یوم احیا تہذیب اسلامی کا ذریعہ ہے

284

مقامی ہوٹل میں حجاب کانفرنس اور سیلاب زدگان کیلئے فنڈزیزنگ
آؤ سوچیں ذرا
کچھ تدبر کریں
ہے بجا کہ حجاب اک تحریک ہے
حیا اور ایماں کی تفسیر ہے
روح کی تسکین، جسموں کی چادر ہے یہ
بے حجابی کے طوفاں میں بہتر ہے یہ !
’’عالمی یومِ حجاب‘‘ جو ہر سال 4 ستمبر کو منایا جاتا ہے،احیا تہذیب اسلامی کا بڑا ذریعہ ہے، حجاب محض لباس نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ اخلاق ہے، حیا کا مظہر ہے، حیا اور حجاب پر مسلم معاشرے کی تہذیب و تمدن اور ادارۂ خاندان کے استحکام کا دارومدار ہے۔ لاہور کے مقامی ہوٹل میں حجاب کانفرنس بعنوان ’’نوجوان اور ہمارے سماجی رویئے‘‘ کا انعقاد حلقہ خواتین،جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے کیا گیا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اس کی روح رواں اور چیف آرگنائزر تھیں۔ مبرہ حمید نے تلاوت کلام پاک سے آغاز کیا، اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قدسیہ بتول نے پیش کی۔
افتتاحی کلمات میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے مہمانانِ گرامی اور شرکائے محفل کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ نائن الیون کے بعد جب دنیا کا تعصب مسلمانوں کے خلاف بڑھتا چلا گیا، کبھی حجابی خواتین کو پارلیمنٹ سے نکالا گیا، کبھی مروہ شیربینی کی طرح بھری عدالتوں میں شہید کر دیا گیا، اس وقت مسلمانوں کی ایک عالمی تنظیم نے ہر سال 4 ستمبر کو ’عالمی یومِ حجاب‘‘ منانے کا فیصلہ کیا۔ حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان نے اپنے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد کی سربراہی میں 2004ء میں اس حجاب تحریک کی سرپرستی کی۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ اس بار ہم عشرہ ٔحجاب کے ساتھ ’’عشرۂ رجوع الی اللہ‘‘ بھی منا رہے ہیں اور ہم نے اسے فلڈ ریلیف ڈرائیو میں تبدیل کردیا ہے۔
صدر ویمن اینڈ فیملی کمیشن ڈاکٹر رخسانہ جبین نے ’’نوجوان اور ہمارے سماجی رویئے‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا، ملٹی میڈیا پریزینٹیشن کے ساتھ انھوں نے شرکائے محفل کو آگاہ کیا کہ خاندان آسمانی ادارہ ہے، انسان نے نہیں بنایا، اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا اور پھر ان سے بی بی حوّا کو پیدا کیا۔ ایک عورت اور ایک مرد کا جوڑا مل کے خاندان بنا۔ خاندان کی بنیاد ’’نکاح‘‘ پر ہے۔ نکاح کے بغیر ہر تعلق حرام ہے۔ پاکستان کے قانون میں زنا کی تعریف بدل دی گئی ہے، اب زنا صرف وہ تصور ہوگا جہاں زبردستی ہوئی، بصورت دیگر نہیں۔ یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا تھا کہ تمہاری ساخت میں رد و بدل کردوں گا۔ تو اب رد و بدل کی عملی صورت یہ ہے کہ اگر عورت کہہ دے کہ میں مرد ہوں اور مرد کہہ دے کہ میں عورت ہوں تو اس کو مان لیا جائے۔2018ء میں یہ قانون پاکستان میں پاس ہوچکا ہے اور نادرا پابند ہے کہ کوئی مرد کہہ دے کہ وہ عورت ہے تو نادرا اسے عورت ڈکلیئر کردے۔
عصرِحاضر کے فتنوں میں ’’مادہ پرستی‘‘ کا فتنہ اس قدر بڑا ہے کہ بس پیسہ مل جائے چاہے کسی طریقے سے ہو، اسی وجہ سے مسلمان گھرانوں میں ملحد پیدا ہو رہے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے، اب اس سے مراد ایسا شخص ہے جو عورت سے مرد یا مرد سے عورت میں تبدیل ہوتا ہے، اس کا تعلق ان سے نہیں جو پیدائشی خواجہ سرا ہوتے ہیں، ہم پیدائشی خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں کہ ان کے لیے باعزت روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں لیکن ہم ٹرانس جینڈرز کے نام پر بنائے گئے اس قانون کے مخالف ہیں کیوں کہ اس کے ذریعہ سے ہم جنس پرستی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، اس کی زد اسلام کے قانونِ وراثت اور خاندان کے ادارے پر پڑ رہی ہے۔ عالمی ایجنڈے کے اشاروں پہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی پراڈکٹس کے ذریعے الحاد، بے دینی اور ہم جنس پرستی کو پروموٹ کر رہی ہیں۔ قوم اور میڈیا ان چیلنجز کو سمجھے اور ہمارا ساتھ دے۔
ڈپٹی سیکرٹری حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان ثمینہ سعید نے دل سوزی سے اہلِ پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہماری امنگوں اور خوابوں کی سر زمین ہے، اس میں بسنے والے بہت بڑی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ پانی کی بے رحم موجیں بال بچے، مویشی، جمع پونجی سب کچھ بہا کے لے گئیں۔ ہم نے جو آہ و بکا، چیخوں کی آوازیں سنیں‘ قیامتِ صغریٰ کے مناظر دیکھے ،انھیں بیان کرنا اور لکھنا بہت مشکل ہے۔ لیکن دوسری طرف دریاؤں اور پہاڑوں کی سرزمین پاکستان پر اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی رحمت جماعتِ اسلامی کی صورت میں کی ہے، یہ وہ جماعت ہے جس کے کارکن ہر مشکل گھڑی میں الخدمت کی جیکٹ پہن کر قوم کی خدمت کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت مولانا مودودی نے اپنے کارکنان کو مہاجرین کی خدمت کی ہدایت کی تھی،آج بھی ویسا ہی وقت ہے، پورے پورے دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور لاکھوں افراد کھلے آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ اس پہ ظلم کرتا ہے نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے‘ جو کسی مسلمان کی پریشانی دور کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی پریشانی دور کرے گا، جو کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعے اب تک 8 ارب کے قریب ریلیف کا کام ہوچکا ہے، الخدمت کے رضاکار میدانِ عمل میں ہیں۔ ہمیں حکومت پاکستان اور چاروں صوبوں کی حکومتوں سے کہنا ہے کہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے وہ راستوں کو بحال کریں، پلوں کی تعمیر کریں، مخلوقِ خدا کا خیال کریں۔
سالارِ قافلہ سیکرٹری جنرل حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی پاکستان دردانہ صدیقی نے اپنے خطاب میں اللہ کی طرف پلٹنے اور توبتہ النصوح کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ نصف سے زائد پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہے،4 کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہیں۔ زمینی اور آسمانی آفات نے وطن عزیز کو گھیرا ہوا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا یہ حالات اتفاقیہ ہیں؟ کہیں ہم سے کچھ غلط تو نہیں ہوگیا؟ فساد فی الارض کسی شکل میں ہو،عذابِ الٰہی کو دعوت دیتا ہے۔ اخلاقی بحران، سودی نظام، ہم جنس پرستی، ناپ تول میں کمی کے سبب سابقہ اقوام،اللہ کے غضب کا شکار ہوئیں، اب یہی برائیاں ہمارے معاشرے میں ہیں۔ خالص توبہ کرو، بعید نہیں کہ اللہ تم پر رحم فرمادے۔ جماعت اسلامی عشرۂ رجوع الی اللہ منا رہی ہے۔ توبہ کا طریقہ، اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا بھی ہے۔ جب ہم سیلاب میں ڈوبے بلوچستان،کے پی میں گرتے ہوٹلیں،جنوبی پنجاب کی صفحۂ ہستی سے مٹتی آبادیاں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے گھروں اور عافیتوں کا صدقہ نکالنا چاہیے۔ شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کی مدد کریں۔ توبہ کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی کی سمت بھی درست کریں۔ پاکستان کو اسلامی ریاست بنائیں۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔ ہمیں جب بھی اقتدار ملا ہم نے قانون سازی میں حصہ لیا۔جہیز پر پابندی کا بل، سماجی رویوں کا بل، سینیٹر مشتاق احمد نے ہر خلافِ اسلام بل پر آواز اٹھائی ہے۔ جب ویمن ایمپاورمنٹ کے نعرے معرضِ وجود میں نہیں آئے تھے،جماعت اسلامی اس وقت بھی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی تھی۔ فلاح خاندان کا ادارہ اور ملازمت شدہ خواتین کا شعبہ بھی کام کر رہا ہے۔ مواخات کے تحت بلاسود قرضے،کائونسلنگ سینٹرز، قرآن انسٹی ٹیوٹ، اور جامعات کی صورت میں ہم خواتین کے معاشی اور معاشرتی حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم پر قوم نے اعتماد کیا اور ہمیں حکومت میں آنے کا موقع ملا توہم وطن عزیز کی خوش حالی اور ترقی کا مکمل منشور رکھتے ہیں۔ ایسی ریاست جو ہم سب کا خواب ہے، قرآن سے تعلق، رزق حلال،توبۃ النصوح، خواتین کو اصل کردار پہ لانا اوراحیائے تہذیبِ اسلامی درکار ہے۔
اس موقع پر ربیعہ طارق ناظمہ صوبہ وسطی پنجاب نے 50 لاکھ کا چیک اور ناظمہ ضلع لاہور ڈاکٹر زبیدہ جبین کی طرف سے 45 لاکھ روپے کا چیک محترمہ دردانہ صدیقی کو پیش کیا گیا۔ جب کہ سلمی وقاص کی جانب سے دس لاکھ جمع کروائے گئے۔ اس کے علاوہ تعلقات عامہ وسطی پنجاب کی طرف سے 7 لاکھ 38 ہزار فنڈ دیا گیا، برطانیہ میں مقیم ایک بہن کی جانب سے ایک کروڑ روپے سیلاب فنڈ میں عطیہ کیے گئے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے بتایا کہ کانفرنس ہال میں سوا دو کروڑ روپے فنڈ جمع کیے گئے ہیں۔
زرافشاں فرحین نے حاضرینِ محفل کو ایک نازک مسئلہ کی طرف توجہ دلائی کہ سیلاب متاثرین میں ہزاروں خواتین کو ڈلیوری کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ الخدمت، پیما اور جماعت اسلامی مل کر ان کے لیے انتظام کریں گے۔
کانفرنس کے اختتام پر ڈائریکٹر ادارہ فلاح خاندان عافیہ سرور نے دل گداز دعا کروائی تو شرکاکے لیے جذبات قابو میں رکھنا مشکل ہوگیا۔ جب انہوں نے کہا ’’یا اللہ میری قوم کو بھکاری نہ بنانا‘‘ تو شرکائے دعا اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روک نہ پائے۔

حصہ