سند باد جہازی کے حیرت انگیز سفر

164

مدتوں ہر رات میں ایک ہاتھی مارتا رہا۔ تاجر اس بات سے بہت خوش تھا۔ اس نے میری تعریف کی اور کہا کہ آئندہ ہر دس ہاتھی دانتوں میں سے ایک دانت تمہارا ہو گا۔ جب تم سو دانت جمع کرلو گے تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا اور تم وہ سو ہاتھی دانت بھی اپنے ساتھ لے جانا۔
میری قسمت اچھی تھی۔ میں تقریباً سو ہاتھی دانت جمع کر چکا تھا، مگر ایک دن ایک ہاتھی زندہ بچ کر بھاگ نکلا۔ دوسری رات جنگل میں بڑا ہنگامہ تھا۔ سینکڑوں ہاتھی میری تلاش میں سرگرداں تھے۔
آخری حادثہ
ایک دن تمام ہاتھی اس درخت کے گرد جمع ہو گئے جس پر میں چڑھا ہوا تھا۔ میں نے سوچا، “سندباد جہازی، اب تک تو تمہارا مقدّر چمکتا رہا ہے، مگر آج تمہاری شامت آ گئی ہے۔”
ہاتھی درخت کے نزدیک آتے گئے۔ میں نے صورتحال کو سمجھا اور کوئی تیر نہ چلایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور اندیشی ہی سے میری جان بچی۔ پھر سب ہاتھیوں نے مل کر اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ ڈالا۔ میں دھڑام سے زمین پر گرا۔ ایک ہاتھی نے مجھے سونڈ سے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر بٹھایا اور پھر وہ ایک قطار بنا کر چل دیے۔ وہ کئی وادیوں سے گزرے۔ آخر پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک وادی میں پہنچے اور وہاں رک گئے۔
اس سے پہلے میں نے ایسی کہانیاں سنی تھیں کہ ہاتھیوں کا ایک مرگھٹ ہوتا ہے جہاں جا کر وہ مرتے ہیں، مگر مجھے ان باتوں پر یقین نہ تھا۔ آج یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ سینکڑوں کیا ہزاروں ہاتھی یہاں مر چکے تھے۔
دوسرے ہاتھی میرے چاروں طرف گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ وہ مجھے بھی دیکھ رہے تھے، لیکن کسی نے مجھے چھوا نہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ نگاہوں میں مجھ سے کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ بات کر سکتے تو غالباً مجھ سے یہی کہتے کہ تم ہمیں کیوں مارتے ہو؟ یہاں دیکھو۔ ہزاروں ہاتھی دانت پڑے ہیں۔ ہمارے یہ کس کام کے۔ تمہی لے جاؤ اور لوگوں سے کہو، اگر تمہیں ہاتھی دانت چاہئیں تو ہمیں مت مارو، ادھر سے کچھ ہاتھی دانت اٹھا کر لے جاؤ۔
یہ منظر دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں پشیمانی کی تصویر بن چکا تھا۔ وہ میرے جذبات کو بھانپ گئے۔ ایک طرف سے ہاتھیوں کا گھیرا ٹوٹا اور جس ہاتھی پر میں سوار تھا وہ مجھے لے کر چلا اور اس کے ساتھ دو اور ہاتھی چلے۔ جنگل کے ایک کنارے پر جا کر اس ہاتھی نے اپنی سونڈ سے مجھے اٹھا کر آہستہ سے زمین پر ڈال دیا۔
میں نے الله کا شکر ادا کیا۔ میں ہاتھیوں کا پیغام سمجھ چکا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے آقا تاجر کو اور ہاتھ دانت کا کاروبار کرنے والے دوسرے تاجروں کو ہاتھیوں کے اس مرگھٹ میں لے گیا۔ وہ وہاں ہزاروں ہاتھ دانت دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ میں نے ان سے کہا، “دیکھیے آپ وعدہ کیجیے کہ آپ روزانہ ضرورت سے زیادہ ہاتھی دانت یہاں سے نہیں اٹھائیں گے۔”
انہوں نے وعدہ کیا۔ ہم سب خوشی خوشی واپس آئے۔ تمام تاجروں نے مل کر مجھے تحفوں سے مالا مال کر دیا اور میں سو ہاتھ دانت اور وہ تحفے اپنے ساتھ وطن لے آیا۔ سب چیزیں بیچ کر بے شمار دولت جمع کی۔ یہ دس سال پہلے کی بات تھی۔ یہی میرا آخری سفر تھا۔ اس کے بعد میں نے کبھی سفر نہیں کیا۔ مجھے ان بے زبان ہاتھیوں کا پیغام ہمیشہ یاد رہے گا۔

حصہ