباً 35 سال قبل ان کی پہلی جو کتاب پڑھی تھی، اُس کا نام ’’حلال و حرام‘‘ تھا جس کا اردو ترجمہ مولانا شمس پیرزادہ نے کیا تھا اور مولانا مختار احمد ندوی نے اپنے ادارہ ’’الدار السلفیہ ممبئی‘‘ سے شائع کیا تھا، تو اُس وقت سے آج تک میں ان کو پڑھتا ہی گیا ہوں۔

جدید فقہی مسائل و مسلک کے حوالے سے میرا رجحان ہمیشہ ان کی طرف راغب رہا ہے کیوں کہ ان کی تحقیقات مجھے زیادہ اپیل کرتی تھیں، چنانچہ جب میں نے ان کے انتقال کی خبر پڑھی تو مجھے بہت ہی رنج اور صدمہ ہوا، لیکن موت کا تعلق قانونِ فطرت سے ہے، اس سے پیغمبروں کو بھی مفر نہیں لیکن جب اس طرح کی شخصیات داغ مفارقت دے جاتی ہیں، تو بہت دکھ ہوتا ہے۔
اس وقت جو مضمون میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں ، وہ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے لکھا ہے اس لیے امید کرتا ہوں کہ آپ اسے خود بھی پڑھیں گے اور اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر بھی کریں گے۔

عصر حاضر کے مشہور و معروف عالمِ دین و مفکرِ اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی9 ستمبر 1926ء کو مصر کے ’’صفط تراب‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے، انہوں نے جامع ازہر میں تعلیم پائی‘ مصر اور مصر سے باہرخدمت دین کے فرائض انجام دیتے رہے۔

انہوں نے اپنی تقریباً ایک صدی پر پھیلی زندگی میں مصر کی ظالمانہ حکومتیں بھی دیکھیں، علما پر تشدد اور انہیں تختہ دار پر جھولتے بھی دیکھا، دین پسند مرد و خواتین‘ خاص کر نوجوانوں پر مظالم کے توڑے گئے پہاڑ جیسے بھیانک مناظر بھی دیکھے، جیل کی سلاخوں اور وہاں قیدیوں پر انسانیت سوز ظلم و تشدد کی انتہا بھی دیکھی، لیکن وہ اپنے عزم و استقلال پر چٹان کی طرح قائم رہے۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی نہ صرف انقلابی شخصیت کے مالک تھے بلکہ وہ مجتہدانہ صلاحیتوں کے مالک بھی تھے، ان پر فکری اثرات میں امام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم ، سید حسن البنا، سید قطب جیسے علماء کا غالب اثر تھا۔

انہوں نے جو لٹریچر چھوڑا ہے اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بہت حد تک اعتدال اور توازن پر مبنی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ دور کے عالمِ عرب کے اُن گنے چنے علما میں سے ایک ہیں جو آج کی تاریخ میں سب سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔
اگرچہ ان کے بعض تفردات کی وجہ سے ان سے اختلاف رائے بھی کیا گیا ہے اور کسی بڑے عالم دین کے بارے میں یہ کوئی معیوب بھی نہیں ہوتی کیوں کہ ہر دور کے علماء کی آرا و تحقیق سے اتفاق و اختلاف بھی کیا گیا ہے مگر ان علما کی دینی خدمات سے کسی نے انکار نہیں کیا بلکہ ان کا کھل کر اعتراف کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی بھی عظیم الشان علمی و دعوتی خدمات کے اعتراف میں ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ اور دبئی کی اسلامی شخصیت ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

ڈاکٹر یوسف القرضاوی پچھلے سال کووڈ کے بھی شکار رہے تھے، اگرچہ وہ اس تکلیف سے باہر بھی آئے تھے لیکن بڑھتی عمر کی وجہ سے ان کی صحت پوری طرح سنبھل نہ سکی تھی کہ ان کو اللہ کی طرف سے بلاوا آگیا اور وہ 26 ستمبر 2022ء کو اس دارِ فانی سے 96 سال کی عمر میں کوچ کر گئے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کو گوناگوں صلاحیتوں سے نوازا تھا‘ انھوں نے اپنی مجتہدانہ صلاحیتوں کے ذریعے نئی نسل کے لیے کئی فکر انگیز کتابیں لکھیں جن کی تعداد تقریباً 120 بتائی جاتی ہے، خاص کر انہوں نے دور جدید کے تقاضوں کو ملحوظ نظر رکھ کر فقہی اور اسلامی اصول مرتب کیے اور جدید مسائل کے حوالے سے بھی گراں قدر خدمات انجام دیے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ان کی پانچ کتابیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

(1) ’’ فقہ الزکوٰۃ‘‘
اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا شمس پیرزادہ نے کیا، اس کتاب میں نظامِ زکوٰۃ کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں نظامِ زکوٰۃ کیا ہے ؟ موجودہ دور میں زکوٰۃ کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات جواب طلب تھے؟ اس کتاب میں ان تمام سوالات کے مدلل جوابات ملتے ہیں۔

(2) ترجیحات :
اس کتاب کا اردو ترجمہ گل زادہ شیرپاؤ نے کیا ہے۔ اس کتاب میں ترجیحات کے حوالے سے جس طرح سے گفتگو کی گئی ہے اور جو دلائل پیش کیے گئے ہیں اس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ کتاب پندرہویں صدی ہجری میں ایک شاہکار ہے۔
یہاں پر شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کے دور میں اس طرح کی کتابیں لکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اس کتاب کو نہ صرف ہر مسلمان کو پڑھنا چاہیے بلکہ موجودہ دور کے علما کو خاص طور سے اس کتاب کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہیے۔

(3) ’’اسلام میں غربت کا علاج:‘‘
اس کتاب میں غربت و افلاس کے مضر اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے خاص طور سے ان سے باہر نکلنے کے لیے بہترین وضاحت ملتی ہے، خاص کر بے روزگاری کے مسائل کو لے کر نوجوانوں میں جس طرح کی مایوسی کا ماحول اور خودکشی کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، ایسے بے روزگار نوجوانوں کو اس کتاب کا ایک بار ضرور مطالعہ کرنا چاہیے کیوں کہ اس کتاب میں انہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں بہترین اور حوصلہ بخش رہنمائی ملے گی۔

(4) ’’کھیل کود / تفریحات اور اسلام:‘‘
یہ کتاب 2019ء میں شائع ہوئی ہے، اس کا اردو ترجمہ مولانا ذکی الرحمن فلاحی مدنی نے کیا ہے۔ چونکہ موجودہ دور میں نوجوانوں میں کھیل کود کی طرف جس طرح کا رجحان پایا جاتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، اس سلسلے میں اس کتاب میں کافی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے اور اسی طرح فنونِ لطیفہ کی چیزوں کو لے کر بھی اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کتاب کی بعض باتوں سے اختلاف بھی ہو، مگر مجموعی طور پر اس کتاب کو نوجوانوں کو اپنے مطالعہ میں ضرور رکھنا چاہیے۔

(5) ’’اسلام اور سیکولرازم ، ایک موازنہ:‘‘
اس کا اردو ترجمہ ساجد الرحمن صدیقی نے کیا ہے، جو چند سال قبل منظر عام پر آئی ہے، یہ خود ساختہ سیکولرازم کے نظریہ کے مقابلے میں اسلام کی برتری اور اس کی حقانیت سمجھنے میں ایک بہترین علمی و فکری کاوش ہے ، چنانچہ اس کتاب میں ایک جگہ پر معیارات کے بارے میں چند غور طلب سطریں پڑھنے کو ملتی ہیں اور مفید مطلب ہونے کی وجہ سے میں ان معیارات کو یہاں پر نقل کرتا ہوں ، جو اس طرح ہیں۔

’‘ہم معیارات کی تجدید میں خواہ کتنا ہی اختلاف کریں بہرحال ہمارے پاس معیارات کا ایک متفقہ مجموعہ موجود ہے جس کے ذریعے

سے کسی بھی امر کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے پاس ربانی معیار ہے جو وحی ہے۔
ہمارے پاس انسانی معیار ہے جو عقل ہے۔
ہمارے پاس اجتماعی معیار ہے جو مصلحت ہے۔
ہمارے پاس سیاسی معیار ہے جو دستور ہے۔
ہمارے پاس قومی معیار ہے جو اہلیت ہے۔

ہمارے پاس بین الاقوامی معیار ہے جو انسانی حقوق کی دستاویز ہے۔‘‘

(’’اسلام اور سیکولرزم‘ ایک موازنہ‘‘ : ص 104)

میں نے یہاں پر ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی صرف پانچ کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جب کہ ان کی تمام کتابیں قابل مطالعہ ہیں، خاص کر فقہی مسائل کے حوالے سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں میں جس طرح کے سوالات اور شبہات پائے جاتے ہیں ، ان کی کتابوں میں اس طرح کے مسائل کے بہترین اور تسلی بخش جوابات ملتے ہیں، اس لیے نوجوانوں کو ان کی کتابیں ترجیحی بنیاد پر اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہیے۔

آخر میں عرض ہے کہ کل تک ہم جن کی صحت و سلامتی اور امت مسلمہ پر ان کے سایہ شفقت کے تادیر قائم رہنے کی دعائیں کرتے تھے‘وہ آج مرحوم ہوگئے اور اس وقت ہم علامہ اقبال کے الفاظ میں ان کے بارے میں یہی کہنا چاہیں گے:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے

حصہ