رابطے ضابطے

218

روایتی شادی کی منظر کشی کرتی ایک سنہری شام قمر احمد کے گھر آج اتری تھی۔ کھنکتی ہنستی آوازیں رنگ رنگ کے ملبوسات برقی قمقموں سے سجے در و بام خلوص و محبت کے گھیرے میں آج ان کی نازوں پالی بیٹی دلہن بنی کچھ دن کی مہمان تھی۔
یونی ورسٹی سے فارغ ہوتے ہی حوریہ کے لیے آئے رشتوں میں ایک کو چن کر والدین نے اس کا نکاح کردیا تھا‘ آگے پڑھنا‘ جاب کرنا حوریہ کی یہ تمام خواہشات والدین کے سامنے نہ چل سکیں اور پھر بلال اور اس کی امی سے مل کر حوریہ کی آنکھوں نے ایک نیا سپنا سجالیا۔
نکاح سے رخصتی کے درمیان کچھ مہینوں کے وقفے نے دونوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ قائم کردیا جو عرف عام میں انڈراسٹینڈینگ کے لیے ضروری تھا‘ مزاج کو سمجھا‘ پرکھا گیا‘پسند نا پسند کو جانا گیا۔
حوریہ کی امی اس وقت حیران رہ گئیں جب ان کی بیٹی نے اپنے بھاری جوڑوں کے لیے صرف نیلے رنگ کے شیڈز پسند کرنے شروع کردیے۔
ماں بیٹی کے احساسات کو سمجھ کر اسے سمجھا رہی تھیں‘ پر حوریہ کی جذباتی کیفیت ان باتوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
’’بلال آپ ہیئر کٹنگ اور فیشل کے لیے جانے سے پہلے مجھ سے مشورہ کیجیے گا۔‘‘حوریہ اور بلال کے میسج رابطے شادی کی تیاریوں کے مرحلے پر مستقل جاری تھے۔
اور اب شادی کا دن آپہنچا تھا آج رسمِ حنا تھی پھولوں اور مہندی کی خوشبو میں بسی فضا کے درمیان اُبٹن لگانے کے لیے بزرگ خواتین قریب آبیٹھیں۔ بہنیں‘ دوستیں ڈھولک پر گیت گارہی تھیں ساتھ شرارتی جملے کسے جارہے تھے لیکن اب دور کانوں میں سرگوشی کا نہیں بلکہ اب یہ معاملہ برقی پیغام کی صورت موبائل پر تھا۔ طویل میسجز کا سلسلہ جو اس کی دور قریب کی دوستوں کی جانب سے جاری تھا۔ حوریہ بھی ہر ایک کو ہارٹ اور فلاور کے ایموجیز سے رپلائی دے رہی تھی۔
اس کے چہرے کی پیاری مسکان اور آنکھوں میں جلے دیپ اس کے حسن کو دوآتشہ کررہے تھے۔ اچانک ہی موبائل اسکرین پر بلال کانام اسکے پیغام کے ساتھ نظر آیا’’آن لائن ہو تو مجھے رپلائی کیوں نہیں دیا ؟‘‘
کئی سوالیہ نشان کے ساتھ میسج صاف ناراضی ظاہر کررہا تھا۔ حوریہ نے بے تاب ہوکر میسج کھولا جس کے نیچے ہی چار گھنٹے پہلے آیا بلال کا میسج موجود تھا۔
’’رابطہ کرو مجھے کمرے کی سجاوٹ میں پھولوں کے لیے تماری چوائس چاہیے۔‘‘
حوریہ کی بے چینی بڑھ گئی ’’کیا بلال ناراض ہوگئے ہیں؟‘‘ اس سوچ کے ساتھ اس کا چہرا اتر سا گیا‘ ایک لمحے کو وہ بھول گئی کہ وہ کتنی نظروں کے حصار میں ہے۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’کس کا میسج ہے؟‘‘
کچھ دبی دبی سی آوازیں قریب سے ابھریں۔کچھ نظریں اب موبائل کے تعاقب میں تھیں ’’بس کچھ تھکن ہورہی ہے۔‘‘ حوریہ نے موبائل بند کرتے ہوے ماں کومدد طلب نظروں سے دیکھا۔
’‘اچھا تم اپنے کمرے میں کچھ دیر جا کر لیٹ جائو‘ مہمانوں کے لیے چائے تیار ہورہی ہے اس کے بعد اُبٹن کی رسم کرلیں گے۔‘‘
انہوں نے فوراً ماحول کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
آیئے بھابھی جان! آپ بھی آرام کرلیجیے۔‘‘ بڑی ممانی کو سب کے درمیان سے کندھا پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔
حوریہ نے کمرے میں آتے ہی بلال کو معذرت کا میسج کیا مگر بلال اب آف لائن تھا۔ افسردگی کی کیفیت کسی حد تک سنبھالتے ہوئے حوریہ جو دوپٹہ کو ایک نئے طرز پر سیٹ کرنے پر امی سے بضد تھی اب گھونگھٹ ڈالے رسومات کا حصہ بنی رہی۔ اگلا دن پارلر کی مصروفیات میں گزرا اس دوران بلال کا ’’اوکے‘‘ کا مختصر میسج حوریہ کو مطمئن نہ کر سکا۔ افسردہ سا دلہن روپ لیے حوریہ کو امی کتنی بار چپکے چپکے سمجھا چکی تھیں ’’وہ مصروف ہوگا‘ تم ان باتوں کو دل پہ نہ لو۔‘‘ لیکن وہ جانتی تھیں لڑکیاں اپنے نازک دل کے ساتھ ان معاملات میں کتنی حساس ہوتی ہیں‘ اسی لیے وہ شادی سے پہلے طویل بات چیت کی ہمیشہ مخالف رہیں‘ مگر حوریہ کا جواب یہی رہتا آج کل منگنی کے بعد بھی لڑکیاں اپنے منگیتر سے ملتی ہیں تو کیا میں بات بھی نہ کروں۔‘‘
امی کا دل تو چاہ رہا تھا کہ وہ بیٹی سے کہتیں کہ دیکھو وقت سے پہلے کی گئی ان باتوں نے اپنا رنگ دکھا کر تمہاری خوشی کو بے رنگ کردیا۔‘‘ مگر ماں تھیں بیٹی کا دل رکھنے کو تسلی ہی دیتی رہیں۔
شادی ہال میں بارات آچکی تھی بلال کو حوریہ کے قریب بٹھا دیا گیا‘ بلال کو دیکھتے ہی حوریہ کا دل‘ دھک سا رہ گیا ’’وہی پرانا ہیئر اسٹائل تھا اس کا۔ ’’کیا یہ میرے بتائے گئے سیلون بھی نہیں گئے؟ شاید سچ میں مجھ سے ناراض ہیں۔‘‘ حوریہ کے سر میں اب ہلکا ہلکا درد شروع ہوگیا تھا۔
رسومات کا نیا سلسلہ شروع ہوا فوٹو گرافر بار بار ’’اسمائل پلیز‘‘ کہہ کر انہیں متوجہ کررہا تھا ان کی پھیکی مسکراہٹوں کے ساتھ فوٹو سیشن مکمل ہوا کھانے کا دورانیہ بہنوں اور کزنز کے جھرمٹ میں گزرا اور حوریہ بلال سے کوئی بات نہ کرسکی یہاں تک کہ اسے دعائوں اور آنسوئوں کے سائے میں رخصت کردیا گیا۔
اگلے دن حوریہ حسب روایت اپنے میکے میں تھی امی اس سے بلال کے رویے کے بارے میں جاننا چاہتی تھیں مگر وہ چپ تھی کیا بتاتی کہ وہ حسین رات انہوں نے ایک دوسرے سے شکایات اور وضاحتوں میں گزار دی۔

حصہ