دیر آید درست آید

234

جمیلہ بیگم اپنے کھلے ہاتھ کی وجہ سے بہت مشہور تھیں، کوئی مانگنے والا ہو یا کوئی پریشان حال، اُس کی مدد کیے بغیر انہیں سکون نہیں ملتا‘ بچوں سے بھی ان کی جیب خرچی میں سے کچھ حصہ مانگنے والوں کے لیے ضرور رکھواتیں، یہی وجہ تھی کہ مانگنے والیاں ان کے در پر حاضری لازمی دیتیں اور ان کا دروازہ ہر غریب کے لیے کھلا رہتا۔
ایک ہی گھر کے دو حصے ہوئے تھے۔ ساتھ والا گھر ان کی دیورانی کا تھا۔ دیوار سے دیوار ملی ہوئی تھی، جہاں سیما اپنے دو بچوں ماریہ اور وجاہت کے ساتھ رہتی تھی‘ شوہر کا عرصہ ہوا معمولی سی بیماری کے بعد انتقال ہوگیا تھا۔ سسر بھی جب تک زندہ رہے خاموشی سے کفالت کرتے رہے پھر آخری وقت میں اس گھر کے دو حصے کر کے اپنے مرحوم بیٹے کی بیوی بچوں کا رہنے کا سامان کر گئے۔
جمیلہ بیگم کے شوہر یعنی سیما کے جیٹھ بھی اپنی بیگم ہی کی طرح کافی ہمدرد انسان تھے مگر اپنے بزنس کو زیادہ سے زیادہ کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ غرض یہ کہ گھر کا سارا کرتا دھرتا اور کل مختار جمیلہ بیگم ہی تھیں۔
آج بھی کونے کے گھر میں رہنے والی رشیدہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر جمیلہ بیگم کے پاس بڑی آس لگائے بیٹھی تھی اور آس کیوں نہ لگاتی جمیلہ بیگم نے کبھی خالی ہاتھ جو نہ جانے دیا تھا۔
’’جمیلہ! اللہ پاک تجھے خوش رکھے، جس طرح تو میری مدد کرتی ہے میرا دل تجھے دعائیں دیتے نہیں تھکتا۔ میں جب بھی تیرے پاس آئی ہوں خالی ہاتھ نہیں گئی۔‘‘
رشیدہ بیگم کی باتوں سے جمیلہ بیگم کے اندر سکون سا اتر جاتا۔ وہ دوسروں کی مدد کرنے سے خوش ہوتی تھیں مگر ایک بے کلی سی تھی جو کبھی کبھی کبھی انھیں آن گھیرتی تھی۔
’’ نیلم باجی ، نیلم باجی کیا پکایا ہے بڑی مزے کی خوشبو آرہی ہے آپ کے یہاں سے؟‘‘ ماریہ نے نیلگوں آسمان کے نیچے اپنی کتابوں میں ڈوبی نیلم کو دیکھتے ہی چھت سے اچکتے ہوئے کہا۔
’’ارے! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘نیلم کی ماریہ پر نظر پڑتے ہی نیلم جلدی سے اس کے پاس پہنچ گئی۔
’’قسم سے نیلم باجی گھر کی بنی دال کھانے کا بالکل دل نہیں ہے اور تمہارے یہاں سے آنے والی خوشبو نے پھر دال کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیا، کیا پکایا ہے تم لوگوں نے کوفتے؟‘‘
ماریہ نے نادیدوں کی طرح سوال کرکے خود ہی جواب دے ڈالا تو نیلم کی ہنسی ہی نہ رکی۔
’’رکو تم، میں ابھی تمہارے لیے لے کر آتی ہوں‘‘ نیلم کے کہنے پر ماریہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’اچھا نیلم باجی! میری امی کو پتا نہ چلے اور نہ ہی بڑی امی کو۔‘‘ ماریہ نے نیلم کو پیچھے سے آواز لگائی جو کہ جلدی جلدی زینہ اتر رہی تھی۔
مسلسل مشین پر کپڑے سینے سے سیما کی کمر کافی درد تھا‘ رات دیر تک جاگنے سے اس کو کچھ بخار بھی تھا، ماریہ سے جہاں تک ہوتا باورچی خانے کے کاموں میں سیما کی مدد کر دیتی اور تھوڑی سی بھی فراغت پاتے ہی اپنے بستر پر دراز ہو کر اپنے من پسند خوابوں میں کھو جاتی، جہاں صرف اس کی حکومت ہوتی‘ ہر خوشی اس کے قدموں میں بچھی ہوتی کبھی چوری چوری سپنوں میں اپنی بڑی امی کے گھر بھی ہو آتی جہاں دنیا جہاں کے ہر چیز میسر تھی اور وہاں کی شہزادی بننے کا خواب آنکھوں میں بند کیے رہتی۔ چاہتی تو سیما بھی یہی تھی مگر کبھی بھی بڑی بھابھی کے آگے ہاتھ پھیلانا اچھا نہ لگا۔ گو کہ وہ ہر ایک کی مدد فراخدلی سے کرتیں مگر کچھ سیما جیسے سفید پوش بھی ہوتے ہیں، جن کا بھرم ان کی ضروریات سے بڑا ہوتا ہے، گھر بالکل برابر ہونے سے خصوصاً کھانوں کی مہک سیما کے گھر پہنچتی تو بھوکے پیٹ صبر کرنا ناقابل برداشت ہوجاتا، مگر سیما سختی سے اپنے بچوں کو دال روٹی کھانے پر ہی زور دیتی۔ ماریہ کبھی چپ چاپ نیلم سے فرمائش کرکے کچھ کھا لیتی جس کی سیما کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی۔
غرض یہ کہ دنیا جہاں کا درد اپنے حساس دل میں سمونے والی جمیلہ بیگم اپنے پڑوس میں رہنے والے اپنے دیورانی کے دکھ سے واقف نہ تھی، تو زیادہ واقفیت رکھنے کی روادار بھی نہ تھیں۔ ان کے نزدیک دروازہ بجا کر مانگنے والا یا سوال کرنے والا ہی مدد کا حق دار ہے لیکن جو سفید پوش اپنی خود داری کا بھرم رکھے بھوکے پیٹ سوتے ہیں، ان کا ان سے کوئی سوال نہیں ہوگا۔
’’ارے ارے نیلم! یہ کوفتے تو میں نے مہمانوں کے لیے بنائے ہیں، تم کس کے لیے پیک کر رہی ہو ؟‘‘ جمیلہ بیگم نے نیلم کو کوفتے پیک کرتے دیکھ سوال کیا تو نیلم کے جلدی جلدی چلتے ہاتھ اچانک رک گئے۔
’’وہ مما! میں نے سوچا کہ ہم چچی جان کی دعوت تو کبھی کرتے ہی نہیں کیوں نہ آج دعوت کا کھانا ان کے گھر بھی دے آئیں، دیوار سے دیوار ملی ہے اور ہمارے کھانے کی خوشبو وہاں بھی جاتی ہوں گی۔‘‘ نیلم نے پیار بھرے انداز میں کہا تو کچھ پل کے لیے جمیلہ بیگم ساکت رہ گئیں۔
’’ارے بیٹا! ان سے زیادہ ضرورت مند لوگ ہیں اور ہم تو آئے روز کسی نہ کسی کی مدد کرتے ہی رہتے ہیں‘ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کے گھر چولھا نہیں جلتا، میں تو چاہتی ہوں کہ سب کی مدد کروں۔‘‘
’’لیکن مما! ہمیں مدد کی شروعات بھی اپنے قریبی رشتہ دار سے ہی کرنی چاہیے کیوں کہ ہماری مدد کے سب سے زیادہ مستحق قریبی رشتہ دار ہیں۔‘‘
نیلم نے جواز پیش کیا تو جمیلہ بیگم کچھ بول ہی نہ پائیں اتنا تو وہ بھی جانتی تھیں لیکن کبھی اس طرح نہیں سوچا تھا‘ بس جو سوالی آیا اس کو خالی ہاتھ نہ جانے دیا‘ جس نے مدد طلب کی اس کی ضرورت پوری کردی۔ لیکن اپنی دیورانی کی خاموشی کو نہ سن سکیں۔ کرب کا احساس ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ یہ سب انہوں نے پہلے کیوں نہ سوچا۔
’’ایسا کرو نیلم بیٹا! یہ کوفتوں کے ساتھ بریانی اور میٹھے کے ڈش بھی اچھی طرح سے پیک کرو میں اپنے ہاتھوں سے ان کے گھر جا کر دے آتی ہوں۔‘‘
آج انہیں احساسِ ندامت ہوا تھا اور اب ان کا حساس دل اپنی دیورانی کی مدد کے لیے بے چین ہو گیا تھا۔

حصہ