ایک شاطردرزی

215

ایک شیریں زبان آدمی رات کو دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر درزیوں کے بارے میں مزےدار قصے سنا رہا تھا، داستان گو اتنی معلومات رکھتا تھا کہ باقاعدہ اچھا خاصا درزی نامہ مرتب ہوسکتا تھا ،جب اس آدمی نے درزیوں کی چوری اور مکاری سے گاہکوں کا کپڑا غائب کردینے کے ان گنت قصے بیان کرڈالے ،سننے والوں میں ملک خطا کا ایک ترک جسے اپنی دانش و ذہانت پر بڑا ناز تھاکہنے لگا،”اس علاقے میں سب سے گرو درزی کونسا ہے ؟داستان گو نے کہا :”یوں تو ایک سے ایک ماہر فن اس شہر کے گلی کوچوں میں موجود ہیں ،لیکن پورش نامی درزی بڑا فنکار ہے ،اس کے کاٹے کا منتر ہی نہیں ،ہاتھ کی صفائی میں ایسا استاد کہ کپڑا تو کپڑا آنکھوں کا کاجل تک چرالے اور چوری کا پتا نہ لگنے دے۔
ترک کہنے لگا :لگا لو مجھ سے شرط میں اس کے پاس کپڑا لے کر جائوں گا ،اور دیکھوں گا کہ وہ کیوںکر میری آنکھوں میں دھول پھونک کے کپڑا چراتا ہے،میاں کپڑا تو درکنار ایک تار بھی غائب نہ کرسکے گا “،دوستوں نے جب یہ سنا تو کہنے لگے “ارے بھائی زیادہ جوش میں نہ آ،تجھ سے پہلے بھی بہت سے یہی دعویٰ کرتے آئے اور اس درزی سے چوٹ کھاگئے،تو اپنی عقل و خرد پر نہ جا،دھوکا کھائے گا”،محفل برخاست ہونے کے بعد ترک اپنے گھر چلا گیا اسی پیچ و تاب اور فکر و اضطراب میں ساری رات گزاری صبح ہوتے ہی قیمتی اطلس کا کپڑا لیا اور پورش درزی کا نام پوچھتا پوچھتا اس کی دکان پر پہنچ گیا ۔
درزی اس ترک گاہک کو دیکھتے ہی نہایت ادب سے کھڑا ہوکر تسلیمات بجالایا، درزی نے خوش اخلاقی و تعظیم و کریم کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ترک بےحد متاثر ہوا ،دل میں کہنے لگا یہ شخص تو بظاہر ایسا عیار اور دغاباز نظر نہیں آتا ،لوگ بھی خواہ مخواہ رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں ،یہ سوچ کر قیمتی اطلس درزی کے آگے دہر دی اور کہنے لگا “اس اطلس کی قبا مجھے سی دیں۔”درزی نے دونوں ہاتھ ادب سے اپنے سینے پر باندھے اور کہنے لگا،“ حضور قبا ایسی سیوں گا جو نہ صرف آپ کے جسم پر زیب دے گی بلکہ دنیا دیکھے گی،اس نے کپڑا گز سے ناپا پھر کاٹنے کے لئے جابجا اس پر نشان لگانے لگا ،ساتھ ہی ساتھ ادھرادھر کے پرلطف قصے چھیڑ دیئے ہنسنے ہنسانے کی باتیں ہونے لگیں جن میں ترک کو بےحد دلچسپی ہوگئی،جب درزی نے اس کی دلچسپی دیکھی تو ایک مزاحیہ لطیفہ سنایا جسے سن کر ترک ہنسنے لگا اس کی چندہی چندہی آنکھیں اور بھی مچ گئیں درزی نے جھٹ پٹ کپڑا کاٹا اور ران تلے ایسا دبایا کہ سوائےخدا کی ذات کے اور کوئی نہ دیکھ سکا۔
غرض کی اس پرلطف داستان سرائی میں ترک اپنا اصل مقصد اور دعویٰ فراموش کر بیٹھا ،کدھر کی اطلس ،کہاں کی شرط،ہنسی مذاق میں سب سے غافل ہوگیا،ترک درزی سے کہنے لگا ایسی ہی مزیدار کوئی اور بات سنائو ،درزی نے پھر چرب زبانی کا مظاہرہ کیا ،ترک اتنا ہنسا کہ اس کی آنکھیں بالکل بند ہوگئیں ،ہوش و حواس رخصت ،عقل و خرد الوداع،اس مرتبہ درزی نے پھر کپڑا کاٹ کر ران تلے دبا لیا، ترک نے چو تھی بار مذاق کا تقاضا کیا تو درزی کو کچھ حیا آگئی اور کہنے لگا، مزید تقاضا نہ کر اگر ہنسی کی اور بات کہوں گا تو تیری قبا تنگ ہوجائے گی۔
مولانا رومی رح نصیحت فرماتے ہیں کہ جانتے ہو وہ ترکی کون تھا ،دغاباز درزی کون تھا ؟؟ اطلس کیاہے اور ہنسی مذاق کیا ہے ؟؟قینچی کیا ہے اور قبا کیا چیز ہے ؟سنو! وہ غافل ترک تیری ذات ہے جسے اپنی عقل و خرد پر بڑا بھروسہ ہے ،وہ عیار دھوکہ باز درزی یہ دنیائے فانی ہے، ہنسی مذاق نفسانی جذبات ہیں ،تیری عمر اطلس پر دن رات درزی کی قینچی کی مانند چل رہے ہیں دل لگی کا شوق تیری غفلت ہے،اطلس کی قبا تجھے بھلائی اور نیکی کے لئے سلوانی تھی،وہ فضول مذاق اور قہقہوں میں تباہ و برباد ہوگئی،اے عزیز ! اپنے ہوش و حواس درست کر ظاہر کو چھوڑ،باطن کی طرف توجہ کر،تیری قیمتی عمر کی اطلس لیل و نہار کی قینچی سے دنیا کا مکار درزی ٹکڑے ٹکڑے کرکے چرائے جارہا ہے اور تو ہنسی مذاق میں مشغول ہے۔

حصہ