نذیر ابڑو کا مقدمہ

221

گزشتہ کئی برسوں سے نذیر ابڑو بھینس چوری کا مقدمہ بھگتتے بھگتتے تھک چکا ہے‘ کل عدالت سے واپسی پر میری اس سے ملاقات ہوگئی‘ وہ جتنی دیر ساتھ رہا‘ پریشان اور انتہائی دل برداشتہ دکھائی دیا۔ اُسے دیکھ کر میں نے عدالتی کارروائی کے بارے میں پوچھا تو وہ آبدیدہ ہو گیا کہنے لگا:
’’بیٹا! لگتا ہے میری ساری زندگی کچہریوں کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے ہی گزر جائے گی‘ دس سال قبل بھینس چوری کے جھوٹے مقدمے سے ابھی جان نہ چھوٹی تھی کہ بیٹے پر جھگڑا کرنے کے الزام کی صورت ایک نئی مصیبت گلے پڑ گئی‘ اب ایک پیشی اپنے پر ہونے والے مقدمے کی اور دوسری شریکوں کی جانب سے بیٹے پر لگائے جانے والے الزام پر بھگتنا پڑ رہی ہے۔ ہم دونوں باپ بیٹے بس اسی چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ اب تو میں یہ سوچتا ہوں کہ کچہری کے باہر آلو چھولے کی ریڑھی لگا لوں اس طرح ایک طرف روزی روٹی کا بندوبست ہو جائے گا اور مقدمے کی تاریخ آنے پر حاضری بھی لگ جایا کرے گی۔ بچپن میں اسکول سے غیر حاضر ہونے کی وجہ سے پڑھائی نہ کر سکا‘ یہاں اسکول کی طرح غیر حاضر نہیں ہو سکتا نہ جانے زندگی کتنی بہاریں ابھی اور کچہری میں آتے جاتے گزریں گی‘ ساری جمع پونجی ختم ہو چکی ہے‘ گھر میں دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پکتی ہے‘ ظاہر ہے مقدمہ بازی میں کتنے پیسے لگتے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ مقدمات کا سامنا کرنا غریب کے بس کی بات نہیں‘ وکیلوں کی فیس‘ گاؤں سے آنے جانے کا کرایہ اور سب سے بڑھ کر زندگی کا سکون برباد ہو چکا ہے۔ ایسی صورت میں کیا کیا جا سکتا ہے کوئی کام نہیں ملتا‘ مزدوری مل بھی جائے تو پیشی پر چھٹی کرنا پڑ جاتی ہے ایسے میں بھلا کون کام پر رکھتا ہے۔ ذہن پر بوجھ ہو تو بندہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر سکتا‘ مجھے کہیں سے بھی انصاف کی کوئی امید نہیں‘ کس در پہ جاؤں؟ کس سے فریاد کروں؟ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر کوئی جرم کیا ہے تو مجھے پھانسی لگا دو لیکن یوں رسوا نہ کرو‘ یہ مقدمے تو میری جان کو آگئے ہیں‘ لگتا ہے یہ میری سانسوں کے ساتھ چلیں گے۔ ہمارے ملک میں قانون و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں عدالتوں میں جاؤ تو پتا چلتا ہے ہر دوسرا آدمی پریشان ہے‘ تمام سہولیات بڑے لوگوں کے لیے ہوتی ہیں ‘ اشرافیہ اور سیاست دانوں کو ہی ہر قسم کی سہولت حاصل ہیں‘ قاتل اور چور دندناتے پھر رہے ہیں‘ ملک کا پیسہ لوٹنے والے اور درجنوں افراد کے قاتل ضمانت پر باہر ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود وہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوتے اور ستم بالائے ستم کہ اُن سے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ اس کے برعکس ہم غریبوں کو تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے۔ بس رب کی ذات ہے جس سے ہم فریاد کرتے ہیں۔ بے شک وہی سننے والا ہے‘ یقیناً وہی جبر کے اس نظام کو پلٹ کر رکھ دے گا‘ جس میں انسانیت کی توہین کی جاتی ہے جس میں مجرم دندناتے پھرتے ہیں جہاں چمک کے سامنے اربابِ اختیار کی گردنیں جھک جاتی ہیں‘ جہاں طاقتور کمزور پر ظلم کرتے ہیں حضرت علیؓ کا قول ہے کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ایسی حکومت کا قائم رہنا ناممکن ہے جس میں انصاف نہ ہوتا ہو۔ بس رب کی ذات سے امید لگائی ہوئی ہے جو بہترین انصاف کرنے والا ہے۔،،
نذیر ابڑو مستقل بولے جا رہا تھا۔ میں نے بھی اسے درمیان میں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ بیتی سناتے ہوئے اس کی آواز بھرا رہی تھی اور زبان بھی خشک ہو رہی تھی۔ خاصی دیر نذیر کی باتیں سننے کے بعد میں نے اسے تسلی دی اور پانی پینے کا مشورہ دیا تاکہ اس کے غصے میں کمی آسکے۔ میرے نزدیک اس کی باتیں سننے کا واحد مقصد اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک تو اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے جبکہ ملک میں رائج قانون کے خلاف اس کے ذہن میں ابھرتے منفی خیالات‘ جو اُسے بددل کر رہے ہیں‘ گہرے نہ ہوں جس کی وجہ سے وہ انتہائی غصے کے عالم میں ہے۔
خیر نذیر ابڑو اپنی باتیں سنانے یا دل کا بھڑاس نکالنے کے بعد گاؤں جانے کا ارادہ ظاہر کرنے لگا۔ ان حالات میں جب نذیر ابڑو ہمارے ملک میں رائج عدالتی نظام پر کئی سوال اٹھا چکا تھا‘ میں کیسے اسے رخصت کر سکتا تھا کیوں کہ اب مجھ پر لازم تھا کہ میں اسے آئین و قانون کے تحت ہونے والے چند فیصلوں کے بارے میں بتا کر اس کا اعتبار اپنی عدلیہ پر بحال کروں۔ میرے نزدیک کسی بھی شخص کا نظامِ انصاف کے بارے میں یوں گلے شکوے کرنا نیک شگون نہیں اور سب سے بڑھ کر معاشرے میں اس قسم کی سوچ کا پیدا ہونا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے نذیر کو دنیا کے کئی ممالک میں ہونے والے عدالتی فیصلوں کی مثالیں دینا شروع کر دیں۔ پہلے تو نذیر میری بات سننے کو تیار نہ ہوا پھر بعد میں اس شرط پر راضی ہوا کہ وہ میری باتوں کے درمیان ذہن میں آنے والے سوالوں کے جواب ضرور پوچھے گا اور جہاں اختلاف ہوگا اس کا برملا اظہار کرے گا۔ اس پر رضامندی ظاہر کرنے کے بعد میں اپنی طرف سے سچائی ثابت کرنے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان کے چند عدالتی فیصلوں کے بارے میں بتاتے ہوئے اسے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ میں نے اس سے کہا:
’’جب کبھی دنیا بھر کی عدالتوں کی جانب سے دیے گئے فیصلوں کی تاریخ لکھی جائے گی تو پاکستان کا عدالتی نظام سرِ فہرست ہوگا یعنی انصاف کرنے والے ممالک میں ہمارے ملک کا پہلا نمبر ہوگا۔ یہ واحد ملک ہوگا جہاں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کیے جاتے ہیں یعنی یہی وہ ملک ہوگا جہاں تمام فیصلے ثبوت اور گواہی کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں‘ جہاں عدلیہ آزاد ہے‘ جہاں حکمران بھی قانون سے بالاتر نہیں‘ جس کے وزیراعظم سے بھی کوئی رعایت نہیں برتی جاتی اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق شواہد کی بنیاد پر اسے بھی سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ اس سے بڑی دنیا میں اور کیا مثال ہوگی کہ کسی ملک کی عدلیہ نے اپنے سب سے بڑے منصب پر فائز شخص کو بھی تختۂ دار پر لٹکانے کے احکامات دے کر انصاف کا بول بالا کر دیا‘ جہاں انصاف کا معیار یہ ہو تو پھر ایسے ملک میں کسی کے ساتھ ناانصافی بھلا کیسے ہو سکتی ہے۔‘‘
میری باتیں سن کر خاص طور پر بھٹو کے خلاف دیے گئے فیصلے کا حوالہ سن کر نذیر ابڑو آگ بگولہ ہوگیا کہنے لگا۔
’’کیا مجھے پاگل سمجھتے ہو؟ کہاں کی بات کہاں ملا رہے ہو‘ تم ابھی بچے ہو‘ جس دور کی تم بات کر رہے ہو اُس زمانے میں تمہاری عمر دودھ پینے کی ہو گی۔ میں سب جانتا ہوں کہ کس طرح ایک منتخب وزیراعظم کو سازش کے ذریعے راستے سے ہٹایا گیا‘ وہ دن مجھے اب بھی یاد ہے بلکہ وہ ساری کارروائی میرے ذہن پر نقش ہے۔‘‘
نذیر ابڑو کو جذباتی ہوتا دیکھ کر میں نے فوراً پوچھا ’’کیا یہ فیصلہ عدالت کا نہیں تھا؟‘‘
وہ پھر سے اسی لہجے میں بولا ’’بیٹا وہ جس جماعت کا قائد تھا اُن سے پوچھو ان کے نزدیک یہ کارروائی ’’عدالتی قتل‘‘ ہے۔ اگر تم اسے انصاف کا بول بالا کہتے ہو تو اپنی رائے اپنے پاس رکھو‘ ایسی مثالیں دے کر میرا دل نہ جلاؤ۔‘‘
نذیر ابڑو کے جذبات سن کر میں کہا ’’تمہارے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا‘ تاریخ تو اُسے انصاف پر مبنی فیصلہ ہی لکھے گی۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اسے اس وزیراعظم کا‘ جسے لوٹی گئی دولت کی بازیابی کے سلسلے میں خط نہ لکھنے کی باعث گھر بھیجا گیا تھا‘ ذکر شروع کر دیا۔ یہ مقدمہ بھی کرپشن سے پاک پاکستان بنانے کے سلسلے کی ایک اعلیٰ مثال ہے‘ اس مقدمے کا فیصلہ بھی ’’ملکی مفاد‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین اور قانون کے ’’عین مطابق‘‘ کیا گیا۔ یہاں بھی انصاف فراہم کرنے والے ادارے نے چند منٹوں کی سزا دے کر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نہ صرف اقتدار سے محروم کر دیا بلکہ پانچ سال کے لیے نااہل تک قرار دے دیا گیا‘ یہ دوسری مثال ہے جو ہمارے ملک میں انصاف کی حکمرانی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہمارے ملک میں تخت نشین سے لے کر ایک عام آدمی تک سب قانون کی نظر میں برابر ہیں۔‘‘
نذیر ابڑو اب میری باتیں خاموشی سے سن رہا تھا۔ اس مرتبہ اس نے سوال کیا اور نہ ہی غصہ دکھایا بلکہ زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے سگریٹ کی ڈبی اپنی جیب سے نکال کر سگریٹ سلگانے لگا۔ میں نذیر کی اس حرکت پر جل بھن کر رہ گیا لیکن جب میں نے طے کرلیا تھا کہ وہ کچھ بھی کہے‘ میں اپنے ملک کی عدلیہ کی جانب سے دیے گئے تاریخی فیصلے اسے سناتا رہوں گا تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ یہاں آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ بس میں نے اسی سلسلے میں اپنی بات جاری رکھی۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی بات مکمل کرتا نذیر مجھے روکتے ہوئے کہنے لگا ’’بیٹا! فلسفہ بگھارنا چھوڑ اور یہ بتا کہ پاناما سے اقامہ کیسے بنا میرا مطلب ہے اس مرتبہ جس وزیراعظم کو انصاف کے کٹھہرے میں کھڑا کیا گیا اس پر کتنی کرپشن ہوئی‘ ہزاروں ڈالر لوٹنے والے سے کیا وصول ہوا مجھے‘ اس سیاسی رہنما سے کیا لینا‘ وہ تو آزاد معاشرے کی فضاؤں میں سانس لے رہا ہے‘ میرا مطلب ہے کہ وہ تو بیرون ملک آرام دہ زندگی بسر کر رہا ہے۔ میں نے سوچا تھا اربوں روپے ملک میں آئیں گے لیکن ہاتھ اقامہ آیا ایک شخص کو فارغ کر کے باقی جماعت دودھ کی دھلی ہوگئی۔ خاندان کے ایک شخص کے سوا باقی تمام فرشتے ہو گئے۔ اگر کچھ نہیں تو تم ہی بتاؤ اس فیصلے کو کیا کہوں؟‘‘
نذیر کی باتوں سے اس مرتبہ واقعی میرا خون کھولنے لگا۔ اس سے پہلے کہ مجھے مزید غصہ آتا‘ میں نے اُسے گاؤں کی گاڑی میں سوار کروا دیا۔ وہ تو چلا گیا لیکن اس کی باتیں میرے ذہن میں کئی سوال چھوڑ گئیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر 62/63 کے تحت نااہل ہونے والا شخص وزیراعظم نہیں بن سکتا اور ایک مجرم ٹھہرایا جاتا ہے تو اس کی تصاویر اپنے سینے سے لگانا یا ملک کی اہم جگہوں پر لگانا کس زمرے میں آتا ہے؟ اگر یہ واقعی توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے تو کارروائی کب اور کون کرے گا؟
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں عدلیہ کے فیصلوں کو بھی سیاسی بنا دیا جاتا ہے خاص کر الیکٹرونکس میڈیا اور سوشل میڈیا پر معزز عدالت کی جانب سے دیے گیے فیصلوں کو متنازع بنانے کی تحریک شروع کر دی جاتی ہے۔ عدالتوں کو اس سلسلے میں کارروائی کرنی چاہیے‘ ایسے معاملات پر ازخود نوٹس لے کر سزا دینے سے عدلیہ کا وقار بلند مزید بلند ہو سکتا ہے۔ عام رائے یہی ہے کہ عدالت کی طرف سے دیے جانے والے فیصلے پر عوام کی رائے مختلف ہو سکتی ہے‘ کچھ لوگ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو کچھ اسے اپنے خلاف تصور کرتے ہیں۔ میری ارباب اختیار سے سے گزارش ہے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جن کے تحت ہونے والے فیصلوں کو مخالف بھی مانے۔ عدلیہ کی طرف سے دیے گئے ہر فیصلے کا نتیجہ عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے سے نذیر جیسے کروڑوں لوگوں کے منہ بند کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے اگر آئین میں ترمیم کرنا پڑے تو کی جائے تاکہ عدلیہ کے فیصلوں کو متنازع بنانے والوں کو منہ کی کھانی پڑے۔ سب کو عدالتوں کا احترام کرنا ہوگا تبھی معاشرے سے نا انصافی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے بصورت دیگر ملک مزید انتشار کی جانب بڑھ سکتا ہے۔

حصہ