سوشل میڈیا پر سیلاب کا زور

212

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پھر بڑھا دی گئیں۔ آٹا 120 روپے کلو پر پہنچ گیا۔ مہنگائی بڑھنے کی صورت حال اپنی جگہ عوام کو متاثر کر رہی ہے مگر ساتھ ساتھ حکمران طبقے کی ختم نہ ہونے والی عیاشیاں، فضول خرچیاں مستقل عوام میں اضطراب پیدا کر رہی ہیں۔ اس کا اظہار سوشل میڈیا پر جاری رہا۔ عظیم کشمیری حریت رہنما‘ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے رہنما‘ مزاحمت کی علامت سید علی شاہ گیلانیؒ کا پہلا یوم شہادت یکم ستمبر کو سوشل میڈیا پر زبردست خراج عقیدت کے ساتھ منایا گیا۔ سید صاحب کے ایمان افروز خطابات کے کلپس، ان کے جملے سب ایمانی حرارت و جذبہ حریت کو مہمیز دیتے محسوس ہوئے۔
اس ہفتے سابق وزیر اعظم عمران خان توہین عدالت کے سخت معاملے کا سامنا کر رہے تھے۔ ٹی وی رپورٹس کے مطابق عدالتوں کا رویہ انتہائی معذرت خواہانہ لگ رہا تھا، مگر انصافی سوشل میڈیا ٹیم اپنے قائد کے دفاع میں جارحانہ انداز سے اترے نظر آئے۔ اس دوران معروف ٹاک شو اینکرارشد شریف کی اے آر وائی سے برخواستگی سوشل میڈیا پر چھا گئی۔ ارشد شریف اے آر وائی سے وابستہ تھے جو عمران خان و تحریک انصاف کا آرگن کہلاتا ہے۔ اے آر وائی پر تین ہفتوں سے حکومت نے کوئٹہ حادثہ کے تناظر میں پابندی لگا کر آف ائر کیا ہوا تھا اس کی وجہ بھی ’’اداروں‘‘ کے خلاف مواد نشر ہونا تھا۔ اے آر وائی نے بحالی کے لیے عدالتی کوشش کی مگر کورٹ احکامات کے باوجود پابندی برقرار ہے۔ ظاہر ہے جو کچھ اے آر وائی بحیثیت مجموعی عمران خان کے حق میں اور اداروں کے خلاف نشر کر رہا تھا وہ ’’اداروں‘‘ کو برداشت نہیں تھا۔ اپنی نشریات کی بحالی کی قیمت اب چینل نے ارشد شریف کی ایک خطر ناک ٹوئیٹ کو بنیاد بنا کر کیا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے سلسلے میں حکومت کی کوششیں اور ان میں رکاوٹ کے لیے تحریک انصاف کوشش کر رہی تھی۔ شوکت ترین کی پارٹی کے دونوں وزیر خزانہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کا لیک ہونا تحریک انصاف کو سخت ناگوار گزرا۔ اس پر ارشد شریف نے ’’اداروں‘‘ کو نشانہ بنا کر ٹوئیٹ کی۔ اسی ٹوئیٹ کو وجہ بنا کر اے آر وائی سے گھٹنے ٹکوائے گئے اور فیصلہ کرایا گیا۔ اس کے جواب میں جہاں سوشل میڈیا پر ارشد شریف کی حمایت کی گئی وہیں دیگر اینکرز کو ’’لفافہ‘‘ کہہ کر منفی مہم بھی چلائی گئی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ڈان لیکس بھی ہوچکی ہیں مگر اس وقت کیا معاملہ ہوا تھا اور اب کیسے ڈیل کیا جا رہا ہے‘ یہ فرق بھلایا نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہی سوشل میڈیا پر سب سے بڑا موضوع رہا۔ سیلاب سے پاکستان کے چار صوبے بری طرح متاثر ہوئے جن میں سندھ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا پھر پنجاب کے کچھ حصے شامل ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سب سے اہم بات جو اس معاملے میں لوگوں نے اجاگر کی وہ یہ تھی کہ یہ سیلابی ریلا پانی کے بہائو کے لیے قدرتی گزرگاہوں پر قبضہ کرنے، تعمیرات کرنے اور زمینیں آباد کرنے سے آرہے ہیں۔ برسات زیادہ ہوئی اس میں کوئی شک نہیں، اب اس ماہ اور زیادہ ہوں گی ، اگلے سال مزید بڑھیں گی یہ بھی پہلے سے بتا دیاگیا ہے مگر برساتی پانی کی نکاسی کے راستوں پر جس جس طرح سے نقب لگائی گئی ہے اُس پر توجہ تا حال کسی کی نہیں۔
سندھ اور بلوچستا ن آج بھی شدید خطرے میں ہیں کہ برسات مزید ہونی ہیں۔ کئی وڈیوز میں لوگ باقاعدہ نقشے لگا کر سمجھاتے رہے کہ یہ قدرتی گزر گاہیں تھیں جن پر قبضے کر لیے گئے۔ سوات ہوٹل کی وڈیوز تو اس کا منہ بولتا ثبوت تھیں کہ عین دریا کے دہانے پر بلند وبالا ہوٹل تعمیر کر دیے گئے جنہیں پانی نے تنکوں کی مانند اُڑا دیا۔ یہی بات قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ ’’تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی در گزر کر جاتا ہے۔ ‘‘ (سورۃ شوریٰ 30)
سوشل میڈیا کے ذریعہ با ت پہنچانے اور غصہ نکالنے سے کم از کم یہ ردعمل ہمیں صاف نظر آیا کہ متاثرہ لوگوں نے کئی حکومتی ذمہ داران کی آمد پر ان کو ذلیل بھی کیا۔ فریال تالپور کے شوہر کی 50 روپے تقسیم کی وڈیو، منظور وسان کی متاثرین کو دھتکارنے سمیت کئی وڈیروں کے سفاک رویوں والی وڈیوز نے عوام میں مزید اشتعال پیدا کیا۔ اسی طرح جان بچانے کے عمل میں بھی یہ وڈیو کام آئی اور دیر کی وادی کمراٹ میں پھنسی فیملی کو الخدمت نے ریسکیو کیا۔
دوسری جانب ملک بھر میں سیلاب متاثرین کے لیے عوام نے دل کھول کر عطیات دیے بلکہ دنیا بھر سے عطیات، امداد بھی وصول ہورہی ہے.امداد مکمل طور پر بکھری ہوئی ہے ، نہ حکومت کی منصوبہ بندی ہے اور نہ این ڈی ایم اے جیسے اداروں کی پرفارمنس۔ جسے دیکھو کیمپ لگا کر بیٹھا ہے، جس نے زندگی میں کبھی یہ کام نہیں کیا اس کے جذبے کو سلام کہ وہ سیلاب متاثرین کے لیے نکل آیا،مگر وہ نہیں جانتا کہ ’’ریلیف ورک‘‘ کیسے ہوتا ہے؟ بحالی کیا ہوتی ہے؟ وہ تو بس سامان جمع کر رہا ہے۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں کہ کون سا سامان ضروری ہے؟ اس کے برعکس وہ لوگ جو اس کام کا تجربہ رکھتے ہیں، کئی سانحات، قدرتی آفات اور ایسے تمام مواقع پر بحالی کے کام کرتے آ رہے ہیں وہ پھر بھی منظم انداز سے کام کرلیتے ہیں۔ یہ ایک بڑا فرق ہے۔ میں نے این جی اوز اور سیاسی جماعتوں کے امدادی کیمپس کا ذاتی مشاہدہ کیا ۔ دونوں میں صاف فرق نظر آگیا۔ پاکستان میں ریلیف کے کام میں بلا شبہ سب سے بڑا نام، سب سے بڑا نیٹ ورک ’’الخدمت‘‘ کا ہے، جس کے پاس ریلیف کے کام کا وسیع تجربہ بھی ہے، افرادی قوت اور بڑا نیٹ ورک بھی موجود ہے۔ کوئی جا کر ان کے کام کا طریقہ کار و ترتیب دیکھے اندازہ ہو جائے گا کہ ملک کی جتنی دیگر تنظیمیں ہیں وہ سب ’’الخدمت‘‘ کو ہی فالو کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر الخدمت کی اس حوالے سے امدادی کاموں اور جان بچانے یعنی ریسکیو کی متعدد وڈیوز وائرل رہیں جن سے خاصی حوصلہ افزائی ہوئی۔
معروف شخصیات نے سوشل میڈیا پر ٹوئیٹس اور الخدمت کے کاموں کی تعریف بھی کی۔ الخدمت کے پاس بھی ڈھیروں سامان، نقد رقوم جمع ہوئیں مگر اس نے رضا کاروں کے زبردست نیٹ ورک سے اپنے منظم دائرے میں سیکڑوں مرد و خواتین کو سمیٹ لیا۔ الخدمت شعبہ خواتین کا الگ نیٹ ورک ہے جو پوری ہمت کے ساتھ ہر موقع پر خدمت کے میدان میں نظر آتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق جو امداد اب تک جمع ہوچکی ہے وہ تو یہی بتا رہی ہے کہ مفتی طارق مسعود بھی دو جیپوں میں خیرپور میرس پہنچے اور کسی ٹرسٹ کا امدادی سامان مکمل فوٹو، وڈیو سیشن میں تقسیم کرتے نظر آئے۔ کھانے کی تھیلیاں اور کچھ ڈبوں میں راشن تقسیم کیا۔ چاروں طرف پانی تھا، انہوں نے خود بتایا کہ عوام جن شدید مسائل کا شکار ہیں ان میں غذا شاید اوّلین اس لیے بھی نہیں کہ راشن اور کھانا تو سب ہی پہنچا رہے ہیں، مگر ان کی رہائش، مچھروں کی بہتات، بیماریاں، مویشی، کپڑے و دیگراستعمال کا سامان خود ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔ شاہد آفریدی بھی راشن ہی کا سامان لے کر پاک فضائیہ کی مدد سے جہاز بھر کر روانہ ہوئے۔ یہ ’’جسے دیکھو‘‘ میں کئی یو ٹیوبرز بھی شامل ہیں۔ مشہور یوٹیوب چینل ’’فوڈ فیوڑن‘‘ کے چیف ایگزیکٹیو بھی میدان میں اتر آئے اور عوام سے دردمندانہ اپیل کی، توجہ بھی درست دلائی کہ تقسیم درست نہیں ہو رہی۔ اسی طرح نیو کراچی سے لوگ اپنی مدد آپ تحت ٹرک بھر کر نکلے، ناتجربہ کاری کی وجہ سے راستے میں ہی متاثرین نما لوگوں نے چڑھائی کر دی اور سارا ٹرک خالی کردیا۔
مجھے یاد ہے 2005 کے زلزلے کے موقع پر میں بھی امدادی کاموں کا حصہ تھا‘ اس وقت بھی لوٹ مار کی شکایت عام ہو چکی تھی، اس کی وجہ اداروں کا یا افراد کا بغیر منصوبہ بندی نکلنا اور سفر کی تکلیف سے بچنے کے لیے جلدی سے جان چھڑانا بھی تھا۔ جی ہاں۔ سفر کی تکلیف۔ لوگ شوق میں نکل تو جاتے ہیں مگر آگے جا کر معلوم ہوتا ہے کہ ’’یہ عشق نہیں آساں۔‘‘
حکیم الامت علامہ اقبال نے کہاتھا کہ’’اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا ہے‘‘
آج کے ابلیسی نظام میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانوں کو مائنس کرنے والی یہ مشینیں خو دسوالیہ نشان بنتی جا رہی ہیں۔ ہنگری وسطی یورپ کا اہم ملک ہے جہاں 25 فیصد ملحد بستے ہیں۔ یہ ملک ٹور ازم کے لیے کشش رکھتا ہے۔ یہاں کا موسم قدرے شدت کے ساتھ پاکستان سے ہی ملتا جلتا ہے۔ ہزار سالہ تاریخ رکھنے والا یہ ملک 20 اگست کو اپنا سالانہ دن مناتا ہے۔ یہ تقریبات 18 سے 21 اگست تک جاری رہتی ہیں۔ گزشتہ سال سرکاری سطح پر تین دن کی تقریبات پر 12 ارب روپے ہنگری کرنسی خرچ ہوئے جو کہ پاکستانی ساڑھے 6 ارب روپے بنتے ہے۔ اس میں صرف آتش بازی پر 90 کروڑ روپے پاکستانی کرنسی کے برابر خرچ کیے گئے۔ اب اندازہ کرلیں کہ اس دن کی تیاری کے لیے سرکاری سطح پر کیا کچھ کیا جاتا ہے۔ امسال بھی اتنی ہی رقم رکھی گئی، ساری تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں مگر امسال کچھ اور ہوگیا۔ یورپ کی جدید ترین مشینوں اور ہنگری کے محکمہ موسمیات میں رات دن کام کرنے والے تجربہ کار ماہرین نے بتایا کہ اس دن شدید طوفانی برسا ت ہوگی، چنانچہ حکومت نے آتش بازی کا ارادہ ترک کرکے طوفانی انتظامات سے نمٹنے کی تیاری کی۔ اس سے پہلے 2006 میں بھی سالانہ تقریب والے دن ایسا ہی طوفان آچکا تھا جس میں متعدد لوگ مارے گئے تھے‘ اس لیے تدابیر کی گئیں۔ لیکن اس دنن ہنگری میں کوئی بارش نہیں ہوئی۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی‘ اصل کام اس کے بعد یہ ہوا کہ ہنگری کے صدر نے محکمہ موسمیات کے سربراہ اور ان کی خاتون نائب کو عہدے سے فوری طور پر برطرف کر دیا۔ ہنگری حکومت شدید غصے میں ہے کہ کیسے ہمارے محکمے نے ہمیں غلط خبر دی۔ بارش کیوں نہ ہوئی اور ہماری آتش بازی متاثر ہوئی؟ اب بحیثیت مسلمان ہم جانتے ہیں کہ یہ سارا نظام خالقِ کائنات ہی کے تابع ہے۔ ’’وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اُٹھاتا ہے‘ بادلوں کی گرج اُس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے، فرشتے اُس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں۔ وہ کڑکتی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جب کہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے۔‘‘ (الرعد 14)
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کوآہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف اَبر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں۔ اور وہ آسمان سے، اُن پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے، پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔‘‘(نور 43)
پس یہ واقعات ہمارے اللہ سے تعلق اور ایمان میں اضافے کا سبب ہونے چاہیے۔

حصہ