تر پھلا

1948

تین پھلوں کا مرکب جو بہت سے امراض میں مفید ہے
درخت اور انسان ہمیشہ سے ایک دسرے کے اچھے دوست رہے ہیں۔ انسان درخت لگاتا ہے‘ اس کی آبیاری کرتا ہے‘ اسے امراض سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور بدلے میں درخت اپنے تمام تر فوائد بڑی فیاضی کے ساتھ انسان کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں‘ ہزاروں سال پہلے جب انسانی سائنسی علوم سے نا آشنا تھا‘ یونیورسٹیوں اور تحقیقی تجربہ گاہوں کا وجود نہ تھا‘ اس وقت بھی انسان اپنے تجربے کی بنا پر درختوں سے فائدہ اٹھاتا تھا‘ ان کے پھل اس کے لیے خوراک کا کام دیتے تھے‘ اس کے پتوں سے وہ اپنا تن ڈھانپاکرتا تھا اور کی لکڑی اس کی پناہ گاہوں کی تعمیر میں کام آتی تھی اور جب کبھی انسان بیمار ہوجاتا تھا تو یہی درخت‘ پودے ار جڑی بوٹیاں اسے امراض سے نجات دلانے کے لیے مستعد اور آمادہ رہتے تھے۔
ایسے ہی درختوں کے پھلوں میں تین پھل ایسے ہیں جو ہزاروں سال سے انسان کے لیے نسخہ شفا کا کام دے رہے ہیں۔ یہ تین پھل ہڑ (ہلیلہ)‘ بہیڑا (بلیلہ) اور آملہ ہیں جو اپنی جگہ تو جداگانہ خصوصیات کے حامل ہیں ہی لیکن جب تینوں یکجا ہوتے ہیں تو بہت سے امراض کے لیے اکسیر بن جاتے ہیں۔ سنسکرت زبان میں تین پھل کے لیے ’’تری پھل‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اسی لیے ان تین پھلوں کو مجموعی طور پر ’’ترپھلا‘‘ کہا جانے لگا۔
’’تری پھل‘‘ کا تلفظ عربوں نے کیا تو یہ ’’اطریفل‘‘ بن گیا۔ آج بھی طب کی دوائوں میں جتنے بھی ’’اطرافیل‘‘ بنائے جاتے ہیں ان سب کا خاص جزو یہی تین پھل ہوتے ہیں۔ ان تینوں پھلوں کو جب برابر مقدار میں کوٹ کر یک جان کر لیا جاتا ہے تو یہ آمیزہ طب کی زبان میں ’’ترپھلا‘‘ کہلاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ’’ترپھلا‘‘ تین پھلوں پر مشتمل ہے۔ ہم پہلے ان میں سے ہر ایک پھل کی خصوصیات الگ الگ بیان کرتے ہیں۔
ہڑ (ہلیلہ)
ہڑ کا درخت خود رو ہوتا ہے جو عام طور پر نگلہ دیش‘ مدھیہ پردیش‘ مدراس اور میسور کے جنگلات میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اس کی تین اقسام ہیں۔ دراصل یہ تینوں قسمیں پھل کے مکمل شکل اختیار کرنے کے تین درجے ہیں۔ جب پھل بالکل چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں گٹھلی نہیں بنی ہوتی تو اسے توڑ کر خشک کر لیا جاتا ہے۔ خشک ہونے پر اس کی رنگت سیاہ ہو جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے اسے ’’ہلیلہ سیاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب پھل کسی قدر بڑا ہو جاتا ہے اور اس میں گٹھلی پیدا ہو جاتی ہے تو اسے توڑ کر خشک کر لیتے ہیں۔ اس موقع پر اس کی رنگت زرد ہوتی ہے اس لیے اس کا نام ’’ہلیلہ زرد‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ جب پھل پوری جسامت حاصل کر لیتا ہے اور پک جاتا ہے تو اسے توڑ کر خشک کر لیتے ہیں۔ خشک ہونے پر یہ خاکستری رنگت اختیار کر لیتا ہے۔ جسامت میں بڑا ہونے کی وجہ سے یہ اس حالت میں ’’ہلیلہ کابلی‘‘ کہلاتا ہے۔
ہلیلہ کی تینوں قسموں کے فوائد ملتے جلتے ہیں۔ ’’ہلیلہ سیاہ‘‘ دماغ کو طاقت دینے اور دماغی امراض مثلاً فالج‘ لقوہ ویرہ کو دور کرنے کے لیے استعمال کروایا جاتا ہے۔ معدہ اور آنتوں میں اگر رطوبتوں کی زیادتی ہو تو یہ انہیں جذب کرتا اور آنتوں کو طاقت پہنچاتا ہے۔ اسے بواسیر اور خون کی خرابی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دست زیادہ آرہے ہوں تو ’’ہلیلہ سیاہ‘‘ کو گھی یا روغن بادام سے تر کرکے بھون لیا جاتا ہے اور پھر اسے باریک کوٹ کر مریض کو کھلایا جاتا ہے۔ دستوں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ معدے اور آنتوں کو طاقت بھی دیتا ہے۔
’’ہلیلہ کابلی‘‘ اور ’’ہلیلہ زرد‘‘ مذکورہ بالا امراض میں تو استعمال ہوتے ہی ہیں‘ ان کے علاوہ آنکھوں کے امراض مثلاً ’’ضعف بصارت دمعہ‘‘ (آنکھوں سے آنسوئوں کا برابر جاری رہنا) یا آنکھوں میں سرخی کی صورت میں‘ ہلیلہ کابلی یا ہلیلہ زرد کو شہد کے ساتھ گھِس کر لگایا جاتا ہے۔ آنتوں سے صفرا کو خارج کرنے کے لیے بطور مسّل بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ ’’مربہ ہلیلہ‘‘ قبض کو دور کرنے‘ دماغ کو طاقت دینے اور بالوں کی سیاہی قائم رکھنے کے لیے کھلاتے ہیں۔
طلب جدید کی تحقیقات کے مطابق ہلیلہ (ہڑ) میں ایک مؤثر جوہر ’’مائیرو بیلے نین‘‘ ہوتا ہے جو دستوں میں مفید ہوتا ہے اور صفرا کو اعتدال میں لاتا ہے‘ اس کے علاوہ ’’ٹے نین‘‘ کی مقدار اس میں تقریباً چالیس فیصد ہوتی ہے۔ یہ جزو خون کے بہنے کو روکتا ہے اور دستوں سے نجات دلاتا ہے اس دوا کی ایک بڑی صفت یہ ہے کہ یہ قبض اور دست دونوں صورتوں میں یکساں طور پر مفید ہے۔ اگر اسے سفوف کی شکل میں یا ’’خیساندے‘‘ اور جوشاندے کی شکل میں دیا جائے تو پیٹ صاف کرتا ہے اور اگر اسے کسی روغن سے چکنا کرکے بھون لیا جائے اور پھر کھلایا جائے تو دستوں کو روکتا ہے۔ ’’خیساندے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کسی دوا کو پانی میں بھگو کر رات بھر یا دس بارہ گھنٹے کے لیے رکھ دیا جائے اور پھر دوا کو مسل کر چھان لیا جائے اور یہ پانی پی لیا جائے۔ ’’جوشاندے‘‘ کی صورت میں اس دوا کو پانی میں ڈال کر اُبال لیا جاتا ہے۔ اگر ہلیلہ کو سفوف کی شکل میں استعمال کرنا ہو تو تین سے پانچ گرام مقدار میں سونے سے قبل استعمال کریں اور اگر جوشاندے یا خیساندے کی شکل میں استعمال کرنا ہو تو اس دوا کی پانچ سے سات گرام مقدار درکار ہوگی۔
بہیڑا (بلیلہ):
یہ ایک بڑے درخت کا بھورا‘ زردی مائل پھل ہے اس کے درخت بھی خودرو ہوتے ہیں اور دہرہ دون‘ جموں‘ نین تال اور راولپنڈی کے آس پاس ملتے ہیں۔ یہ دوا بھی معدے اور آنتوںکو طاقت دیتی ہے۔ معدے اور آنتوں کی کمزوری سے جو دست آرہے ہوں ان میں مفید ہے۔ اگر منہ سے رال زیادہ بہتی ہو تب بھی اسے استعمال کرواتے ہیں۔ ایسی صورت میں بلیلہ کو باریک پیس کر چھان لیا جاتا ہے اور برابر مقدار میں کھانڈ یا شکر ملا کر صبح نہار منہ اور را سونے سے قبل چھ‘ چھ گرام مقدار میں کھلایا جاتا ہے۔بلیلہ پرانی کھانسی میں بھی مفید ہے‘ اس کے لیے مخصوص طریقے پر گولیاں بنا کر چوسی جاتی ہیں۔ گرمی کی شدت سے آنکھیں دکھنے جائیں تو بلیلہ کے چھلکے کو پیس کر آنکھ کے چاروں طرف لیپ کیا جاتا ہے۔ یہ دوا بینائی کو طاقت دینے اور دمعہ (آنکھوں سے آنسو بہنا) کے لیے بھی مفید ہے۔ اس غرض سے بلیلہ کے چھلکے کو سرمہ کی طرح بہت باریک پیسنے کے بعد چھان لیا جاتا ہے اور پھر اس سفوف کو آنکھوں میں لگایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ دوا دماغ کو طاقت دیتی ہے اس لیے اسے اطریفلات میں شامل کرتے ہیں۔
آملہ:
یہ بہت مشہور پھل ہے۔ تازہ حالت میں یہ اچار‘ چٹنی اور مربہ میں استعمال کیا جاتا ہے اور خشک حالت میں گٹھلی صاف کر دینے کے بعد اسے کئی دوائوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ ویسے اسے تنہا بھی استعمال کروایا جاتا ہے۔ اس پھل کا ذائقہ ترش ہوتا ہے اور یہ دست کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بڑی کثرت سے پیدا ہوتا ہے‘ بعض علاقوں میں اس کی باقاعدہ کاشت ہوتی ہے۔
آملہ میں حیاتین ’’ج‘‘ (وٹامن سی) بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک درجن مالٹوں میں وٹامن سی کی جتنج مقدار ہوتی ہے تنہا ایک آملہ میں اتنا وٹامن سی پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام امراض میں جن کے باعث جسم سے خون جاری ہو جاتا ہے‘ آملہ کا استعمال بہت مفید ہے مثلاً نکسیر پھوٹنا یا اسکروی کا مرض جس میں مسوڑھے پھل کر پلپلے ہو جاتے ہیں اور ان سے خون جاری رہتا ہے۔
یہ دوا جسم اور خصوصاً ہڈیوں کی پرورش میں بھی مدد دیتی ہے۔ گرمی اور حدت کی وجہ سے دست آرہے ہوں یا ایسی تمام صورتوں میں آملہ خاص طور پر مفید ہے۔ اس غرض سے خشک آملہ پچاس گرام مقدار میں لے کر آٹھ یا دس گلاس پانی میں بھگو لیں۔ اگر مٹی کے برتن میں بھگوئیں تو بہتر ہے۔ جب بھی پیاس لگے یہی پانی پئیں‘ چوبیس گھنٹے بعد تازہ پانی تیار کر لیں۔ صفراوی دستوں کی صورت میں بھی آملہ مفید ہے۔ اس ۱سم کے دستوں کی نشانی یہ ہے کہ ان کی رنگت زرد ہوتی ہے اور دست آنے کے بعد وقت مریض تکلیف اور سوزش محسوس کرتا ہے۔
آملہ کے پانی سے آنکھیں دھوئی جائیں تو آنکھوں کی سرخی اور جلن جاتی رہتی ہے۔ بالوں کو شیمپو کرنے کے بعد اگر آخر میں آملہ کے پانی سے دھو لیا جائے تو بال نہایت نرم‘ چمک دار اور گھنے ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بالوں کی قدرتی سیاہی بھی قائم رہتی ہے۔ خشک آملوں کو پانی کی مدد سے باریک پیس کر بالوں کی جڑوں میں لگایا جائے اور نصف گھنٹے کے بعد دھو لیا جائے تو بھی بہت مفید ہوتا ہے۔ آملہ سے تیار کیا گیا تیل بھی بالوں کی حفاظت کرتا ہے۔
اگر گرمی یا بلڈ پریشر بڑھ جانے کی وجہ سے چکر آتے ہوں تو آملہ اور ثابت دھنیا کھانے کا ایک چمچہ لے لیں اور ایک یالی پانی میں رات کو بھگو دیں۔ صبح یہ پانی چھان لیں اور اس میں مصری یا شکر ملا کر نہار منہ پی لیں۔ آملہ کا مربہ اختلاج‘ خفقان اور دل و دماغ کی کمزوری میں مفید ہے اس کے لیے ایک عدد آملہ پانی سے دھونے کے بعد چاندی کے ورق میں لپیٹ کر صبح نہار منہ یا سہ پہر میں نوش کرنا چاہیے۔ آملہ سے چند مرکب ادویہ بھی تیار کی جاتی ہیں مثلاً جورش آملہ‘ جوارش شاہی اور اطریفلات وغیرہ۔ بہت سے تیلوں میں بھی آملہ استعمال ہوتا ہے۔ جورش آملہ اور جوارش شاہی پیٹ کے امراض مثلاً دست یا معدے اور آنتوں کی کمزوری اور گھبراہٹ وغیرہ میں استعمال کروائی جاتی ہے۔ اطریفلات نزلہ‘ زکام‘ سر کے درد اور دماغی امراض کے ساتھ ساتھ قبض میں بھی مفید ہیں۔
ترپھلا:
اب ہم ان تینوں پھلوں کے باہمی اشتراک سے بننے والی دوا یعنی ترپھلا کے فوائد کا ذکر کرتے ہیں۔ ہڑ (ہلیلہ) کی تینوں قسموں میں سے ہلیلہ کابلی کو ترپھلا کا جزو بنایا جاتا ہے۔ ہڑ‘ بہیڑا اور آملہ تینوں برابر مقدار میں لے کر کوٹ لیے جاتے ہیں۔ اس طرح وجود میں آنے والی دوا کے حیرت انگیز نتائج آنکھوں کے امراض میں ظاہر ہوتے ہیں۔ آشوبِ چشم کی صورت میں جسے عربی میں رمد اور انگریزی میں ’’آپ تھیلمیا‘‘ کہا جاتا ہے‘ ترپھلا بہت مفید ثابت ہوا ہے۔ اس مرض میں آنکھوں میں سرخی‘ کھنک اور جلن پیدا ہو جاتی ہے اور آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک مرض رو ہے‘ ککرے یا ٹراکوما کہلاتا ہے۔ اس مرض میں پپوٹوں کی اندرونی چکنی سطح پر (جس پر آنکھ کا ڈھیلا گھومتا ہے) باریک باریک سخت دانے پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب آنکھ حرکت کرتی ہے تو رگڑ کی وجہ سے خراش پیدا ہو جاتی ہے اور آنکھ کے بہت سے امراض لاحق ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس مرض میں تکلیف بھی بہت ہوتی ہے۔ یہ مرض عام طور پر ان علاقوں میں زیادہ نظر آتا ہے جہاں دھول مٹی زیادہ اُڑتی ہے اور گرمی سخت پڑتی ہے۔
یہ مرض اتنا اہم ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے اس کے لیے ایک منصوبہ ’’ٹراکوما پروجیکٹ‘‘ کے نام سے قائم کیا ہے۔ اس مرض کا علاج خاصا دشوار ہے۔ عام طور پر ایسے مریض کے پپوٹے الٹ کر پپوٹوں پر پیدا ہونے والے سخت دانوں پر کوئی دوا لگائی جاتی ہے یا انہیں جلا دیا جاتا ہے۔ یہ عمل سخت تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ آنکھ کو نقصان بھی پہنچاتا ہے۔ بھارت میں اطباء نے ٹراکوما پروجیکٹ کے افسران کو مشورہ دیا کہ وہ روئے یا ککرے کے مریضوں پر ’’ترپھلا‘‘ آزمائیں۔ اس مشورے عمل کے نتائج بہت اچھے رہے۔ چنانچہ اب ترپھلا ککروں کے علاج میں استعمال ہونے لگا ہے۔ ترپھلا کے استعمال سے نہ صرف ککرے دور ہو جاتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی خراش اور سرخی بھی رفع ہو جاتی ہے اور بینائی کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
اگر کوئی شخص اپنی آنکھوں کو صاف‘ چمک دار اور بینائی کو تیز رکھنا چاہتا ہے تو اسے روزانہ سونے سے پہلے یا صبح بیدار ہونے کے بعد ترپھلا کے پانی سے پانی آنکھوں کو دھونا چاہیے۔ اس کے استعمال کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ تینوں پھلوں کو موٹا موٹا کٹوا لیا جائے یا سروتے سے چھالیہ کی طرح کتر لیا جائے۔ روزانہ سونے سے قبل کھانے کے ایک چمچ کے برابر یہ آمیزہ لیا جائے اور ایک پیالی پانی میں بھگو دیا جائے۔ بہتر ہے کہ ایک دو بار پانی سے دھو کر پانی پھینک دیا جائے اور پھر ایک پیالی پانی میں بھگو دیا جائے اس پانی کو رات بھر کے لیے رکھ دیا جائے۔ صبح اس پانی کو چھان لیا جائے۔ اس کے ایک دو گھونٹ پی لیے جائیں اور باقی پانی سے آنکھوں کو اچھی طرح دھو لیا جائے اور اس پانی کو آنکھوں کے اندر بھی ڈالا جائے۔ سہولت کے لیے ’’آئی گلاس‘‘ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آئی گلاس میں یہ پانی ڈال کر آنکھ پر رکھا جائے اور اس پانی میں آنکھ کو کھولا اور بند کیا جائے۔ یہ عمل تقریباً پانچ‘ چھ منٹ تک جاری رکھنا چاہیے۔
جن لوگوں کے مسوڑھے سوجے ہوئے ہوں اور ان سے خون آتا ہو یا ان کے دانت ہلتے ہوں تو انہیں تر پھلا کے پانی سے کلیاں کرنی چاہئیں۔ بال اگر سخت یا بھدے ہو گئے ہوں تو انہیں نرم‘ چمک دار ‘ مضبوط اور سیاہ بنانے کے لیے نہانے کے دوران بالوں کو شیمپو کرنے کے بعد ترپھلا کے پانی سے دھو لیں‘ اس طرح بالوںکا قدرتی ترش ماحول جو بار بار شیمپو یا صابن استعمال کرنے سے ختم ہو جاتا ہے‘ وہ بھی معمول پر آجائے گا اور بالوں کی جڑوں میں جراثیم پرورش نہیں پاسکیں گے جِلد کو نرم اور صاف رکھنے کے لیے غسل کے بعد ترپھلا کا پانی جِلد پر ڈال لینا چاہیے۔ دس‘ پندرہ منٹ کے بعد سادی پانی سے جِلد کو دوبارہ دھویا جاسکتا ہے۔
ترپھلا کا پانی جس طرح بیرونی طور پر مفید ہے‘ اسی طرح اندرونی طور پر بھی اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ دائمی قبض ہو جائے تو رات سونے سے قبل نصف پیالی آبِ ترپھلا پئیں یا خشک صورت میں کھانے کا ایک چمچہ پانی کے ساتھ نوش فرمائیں۔ بواسیر میں مبتلا افراد بھی اسی طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ ترپھلا کے پانی میں شہد یا گڑ ملا کر سونے سے قبل نصف پیالی کی مقدار میں پی لیا کریں۔ انہیں یہ عمل چالیس دن تک جاری رکھنا چاہیے۔ جن لوگوں کو پیاس زیادہ لگتی ہو اور کسی طرح نہ بجھتی ہو وہ آب ترپھلا سے فائدہ اٹھائیں۔ جہاں جہاں وٹامن سی کی کمی پوری کرنا ہو‘ اس قدرتی ذخیرہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

حصہ