شعروشاعری

447

علامہ اقبال
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب اوّل اٹھتے ہیں حجاب آخر
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبۂ نادر کیا شوکتِ تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مے ناب آخر
خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر

میر تقی میر
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

مرزا اسداللہ خاں غالب​
​یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا ​
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا​
​تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا​
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا​
​تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا​
کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا​
​کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو​
یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا​
​یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح​
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا​
​رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا​
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا​
​غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے​
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا​
​کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بلا ہے​
مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا​
​ہوئے مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا ​
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا​
​اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا​
جو دوئی کی بُو بھی ہوتی توکہیں دوچار ہوتا​
​یہ مسائلِ تصّوف، یہ ترا بیان، غالبؔ​
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا​

ذوق
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بدقمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
ہو عمرِ خضر بھی تو کہیں گے بوقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
نازاں نہ ہو خِرد پہ جو ہونا ہے وہ ہی ہو
دانش تری نہ کچھ مری دانشوری چلے
دنیا نے کس کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یونہیں جب تک چلی چلے
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے
مومن
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرُو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلۂ ملامتِ اقربا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی ایسی بات اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مِرے دل سے صاف اتر گئی
تَو کہا کہ جانے مِری بلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنِؔ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

بہادر شاہ ظفر
لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں​
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں​
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں​
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں​
​​عُمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن​
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں​
کانٹوں کو مت نکال چمن سے کہ باغباں
یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں
​کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے​
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں​

خواجہ میر درد
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے​
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے​
​وحدت میں تیری حرفِ دوئی کا نہ آ سکے​
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے​
​میں وہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے​
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے​
​اخفائے رازِ عشق نہ ہو آبِ اشک سے​
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے​
​مستِ شرابِ عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر​
اے درد چاہے لائے بخود پھر نہ لا سکے​

جگر مراد آبادی

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

حصہ