بدلتے موسم

610

بڑھتی ہوئی معاشی نا ہمواریوں پر ایک افسانہ

’’آخر آپ میری ہر بات کو مذاق میں کیوں اُڑا دیتے ہیں؟‘‘ سعدیہ نے روہانسی آواز میں حارث سے پوچھا۔
حارث کے چہرے سے مسکراہٹ اچانک غائب ہوگئی۔ اس نے سعدیہ کی آنکھوں کی جانب بغور دیکھا جہاں سے آنسو نکلنے کو بے قرار تھے لیکن انہیں کمالِ مہارت سے آنکھوں کے قید خانے نے پلکوں کی مدد سے روکا ہوا تھا۔
’’میں نے صرف ایک بیڈ شیٹ ہی خریدنے کی تو بات کی ہے۔ کوئی کار خریدنے کی تو فرمائش نہیں کر دی آپ سے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں کہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو مگر…‘‘حارث نے کچھ کہنا چاہا لیکن سعدیہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’کیا مگر…؟ پچھلے تین مہینوں سے آپ میری بات کو مذاق میں اُڑا رہے ہیں۔ میں زیادہ اصرار کروں تو آپ اگلے مہینے پر بات کو ٹال کر مجھے خاموش کروا دیتے ہیں۔ آخر بیڈ شیٹ کی قیمت ہی کیا ہوتی ہے۔ ابھی پچھلے ماہ ہی آپ نے میرے گل دان خرید لینے پہ فضول خرچی پر ایک طویل لیکچر دیا تھا۔ میں بھی ایک عورت ہوں۔ کیا میرا دل نہیں چاہتا کہ میرا گھر اچھا لگے…؟‘‘یہ بات کہہ کر سعدیہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھک کر سسکیاں بھرنے لگی۔
حارث‘ جو نظریں جھکا کر اس کی تمام باتیں سن رہا تھا‘ اُس نے اپنی تمام ہمت کو مجتمع کر کے سعدیہ کو دیکھا اور خاموشی سے دیکھتا رہا۔ شاید وہ سعدیہ کو تسلی دینے کے لیے الفاظ کا چناؤ کر رہا تھا۔
طویل خاموشی کے بعد اس نے سعدیہ کے ہاتھ تھامے اور اس سے گویا ہوا ’’دیکھو! میں بہت شرمندہ ہوں اور مجھے تمہارے جذبات کا بہت خیال ہے۔ ان شاء اللہ اگلے ماہ میری تن خواہ میں اضافے کی توقع ہے۔ میں بھرپور محنت کر رہا ہوں۔ مجھے پوری امید ہے کہ میرے سپروائزر میری بہت اچھی رپورٹ ادارے کی انتظامیہ کو بھیجیں گے۔‘‘
’’کتنا اضافہ ہو جائے گا تنخواہ میں پانچ سو روپے؟ ہزار روپے؟ اس سے کیا ہوگا؟‘‘ سعدیہ نے پوچھا۔ آنسو ابھی تک اس کے رخسار پر موجود تھے۔
’’نہیں پورے تین ہزار کا اضافہ ہوگا۔‘‘ حارث نے اس کے آنسو اپنے ہاتھوں سے پونچھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
حارث کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر سعدیہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ 40 درجے سینٹی گریڈ کی حدوں تک پہنچنے والی گرمی میں بھی اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آسمان بادلوں سے ڈھک گیا ہو۔ بادل ہلکی ہلکی بارش برسا کر موسم کو خوش گوار بنا رہے ہوں اور وہ خود حارث کے ساتھ کسی چمن میں کھڑی موسم سے لطف اندوز ہو رہی ہو۔
…٭…
’’حارث بھائی! پچھلا بریک شو ختم ہے۔ نیا ڈلوا لو۔‘‘ بائیک کے مکینک نے گٹکے بھرے منہ سے کچھ ضائع ہو جانے کے خطرے کے پیش نظر چہرہ آسمان کی جانب اٹھا کر حارث کو مشورہ دیا۔
’’نہیں یار! ابھی تو دفتر کے لیے دیر ہو رہی ہے۔ میں واپسی میں آتا ہوں۔ فی الحال بریک جتنا ٹائٹ ہو سکے کر دو۔‘ حارث نے اپنی جیب کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے دفتر جلدی پہنچنے کا بہانہ بنایا۔
’’جیسی مرضی بھائی! لیکن واپسی میں ضرور آجانا۔ پچھلا بریک کبھی بھی ساتھ چھوڑ سکتا ہے اور اگلے بریک پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا۔‘ میکینک نے تاکیدی انداز میں کہا اور بریک ممکن حد تک ٹائٹ کر دی۔ حارث نے بغیر کوئی جواب دیے دل ہی دل میں ’’اگلا بریک زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا، بائیک اسٹارٹ کی اور دفتر کی جانب روانہ ہوگیا۔ روز کی طرح آج بھی وہ راستے بھر اپنی مالی مشکلات، کمپیوٹر آپریٹر کی معمولی نوکری، دفتری ذمے داریوں کی بھرمار اور کم تنخواہ کے حوالے سے سوچتا رہا۔ اسے پوری امید تھی کہ اگلے ماہ سے اس کی تنخواہ میں اضافہ ہو جائے گا اور یہی سوچ اس کی ہمت بڑھا رہی تھی۔ اسی امید کے سہارے اس نے ان کاموں کی ایک فہرست تیار کرلی تھی جو اسے اگلے ماہ انجام دینے تھے جو فی الحال مالی مشکلات کے باعث تعطل کا شکار تھے۔ ان کاموں میں سرِفہرست سعدیہ کے لیے بیڈ شیٹ کی خریداری اور بائیک کی مرمت تھی۔ سورج صبح ہی سے آگ برسا رہا تھا۔ دفتر پہنچنے تک حارث پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔
…٭…
دروازے کی گھنٹی بجتے ہی سعدیہ نے با آواز بلند پوچھا ’’کون…؟ لیکن کوئی جواب نہ پا کر وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھی۔ دراصل صبح حارث کو دفتر کے لیے رخصت کرنے کے بعد یہ وقت اس نے پسندیدہ ٹی وی ڈراموں سے دل بہلانے کے لیے مختص کیا ہوا تھا، لہٰذا بے وقت کی مداخلت اسے کچھ پسند نہ آئی۔اس نے ایک بار پھر پوچھا کون اور دروازہ کھول دیا۔
’’ناعمہ! تم…؟‘‘ اپنی ہم عمر کزن اور بچپن کی سہیلی ناعمہ کو کئی برس بعد اچانک اپنے سامنے دیکھ کر سعدیہ ہکا بکا رہ گئی اور بے اختیار اس سے لپٹ گی۔
’’ارے مجھے اندر تو آنے دو۔‘‘ ناعمہ نے مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’تم کب آئیں امریکا سے؟ خالد بھائی کہاں ہیں؟ آنے سے پہلے مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘ سعدیہ نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھاتے ہوئے ایک ہی سانس میں کئی سوالات کر ڈالے۔
’’بتاتی ہوں، بتاتی ہوں۔‘‘ ناعمہ نے تسلی دینے والے انداز میں سعدیہ سے کہا۔ ’’لیکن پہلے ایک گلاس ٹھنڈا میٹھا شربت بنا کر لاؤ تاکہ اس تپتے سورج اور گرم موسم کا مقابلہ کرنے کے تو قابل ہو سکوں۔‘‘
“ہاں… ہاں! کیوں نہیں! میں ابھی تمہارے لیے شربت لاتی ہوں۔‘‘ سعدیہ جو ہمیشہ سے گرم موسم میں باورچی خانے میں جانے کو ایک عذاب سمجھتی تھی آج خوشی خوشی نہ صرف شربت تیار کر رہی تھی بلکہ اپنی امی کے گھر سے آنے والے قربانی کے گوشت کے کباب بھی تلنے کا ارادہ کر رہی تھی کیوں کہ آج گرم موسم اس کے دل میں پیدا ہونے والے خوشی کے جذبات کی حرارت کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔
کچھ ہی دیر کے بعد دونوں سہیلیاں ٹھنڈے میٹھے شربت اور گرما گرم لذیذ کبابوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ساتھ گزارے ہوئے ماضی کے خوشگوار لمحات کو یاد کرکے خوب ہنس رہی تھیں۔
’’حارث بھائی کیا کر رہے ہیں آج کل؟‘‘ باتوں کے درمیان ناعمہ نے سعدیہ سے پوچھا۔
’’ایک کمپنی میں کمپیوٹر آپریٹر ہیں۔‘‘ سعدیہ نے جواب دیا۔
’’ہمارے اتنے تعلیم یافتہ بھائی سافٹ ویئر انجینئر حارث احمد خان اور اتنی معمولی جاب؟‘‘ ناعمہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں یار! پر کیا کریں؟ تمہیں پتا تو ہے ہمارے ملک میں جاب کے کتنے مسائل ہیں۔ لیکن اللہ کا شکر ہے گزارا ہوجاتا ہے اور ان شاء اللہ اگلے ماہ سے حارث کی تنخواہ میں پورے تین ہزار روپے کا اضافہ بھی ہونے والا ہے۔‘‘
’’کیا… صرف تین ہزار…؟‘‘ ناعمہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اس کے اپنے شوہر کی تنخواہ لاکھوں میں ہونے کے باعث تین ہزار کی رقم اس کے لیے انتہائی معمولی تھی۔ لیکن اِس بات پر اُس نے سعدیہ کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ لیے۔ اسے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
’’نہیں میرا مطلب ہے کہ تین ہزار کی رقم بھی کچھ کم نہیں ہوتی۔ حارث بھائی سے کہنا کہ محنت سے کام کرتے رہیں ان شاء اللہ اس رقم میں ضرور برکت ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر ناعمہ نے گویا اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہا۔
’’ان شاء اللہ…‘‘سعدیہ نے بھی جواب دیا اور وہ دونوں ایک مرتبہ پھر ماضی کی حسین یادوں میں کھو گئیں۔
…٭…
تین ہفتوں سے گرمی کا زور ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ حارث آج پھر دفتر پہنچتے پہنچتے پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ اس نے دفتر پہنچتے ہی بھاری بھرکم ہیلمٹ اور دھول مٹی سے بچانے والی جیکٹ اتار کر ایک طرف پھینکی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ گلے میں پھندے کی طرح لٹکنے والی ٹائی کو بھی اتار پھینکے لیکن دفتری پابندیوں کے آگے مجبور تھا۔ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ کمپنی کے ڈائریکٹر کی جانب سے طلبی کا حکم موصول ہوا۔
’’کیا مصیبت ہے۔‘‘ حارث نے دل ہی دل میں سوچا۔ گرمی کی شدت اور اس پر طلبی کے احکامات اس کے موڈ کو پوری طرح خراب کر چکے تھے۔
’’مسٹر حارث! ہم آپ کی کارکردگی سے بہت خوش ہیں اور اس ماہ سے آپ کی تن خواہ میں تین ہزار روپے کا اضافہ کر رہے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ آپ اسی محنت اور لگن کے ساتھ اپنی خدمات سے ادارے کو مستفید کرتے رہیں گے۔‘‘ ڈائریکٹر صاحب نے اپنے کمرے میں کرسی پر بٹھانے کے بعد خوش گوار لہجے میں یہ خبر حارث کو دی۔ یہ ڈائریکٹر صاحب کے الفاظ تھے یا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا جو پل بھر میں حارث کی ساری سفری تکان کو اُڑا لے گیا۔
’’بہت بہت شکریہ سر! ان شاء اللہ میرا تعاون ہر لمحہ آپ کے ساتھ رہے گا۔‘‘ حارث نے یہ کہتے ہوئے ڈائریکٹر صاحب سے ہاتھ ملایا اور واپس اپنی سیٹ پر آگیا۔
وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اطمینان کی لہریں اس کے قلب سے نکل کر دورانِ خون میں شامل ہو رہی ہوں اور اَنگ اَنگ میں پہنچ کر پورے جسم کی ٹھنڈک و طمانیت کا سبب بن رہی ہوں۔ وہ جلد از جلد گھر پہنچ کر سعدیہ کو اپنے سامنے کھڑا کرکے یہ خوش خبری سنانا چاہتا تھا۔ موسم نے اچانک کروٹ لی تھی اور پورا آسمان بادلوں سے ڈھک گیا تھا۔ ہلکی بارش کا آغاز ہوچکا تھا اور گرمی شکست تسلیم کر چکی تھی۔ حارث دفتری اوقات کو جیسے تیسے پورا کر کے بارش سے دھلی ہوئی سڑکوں، ہرے بھرے درختوں اور صاف ستھرے ماحول سے لطف اندوز ہوتا ہوا گھر کی جانب روانہ ہوچکا تھا۔
…٭…
سعدیہ برسات سے مکمل لطف اندوز ہونے کا پروگرام بنائے حارث کا شدت سے انتظار کرتے ہوئے پکوڑے تل رہی تھی کہ اچانک کسی نے دروازہ پیٹ ڈالا۔
’’کیا طریقہ ہے یہ کھٹکھٹانے کا۔‘‘ سعدیہ نے دروازہ کھولتے ہوئے یہ جملہ کہنا چاہا لیکن اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے کیوں کہ دروازے پر آنے والے پڑوس کے بچے نے اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی چیختے ہوئے کہا :
’’آنٹی آنٹی! حارث انکل کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ سامنے والی روڈ پر گرے ہوئے ہیں۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ اسے اپنے قدموں تلے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ اسی حالت میں مین روڈ کی طرف بھاگی جو اس کے گھر کے قریب ہی تھی۔ روڈ پر پہنچ کر اس نے جو منظر دیکھا وہ اسے یہ سمجھا دینے کے لیے کافی تھا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ حادثے کے کچھ عینی شاہدین بھی وہاں موجود تھے جو دیگر افراد کو بتا رہے تھے کہ غلط سمت سے آنے والے ٹرک سے بچنے کے لیے تیز رفتار بائیک والے نے شاید اگلا بریک استعمال کیا اور گیلی سڑک پر وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور بائیک سمیت چلتے ٹرک کے نیچے آ گیا۔ لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے لیکن ٹھنڈی ہوا میں بارش سے بھیگتی سعدیہ کے کان یہ سب کچھ سننے سے قاصر تھے۔ وہ اپنے آپ کو ایک تپتے صحرا کے بیچوں بیچ آگ اگلتے سورج کے نیچے تنہا جلتا ہوا محسوس کر رہی تھی اور اس کے کانوں میں صرف لو کے تھپیڑوں کی آواز گونج رہی تھی۔

حصہ