لہسن مفید اور کرشمہ ساز دوا

412

لہسن ان نباتی ادویہ میں سے ایک ہے جنہوں نے امراض کے خلاف اپنی کرشمہ سازی اور اپنے بے شمار فوائد کے بہ دولت ان گنت انسانوں سے اپنی پرستش کروائی۔ یہ قدرتی دوا زمانہ قدیم سے انسان کو دکھوں اور تکلیفوں سے نجات دلاتی آئی ہے اور وقت گزرنے اور علوم کی ترقی کے ساتھ ساتھ نہ صرف اس کے بارے میں بیان کردہ فوائد کی تصدیق ہو رہی ہے بلکہ اس کی نت نئی خوبیاں سامنے آرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کا استعمال اب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہ لوگ جو اس کی بُو کو پسند نہیں کرتے‘ ان کی سہولت کے لیے یہ گولیوں کی شکل میں دستیاب ہے اور اس کا روغن کیپسول میں بند حالت میں عام طور پر ملنے لگا ہے۔
کہتے ہیں کہ سب سے پہلے چینیوں نے لہن کی خوبیوں کو پہچانا اور ان کے ہاں لہسن کا استعمال غذا اور دوا کے طور پر ہزاروں سال سے ہو رہا ہے لیکن اب یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ قدیم مصری بھی لہسن کی خوبیوں سے بخوبی واقف تھے اور جس زمانے میں اہرام مصر تعمیر ہو رہے تھے اس زمانے میں غلاموں کو غذا میں لہسن خاص طور پر دیا جاتا تھا۔ جب لہسن ختم ہو جاتا تھا تو مزدوروں کے کام کی رفتار بھی سست پڑ جاتی تھی۔ رومی‘ ایرانی‘ چینی اور ہندوستانی لہسن کی کرشمہ سازی کے قائل رہے بلکہ اسے جاود اثر دوا کہہ کر پکارتے رہے۔ یونان میں تو لہسن کو بڑی قدر و منزلت حاصل تھی۔ وہاں مخصوص مذہبی تہواروں میں ایک تہوار ایسا بھی آتا تھا کہ اس دن پوری کی پوری آبادی لہسن نہیں کھاتی تھی۔ شیطان سے محفوظ رہنے کے لیے لہسن کا ہار بنا کر گردن میں ڈالا جاتا تھا اور سفر کرنے سے قبل لہسن کی پوتھیاں جوتوں میں ڈالی جاتی تھیں تاکہ راستے کے خطرات نقصان نہ پہنچائیں۔ مُردوں کے ساتھ جو سازوسامان دفن کیا جاتا تھا اس میں لہسن کا ہونا ضروری تھا۔ رومیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اس وقت تک میدانِ جنگ میں نہیں اترتے تھے جب تک لہسن کی ایک یا دو پوتھیاں نہیں کھا لیتے تھے۔
لہسن کے بارے میں ایک دل چسپ بات یہ کہی جاتی ہے کہ اسے استعمال کرنے والے حُسن پرست‘ عاشق مزاج‘ امن پسند اور فنونِ لطفیہ کے دلدادہ ہوتے ہیں اس کا ثبوت یہ دیا جاتا ہے کہ دنیا کا تقریباً نصف کرۂ جو برفیلے علاقوں اور سرد ممالک پر مشتمل ہے مثلاً اسکینڈی نیویا‘ روس وغیرہ وہاں لہسن عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا اور ان علاقوں کی تاریخ میں کوئی رومانی واقعہ رونما نہیں ہوا نہ ہی کوئی بہت مشہور عاشق گزار ہے بلکہ ان علاقوں کے لوگ جنگجو ہوا کرتے ہیں۔
مشہور یونانی حکیم جالینوس نے لہسن کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس میں انسانی جسم کے تمام امراض کا علاج موجود ہے۔‘‘ لہسن کو کھلایا بھی جاتا ہے اور بیرونی طور پر جلدی امراض میں لگایا بھی جاتا ہے۔ اس سے تیار شدہ معجون ’’معجون سیر علویخانی‘‘، سرد بلغمی امراض مثلاً فالج‘ لقوہ‘ ضعف اعصاب وغیرہ میں کثرت سے استعمال کروائی جاتی ہے۔ لہسن سے تیار کردہ روغن ’’روغنِ سیر‘‘ بیرونی طور پر زخموں پر لگانے اور مفلوج حصوں پر مالش کے کام آتا ہے۔ (فالج کا بڑا سبب کولیسٹرول کی مقدار بڑھ کر اس کا گاڑھا ہو جانا ہے اور یہ بات اب سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں ثابت ہو چکی ہے کہ لہسن خون کو پتلا کرتا ہے۔)
لسہن کے جو دیگر فوائد تحریر کیے گئے ہیں ان کے مطابق یہ ہاضم ہے‘ ریاح کو خارج کرتا ہے اور خون میں موجود گاڑھے مادوں کو رقیق کرتا ہے‘ اعصاب کو طاقت دیتا ہے اور تشنج کو دور کرتا ہے‘ ضعف باہ‘ کھانسی‘ کالی کھانسی‘ خناق اور سل میں بھی مفید ہے۔ بیرونی طور پر دافع تعفن اثرات رکھتا ہے اس لیے زخموںکو بھرنے کے لیے استعمال کرایا جاتا ہے۔ جھائیوں اور جلد کے دیگر داغ دھبوں کو بھی دور کرتا ہے۔ بال خورے اور زہریلے جانوروں کے کاٹے پر لگانے کا مشورہ دیا گیا ہے بعض کتب میں بواسیر اور دمے کے مریضوں کو لہسن کے استعمال کا مشورہ دیا گیا ہے۔ آئیوویدک میں اسے ذہن کو تیز کرنے اور آواز کو بہتر کرنے کے لیے بھی استعمال کروایا گیا ہے۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ لہسن کے بارے میں بلند بانگ دعوئوں اور اس کی کرشمہ سازیوں اور طب یونانی میں اسے بیشتر امراض میں استعمال کرنے کے ذیل میں جدید سائنس کیا کہتی ہے اور اپنے وقت کے اس دیوتا کی کس قدر کرامات کا اعتراف کرتی ہے۔
لہسن کا جو کیمیاوی تجزیہ کیا گیا ہے اس کی رو سے اس میں گندھک کے 35 مرکبات اور سترہ امینو ایسڈ (جس میں لازمی ایسڈ شامل ہوتے ہیں۔) سلینیم‘ کیلشیم‘ تانبا‘ لوہا‘ پوٹاشیم‘ میگنیشم‘ وٹامن اے‘ بی اور سی موجود ہوتے ہیں۔ سو گرام لہسن میں قلیل دھاتی مرکبات ہوتے ہیں۔
ان دھاتی اجزا کو انسانی صحت کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے خاص طور پر نباتی وٹامن سلینیم‘ انسانی جسم میں سرطان (کینسر) کی پیدائش کو روکتا ہے نیز یہ جسم میں پائی جانے والی ایسی دھاتوں کو جو جسم کے لیے نقصان دہ ہیں‘ جسم سے خارج کرتا ہے۔ یہ دونوں فائدے لہسن میں موجود گندھک کے مرکبات کی وجہ سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ چین کے اس علاقے میں جہاں لہسن استعمال نہیں کیا جاتا اس حصے کے مقابلے میں جہاں لہسن خوراک کا لازمی جزو ہے‘ سرطان کے مریض زیادہ پائے گئے ہیں۔
جدید تحقیقات کے مطابق لہسن میں اینٹی وائرل (وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں کے خلاف) اینٹی فنگل (پھپھوندی سے پھیلنے والے امراض کے خلاف)‘ اینٹی پروٹوزول (ایک خلیاتی اجسام سے پھیلنے والی بیماری کے خلاف)‘ اینٹی پیراسائیٹل (طفیلی کیڑوں سے پھیلنے والے امراض) اور اینٹی بیکٹریا ٹیل (جراثیم سے پھیلنے والے امراض کے خلاف) اثرات موجود ہیں۔ انسانی جسم میں پھیلنے والے بیشتر امراض انہی ذرائع سے پھیلتے ہیں۔ اگر جدید سائنس لہسن میں ان فوائد کو ثابت کر رہی ہے تو ہزاروں سال پہلے جالینوس نے بھی اسے تمام انسانی امراض کے لیے شفا بخش کہا تھا اور غلط نہیں کہا تھا۔ اس میں پایا جانے والا ایک جزو جسے ’’ایجونین‘‘ کہا جاتا ہے‘ خون کو جمنے سے روکتا ہے۔ لہسن بہت سے گرام منفی اور گرام مثبت جراثیم کو ہلاک کرنے کی صفت رکھتا ہے۔ لہسن کے فوائد بیان کرتے وقت کہا گیا تھا کہ یہ بیرونی زخموں پر لگانے سے انہیں ٹھیک کر دیتا ہے حتیٰ کہ زخم پرانے ہو کر گینگرین یا غانغرانا (کسی حصے کا مردہ ہو جانا) میں تبدیل ہو جائیں تب بھی یہ مفید ہے۔ اس دعوے کو ایک روسی ڈاکٹر نے اس طرح ثابت کیا ہے کہ تجرباتی طور پر لیبارٹری میں پیدا کیے ہوئے جراثیم پر لہسن کا نچوڑا ہوا رس ڈالا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تین منٹ کے اندر اندر وہ تمام جراثیم ہلاک ہوگئے۔
اس وقت دنیا میں لہسن کی دھوم اس کے دل اور خون کی رگوں سے متعلق امراض میں مفید ہونے کی وجہ سے ہے۔ ڈاکٹر ٹی ایریگا جن کا تعلق نی ہان یونیورسٹی جاپان سے ہے انہوں نے لہسن کا عرق استعمال کروا کے کئی تجربات کیے جوکہ 17 جنوری 1981ء کو شائع ہونے والے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ لہسن خون کو گاڑھا ہو کر لوتھڑوں اور سدوں میں تبدیل ہونے سے روکتا ہے جس کی وجہ سے یہ ان تمام لوگوں میں مفید ہوسکتا ہے جو دورۂ قلب سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔ دوسری تحقیق بھارت کے ڈاکٹر ارن بورویا نے کی ہے جو کہ ٹیگور میڈیکل کالج راجستھان سے متعلق ہیں۔ انہوں نے بیس ایسے مریضوں کو جنہیں دل کا دورہ پڑے‘ چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے‘ لہسن کیپسول کی شکل میں استعمال کروایا۔ خون کا معائنہ کرنے پر پتا چلا کہ دس دن کے اندر اندر ان کے خون کے جمنے کی صلاحیت 63 فیصد کم ہو گئی اور بیس دن بعد یہی صلاحیت 95 فیصد کم ہو گئی اور جوں ہی لہسن دینا بند کر دیا گیا یہ انجمادی صلاحیت بھی تیزی سے بڑھنے لگی۔
بھارتی سائنس دان اپنی اس کامیابی پر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ایک اور تجربہ کیا۔ یکساں عمر کے حامل دل کے 33 مریضوں کو روغن لہسن جلیٹین کیپسول میں بند کرکے کھلانا شروع کیا گیا۔ دوسرے گروپ میں دل کے 29 مریضوں کو خالی کیپسول دینا شروع کیا گیا۔ پھر دونوں گروپ کا وقتاً فوقتاً معائنہ کیا گیا۔ پہلا گروپ جسے روغن لہسن دیا جا رہا تھا اس کے مریضوں کے خون کا معائنہ کرنے پر پتا چلا کہ پہلے میں ان کا ’’بلڈ کولیسٹرول‘‘ (خون میں موجود جمنے والی چکنائی) تھوڑی مقدار میں بڑھ گیا مگر جب چھ ماہ کا وقت گزر گیا تو کولیسٹرول کی مقدار اوسطاً 18 فیصد کم ہو گئی‘ دیگر نباتی چکنائیوں کی مقدار بھی کم ہوئی اور مجموعی طور پر خون کی حالت بہت بہتر ہو گئی۔ دوسرا گروپ جسے خالی کیپسول کھلائے جا رہے تھے اس کے مریضوںکے خون کا معائنہ کرنے پر پتا چلا کہ ان کے خون میں کولیسٹرول اور دیگر چکنائیوں میں قلیل مقدار میں کمی ہوئی ہے۔ اس تجربے سے ڈاکٹر ارن اس نتیجے پر پہنچے کہ لہسن کا استعمال خون کی رگوں کی لچک کو برقرار رکھتا ہے اور خون میں گاڑھا اور منجمد ہونے کی خاصیت کو کم کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان بڑی حد تک دل کے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ پروفیسر ہیسن رائٹر کا تعلق یونیورسٹی آٰ کولون (مغربی جرمنی) سے ہے‘ انہوں نے لہسن پر برسوں کام کیا‘ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ دورۂ قلب سے محفوظ رہنے کے لیے تیز بو دار لہسن کی چند پوتھیاں روزانہ کھانا چاہیے۔
دل کے امراض کے علاوہ لہسن کا استعمال پھیپھڑوں کی بیماریوں میں بھی مفید ہے۔ اسے سل و دق میں کھلایا بھی جاتا ہے اور اسے سونگھنے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ کھانسی‘ خصوصاً کالی کھانسی کے مریضوں کو لہسن کے دو جوے پیس کر دو چمچے شہد میں ملا کرچٹایا جاتا ہے اسے چھیل کر اور اس کے جوئوں کا ہار بناکر بچے کے گلے میں بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ سانس کے ساتھ اس کی بُو پھیپھڑوں میں جا کر اثر انداز ہو سکے۔ دمے کے مریضوں پر بھی بعض اوقات یہ اچھا اثر کرتا ہے نیز جوڑوں کے درد میں بھی خاص طور پر ایسے درد جو کہ سردی لگنے سے بڑھ جاتے ہیں‘ لہسن کا استعمال فائدہ کرتا ہے۔
اندرونی طور پر مفید ہونے کے ساتھ ساتھ لہسن بیرونی طور پر بھی جلدی امراض میں استعمال کرایا جاتا ہے مثلاً برص‘ چھیپ اور داد میں اسے برابر مقدار میں نوشادر کے ساتھ پیس کر متاثرہ حصے پر لگایا جاتا ہے۔ بال خورہ کی صورت میں کسی جگہ کے بال گر کر جلد چکنی نکل آتی ہے اور اگر مناسب علاج نہ کیا جائے تو سر اور داڑھی کے تمام بال غائب ہو جاتے ہیں اس میں بھی لہسن اچھا کام کرتا ہے اس کے لیے لہسن کی پانچ پوتھیوں کے ساتھ ایک چٹکی سرمے کو پیس لیا جائے اور متاثرہ حصے پر صبح و شام لگایا جائے۔ کان کے اندر اگر پھنسیاں ہو جائیں یا درد ہو تو لہسن کی ایک پوتھی ایک چمچہ تلی یا زیتون کے تیل میں ڈال کر آگ پر پکایا جائے‘ جب لہسن سرخ ہو جائے تو تیل چھان لیا جائے اور پانچ پانچ قطرے نیم گرم حالت میں صبح اور سوتے وقت کان میں ڈالے جائیں۔ بہتے ہوئے کان کے لیے بھی اسی مفید بیان کیا گیا ہے۔
لہسن کے استعمال کرنے میں جو بات سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ اس کی ناگوار بو ہے جو کہ اسے کچا کھانے کے بعد دیر تک منہ سے آتی رہتی ہے بلکہ سانس کے ذریعے بھی خارج ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچا لہسن و پیاز کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے۔ چونکہ ناگوار بو کی وجہ سے قریب کھڑے ہوئے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اگر پکا کر کھایا جائے تو بُو تو زائل ہو جاتی ہے مگر فوائد بہت کم ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ جوے کو چھیل کر ثابت ہی پانی کی مدد سے نگل لیتے ہیں مگر اس طرح سے یہ ہضم نہیں ہو پاتا اور جوں کا توں فضلے میں خارج ہو جاتا ہے۔ انہی دشواریوں کے پیش نظر اس کی گولیاں بنائی گئیں یا اس کا روغن کیپسول میں بھر کر بازار میں لایا گیا۔ پاکستان میں یہ دوا ’’درسیر‘‘ اور ’’لاسونا‘‘ کے نام سے دستیاب ہے۔ اس طرح لہسن کی ناگوار بُو کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو گیا ہے مگر اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ تازہ لہسن کھانے سے فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ سب سے زیادہ ہیں کیونکہ پکانے یا کسی اور شکل میں تبدیل کرنے کی وجہ سے اس کے قیمتی اجزا کسی حد تک ضائع ہو جاتے ہیں۔ ہرے دھنیے اور لیموں کے ساتھ اگر اس کی چٹنی بنا لی جائے تو کسی حد تک بُو دب جاتی ہے یا پھر اس کا جوا چھیل کر باریک باریک تراش لیا جائے اور پانی کی مدد سے بغیر چبائے نگل لیا جائے اس طرح اس کی بو سے بچا جاسکتا ہے۔
ان لوگوںکو لہسن زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو معدے و آنتوں کے زخم‘ الرجی اور نکسیر وغیرہ کے امراض میں مبتلا ہوں۔ یونانی اطبا نے حاملہ عورتوں کے لیے بھی لہسن کو مضر بیان کیا ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ اسے پابندی کے ساتھ زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ کر لیجیے۔ یوں بھی اس کے فوائد کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے کس مرض میں کتنی مقدار میں کس طریقے سے اور کس وقت استعمال کیا جا رہا ہے۔
مذکورہ چند باتوں اور احتیاط کو پیش نظر رکھا جائے تو لہسن ایک مفید ترین دوا اور غذا ہے جو کہ اپنی تمام تر کرشمہ سازیوں کے ساتھ نہایت ارزاں داموں پر بڑی مقدار میں اور ہر موسم میں آپ کے دستر خوان کی زینت بننے کے لیے تیار ہے۔ لہسن کو دوائوں ک سلطنت کی ’’ملکہ‘‘ کہا گیا ہے اور اس کے بے مثال فوائد کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے یہ خطاب نہایت موزوں ہے۔

حصہ