گفتگو

222

مسز حسن نے آ ج اسکول میں تمام اساتذہ کو مدعو کیا تھا کہ سب مل کر چائے پئیں گے اور پاکستان کے بارے میں گفتگو بھی کریں گے۔ بارش کے اس سہانے موسم میں مسز حسن کی ہلکی پھلکی نشست کی اس تجویز کو سب نے بہت سراہا۔
مسز حسن اسکول کی پرنسپل تھیں۔ وہ انتہائی اصول پسند اور وقت کی پاپند تھیں۔ اس نشست کا وقت مسز حسن نے 11 بجے کا دیا تھا اور وہ خود اسکول 10 منٹ پہلے ہی پہنچ گئی تھیں کہ کسی کو ان کی وجہ سے کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ زندگی ڈھنگ اور سلیقے سے گزارنے کی عادی تھیں۔ پرنسپل ہونے کے ناتے وہ دیر سے بھی آ سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔
مسز حسن کو پاکستان سے والہانہ لگاؤ تھا۔ وہ اپنے وطن کو اپنا گھر سمجھتی تھیں اور اس کا گھر ہی کی طرح حفاظت کرنا چاہتی تھیں۔ اسکول پہنچ کر وہ بیٹھی ہی تھیں کہ یکے بعد دیگرے مسز آ فتاب، مسز شکیل ،مس ثمینہ، مس فرزانہ ،مس مہوش، مائرہ اور عظمیٰ بھی آگئیں۔ سب ایک دوسرے سے ہنسی خوشی ملیں اور سلام دعا کر کے کرسیوں پر بیٹھتی گئیں۔ بوا چائے اور لوازمات تیار کررہی تھیں‘ گرما گرم پکوڑوں کی خوشبو فضا میں پھیلی ہوئی تھی جس نے خواتین کو پرجوش کر دیا تھا۔
مسز آ فتاب نے مسکرا کر مسز حسن سے کہا’’مسز حسن آ پ نے تو خوب اہتمام کیا ہے۔‘‘
مسز حسن کے جواب دینے سے پہلے مس فرزانہ جو نہایت شوخ و چنچل تھیں، بولیں’’ہاں بھئی! کیوں نہ ہو اہتمام، مسز حسن کی پارٹی ہے،آزادی کا مہینہ اور ہم سب اکٹھے ہیں۔‘‘
مسز حسن متانت سے بولیں ’’میں نے چائے اور پکوڑوں کا بوا سے کہہ دیا ہے‘ میں نے سوچا آ زادی کی تاریخ اور آ زادی جیسی نعمت پر بھی ہمارے درمیان بات چیت ہو جائے کیوں کہ اب اسکول کھلنے والے ہیں‘ بچے آجائیں گے اور اس حوالے سے کچھ نہ کچھ ضرور جاننا چاہیں گے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اگلی نسل کو اس بارے میں معلومات دیں۔‘‘
مسز حسن کی اس بات کو سن کر مسز شکیل بولیں’’آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے اور جن جن راہوں سے گزر کر پاکستان نے آزادی حاصل کی ہے ایسی تاریخ تو بہت کم ملکوں کی ہوگی۔‘‘
ان کی اس بات کے جواب میں مس مہوش نے آ ٹھویں جماعت کی اردو کی کتا ب ’’صریر خامہ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’چاند تارے کے پرچم‘‘ کے عنوان سے یہ مضمون ہے جس میں ’’مشکور حسین یاد‘‘ نے اپنے کم عمر ماموں کاذکر کیا ہے جو قیامِ پاکستان کی تحریک میں چاند تارے کا پرچم لے کر گھر سے باہر نکلتے، اپنے ہم عمر بچوں کو اکٹھا کرتے، گلیوں کا گشت لگاتے اور پاکستان کے نعروں سے محلے کی فضاؤں کو گرما تے حتیٰ کہ ہندو اور سکھ لڑکوں کو بھی دعوت دیتے اور کہتے ’’اس پرچم کے سائے تلے آ جاؤ امن و سکون اور عزت حاصل ہو جائے گی۔‘‘ اس معصوم بچے کو ہندو بلوائیوں نے اس بے دردی سے قتل کیا کہ اس کے جسم کو آ گ لگادی جب کہ وہ زخموں سے چور نیم مردہ تھا۔‘‘ مشکور حسین یاد نے لکھا ہے ’’شہادت کے وقت بھی میرے ماموں کی نظریں پاکستان کے اُس جھنڈے پر جمی ہوئی تھیں جو دروازے پر لہرارہا تھا۔ یہ وہی جھنڈا تھا جو یہ لے کر نکلتے تھے محلے کی گلیوں میں گھومتے تھے اور جسے ہجرت کے سفر میں وہ سینے سے لگا کر ساتھ لائے تھے۔‘‘
مس مہوش کی اس گفتگو کے بعد محفل پر کچھ دیر کے لئے سناٹا چھا گیا۔ چند لمحوں کے بعد مس مائرہ جو سائنس کی ٹیچر تھیں لمبی سانس لے کر بولیں ’’ہاں بھئی آزادی کی قدر تواب ہندوستان کے مسلمانوں کو محسوس ہورہی ہو گی جو متعصب ہندوؤں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہم ناشکروں کو آزادی کی کیا قدر ہوگی؟‘‘
ریاضی کی ٹیچر ثمینہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا’’آزادی کی اس جدوجہد میں مسلمانوں نے صرف ظلم و ستم ہی نہیں سہے بلکہ انہیں ہندؤں‘ سکھوں اور انگریزوں کی چال بازیوں اور مکاریوں سے بھی نمٹنا پڑا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ پاکستان کے حصے میں آ نے والے سازوسامان اور کئی کروڑ روپے بھی بھارت نے آ ج تک ادا نہیں کیے۔‘‘
’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا ثمینہ۔‘‘ مس عظمیٰ بولیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’یہ جس پہلو کی طرف آ پ نے اشارہ کیا یہ آ ئینی، دستوری اور قانونی جنگ تھی جو بہت تحمل اور برداشت سے قائد اعظم اور ان کی ٹیم نے سامراجی انگریزوں اور ہندوؤں سے لڑی۔ یہ دو قومی نظریئے کی بنیاد پر لڑی جانے والی لڑائی تھی جس کے بارے میں قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ مسلمان اور ہندو دو مختلف قوم ہیں کیوں کہ ہمارا ہیرو انہیں ناپسندیدہ ہے اور اُن کے ہیرو ہمارے لیے ناقابل قبول۔ سرسید اور عبدالحلیم شرر بہت پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہندو اور مسلمان بالکل مختلف سمت رکھنے والی اقوام ہیں۔ انگریزوں کی وعدہ خلافیوں اور ہندوئوں کی چال بازیوں کے ساتھ معاہدۂ لکھنؤ، قائداعظم۔ کے 14 نکات، گول میز کانفرنس، ہندوئوں کی صوبائی حکومتیں اور قائد اعظم کا یومِ نجات منانا یہ سب اسی قافلے کی منزلیں تھیں۔ یہ ساری جانگسل جدوجہد ہندوؤں اور انگریزوں کی مشترکہ چال بازیوں ،مکاریوں، جھوٹ اور وعدہ خلافیوں سے عبارت ہے۔ اگر اس جدوجہد میں مسلمانوں کا اتحاد اور خدا کی مدد شامل نہ ہوتی تو پاکستان جیسے معجزے کارونما ہونا مشکل تھا۔‘‘
عظمیٰ کی بات سن کر مسز حسن پہلو بدلتے ہوئے بولیں’’حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک چومکھی لڑائی تھی جو مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں جیت لی ورنہ دو قومی نظریئے کے بارے میں تو آج بھی بعض لوگ چندرا چندرا کر پوچھتے ہیں کہ یہ دو قومی نظریہ کیا ہے اور کچھ لوگ ہیں جو ’’امن کی فاختہ‘‘ کے نام پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان محبت بھرے تعلقات قائم کرنے کی سعی لاحاصل کرتے رہتے ہیں۔ مجھے تو اس سلسلے میں شیخ منظور الہیٰ کی کتاب ’’سلسلہ روز و شب‘‘ کی یہ بات بہت پسند آئی، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ہندو دکان دار نے ہم دوستوں کے پانی مانگنے پر ہندو لڑکوں کو تو ایک ہی گلاس میں پانی دیا اور مجھے الگ گلاس میں پانی دیا جب میں نے پانی پی کر گلاس واپس کیا تو وہ مجھ سے بولا ’’میاں! اب آ پ کے لیے یہی گلاس ہوگا۔‘‘ یہ واقعہ ان لوگوں کو آئینہ دکھاتا ہے جو برصغیر میں رہنے والوں کو ایک قوم سمجھتے تھے۔‘‘
اسی اثناء میں بوا اور ان کی مددگار لڑکی نے چائے اور دیگر لوازمات میز پر لگانا شروع کر دیا۔ مسز حسن نے بوا کی طرف نظر یں ڈالتے ہوئے گمبھیر لہجے میں کہا ’’قیامِ پاکستان کی یہ جدوجہد تو مسلمانوں کی تاریخ کی یادگار ترین تحریکوں میں سے ایک ہے۔ اس مختصر سی محفل میں اس پر مفصل بات چیت تو ناممکن ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان ایک معجزہ تھا جو اللہ کی رحمت سے وقوع پذیر ہوا اور ایسے لاکھوں واقعات ہیں جو پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے سے تعلق رکھتے ہیں اور پورے سال اس پر گفتگو ہونی چاہیے ساتھ بچوں کواس کے بارے میں بتاتے رہنا چاہیے کہ ہمارے بزرگوں نے کتنی قربانیوں سے پاکستان حاصل کیا لہٰذا ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور حفاظت بھی۔‘‘
مسز حسن کی اس بات کے ساتھ ہی گفتگو کا سلسلہ ختم ہو ا اور تمام خواتین چائے کی طرف متوجہ ہو گئیں۔

حصہ