ہم آزاد ہیں

208

وہ لکڑیوں کی چھت کا سیلن زدہ ایک بوسیدہ سا کمرہ تھا، جس کے وسط میں پرانے بوسیدہ سے تخت پر پچاسی سالہ رحیم بخش لیٹا تھا۔ وہ گھر کے مکینوں کے لیے اتنا ہی ناکارہ تھا جتنا اس کوٹھری نما کمرے کے کونے میں پڑا کوئی بھی کاٹھ کباڑ۔ جسمانی لاچاری کے ساتھ ساتھ وہ ذہنی طور پر بھی مفلوج ہوچکا تھا۔ وہ کون تھا اور اس گھر کے مکین اس کے کون ہیں؟ اُسے کچھ یاد نہیں تھا۔
اگست کے شروع ہوتے ہی جشنِ آزادی کی خوب زور و شور سے تیاریاں جاری تھیں۔ کیک، باجے گاجے، پٹاخے، جھنڈیاں، دیے، بتیاں… بڑا ہی پر رونق ماحول تھا۔ عین بارہ بجے وہ شور اُٹھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔
یکلخت رحیم بخش کا دماغ جھٹکا کھا کے بیدار ہوا۔ دماغ نے ماضی کا سفر شروع کردیا تھا۔ اب وہ پچاسی سال کا نہ رہا تھا۔ دس سال کا چھوٹا بچہ ہوگیا تھا۔ پاکستان بن چکا تھا اور ان کا علاقہ ہندوستان کے حصے میں آیا تھا۔
جانے صبح سے محلے میں کیا غل مچا ہوا تھا‘ رحیم بخش کو اس کی بیوہ ماں نے ایسی ہی کسی کوٹھری میں ڈھیر بستروں کے نیچے چھپا دیا تھا، اُس کا دَم گھٹ رہا تھا پر ماں نے تاکید کی تھی کہ باہر سے کیسی ہی آواز کیوں نہ آئے، کوئی تمہیں کتنا ہی بلائے تم نے یہاں سے نکلنا نہیں۔
ابھی ماں کو کوٹھری سے نکلے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ ان کے گھر موت کے سوداگر داخل ہوگئے پر جانے ماں نے ان کو موت کے سوداگر کیوں کہا؟ وہ تو ان کے اپنے تھے، وہ تو اس کا اور اس کے گھر کا اتنا خیال رکھتے تھے۔ بلونت تاؤ، بلو چاچا، موہت باؤ جی… باہر سے ماں کے للکارنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ ان سب کو شیطان کہہ رہی تھیں۔ کیا ان سب کے سینگ نکل آئے تھے ؟ لمبے لمبے دانت اور لال لال آنکھیں؟
اسے کیا معلوم تھا شیطان چہروں پر کب ظاہر ہوتا ہے؟ وہ تو دل میں اترتا ہے اور من کالا کر دیتا ہے۔ باہر سے چھپاک کی آواز آئی تھی، ماں نے کنویں میں چھلانگ لگا دی تھی۔ باہر کھڑے شیطان کے چیلے غصے میں پاگل ہوگئے ۔ وہ کتوں کی طرح گھر میں رحیم بخش کو ڈھونڈ رہے تھے۔ کوٹھری میں بھی دو تین دفعہ دیکھا پر اللہ نے ان کی آنکھوں کے آگے پردہ ڈال دیا اور اس رات رحیم بخش بچ گیا تھا۔
صبح وہاں سرکاری مدد آگئی اور اس کو وہاں سے نکال کر پاکستان روانہ کردیا گیا۔ اس کے بعد وہ کہاں رہا ، کیسی زندگی گزاری، کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔ بس یاد رہا تو اتنا کہ اس کے گھر اپنوں کے چہروں کے پیچھے چھپے دشمنوں نے حملہ کردیا تھا اور اس کی ماں حیا کا پیکر تھی‘ اُس نے عصمت بچا کر اپنی جان کا نذرانہ دے دیا تھا۔
دروازے کے سامنے سے ابھی اس کی پوتی گزری تھی یا شاید پڑپوتی صحیح سے یاد نہیں آرہا تھا۔ سفید ٹائٹ اور ہرے رنگ کی چھوٹی سی کرتی پہنے، برہنہ بازو پر پاکستان کا جھنڈا بنوایا ہوا تھا۔ چہرے پر بھی کچھ پاکستانی نقش و نگار تھے۔ قومی ترانے پر تھرکتی ہوئی جارہی تھیں۔ وہ تھرک سکتی تھی آخر وہ آزاد تھی۔
کل حیا کی پیکر نے اپنی جان دی تھی‘ آج حیا نے ہی دَم توڑ دیا تھا۔ اب حیا بے چاری بھی کیا کرتی۔ کب تک عصمتیں بچانے کے لیے جانوں کا خراج وصول کرتی اس نے خود کو ہی فنا کردیا تھا۔ اب سب آزاد تھے بالکل آزاد۔
باہر شور بڑھ گیا… شاید بلوائیوں نے پھر سے حملہ کر دیا… وہ ہی شیطان جو اپنوں کے روپ میں کالے من کے ساتھ حملہ کرتے ہیں، پر اب ان کا طریقہ واردات بدل گیا تھا… اب وہ جان نہیں لیتے بلکہ ایمان پر حملہ کرتے ہیں… بھلا ایمان کے بغیر مسلمان سے ان کو کیا خطرہ ؟
رحیم بخش کی آنکھیں وحشت سے پھیلنے لگیں۔ اس کو بلوائیوں سے ڈر لگ رہا تھا‘ اس کو اپنی ماں کے پاس جانا تھا… دیکھو اس کی ماں اس کو بلارہی تھی… اس کا کمزور اور لاغر جسم اکڑنے لگا۔ آج آزادی کا دن تھا، رحیم بخش کو بھی آزادی مل گئی ہر ڈر ہر خوف سے آزادی، اس کی روح کو جسم کے قفس سے آزادی ، اس کے دماغ کو ماضی کے بوجھ سے آزادی۔
باہر چراغاں اپنے عروج پر تھا، زمین سے نکلتی پھلجھڑیاں آسمان کی وسعتوں تک جارہی تھیں اور ڈھول کی تھاپ پر تھرکتی چالیں جشن آزادی منارہی تھیں –

حصہ