قیصروکسریٰ قسط(69)

181

عاصم نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’مجھے پریشان نہ کرو۔ بتائو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں کیا کرسکتا ہوں؟‘‘۔

’’مجھے معلوم نہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپ کا سپہ سالار کسی بڑی کمک کے بغیر اس مہم کی کامیابی پر یقین نہیں رکھتا۔ اُسے ابھی تک یہ اُمید ہے کہ شاید کسریٰ مزید پیش قدمی کے متعلق اپنا سابقہ حکم منسوخ کردے اور وہ ایک شکست خوردہ جرنیل کے انجام سے بچ جائے۔ اُس کے افسر اور سپاہی اُس سے کہیں زیادہ پریشان ہیں۔ آپ کی بدولت عرب رضا کاروں کے حوصلے قائم ہیں لیکن حبشہ کے حالات سے اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُن کے حوصلے زیادہ عرصہ قائم نہیں رہیں گے۔ ممکن ہے وہ آپ سے بغاوت نہ کریں لیکن ایسا وقت آسکتا ہے کہ آپ کا آخری ساتھی دم توڑتے وقت آپ سے یہ پوچھے کہ ہماری جنگ کس مقصد کے لیے تھی۔ اور آج یہ سوچنا آپ کا کام ہے کہ آپ اُسے کیا جواب دے سکیں گے۔ اب مجھے اجازت دیجیے‘‘۔

کلاڈیوس یہ کہہ کر اُٹھا اور خیمے کے دروازے کے سامنے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گہری نیند سو رہا تھا، لیکن عاصم کی آنکھوں میں نیند نہ تھی اُس کے کانوں میں کلاڈیوس کے الفاظ گونج رہے تھے اور وہ یہ محسوس کررہا تھا کہ وہ اس پرُاسرار نوجوان سے پہلی بار متعارف ہوا ہے۔ وہ دیر تک بے حس و حرکت پڑا رہا۔ پھر اُسے سردی محسوس ہونے لگی اور ایک ساعت بعد وہ ایک ادنیٰ چادر اوڑھ لینے کے باوجود بُری طرح کانپ رہا تھا۔ اُس نے کلاڈیوس کو آوازیں دے کر جگایا اور پانی لانے کے لیے کہا۔ کلاڈیوس نے حکم کی تعمیل کی۔ عاصم نے پانی پینے کے بعد کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہاری نیند خراب کی ہے‘‘۔

’’آپ کی طبیعت ٹھیک ہے نا؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
عاصم نے بستر پر لیٹے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھے سردی محسوس ہورہی ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو بخار ہے‘‘۔
’’میرا سر بھاری ہورہا ہے اور میں اپنے تمام پٹھوں میں درد محسوس کررہا ہوں‘‘۔
کلاڈیوس کے لیے یہ علامتیں نئی نہ تھیں اُس نے مضطرب ہو کر کہا۔ ’’میں طبیب کو بلاتا ہوں‘‘۔

’’نہیں اس وقت طبیب کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔ میں نے اِس بخار میں مبتلا ہونے والے کسی سپاہی کو اُس کی دوا سے شفایاب ہوتے نہیں دیکھا۔ تم پانی کا مشکیزہ میرے قریب رکھ دو اور آرام سے سوجائو‘‘۔

کلاڈیوس نے اُس کے قریب بیٹھے ہوئے کہا۔ ’’آپ میری فکر نہ کریں، میں دن میں کافی سوچکا ہوں‘‘۔
کلاڈیوس باقی رات عاصم کے قریب بیٹھا رہا۔ علی الصباح ایک عرب بھاگتا ہوا خیمے میں داخل ہوا اور اُس نے کہا۔ ’’عاصم آپ کا خیال درست نکلا۔ اس علاقے کے آٹھ سردار آگئے ہیں‘‘۔ عاصم کا چہرہ بخار سے تمتما رہا تھا، تاہم اُس نے جلدی سے اُٹھ کر بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔ ’’کہاں ہیں وہ؟‘‘۔

’’پہریدار انہیں سپہ سالار کے خیمے کی طرف لے گئے ہیں‘‘۔
عاصم نے مشکیزہ اُٹھا کر پانی کے چند گھونٹ پیئے اور پھر جوتا پہن کر کھڑا ہوگیا۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’اِس حالت میں آپ کو باہر نہیں جانا چاہیے۔ اگر آپ اُن لوگوں سے بات کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو انہیں یہاں بلایا جاسکتا ہے‘‘۔

’’نہیں! اِس ملاقات کے لیے سپہ سالار کا خیمہ زیادہ موزوں ہے‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر خیمے سے باہر نکل آیا اور عرب اور کلاڈیوس اُس کے ساتھ ہولیے۔ بخار کی شدت سے عاصم کے پائوں لڑکھڑا رہے تھے۔ کلاڈیوس نے آگے بڑھ کر اُسے سہارا دینے کی کوشش کی لیکن عاصم نے اُس ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں، کلاڈیوس ابھی مجھے تمہارے سہارے کی ضرورت نہیں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد عاصم سپہ سالار کے خیمے کے قریب پہنچا تو باہر سپاہیوں کا ہجوم کھڑا تھا۔ ایک ایرانی افسرنے کہا۔ ’’سپہ سالار کا خیال تھا کہ آپ کو تکلیف نہ دی جائے۔ لیکن یہ اچھا ہوا کہ آپ آگئے‘‘۔

’’آپ تمام قیدیوں کو یہاں لے آئیں اور انہیں خیمے کے باہر بٹھادیں‘‘۔ عاصم یہ کہہ کر کشادہ خیمے میں داخل ہوا۔ قبائلی سردار سپہ سالار کے سامنے ایک خوبصورت قالین پر بیٹھے تھے۔ اور وہ طیبہ کے ایک قیدی کی وساطت سے اُن کے ساتھ باتیں کررہا تھا۔ عاصم کو دیکھتے ہی سپہ سالار نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ آگے بڑھ کر اُس کے قریب بیٹھ گیا۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’عاصم! میرا خیال تھا کہ نہیں تکلیف نہ دی جائے لیکن اب تم آہی گئی ہو تو میں تمہیں ان لوگوں سے گفتگو کرنے کا اختیار دیتا ہوں‘‘۔

’’میرا خیال ہے کہ ہمیں ان لوگوں سے طویل گفتگو کی ضرورت پیش نہیں آئے گی‘‘۔ یہ کہہ کر عاصم مترجم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’تم ان لوگوں سے کہو کہ ہماری جنگ صرف حبشہ کے ساتھ ہے، اگر تم پرامن رہنے کا وعدہ کرو تو ہمارا لشکر راستے میں تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرے گا اور ہم کسی چھیڑ چھاڑ کے بغیر یہاں سے گزر جائیں گے۔ لیکن اگر تم نے ہمارے ساتھ اُلجھنے کی کوشش کی تو تمہاری تمام بستیاں تباہ کردی جائیں گی۔ تمہیں ہماری قوت کا اندازہ نہیں، ایران کا شہنشاہ کئی ملک فتح کرچکا ہے۔ رومی سلطنت تباہ ہوچکی ہے اور اُن کے دارالحکومت پر ہمارا قبضہ ہونے والا ہے۔ ہم نے حبشہ پر اِس لیے چرھائی کی ہے کہ وہاں کا حکمران رومیوںکا حلیف ہے۔ تم سے ہماری کوئی دشمنی نہیں‘‘۔

مترجم کچھ دیر قبائلی سرداروں سے بحث کرتا رہا۔ بالآخر اُس نے عاصم سے کہا۔ ’’جناب! یہ کہتے ہیں کہ ہمارے جو آدمی قیدی بنا کر یہاں لائے گئے ہیں اُن کے ساتھ آپ نے کیا سلوک کیا ہے؟‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’اگر ہمیں یہ اطمینان ہوجائے کہ یہ لوگ ہمیں دوبارہ پریشان نہیں کریں گے تو قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔ اور ہمیں اطمینان دلانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ اپنے چند قابل اعتماد آدمی ہمارے ساتھ روانہ کردیں‘‘۔

طیبہ کے قیدی نے عاصم کی ترجمانی کردی اور اس کے بعد قبائلی سردار تک ایک دوسرے سے بحث کرتے رہے۔ سپہ سالار اُن کا جوش و خروش دیکھ کر پریشان ہورہا تھا۔ بالآخر ایک بوڑھے سردار نے مترجم کی وساطت سے کہا۔ ’’ہمیں آپ کی شرط منظور ہے لیکن ہم صرف اپنے قبائل کو پرامن رکھنے کا ذمہ لے سکتے ہیں۔ اپنے علاقے سے آگے ہمارا کوئی آدمی آپ کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہوگا۔ ہماری ایک شرط یہ بھی ہے‘‘۔

ہمارے علاقے سے گزرتے ہوئے آپ کسی جگہ ایک دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔
سپہ سالار نے جواب دیا۔ ’’ہماری خود اپنی یہ خواہش ہے کہ ہم کسی تاخیر کے بغیر یہاں سے گزر جائیں‘‘۔
اِس کے بعد فریقین کا لب و لہجہ انتہائی دوستانہ تھا، اور گفتگو کے اختتام پر سپہ سالار ان سرداروں میں ریشم کے کپڑوں، تلواروں اور چاندی کے ظروف کے تحائف تقسیم کررہا تھا۔

جب یہ لوگ خیمے سے باہر نکلے تو قیدی اپنے سرداروں کی طرف دیکھ کر شور مچانے لگے۔ ایک دراز قامت نوجوان قیدیوں کی صف سے نکل کر بھاگتا ہوا آگے بڑھا اور بے اختیار ایک سردار سے لپٹ گیا۔ پھر اُس نے ہاتھ سے عاصم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ کہا اور بوڑھے سردار نے احسان مندی سے عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا ’’تم نے میرے بیٹے کی جان بچائی ہے اور آج سے میرا سارا قبیلہ تمہارا دوست ہے‘‘۔

عاصم نے سپہ سالار سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ نوجوان سردار کا بیٹا ہے۔ اس نے میرا گھوڑا ہلاک کیا تھا اور میں اسے بدترین سزا کا مستحق سمجھتا تھا لیکن جب یہ گرفتار ہوا تو اپنی مہم سے بہترین نتائج پیدا کرنے کی خواہش میرے تمام ارادوں پر غالب آگئی‘‘۔
سپہ سالار نے کہا۔ ’’تم نے بہت اچھا کیا اور میں تمہارا شکر گزار ہوں‘‘۔
’’لیکن اب تم اپنے خیمے میں جا کر آرام کرو۔ تمہارا چہرہ تمہاری تکلیف کا پتا دے رہا ہے‘‘۔
عاصم وہاں سے چل دیا۔ ’’طبیب اور کلاڈیوس جو تماشائیوں کے ہجوم سے ایک طرف ہٹ کر باتیں کررہے تھے۔ جلدی سے آگے بڑھ کر اُس کے ساتھ ہولیے۔ عاصم طبیب کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے شکایت کے لہجے میں کہا۔ ’’آپ کا غلام کہتا ہے کہ آپ نے رات سخت تکلیف میں گزاری ہے، آپ نے مجھے بلالیا ہوتا‘‘۔

’’آدھی رات کے وقت آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا۔ پھر مجھے یہ بھی خیال تھا کہ چند زخمیوں کی حالت مجھ سے زیادہ خراب ہے اور وہ آپ کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ مجھے اپنے زخم سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ صرف بخار سے نڈھال ہوگیا ہوں‘‘۔
طبیب نے عاصم کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی نبض دیکھی اور کہا۔ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ کا بخار اتنا شدید ہے تو میں آپ کو بستر سے اُٹھنے کی اجازت نہ دیتا، میں ابھی دوا لے کر آتا ہوں‘‘۔

طبیب یہ کہہ کر ایک طرف چلا گیا۔ عاصم نے اپنے خیمے کی طرف چند قدم اُٹھائے لیکن اُس کی ہمت جواب دے رہی تھی اور جب کلاڈیوس نے آگے بڑھ کر اُسے سہارا دینے کی کوشش کی تو اُس نے احتجاج نہ کیا۔ اپنے خیمے کے اندر داخل ہوتے ہی وہ بستر پر لیٹ گیا۔

طبیب کو عاصم کی اہمیت کا احساس تھا اور وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اُس کی خبر گیری کے لیے آتا رہا۔ لیکن اُس کی ساری کوشش کے باوجود عاصم کے بخار میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ عاصم کے دوست بھی باری باری اُس کی تیمارداری کے لیے آتے رہے۔ سہ پہر کے وقت طبیب نے عاصم کو دوا پلانے کے بعد کہا۔ ’’سپہ سالار نے تین مرتبہ مجھے بلاکر آپ کے متعلق پوچھا ہے اور اب وہ بذاتِ خود یہاں آرہے ہیں‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’انہیں تکلیف کرنے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔
’’وہ کل صبح یہاں سے کوچ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں اور جب سے میں نے انہیں یہ بتایا ہے کہ کل آپ سفر کرنے کے قابل نہیں ہوں گے اس وقت سے وہ بہت پریشان ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی حالت دیکھنے کے بعد وہ اپنا ارادہ ملتوی کردیں گے‘‘۔
’’نہیں میری خاطر انہیں اپنا ارادہ ملتوی نہیں کرنا چاہیے۔ فوج کو جلد از جلد کسی ایسے مقام پر پہنچنے کی ضرورت ہے جہاں سپاہیوں کے لیے رسد اور گھوڑوں کے لیے چارے کا انتظام ہوسکے‘‘۔

طبیب نے کہا۔ ’’سپہ سالار کے ساتھ وہ بوڑھا سردار بھی آپ کی تیمارداری کے لیے آرہا ہے جس کے بیٹے نے آپ کا قیمتی گھوڑا ہلاک کیا تھا‘‘۔
’’وہ لوگ ابھی تک گئے نہیں؟‘‘۔
’’دوسرے سردار قیدیوں کے ساتھ چلے گئے ہیں لیکن یہ باپ اور بیٹا چند منزل فوج کا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے ایک دن کے لیے سپہ سالار کو اپنے ہاں ٹھہرنے کی دعوت دی ہے۔ اور سپہ سالارنے اس شرط پر یہ دعوت قبول کرلی ہے کہ وہ ہمیں اس خطرناک علاقے سے گزرنے میں مدد دیں گے۔ ان جنگجو لوگوں کے طرزِ عمل میں تبدیلی کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ نے ایک بااثر سردار کے بیٹے کے ساتھ نیک سلوک کیا ہے‘‘۔

سپہ سالار، حبشی سردار اور اُس کے بیٹے اور طیبہ کے اُس قیدی کے ساتھ جس نے صبح کی ملاقات میں مترجم کا فرض ادا کیا تھا۔ خیمے کے اندر داخل ہوا اور عاصم اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’تم لیٹے رہو عاصم‘‘ اُس نے کہا۔ ’’اب تمہارا کیا حال ہے؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں‘‘ عاصم نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’تم ٹھیک نہیں ہو اور میں تمہارے متعلق بہت فکر مند ہوں۔ ہمیں کل یہاں سے کوچ کرنا ہے۔ لیکن تم شاید چند دن اور سواری نہ کرسکو۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ تمہارے لیے کشتی کا انتظام کردیا جائے۔ ان لوگوں نے ایک کشتی اور چند تجربہ کار ملاح فراہم کرنے کا انتظام کیا ہے‘‘۔

عاصم نے جواب دیا۔ ’’پانی کے بہائو کے خلاف کشتی کی رفتار بہت سست ہوگی اور میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ کو میری وجہ سے بار بار راستے میں رکنا پڑے پھر میری حالت ابھی ایسی نہیں کہ میں گھوڑے پر سواری نہ کرسکوں۔ اگر میں نے راستے میں زیادہ تکلیف محسوس کی تو میں ایک بے کار آدمی کی حیثیت سے آپ کا ساتھ دینے کے بجائے چند دن کے لیے کسی جگہ رُک جائوں گا۔ موجودہ حالات آپ کو مزید وقت ضائع کرنے کے اجازت نہیں دیتے۔ اگر چند دن تک سیلاب کا موسم شروع ہوگیا تو یہ سارا علاقہ دلدل بن جائے گا۔ اور آپ کے لیے رسد کا مسئلہ اور زیادہ نازک صورت اختیار کرلے گا‘‘۔

حصہ