قبر اور آخرت کی تیاری

511

میں اپنی ذات کو اور آپ سب کو جلوت و خلوت، ظاہر و باطن، تنہائی اور مجالس میں، ہر حال میں تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اللہ کا خخوف بندہ مومن کے لیے قبر میں سب سے زیادہ قابل قبول سامان ہے۔ یہ یوم آخرت کے لیے سب سے پسندیدہ توشہ ہے۔ یوم آخرت وہ دن ہے کہ جب دلوں کے بھید جانچے جائیں گے، تمام پوشیدہ چیزیں منکشف کردی جائیں گی، دل غم سے بھر کر گلوں تک آرہے ہوں گے۔ اس دن مال و دولت کے ذخائر کچھ فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔
وہ کون ہے کہ دوام و بقا صرف اسی کے لیے ہے، جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، اس پر کبھی موت نہیں آئے گی، جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہی، اس پر کبھی فنا اور زوال نہیں آئے گا، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے! جب کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر فناو زوال کو مقدر کردیا ہے، ہر ایک کے فنا اور موت کا وقت مقر کردیا ہے، نہ اس وقت میں کوئی کمی ہوگی اور نہ ہی زیادتی۔
موت جس کی جستجو میں ہو وہ اس سے فرار کیسے حاصل کرسکتا ہے، جس کے لیے قبر کو ٹھکانا بنادیا گیا ہو وہ دنیا کو اپنا ٹھکانا اور جائے قرار کیسے بناسکتا ہے۔ مال و اولاد نے، عمارتوں اور محلات نے ہم کو موت اور قبر سے غافل کردیا ہے۔ ہم نئے انداز کی لذتوں میں ایسے غافل ہیں کہ گویا ہمیں اپنی قبروں میں جانا ہی نہیں؟ دلوں کی سختی اور اس غفلت پر اللہ سے شکوہ ہی کرسکتے ہیں۔
اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے جدائی دلوں پر کس قدر اثر انداز ہوتی ہے، لیکن جو اللہ کی قدرت اور اس کی تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیںکہ موت ہر ذی نفس کا مقدر ہے اور یہی اللہ کی سنت اور اس کا طریقہ ہے، وہ اس فراق پر راضی برضا ہوتے ہیں اور اللہ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ ابھی غفلت اور بے خبری ہیں بھولے ہوئے ہیں اور اپنی سرکشی پر اڑے ہوئے ہیں اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’لوگوں کا حساب یعنی اعمال کے نتائج کا وقت نزدیک آپہنچا ہے اور وہ غفلت میں پڑے اس سے منہ پھیر رہے ہیں‘‘۔ (سورۃ الانبیا21:1)
موت سے غافل لوگوں کے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ موت سے مستثنیٰ ہیں اور موت ان کے علاوہ دیگر لوگوں کا مقدر ہے۔ ہمیں دنیاوی لذات نے اپنے اندر گم کرلیا ہے۔ ہم غافل کرنے والی اور دھوکا دینے والی چیزوں میں مشغول ہوگئے ہیں۔ شہوتوں اور لذتوں کے دریا میں غرق ہوگئے ہیں۔ ہم غفلت میں ایسے پڑے ہیں گویا ہمیں اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ یہ ہماری حالت ہے جب کہ ہم کس قدر محتاج ہیں! قریب ہے کہ یہ دنیا ختم کردی جائے اور ہم خدا کے دربار میں حاضر ہوں۔ ہمارے پاس اس کے سامنے پیش کرنے کے لئے کیا ہے؟ کیا ہم نے اپنے نفوس کا محاسبہ کیا ہے؟ کای ہم اس حالت پر اسی طرح باقی رہیں گے؟ کیا ہماری زندگیاں اسی ڈگر پر چلتی رہیں گی یہاں تک کہ قبر ہمارا ٹھکانہ بن جائے؟ کیا ہم نے کبھی ان جنازوں کے متعلق اپنے آپ سے سوال کیا جن کی نماز ہم اکثر پڑھتے رہتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ جنازے کہاں لے جائے جارہے ہیں؟ ان کو کہاں پیش کیا جارہا ہے؟ ان کی کیا حالت ہوگی؟ جب ہم مریں گے تو ہماری کیا حالت ہوگی؟ موت وہ اٹل حقیقت ہے جس سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہر روز، واعظ موت ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ ہم بلند و بالا محلات تعمیر کرتے جارہے ہیں جب کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیں مرنا ہے۔ ہمیں جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں کا اچھی طرح علم ہے۔ ہمارے کتنے ہی احباب اور رشتے دار ہیں، جن کو ہم قبر کی منزل کی طرف رخصت کرچکے ہیں۔ قبر وہ منزل ہے جس سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔ کسی کو اس سے مفر نہیں۔ قبر آخرت کا گھر کا وہ پہلا دروازہ ہے جس میں پہلے والے بھی داخل ہوئے اور بعد والے بھی داخل ہوں گے۔ اس میں چھوٹے بڑے، حاکم و محکوم سب کو جانا ہے۔ اس قبر نے اپنی آغوش میں انبیا اور علام کو بھی لیا، اس میں اغنیا اور فقرا، حاکمین اور رعایا، مرد و عورت سب کو جانا ہے۔ پھر یہ قبر آخری منزل نہیں بلکہ پہلی منزل ہے، اس کے بعد آخرت کی منزل بھی آئے گی۔ اس منزل میں نیک اعمال کرنے والوں کے لئے نعمتیں اور برے اعمال کرنے والوں کے لئے جہنم کی آگ ہے۔
میرے بھائیو اور بہنو! آیئے ہم کچھ وقت اس حدیث مبارکہ کے سائے میں گزاریں جو موت کے وقت اور قبر کے سوال و جواب کا منظر پیش کرتی ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی اس منزل کی تیاری کرلیں جس سے ہم سب کو گزرنا ہے۔
حضرت برا بن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کرامؓ کے ساتھ ایک انصاری صحابیؓ کے جنازے میں شریک ہوئے۔ جب ان کی تدفین ہوگئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے قریب بیٹھ گئے اور ہم بھی آپؐ کے اردگرد اس طرح بیٹھ گئے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ اس کے بعد فرمایا: جب بندہ مومن کا دنیا سے رخصت ہوکر آخرت کی طرف جانے کا وقت قریب آتا ہے تو آسمان سے روشن اور خوب صورت چہرے والے فرشتے آتے ہیں۔ ان کے پاس جنت سے لائے ہوئے، جنت کی خوشبو سے مہکے ہوئے کفن ہوتے ہیں۔ یہ فرشتے اس بندہ مومن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں یہاں تک کہ موت کا فرشتہ بھی آجاتا ہے۔ وہ بندہ مومن کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے پاک روح! نکل اور اللہ کی مغفرت اور اس کی رضامندی کی طرف چل۔ جب وہ روح اس میں سے نکل جاتی ہے تو یہ فرشتے پلک جھپکتے میں اسے اس خوشبودار کفن میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کفن سے کرہ ارضی پر پائی جانے والی تمام خوشبوئوں سے اچھی خوشبو اٹھتی ہے۔ وہ اس روح کو لے کر آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ وہ جہاں جہاں سے بھی گزرتے ہیں، فرشتے ان سے سوال کرتے ہیں: یہ پاک روح کون ہے؟ فرشتے اچھے سے اچھے القاب کے ذریعے تعارف کراتے ہیں کہ یہ فلاں ابن فلاں کی پاکیزہ روح ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس روح کو لے کر دنیا کے قریب والے آسمان پر جاتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلواتے ہیں۔ ان کے لئے دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ یکے بعد دیگرے آسمان کے فرشتے اس پاکیزہ روح کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیتے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے اس بندے کے اعمال علیین میں لکھ دو اور اس روح کو دوبارہ زمین کی طرف لے جائو اس لئے کہ میں نے اس کو زمین سے پیدا کیا، اسی میں اس کو لوٹائوں گا اور پھر دوبارہ اسی زمین سے اس کو نکالوں گا۔ چنانچہ اس روح کو دوبارہ اس بندہ مومن کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ پھر دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے اس کے رب کے دین اور نبی اکرمؐ کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ وہ بندہ مومن ان کے سوالات کا جواب دیتا ہے یہاں تک کہ آسمان سے آواز دینے والے کی آواز آتی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا۔ اس کے لئے اس کی قبر میں جنت کا بستر بچھادو، اس کو جنت کا لباس پہنادو اور اس کی قبر میں جنت کی جانب ایک دروازہ کھول دو۔ اس کی قبر میں جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے اور جہاں تک اس کی نظر کام کرتی ہے وہاں تک اس کی قبر وسیع کردی جاتی ہے۔ پھر ایک خوب صورت چہرے والا، خوب صورت لباس والا خوشبوئوں میں مہکا ہوا ایک شخص اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہیں جو خوش کون چیزیں ملی ہیں اس پر تمہیں مبارک ہو، یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ بندہ مومن اس سے پوچھتا ہے کہ تم کون ہو؟ وہ کہتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں۔
اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: جب کسی کافر کے دنیا سے رخصت ہونے اور آخرت کی جانب جانے کا وقت آتا ہے تو آسمان سے بدشکل فرشتے نہایت ہی گندا کفن لے کر آتے ہیں اور اس کے قریب بیٹھ جاتے ہیں یہاں تک کہ موت کا فرشتہ بھی اس کے سر کے قریب آکر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے ناپاک روح! نکل اور اللہ کی ناراضی اور اس کے غضب کی طرف چل۔ جب اس کی روح قبض کرلی جاتی ہے تو وہ فرشتے پلک جھپکتے میں اس ناپاک روح کو گندے کفن میں ڈال دیتے ہیں اور اس سے زمین پر پائی جانے والی غلیظ بوئوں سے زیادہ گندی اور غلیظ بو اٹھتی ہے۔ وہ فرشتے اس روح کو لے کر جہاں جہاں سے بھی گزرتے ہیں فرشتے ان سے دریافت کرتے ہیں کہ یہ ناپاک روح کون ہے؟ وہ اس روح کا بدترین القاب میں تعارف کراتے ہیں کہ یہ فلاں ابن فلاں کی روح ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس روح کو لے کر دنیا سے قریب والے آسمان پر پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں تو دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ اس کے بعد آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا مفہوم یہ ہے: ’’ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے‘‘۔
اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے کے اعمال سسجین میں لکھ دیئے جائیں، بالکل نچلے درجے ہیں۔ اس کے بعد اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، اس کو بٹھاتے ہیں اور اس سے اس کے رب، اس کے دین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کرتے ہیں تو وہ واویلا کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ آسمان سے آواز آتی ہے کہ میرے بندے نے جھٹلایا، اس کے لئے جہنم کا بچھونا بچھادو۔ اور اس کی قبر کا دروازہ جہنم کی طرف کھول دو۔ یہاں تک کہ اس سے جہنم کی گرمائش اور اس کی ہوائیں آنے لگتی ہیں۔ اس پر اس کی قبر اس قدر تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھسنے لگتی ہیں۔ اس کے بعد ایک بدشکل، بدلباس اور بدبودار شخص اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ جو بری چیزیں تم کو ملی ہیں وہ تم کو مبارک ہوں۔ یہ وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ پوچھتا ہے کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارے برے اعمال ہوں۔ اس پر وہ بند کافر کہتا ہے کہ اے میرے خدا! قیامت قائم نہ کرنا، قیامت قائم نہ کرنا۔ (سنن نسائی، ابن ماجہ، ابودائود، مسند احمد)
یہ حدیث مبارکہ ہر اس شخص کے لئے قابل غور ہے کہ جس کے لئے موت مقدر ہے، مٹی میں جانے کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے، قبر کی مٹی اس کا بچھونا ہی، کیڑے اس کے ساتھی ہیں، منکر نکیر اس سے سوال کرنے والے ہیں، اس کے اعمال اس کے ہم نشین ہیں، قبر اور برزخ اس کا ٹھکانہ ہے، قیامت کے قائم ہونے کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اسے جنت یا دوزخ میں سے کسی ایک میں جانا ہے۔ جس شخص کی آئندہ کی منزلیں یہ ہوں، اس کو مردوں کی تدفین اور قبروں کی زیارت کے دوران اپنی ان منزلوں اور اس میں پیش آنے والے امور سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔
حضرت برا بن عازبؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہم آنحضرتؐ کے ساتھ تھے کہ آپؐ نے چند صحابہ کرامؓ کو دیکھا کہ وہ کسی چیز کے اردگرد جمع ہیں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ کس چیز پر جمع ہیں؟ آپؐ کو بتلایا گیا کہ یہ کسی کی تدفین کے لئے قبر کھود رہے ہیں۔ آنحضرتؐ تیزی سے ان کی طرف گئے اور قبر پر پہنچ گئے۔ قبر کو دیکھنے کے بعد آپؐ پر رقت طاری ہوگئی۔ اس کے بعد آپؐ صحابہ کرامؓ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرے بھائیو! اس دن کے لئے تیاری کرو۔ (مسند احمد و ابن ماجہ)
ہمارے اسلاف جب قبروں پر حاضر ہوتے تھے تو ان کی کیا کیفیت ہوتی تھی۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے غلام حضرت ہانیؓ سے منقول ہے کہ حصرت عثمان بن عفانؓ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو ان پر اس قدر رقت طاری ہوتی کہ آنسوئوں سے ان کی داڑھی بھیگ جاتی۔ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ جب آپ جنت و جہنم کا ذکر کرتے ہیں، اس وقت تو نہیں روتے لیکن جب آپ کو قبر کی یاد آجائے یا کسی قبر کو دیکھ لیں تو اس قدر شدت سے روتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرمؐ کی زبان مبارک سے سنا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے۔ جو اس منزل میں کامیاب ہوا تو اس کے بعد کی منزلیں بھی اس پر آسان ہوں گی اور جو اس منزل میں کامیاب نہ ہوسکا اس کے لئے اس کے بعد کی منزلیں اور بھی زیادہ مشکل ہوں گی۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ)
حضرت ثابتؓ کہتے ہیں کہ جب ہم کسی جنازے میں شریک ہوتے تھے تو ہم میں سے ہر شخص رو رہا ہوتا تھا۔ ہمارے اسلاف کے خوف اور ان کی قوت ایمانی کا یہ عالم تھا اور ہماری کیا حالت ہے وہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ اللہ ہی ہم پر رحم فرمائے۔ اس طرح یہ بھی حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
اسی طرح بعض صحابہ کرامؓ اور تابعینؓ سے یہ منقول ہے، قبر آواز لگاتی ہے کہ اے ابن آدم! تجھے کس چیز نے دھوکے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں اندھیرے کا گھر ہوں، پردیس کا گھر ہوں، تنہائی کا گھر ہوں اور کیڑوں کا گھر ہوں۔
حضرت ابوالدرداؓ کے متعلق آتا ہے کہ وہ کثرت سے قبرستان جایا کرتے تھے۔ ان سے جب کسی نے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں ایسے لوگوں کے اس جاکر بیٹھتا ہوں جو مجھے میری آخرت یاد دلاتے ہیں۔ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے کہ قبروں کی زیارت کیا کرو، اس لئے کہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔
اے اللہ! ہم عذابِ قبر سے پناہ مانگتے ہیں، اے اللہ! ہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آزمائش قبر میں ہماری حفاظت فرمایئے۔ اے اللہ! اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد قبروں کو ہماری بہترین منزل بنا دیجئے۔ موت اور سکرات موت، قبر اور اس کے اندھیرے میں ہماری مدد فرمایئے! آمین یا رب العالمین!
اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم اللہ کے حضور میں لوٹ کر جائوگے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا۔ اے اللہ کے بندو! جب ہم قبر اور اس کے عذاب کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو اس وقت ہم پر اپنا محاسبہ کرنا لازم ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ان اعتقادی امور کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔ اپنے اعتقاد کو عملی شکل دیں۔ جو شخص بھی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اس نے مرنے کے بعد قبر میں جانا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جان لے کہ عذاب قبر اور اس کی وحشت سے بچانے والی چیز اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان کامل اور نبی اکرمؐ کی اتباع کامل ہے۔ اگر اس بات پر ہمارا یقین کامل ہوکہ ہم نے قبر میں جاکر اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہے اور قبر میں ہمارے اچھے اعمال ہی کام آئیں گے اور ہمارے برے اعمال کے برے نتائج ظاہر ہوں گے تو پھر نہ ہم عقیدے میں کمزوری آنے دیں، نہ اتباع رسولؐ میں کمی کریں اور نہ ہم سے زنا، جھوٹ، ظلم، رشوت، ملاوٹ اور دوسروں کو اذیت پہنچانے جیسے گناہ سرزد ہوں۔ (خطبہ جمعہ، امام الحرم)

حصہ