آنچل ہے سائبان

243

یونیورسٹی میں آ ج سالانہ فنکشن تھا۔ اس میں مختلف سرگرمیاں تھیں، جس میں اسٹال بھی لگائے جارہے تھے حیا بہت خوش تھی۔ اس نے جلدی جلدی ناشتا کیا اور تیار ہوگئی۔ بس آنے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے۔ اس نے اپنی کچھ ضروری چیزیں بیگ میں رکھیں‘ اسٹاپ پر پہنچی۔ تھوڑی دیر بعد بس آ گئی۔ یونیورسٹی پہنچتے ہی حیا بس سے اترکرتیزی سے اس مخصوص کونے کی طرف چلی جہاں وہ روز ملتی تھیں، اس کی سہیلیوں کا گروپ اس کا شدت سے منتظر تھا۔
یونیورسٹی میں بڑی گہما گہمی تھی۔ رنگ برنگی جھنڈیوں سے مزین یونیورسٹی کسی دلہن سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ تمام طلبہ و طالبات اپنے اپنے کام اور دلچسپیوں میں مصروف تھے۔ حیا نے سارے انتظامات پر ایک گہری نظر دوڑائی، اس کو سب بہت اچھا لگا۔
اعلان ہو رہا تھا کچھ دیر بعد وطن کی آزادی پر ٹیبلو کا وقت ہو اچاہتا ہے۔ سب کو شرکت کی دعوت دی جا رہی تھی۔ حیا اور اس کی سہیلیاں بھی ٹیبلو دیکھنے پہنچ گئیں جس کا انعقاد ایک بڑے ہال میں کیا گیا تھا۔
ہال سے باہر نکل کے عفت گویا ہوئی’’کیا زبردست ٹیبلو پیش کیا گیا تھا۔‘‘
’’واقعی میں سوچتی ہوں وطن کو بنے75 سال بیت گئے اور ہم پاکستانی آج اُسی مقام پر کھڑے ہیں۔ وہی فرسودہ نظام تعلیم، وہی فرسودہ نظام معیشت اور وہی فرسودہ نظام حکومت۔‘‘
’’صحیح کہہ رہی ہو۔‘‘تانیہ نے اس کی تائید کی۔
’’ارییہ! دیکھو…‘‘شفا نے سامنے والے اسٹال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،جہاں طرح طرح کی جیولریز رکھی ہوئی تھیں۔ سب نے اپنی اپنی پسند کی جیولری خریدیں۔ برابر کے اسٹال میں خوب صورت پرس اور اسکارف تھے۔ کچھ دیر دیکھنے کے بعد حیا اورحریم نے اپنی اپنی پسند کے پرس اور اسکارف خریدے۔ مختلف اسٹالز پر گھومتے گھومتے انہیں خاصی دیر ہوگئی تھی۔
’’میرا تو چل چل کر برا حال ہو رہا ہے۔‘‘ شفا نے کہا۔
’’مجھے تو سخت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ عفت بولی۔
’’میرے تو پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔‘‘ تانیہ نے لقمہ دیا۔
’’پیٹ میں چوہے…‘‘ یہ کہہ کر سب خوب زور سے ہنسیں۔
اب ان کے گروپ نے کھانے کے اسٹال پر دھاوا بولا۔ اس موقع پر عفت نہایت جوش و خروش سے ان کی قیادت کر رہی تھی۔ سموسوں پکوڑوں اور چھولوں سے خوب لطف اندوز ہو ئیں۔ اس معاملے میں عفت سے جیتنا مشکل تھا۔ حریم نے عفت کو پکڑ کر گھسیٹا اور بولی ’’موٹو اب کتابوں کے اسٹال پر بھی تو چلو۔‘‘ ہنستا کھیلتا باتیں بناتا یہ پورا گروپ کتابوں کے اسٹال کی طرف چلا۔
’’مجھے تو اس کا کب سے انتظار تھا۔‘‘حیا نے کہا۔
’’بے شک ۔‘‘ تحریم بولی ’’کھانا پینا تو ہم روز کر لیتے ہیں، کتابیں کم ہی ہاتھ آ تی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کن اَنکھیوں سے عفت کی طرف دیکھا جو ہائے وائے کرتی ان کے ساتھ چلی آ رہی تھی۔
بک اسٹال پر بہت ساری کتابیں تھیں۔ نسیم حجازی کے ناولز ’’خاک اور خون‘‘ اور ’’آخری چٹان‘‘ پر نظر پڑتے ہی حیا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، اُس کے ساتھ عفت قریشی کی ’’زر سے ذات‘‘ لینے میں بھی اس نے دیر نہ لگائی۔ اس کی نظر مختلف کتابوں سے گزرتی ہوئی ایک کتاب پر جا ٹکی، جس کا سرورق دل کش اور موضوع اچھوتا سا لگا حیا نے اٹھا لی۔
’’پردہ‘‘ اس نے کتاب اٹھاتے ہوئے زیرلب نام دہرایا اور اسے کھول کر جگہ جگہ سے ورق گردانی شروع کردی۔ ایک جگہ عبارت پر اس کی نگاہیں ٹک گئیں۔ ’’اسلام اپنے مقصد کے لحاظ سے معاشرت کا ایسا نظام وضع کرتا ہے جس میں عورت اور مرد کے دوائر (دائرے) عمل بڑی حد تک الگ کر دیے گئے ہیں، دونوں صنف کے آزادانہ اختلاط کو روکا گیا ہے اور ان تمام اسباب کا قلع قمع کیا گیا ہے جو اس نظم و ضبط میں برہمی پیدا کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغربی تمدن کے پیش نظر جو مقصد ہے اس کا طبعی اقتضایہ ہے کہ دونوں صنف کو زندگی کے ایک ہی میدان میں کھینچ لایا جائے اور ان کے درمیان سے وہ تمام حجابات اٹھا دیے جائیں جو اُن کے آزادانہ اختلاط اور معاملات میں مانع ہوں اور ان کو ایک دوسرے کے حسن اور صنفی کمالات سے لطف اندوز ہونے کے غیر محدود مواقع بہم پہنچائے جائیں۔‘‘
وہ ورق الٹتی رہی’’اسلام نے عورت اور مرد کے تعلقات کو مختلف حدود کا پابند کر کے ایک مرکز پر سمیٹ دیا ہے۔‘‘
یہ پیرا بھی خوب تھا۔’’اسلامی نظام معاشرت کے اصول و قوانین کو توڑ کر کچھ رکتے ،کچھ جھجکتے اسی راستے کی طرف اپنی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کو لیے جا رہے ہیں جو مغربی تہذیب کا راستہ ہے۔‘‘ اس نے کچھ دیر سوچا اور یہ کتاب بھی خریدنے کا فیصلہ کیا۔ سارا وقت خوب ہلے گلے میں بسر ہوا۔ حیا تھکی ہاری سہ پہر کو گھر پہنچی۔
امی جانتی تھیں آ ج حیا کا فنکشن ہے،اس کو دیر ہو جائے گی، لیکن اس کے باوجود وہ زیادہ دیر اس کے بغیر نہیں رہ پاتی تھیں۔ اسی اثنا گھر کی بیل بجی اور حیا آن وارد ہوئی۔ ’’کیسی ہیں امی؟‘‘یہ کہتے ہی وہ امی کے گلے لگ گئی۔
’’یہ دیکھیں امی!‘‘ اس نے بیگ سے تمام چیزیں نکال کر امی کے سامنے پھیلا دیں۔
’’ارے واہ !‘‘ امی نے اس کی خریدی ہوئی چیزوں پر دل چسپی سے نظر ڈالی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب ’’پردہ‘‘ دیکھ کر حیا سے پوچھا ’’یہ تم نے خریدی ہے یا تمہیں کسی نے دی ہے؟‘‘
حیا یہ سوال سن کر ذرا شرمندہ سی ہوگئی کیوں کہ وہ پردہ نہیں کرتی تھی۔ وہ بولی ’’امی! مجھے یہ کتاب اچھی لگی، میں اس کو ضرور پڑھوںگی۔‘‘
حیا کی امی کی عرصے سے خواہش تھی کہ حیا پردہ اختیار کر لے،انہیں یوں لگا کہ ان کی خواہش پوری ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔

حصہ