سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی خدمت :مشاہدات…تجربات …مشورے

503

ریلیف کے انچارج صاحب سے پوچھا ’’آج آپ بڑے خوش ہیں‘ کوئی اچھی خبر…‘‘
جواب دیا ’’ڈاکٹر خالد صاحب آج میری وائف سے ہوٹل میں ملاقات طے ہوگئی ہے۔‘‘
میں نے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘
بتانے لگے کہ آپ حیران ہو رہے ہیں… ہنس بھی رہے ہوں گے کہ جب آپ کا گھر اسی شہر میں ہے تو بیوی سے ہوٹل میں ملاقات کے لیے وقت لینے کا مطلب؟‘‘ کہنے لگے ’’دراصل ہمارے گھر بہت سے مہمان آئے ہیں۔ 30 خواتین و بچے اور پندرہ ‘ بیس مرد۔ گھر میں ہم ہر وقت ان کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ میرے اپنے کمرے میں 5 خواتین ٹھہری ہوئی ہیں۔ ہم میاں بیوی کو ایک دوسرے کی شکل دیکھے ہوئے 15 دن ہو گئے ہیں۔ فون پر بات ہو جاتی ہے۔ یہاں نیٹ ورک کا مسئلہ بھی ہے اس لیے بہت سی باتیں اور مسائل جو حل کرنے ہیں اس پر بات نہیں ہوتی۔‘‘
یہ الخدمت کے انچارج کا قصہ ہے۔ یہ واقعہ مردان کا ہے۔ جہاں بے گھر ہونے والے افراد اپنے رشتے داروں کے گھر رہ رہے تھے اور گھر والے اپنے ہی گھر میں بے گھر تھے۔
ایک کالج کے پروفیسر صاحب صبح سویرے تقریباً 6 بجے کالج آنا شروع ہو گئے۔ پرنسپل صاحب کو چوکیدار نے بتایا کہ ہمارے پروفیسر صاحب ناشتہ کالج میں کرتے ہیں۔ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا سر خیریت ہے؟
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ تقریباً 25 بے گھر افراد ہمارے گھر میں رکے ہوئے ہیں‘ گھر کا باتھ روم خواتین استعمال کرتی ہیں ہم تو باتھ روم بھی مسجد کا استعمال کرتے ہیں۔ مجھے صبح اٹھ کر نہانے کی عادت ہے اس لیے فجر کی نماز پڑھ کر کالج آجاتا ہوں۔ کالج میں نہا کر کپڑے تبدیل کرتا ہوں۔ ناشتہ کرتا ہوں۔
اس جیسے اور بھی واقعات ہیں جو ہر بڑی ایمرجنسی کے بعد ہوتے ہیں جس میں سیلاب وغیرہ کی وجہ سے لوگ اپنے گھر چھوڑ کر رشتے داروں اور دوستوں کے گھر منتقل ہو جاتے ہیں۔
ان واقعات سے ہمیں یہ معلومات ملتی ہیں کہ سیلاب سے متاثرین میں وہ لوگ شامل ہیں جو سیلاب سے متاثر ہو کر دوسرے قصبہ یا ہر منتقل ہوئے بلکہ وہ بھی شامل ہیں جن کے یہاں سیلاب سے متاثرہ 25 مہمان رہ رہے ہیں۔ یہ گھرانے بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔
ان رشتہ داروں کا جذبہ تعریف کے قابل ہے لیکن ریلیف کا کام کرتے ہوئے پلاننگ میں ان سفید پوش لوگوں کا خیال رکھنا‘ ان کی مدد کرنا اہم ہے۔ آبادی کے دیگر افراد بھی اس میں تعاون کریں۔ ان متاثرین کی طبی مدد بھی اہم ترین ہے۔
پیما کے ڈاکٹر رائو نعیم صاحب کی ٹیم نے میڈیکل کیمپ ٹھٹھہ اور نواب شاہ میں کیے۔ ان قصبوں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گھروں میں سیلاب سے متاثر لوگوں کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ دھابے جی مارکیٹ میں ہم نے یہ جذبۂ خدمت دیکھا۔ یہاں 750 خاندان ٹھٹھہ‘ سجاول اور دادو کے متاثرہ علاقوں سے آئے ہیں۔ اس آبادی میں اردو‘ سندھی‘ بلوچی‘ پٹھان‘ بنگالی کمیونٹی نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنایا ہے جس میں الخدمت کے رضا کار بھی شامل ہیں۔ لطیف پریمی کی قیادت میں لوگوں کو راشن اور دیگر سہولیات دے رہے ہیں۔ میڈیکل کی سہولیات ڈاکٹر رائو نعیم صاحب کی ٹیم دے رہی ہے۔
دریائے سندھ کے کچے کے علاقے نواب شاہ وغیرہ میں ڈاکٹر رائو نعیم کی ٹیم میں جس میں لیڈی ڈاکٹر اور بچوں کے ماہر ڈاکٹر شامل ہیں‘ میڈیکل کیمپ کیے ہیں۔ ان کیمپوں میں مریضوں کے معائنے اور سروے کے بعد اہم نکات سامنے آئے۔
-1 عورتوں اور بچوں میں خون کی کمی: بہت بڑا مسئلہ ہے خون کی کمی اگر ہو تو جسم کی بیماری کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اس لیے اس مسئلے پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
-2پیٹ میں درداور دست کی شکایت:اس کی بڑی وجہ پانی کا صاف نہ ہونا‘ بچوں کے ناخن بڑے ہونا اور ان گندے ناخن والے ہاتھ سے کھانا کھانا۔
جب ڈاکٹرز نے ماں کو ناخن کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ بڑھے ہوئے ناخن سے جراثیم پیٹ کے اندر جاتے ہیں جس سے بچہ بیمار ہوجاتا ہے۔ تو اکثر مائوں نے کہا ہمارے پاس ناخن کاٹنے کے لیے کوئی چیز نہیں۔
جراثیم ولا گندا پانی بھی پیٹ کی بیماری کی بڑی وجہ ہے۔
-3 بچوں کو پیٹ میں کیڑے کی شکایت۔
-4 جلد اور سر میں خارش خواتین اور بچیوں کا بڑا مسئلہ تھا۔
ان مسائل کے حل کے لیے یہ تجاویز ڈاکٹروں کی ٹیم نے دیں۔
-1 ایک ہیلتھ کِٹ بنائی جائے جس میں ایک ناخن کٹر‘ ایک بڑا کنگھا‘ ایک جوئیں نکالنے والی کنگھی‘ پونیاں‘ ہیئر بینڈ‘ دو بڑے صابن ہوں۔ اس کے علاوہ دو گز لٹھا اور قینچی ہو کہ خواتین بچوںکے لیے نیکپین اور پیڈز کپڑے کو کاٹ کر بنا سکیں۔
اس پیک میں پانی کو صاف کرنے والی گولیاں 30 دن کے لیے دی گئیں۔
پانی صاف کرنے والی ایک گولی ایسی آتی ہے جو ایک گولی دو مٹکے پانی (تقریباً 20 لیٹر) کے لیے کافی ہوتی ہے۔
دوسری طرح کی گولیاں جو 100 لیٹر کے لیے ہوتی ہیں ان کا چوتھائی ٹکڑا دو مٹکے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ گولی کو پانی میں ڈال کر ہلائیں حل ہو جائے تو آدھا گھنٹہ بعد پانی صاف ہو جاتا ہے۔
ابتدائی ہیلتھ کٹ ہم نے خود تیار کیں اور تقسیم کیں اس پروجیکٹ میں ظہیرالاسلام صاحب‘ سلیم اظہر صاحب اور منہاج قریشی صاحب نے عملی حوصلہ افزائی کی ہے۔ کچے کے علاقے اور دھابے جی کے علاقے میں مقیم خاندانوں میں تقسیم کی گئیں۔
ہیلتھ کٹ کے ذریعے ایک خاندان کو ایک ماہ تک بیماری سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک ہیلتھ کٹ کی مالیت تقریباً 1,000 روپے ہے۔وہ تمام افراد اور ادارے جو سیلاب زدگان کے لیے کام کر رہے ہیں ان سے اپیل ہے کہ وہ خود ہیلتھ کٹ بنوائیں اور خود تقسیم کریں۔ اگر اس کو بنانے میں رہنمائی چاہیے تو 0348-1562940 پر ڈاکٹر خالد صاحب سے واٹس ایپ پر رابطہ کریں۔
ڈاکٹر سلطان مصطفی صاحب نے رہنمائی کی ہے کہ کیمپوں میں آنے والے تمام بچوں کو Deworm کیا جائے یعنی پیٹ کے کیڑوں کے خاتمے کی دوا دی جائے۔ واضح رہے کہ پروفیسر سلطان مصطفی میڈیکل کیمپس میں بچوںکے اسپیشلسٹ او پی ڈی کے لیے اپنے شاگرد ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم بھیج رہے ہیں۔
آخری اور اہم بات جو ہم نے تمام کیمپس کے تجربات کے بعد اخذ کی ہے کہ تمام ریلیف آرگنائزیشن کو ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور کوئی ایسا فورم ہو جس پر تمام مثبت تجربات شیئر کیے جاسکیں اور غلطیوںسے بچا جاسکے۔

حصہ