قیصرو کسریٰ قسط(63)

201

کلاڈیوس نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’تمہارا خیال درست ہے، انطونیہ میں ایک ہفتہ کے اندر اندر یہاں سے روانہ ہوجائوں گا۔ دشمن وادیٔ نیل کی طرف پیش قدمی کررہا ہے۔ شمال مشرقی سرحد کے سپہ سالار نے دشمن سے فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے تمام شہروں سے کمک مانگی ہے۔ مجھے اسکندریہ پہنچتے ہی وہاں سے روانہ ہونے والے چند دستوں کی کمان سونپی گئی تھی۔ اور میں یہ وعدہ کرکے دو دن پہلے وہاں سے روانہ ہوا تھا کہ بابلیون سے ہو کر محاذ پر پہنچ جائوں گا۔ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو میں باقی زندگی ایک لمحہ کے لیے بھی تم سے جدا ہونا پسند نہیں کروں گا‘‘۔
انطونیہ نے کہا۔ ’’تو میں نے غلط نہیں کہا تھا کہ میں اپنی خوش نصیبی سے ڈرتی ہوں‘‘۔
’’تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے، انطونیہ میں محاذِ جنگ سے فارغ ہوتے ہی یہاں پہنچوں گا اور پھر شادی کے معاملے میں ایک دن کی تاخیر بھی میرے لیے ناقابل برداشت ہوگی‘‘۔
انطونیہ نے کہا۔ ’’اب آپ ایک ہفتہ یہاں ٹھہریں گے؟‘‘۔
’’ہاں اگر تمہارے والد نے کوئی اعتراض نہ کیا تو ایک ہفتہ کے لیے میں اس گھر کی چار دیواری سے باہر جھانکنا بھی پسند نہ کروں گا‘‘۔
انطونیہ کچھ دیر سر جھکائے سوچتی رہی، پھر اُس نے کلاڈیوس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’اگر کل بابلیون کے باشندے ہمیں شوہر اور بیوی کی حیثیت میں دیکھیں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا؟‘‘۔
کلاڈیوس نے اپنے دل میں خوش گوار دھڑکنیں محسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’نہیں بلکہ یہ میرے اُن ناقابل یقین سپنوں کی تعبیر ہوگی جو میں نے اپنے سفر کے دوران میں دیکھے ہیں لیکن میں تمہارے والد سے ایسی درخواست کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا‘‘۔
’’آپ کو درخواست کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ میں انہیں سمجھا سکوں گی کہ میرے لیے ایک بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کا انتظار کرنا زیادہ آسان ہوگا‘‘۔
’’لیکن میں جنگ میں حصہ لینے کے لیے جارہا ہوں اور ممکن ہے کہ میں زندہ واپس نہ آسکوں یا مجھے قیدی بنالیا جائے۔ اور تمہیں تمام عمر یہ پتا نہ چلے کہ میں کہاں ہوں اور کس حال میں ہوں‘‘۔
انطونیہ نے جواب دیا۔ ’’ان حالات میں میرے لیے یہ مسئلہ اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ میں وقت کے بے رحم ہاتھوں سے مسرت کی چند گھڑیاں چھیننا چاہتی ہوں۔ اگر مستقبل مجھے کچھ اور نہ دے سکا تو بھی ان کے سات دنوں کی یاد میرے لیے ایک بہت بڑا سہارا ہوگی، کم از کم میں اپنے دل کو یہ تسلی دے سکوں گی کہ ان ایام میں آپ صرف میرے لیے تھے۔ لیکن میں ایسی باتیں کیوں سوچوں کیا قدرت نے آپ کو ایرانیوں کی قید سے نکال کر یہاں نہیں بھیجا تھا اور یہ ایک معجزہ نہیں تھا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آئندہ بھی آپ کی سلامتی کے لیے میری دعائیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ میں اپنے دل میں یہ خیال تک نہیں آنے دوں گی کہ آپ جنگ سے واپس نہ آئیں گے۔ اور ہمیں خوشی کی چند گھڑیاں عطا کرنے کے بعد خدا کی رحمت کے خزانے خالی ہوجائیں گے‘‘۔
انطونیہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ کلاڈیوس کو سمجھانے سے زیادہ اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کررہی تھی۔
فرمس مکان میں داخل ہوا۔ اور وہ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ کلاڈیوس سے مصافحہ کرتے ہوئے اُس نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’انطونیہ کے آنسو گواہی دے رہے ہیں کہ آپ اپنے چچا سے مایوس ہو کر آئے ہیں‘‘۔
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’نہیں! میں مایوس ہو کر نہیں آیا، انطونیہ صرف اِس بات سے پریشان ہے کہ میں ایک ہفتہ یہاں ٹھہر کر محاذ جنگ پر چلا جائوں گا‘‘۔
فرمس نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ تم یہاں آنے کی بجائے اسکندریہ سے سیدھے محاذ پر چلے جائو گے‘‘۔
’’میں اپنے چچا کی اجازت سے یہاں آیا ہوں‘‘۔
انطونیہ نے کہا۔ ’’ابا جان! ان کی خواہش ہے کہ کل ہماری شادی ہوجائے۔ اور آپ کی بیٹی کے پاس تشکر کے آنسوئوں کے سوا کوئی جواب نہیں۔ نہیں! میں جھوٹ نہیں بولوں گی یہ میری اپنی خواہش ہے۔ یہ مجھے سمجھا رہے تھے کہ ایک سپاہی کا جنگ سے زندہ واپس آنا یقینی نہیں ہوتا‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’عورتیں رونے یا ہنسنے کے لیے ہمیشہ ناموزوں وقت منتخب کرتی ہیں، اس بات کا فیصلہ ہوچکا ہے کہ تم ایک دوسرے کے لیے ہو اور اگر کلاڈیوس کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میرے لیے یہ مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا کہ تمہاری شادی کس وقت اور کن حالات میں ہوتی ہے۔ اگر یہ ایک ہفتہ کے بعد محاذ جنگ پر جارہا ہے تو میں ایک لمحہ ضائع کرنا بھی پسند نہ کروں گا‘‘۔
اگلے روز بابلیون کے ایک کشادہ گرجے کے اندر، چند مقامی معززین اور رومی افسروں کی موجودگی میں کلاڈیوس اور انطونیہ کی شادی کی رسوم ادا کی گئیں۔ اور چھٹے روز کلاڈیوس نے اپنی بیوی کو الوداع کہہ کر میدان جنگ کا رُخ کیا۔ پھر چند دن بعد محاذ جنگ سے رومی سپاہ کی شکست اور پسپائی کی خبر آئی۔ اور اس کے بعد بابلیون کے پریشان حال باشندے قریباً ہر روز اس قسم کی اطلاعات سننے لگے کہ آج ایرانیوں نے مصر کے فلاح قلعے یا فلاں شہر پر قبضہ کرلیا ہے۔ اور آج رومیوں نے فلاں مقام سے پسپا ہو کر فلاں مقام پر ڈیرے ڈال دیے ہیں۔
ایک شام فرمس انتہائی پریشانی کی حالت میں گھر پہنچا اور اُس نے اپنی بیٹی سے کہا۔ ’’آج خبر آئی ہے کہ ایرانی بلبیس کے قریب پہنچ چکے ہیں اور ہمارے سپہ سالار نے بابلیون میں بچے کھچے رومی سپاہیوں کے علاوہ چند مقامی دستوں کو بھی وہاں بلالیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر رومیوں نے دوسرے شہروں کی طرح بلبیس کو بھی لڑے بغیر خالی کردیا تو بابلیون تک دشمن کا راستہ صاف ہوجائے گا۔ رومیوں نے ابھی سے اپنے بچوں کو اسکندریہ بھیجنا شروع کردیا ہے اور اس مقصد کے لیے دریا کی تمام کشتیاں ضبط کرلی گئی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رومی بابلیون کے مستقبل کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں اگر خدانخواستہ بلبیس میں شکست ہوئی تو وہ بابلیون کی طرف پسپا ہونے کی بجائے اسکندریہ کا رخ کریں گے۔ ان حالات میں، میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ تمہیں اسکندریہ پہنچادیا جائے۔ میں ابھی ایک رومن افسر سے مل کر آیا ہوں اور اُس نے مجھے ایک کشتی میں جگہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس لیے اب تمہیں سفر کی تیاری کرنی چاہیے‘‘۔
انطونیہ نے سراپا التجا بن کر کہا۔ ’’نہیں! ابا جان، یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ کلاڈیوس ضرور یہاں آئے گا اُس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ ابا جان! میں اسکندریہ نہیں جائوں گی۔ ممکن ہے کہ وہ زخمی حالت میں یہاں پہنچے اور اُسے میری ضرورت ہو۔ وہ بابلیون کے حالات سے بے خبر نہیں ہوسکتا۔ اگر اُس نے اِس جگہ ہمارے لیے کوئی خطرہ محسوس کیا تو وہ یقیناً ہمیں یہ پیغام بھیجے گا کہ ہم اسکندریہ چلے جائیں۔ لیکن جب تک اُس کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں آتی میں اسکندریہ نہیں جائوں گا۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ یہاں آئے کہ وہ ضرور آئے گا‘‘۔
فرمس کو انطونیہ کے الفاظ سے زیادہ اُس کے آنسو متاثر کررہے تھے۔ اُس نے کہا۔ ’’بیٹی! میں نے صرف ایک مشورہ دیا تھا۔ تمہیں مجبور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ میرے توہمات غلط ثابت ہوں‘‘۔
چند دن بعد بابلیون میں کہرام مچا ہوا تھا کہ رومی لشکر بلبیس میں بھی شکست کھا چکا ہے اور فرمس قدرے تلخ لہجے میں اپنی بیٹی سے کہہ رہا تھا۔ ’’تم نے اُس دن میرا کہنا نہ مانا۔ کاش! میں تمہارے آنسوئوں سے متاثر نہ ہوتا اور تمہارے ہاتھ پائوں باندھ کر کشتی میں ڈال دیتا۔ اب تمام کشتیاں جاچکی ہیں اور ہمارے لیے اسکندریہ پہنچنے کی صرف یہ صورت باقی رہ گئی ہے کہ ہم خشکی کے راستے گھوڑوں پر سفر کریں۔ انطونیہ! اب سوچنے کا وقت نہیں رومی اب بابلیون نہیں آئیں گے۔ وہ شکست کھانے کے بعد اسکندریہ کا رُخ کررہے ہیں۔ بابلیون کا حاکم بھی فرار ہوچکا ہے۔ اور مقامی فوج ایرانیوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ اب ہمارے لیے آخری موقع ہے ممکن ہے کل تک ہمارے لیے خشکی کے راستے بھی بند ہوجائیں‘‘۔
انطونیہ نے کرب انگیز لہجے میں کہا۔ ’’ابا جان! آپ جائیں لیکن میں نہیں جائوں گی۔ میں کلاڈیوس کا انتظار کروں گی‘‘۔
فرمس نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’بیوقوف لڑکی! معلوم ہے کہ دشمن تمہارے ساتھ کس طرح سلوک کرے گا۔ کیا تمہارے شوہر نے تمہیں شام اور فلسطین کے مفتوحہ شہروں کی داستانیں نہیں سنائیں؟ تمہارے آنسو صرف تمہارے باپ کو بیوقوف بناسکتے ہیں، دشمن کی سرشت نہیں بدل سکتے۔ اگر تمہیں اب بھی یہ خیال ہے کہ کلاڈیوس یہاں آئے گا تو اُسے اطلاع دینے کے لیے میں اپنا نوکر یہاں چھوڑ جائوں گا‘‘۔
’’ابا جان! میں صرف آج کا دن اُس کا انتظار کرنا چاہتی ہوں اگر وہ نہ آیا تو ہم کل یہاں سے روانہ ہوجائیں گے۔ لیکن…‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘۔ فرمس نے تلخ ہو کر پوچھا۔
’’وہ ضرور آئے گا، ابا جان!‘‘
اچانک صحن میں آہٹ سنائی دی، انطونیہ جلدی سے اُٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی، سامنے کلاڈیوس گھوڑے کی باگ تھامے کھڑا تھا اور اُس کا لباس خون میں تربتر تھا۔
انطونیہ چند ثانیے سکتے کی حالت میں اُس کی طرف دیکھتی رہی، اور پھر چیخیں مارتی ہوئی آگے بڑھی۔ کلاڈیوس نے گھوڑے کی باگ چھوڑ کر لڑکھڑاتے ہوئے چند قدم اٹھائے لیکن اچانک منہ کے بل گرپڑا۔
کچھ دیر بعد کلاڈیوس نے آنکھیں کھولیں تو وہ کمرے کے اندر بستر پر لیٹا ہوا تھا اور انطونیہ، فرمس بابلیون کا ایک طبیب اُس کے گرد کھڑے تھے۔
کلاڈیوس کے بائیں بازو کا زخم کاصا گہرا تھا۔ طبیب نے اُسے کسی تاخیر کے بغیر گرم لوہے سے داغنے کا مشورہ دیا۔
تین دن بعد جب کلاڈیوس شدید بخار کی حالت میں کراہ رہا تھا خسرو پرویز کے لشکر کے ہر اول دستے بابلیون کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ اور فرمس انتہائی بے بسی کی حالت میں اپنی بیٹی سے کہہ رہا تھا۔ ’’انطونیہ! قدرت نے تمہارے شوہر کو بھیج دیا ہے لیکن اب ہم اسکندریہ نہیں جاسکیں گے۔ کاش! وہ سواری کے قابل ہوتا‘‘۔
دس دن بعد کلاڈیوس ابھی اچھی طرح چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوا تھا کہ کسریٰ کے سپاہی شہر پر فیصلہ کن حملہ کرچکے تھے۔
انطونیہ کے باپ اور شوہر کے سامنے مستقبل کی جو تصویر تھی وہ موت سے زیادہ بھیانک تھی لیکن انطونیہ اب بھی کسی معجزے پر یقین رکھتی تھی۔ اور قدرت کا اس سے بڑا معجزہ کیا ہوسکتا تھا کہ عین اُس وقت جب کہ موت اپنی انتہائی بھیانک صورت میں ان کے دروازے پر دستک دے رہی تھی، ایرانی لشکر کا ایک سالار جسے عام حالات میں اُن کا قاتل ہونا چاہیے تھا ان کا دوست اور محافظ ثابت ہوا۔
عاصم، فرمس کے نزدیک ایک بہادر اور احسان شناس عرب تھا، کلاڈیوس کے لیے ایک معما تھا۔ لیکن انطونیہ کی نگاہوں میں وہ آسمان کے اُن ان گنت فرشتوں میں سے ایک تھا جنہیں قدرت بے بس انسانوں کی دستگیری کے لیے بھیجتی ہے۔
بابلیون کی طرح اسکندریہ میں بھی رومیوں کے جھنڈے سرنگوں ہوچکے تھے۔ اور خسرو پرویز کا دوسرا لشکر جسے ایشیائے کوچک کی تسخیر کی مہم سونپی گئی تھی، راستے کی بستیوں اور شہروں کو تباہ و ویران کرنے کے بعد انگورہ اور خلقدون تک پہنچ چکا تھا۔ مجوسیت کے علمبرداروں کے لیے ہر دن فتح کا دن تھا اور رومی ہر لمحہ نئے نئے آلام و مصائب کا سامنا کررہے تھے۔ پے در پے شکستوں کے بعد جہاں رومی سپاہیوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے وہاں اُن مقدس راہبوں کی زبانیں بھی گنگ ہوچکی تھیں جو ہر شکست کے بعد کلیسا کے جاں نثاروں کو ایک عظیم فتح کی بشارت دیا کرتے تھے۔
(جاری ہے)

حصہ