کھجور

394

اس مختصر سے پھل میں طاقت و توانائی کا خزانہ بند ہے
رمضان المبارک کی کوئی خوب صورت شام ہو‘ افق پر لالی بکھرنے لگے اور ریڈیو یا ٹی وی سے اعلان ہو ’افطار کا وقت ہو گیا ہے‘‘ آپ افطار کی دعا پڑھتے ہیں‘ آپ کے سامنے انواع و اقسام کے پھل اور دیگر لذیذ پکوان موجود ہیں لیکن آپ کا ہاتھ بڑھتا ہے اور آپ ایک عدد کھجو اٹھا کر منہ میں رکھ لیتے ہیں۔
آپ ایسا کیوںکرتے ہیں؟ آپ کا جواب ہوگا کہ سنتِ رسولؐ یہی ہے اور مسلمانوں کو کھجور سے روزہ افطار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
آپ کا کہنا بالکل درست ہے لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دن بھر بھوک اور پیاس کی مشقت برداشت کرنے کے بعد روزہ دار کو کھجور ہی سے روزہ افطار کرنے کی ترغیب کیوں دی گئی ہے؟دراصل روزہ رکھنے کی وجہ سے جسمانی قوتوں میں کمی پیدا ہو جاتی ہے دوسرے‘ دن بھر کچھ نہ کھانے کی وجہ سے معدہ میں تیزابی رطوبتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں اس لیے افطار ایسی شے سے کرنا چاہیے جو ان دو کیفیات میں مفید ثابت ہو‘ کھجور میں قدرت نے ایسے اہم غذائی اجزا شامل کر دیے ہیںجن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کھجور میں پائے جانے والے نمکیات اور معدنیات‘ معدہ کی بڑھتی ہوئی تیزابیت کو اعتدال پر لے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی وجہ سے معدہ اور آنتوں پر مسکن (سکون دینے والے) اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ خاص طور پر وہ افراد جو زخمِ معدہ (السر) کے مریض ہوں‘ ان کے لیے تو ایسے عالم میں کھجور بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہے کہ کھجور سے روزہ افطار کرنا نہ صرف باعثِ ثواب ہے بلکہ طبی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
کھجور صرف روزہ افطار کرنے کی صورت میں مفید نہیں بلکِہ اس کے اور بہت سے فوائد ہیں۔ غذائیت کے لحاظ سے یہ ایک بہترین اور مقوی غذا ہے۔ چند ہی چیزیں ایسی ہوں گی جو کم مقدار کے باوجود جسم کو قوت اور حرارت فراہم کرنے میں کھجور کے ہم پلّہ ہوں گی لیکن کھجور کو اس اعتبار سے برتری حاصل ہے کہ یہ بہت جلد ہضم ہو جاتی ہے۔ کھجور میں فولاد کی مقدار 10.6 فیصد ہوتی ہے جب کہ پالک میں یہ مقدار پانچ فیصد‘ سیب میں 1.7 فیصد‘ امرود میں ایک فیصد اور انار میں 0.3 فیصد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کھجور کو خون پیدا کرنے کا خزانہ کہا گیا ہے کھجور کی افادیت اس بات سے ظاہر ہے کہ اگر ایک چھٹانک انار استعمال کریں تو ہمیں 32 حرارے (کیلوریز) حاصل ہوں گے‘ ایک چھٹانک سیب کھائیں تو 35 حرارے ملیں گے‘ ایک چھٹانک کیلے آپ کو 86 حرارے فراہم کریں گے لیکن ایک چھٹاک کھجور کے بدلے آپ کو ایک سو ساٹھ حرارے حاصل ہوں گے۔ اس کے علاوہ اس میں حیاتین الف‘ ب اور ج بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں اور کیلشیم‘ پوٹاشیم‘ میگنیشیم‘ تانبا‘ گندھک‘ جست‘ آرسینک اور آئیوڈین جیسے اہم عناصر بھی موجود ہیں۔
طب کے ماہرین کے نزدیک کھجور کا مزاج گرم پہلے درجے میں تر ہے۔ ’’پہلے درجے‘‘ سے مراد ہے ’’کسی قدر‘‘ اگر کسی چیز کے بارے میں کہا جائے کہ یہ تیسرے یا چوتھے درجے میں گرم‘ سرد‘ خشک یا تر ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس شے میں گرمی یا متعلقہ کیفیت کی شدت زیادہ ہے‘ کھجور جسم کو طاقت دیتی ہے اس کے علاوہ دماغ‘ اعصاب‘ قلب اور معدے کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہے‘ جن افراد میں آئیو ڈین کی کمی ہوتی ہے انہیں خاص طور پر کھجور استعمال کرنی چاہیے۔
کھجور میں یہ خصوصیت بھی پائی جاتی ہے کہ یہ کمزور جسموں کو فربہ بناتی ہے۔ اس لیے جو لوگ بہت دبلے پتلے ہوں یا جن کا وزن کم ہو یا جنہیں سردی زیادہ لگتی ہو‘ انہیں چاہیے کہ وہ کھجور پابندی کے ساتھ کھایا کریں ایسے افراد کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ پانچ عدد کھجور رات کو نیم گرم دودھ میں بھگو دیں اور صبح دودھ کو جوش دے یہ کھجوریں کھالی جائیں اور اوپر سے دودھ پی لیا جائے۔ اس طریقے سے کھجوریں دونوں وقت کھانے کے بعد بھی کھائی جاسکتی ہیں۔
کھجور عورتوں‘ مردوں اور بچوں کے لیے یکساں طور پر مفید ہے اور اسے بلا جھجک استعمال کیا جاسکتا ہے خواتین کی بعض شکایات دور کرنے کے لیے بھی کھجور تجویز کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’میرے نزدیک ایام کی تکلیف اور شدت کے لیے پکی ہوئی کھجور سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
کھجور ولادت کے عمل میں بھی مدد دیتی ہے‘ بچے کی پیدائش میں اگر دشواری ہو رہی ہو تو کھجور کے سات دانے گرم دودھ کے ساتھ کھلائے جائیں۔ اس طرح سہولت کے ساتھ بچے کی ولادت ہو جاتی ہے۔ نوازائیدہ بچوں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ انہیں ماں کے دودھ کی فراہمی ہے۔ بعض مائیں اپنے بچے کو اپنا دودھ نہیں دے سکتیں کیوں کہ وہ ناکافی ہوتا ہے۔ ایسے مائوں کو چاہیے کہ وہ دودھ کے ساتھ کھجور کا استعمال جاری رکھیں۔ کھجور‘ دودھ پیدا کرنے والے خلیات کو پرورش کرکے انہیں فعال بناتی ہے۔
امراضِ قلب میں بھی کھجور بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ روایت ہے کہ ایک صحابیؓ رسول کے سینے میں درد اٹھا‘ حضورؐ نے عجوہ کھجوریں (کھجور کی ایک قسم) 12 عدد گٹھلیوں سمیت پیس کر پلانے کی ہدایت فرمائی۔ اس طرح ان صحابیؓ کا درد دور ہو گیا۔ اب کھجور پر جو جدید تحقیق ہوئی ہے اس سے پتا چلا ہے کہ کھجور میں پائے جانے والے معدنی نمکیات قلب کی حرکات کو منظم رکھتے ہیں‘ دل کے سکڑنے اور پھیلنے میں کیلشیم کا بڑا دخل ہے۔ یہ اگر روزانہ پانچ سے سات دانے کھجور کے کھائے جائیں تو یہ دن بھر کے لیے ہمارے جسم کی کیلشیم کی ضرورت پوری کر دیں گے‘ پھر کھجور کے استعمال سے ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اس طرح خون میں کولسٹرول کی مقدار نہیں بڑھتی۔ کولسٹرول کی مقدار خون میں بڑھ جائے تو دل کے دورے کا باعث بن سکتی ہے۔ دماغی کام کرنے والوں کے لیے کھجور ایک بے نظیر تحفہ ہے۔ چونکہ اس میں موجود لمحیات‘ حیاتین اور معدنی نمکیات دماغ اور اعصاب کو طاقت بخشتے ہیں‘ اس کے متواتر استعمال سے نسیان (بھولنے کی بیماری) سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں میں رعشہ (کپکپاہٹ) ہو‘ وہ بھی کھجور کی مدد سے اس شکایت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ یہ رعشہ بڑھاپے کی وجہ سے نہ ہو۔
کھجور بلغم کو خارج کرکے کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہے۔ اگر اسے پابندی سے استعمال کیا جائے تو یہ پھیپھڑوں کی کمزوری کو رفع کرتی ہے۔ پھیپھڑے عام طور پر بار بار کھانسی کے حملوں یا نمونیہ کے بعد کمزور ہو جاتے ہیں۔ بعض بچوںکے پھیپھڑے پیدائشی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ دمہ حساسی (الرجک استھما) کی وجہ سے بھی پھیپھڑے کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں بہتر ہوگا کہ دس عدد کھجوروں کو (گٹھلی الگ کرکے) باریک پیس لیا جائے اور اونس سفید مکھن (بغیر نمک والا) میں ملا کر نصف مقدار صبح نہار منہ اور بقیہ نصف مقدار شام چار پانچ بجے نوش کر لی جائے۔ خیال رہے کہ اس کے فوراً بعد پانی نہ پیئا جائے۔ کھجور میں موجود گندھک جراثیم کو ہلاک کرنے کے ساتھ ساتھ زخموں کو بھرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ بلغمی کھانسی میں چھوہارے اور ادرک کو منہ میں ڈال کر چوسا جائے تو فائدہ ہوتا ہے۔
کھجوروں کی بے شمار اقسام ہیں۔ عرب میں ان کی یہ اقسام مشہور ہیں عجوہ‘ شامی‘ شبلی اور برنی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجوہ اور برنی کھجوروںکو بہت پسند فرماسیا ہے۔ برنی کے بارے میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’یہ پیٹ سے بیماریوں کو نکالتی ہے اور اس کے اندر کوئی بیماری نہیں ہے۔‘‘ برنی کھجور چھوٹی اور ایک طرف سے موٹی ہوتی ہے اور اس کی گٹھلی بہت چھوٹی اور ہلکی ہوتی ہے۔ عجوہ کھور کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’یہ جنت سے ہے اور اس میں زہر سے شفا ہے جو شخص روزانہ صبح کو سات عدد عجوہ کھجوریں کھائے گا وہ زہر اور جادو سے محفوظ رہے گا۔‘‘ ایک جگہ آپؐ نے فرمایا ’’عجوہ جنت سے ہے اور اس میں بیماریوں سے شفا ہے۔‘‘
جدید تحقیق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ کھجور میں زہر کو بے ضرر بنانے کی خاصیت موجود ہے‘ وہ زہر کو ایسی کیمیائی شکل دے دیتی ہے جو جسم کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتی‘ ساتھ ہی یہ جسم میں ایسا ماحول بھی پیدا کرتی ہے جس سے زہر کے خلاف جسم کی قوتِ مدافعت بڑھ جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرامؓ نے کھجور‘ ککڑی یا کھیرے کے ساتھ تناول فرماتے دیکھا ہے۔ گرم موسم میں کھجور کا اس طرح استعمال یقینا مفید ہے کیوں کہ کھجور کا مزاج قدرے گرم ہے جب کہ ککڑی یا کھیرا سرد ہے اس لیے ککڑی کھجور کی حدت کو معتدل کر دیتی ہے۔ گردے اور مثانے کی پتھری نیز پیشاب کی سوزش میں مبتلا مریض اس ترکیب کے ذریعے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ روایات بھی ملتی ہے کہ حضور اکرم نے کھجور اور خربوزہ ایک ساتھ تناول فرمایا۔ آپؐ کو غذائوں میں حسیس بہت پسند تھا‘ حسیس کھجور‘ مکھن اور دہی کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ جسمانی طاقت کے لیے مفید ہے۔
کھجور پر ہونے و الی جدید تحقیق کے بعد امریکا اور یورپ نے بھی اس مفید غذا پر توجہ دی ہے اور وہاں اسے ذوق و شوق سے کھایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اچھے قسم کی کھجور کثرت سے پیدا ہوتی ہے لیکن کھجور کھانے کا رواج زیادہ نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں تو کھجور صرف رمضان میں نظر آتی ہے اور اس سے روزہ افطار کرنے کا کام لیا جاتا ہے لیکن افطار میں ہوتا یہ ہے کہ لوگ محض ایک کھجور میں رکھ کر پکوڑوں‘ دہی بڑوں اور دیگر چٹپٹی اشیا کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں حالانکہ دن بھر کے روزے کے بعد اگر کھجور سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو تو چار‘ چھ کھجوریں کھانی چاہئیں۔ بہتر یہ ہے کہ دودھ یا پھلوں کے رس کے ساتھ نوش کی جائیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ کجھور کی گٹھلی نکال کر اندر بالائی بھر دی جائے اور پھر ٹھنڈا کرکے اس سے روزہ افطار کیا جائے۔ یہ لذت کے ساتھ ساتھ تقویت بھی فراہم کرے گی اور گلے کی خراش کو بھی دور کرے گی۔ اس کے علاہ کھجور میں جو کسی قدر گرمی موجود ہے اسے بھی اعتدال پر لائے گی۔
پاکستان میں کھجور کم استعمال ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ لوگ اس کی غذائی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ دوسرے بہت سے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ اس کی تاثیر بہت زیادہ گرم ہے۔ تیسرے اسے توڑنے‘ پیک کرنے‘ لانے لے جانے‘ ذخیرہ کرنے اور فروخت کرنے کے طریقے صاف ستھرے نہیں ہیں۔ توڑتے ہوئے اسی دھول مٹی سے بچانے کی مناسب کوششیں نہیں کی جاتی ہیں‘ اس کے بعد چٹائی پٹ سن کے بوروں میں بے دردی سے دبا کر اسے بھر دیا جاتا ہے جس سے اس کا شیرہ بکھر جاتا ہے۔ پھر فروخت کرنے والے سڑکوں پر کھلے عام بیچتے پھرتے ہیں اس طرح کے کھجوروں پر گرد و غبار‘ مکھیاں اپنا ڈیرہ جما لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ جب اسے فروخت کیا جاتا ہے تو پرانے اخبار کی پڑیا بنا کر گاہک کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کھجور کو صاف کرکے پیکٹوں میں بند کرکے فروخت کیا جائے۔ چند سال سے ایک کمپنی نے اس پر توجہ دی ہے اور کھجور کو صفائی کے تمام مرحلوں سے گزارنے کے بعد پیکٹوں میں بند کرکے پیش کیا ہے۔ بعض اوقات کھجور کے اندر گٹھلی نکال کر اس میں بادام رکھ دیا جاتا ہے اس طرح اس کی لذت اور افادیت دونوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کھجور پاکستان کی ملکی پیداوار ہے اور ارزاں نرخوں پر دستیاب بھی ہے لیکن اسے اب تک اس طریقے پر پیش نہیں کیا گیا کہ گھر گھر اس کا استعمال عام ہو جائے۔ اس سے جام‘ جیلی‘ بسکٹ‘ چاکلیٹ بنائے جاسکتے ہیں۔ یہ چاکلیٹ اور بسکٹ عام طور پر ملنے والے چاکلیٹوں اور بسکٹوں سے بہت بہتر اور مفید ہوں گے۔
پختہ کھجور سے شکر تیار کی جاسکتی ہے۔ کھجوروں سے نہایت لذیذ حلوہ بھی بن سکتا ہے اس کے علاوہ کھجی (خام کھجور) کا اچار بھی ڈالا جاتا ہے اور اس کی بہت خوش ذائقہ چٹنی بھی بنتی ہے لیکن یہ چیزیں محدود پیمانے پر چند گھروں میں تیار ہوتی ہیں اگر کوئی ادارہ انہیں تجارتی پیمانے پر تیار کرکے صاف ستھری بوتلوں میں پیش کرے تو یقین ہے کہ انہیں قبولِ عام حاصل ہوگا اور یہ بہت پسند کی جائیں گی۔ اس بات کا خیال رہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو اور ایسے افراد کو کھجور استعمال نہیں کرنی چاہیے جن کا وزن بہت بڑھا ہوا ہو۔

حصہ