زیتون:اطبا نے اسے 70 امراض کی دوا قرار دیا ہے

829

زیتون کا شمار ان چند خوش نصیب پودوں اور پھلوں میں ہوتا ہے جن کا تذکرہ باری تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے۔ نہ صرف چھ مقامات پر تذکرہ فرمایا ہے بلکہ اس کی تعریف بہت اچھے الفاظ میں فرمائی ہے‘ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبارک درخت کا تیل کہہ کر یاد کیا ہے اور ایک جگہ زیتون اور انجیر کی قسم کھائی گئی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ زیتون اپنی جملہ صفات کی بدولت انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے‘ یہ نہایت مفید غذا بھی ہے اور بے حد کارآمد دوا بھی۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی مواقع پر زیتون کے استعمال کا مشورہ دیا اور بعض مریضوں کو زیتون یا اس کے تیل کے استعمال کی ہدایت فرمائی ہے۔
زیتون کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ اس کا تذکرہ یونانی دیوی دیوتائوں کے قصوں میں بھی ملتا ہے۔ بائبل میں اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ دولت اور امن کا نشان ہے‘ سفر میں اسے رکھنے سے انسان خطرات سے محفوظ رہتا ہے۔
یہ ہمیشہ سرسبز رہنے والا پودا ہے گرم علاقوں کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ اس کا قد پچیس فٹ اور کبھی کبھی اس سے بھی بلند ہوتا ہے۔ سخت پیلی لکڑی والا تنا‘ سبزی مائل بھوری چھال سے ڈھکا ہوتا ہے‘ اس کے پتے اوپر کی جانب سبز ہوتے ہیں اور نچلی جانب رُوپہلی رنگت کے چھلکے ہوتے ہیں۔ زیتون کے درخت میں سفید رنگ کے خوشبودار پھول لگتے ہیں۔ پھل زیادہ تر لمبوترے اور کبھی گول ہوتے ہیں‘ جب یہ پک جاتے ہیں تو چمک دار سیاہ رنگت اختیار کر لیتے ہیں۔ پھل براہِ راست درخت سے توڑ کر نہیں کھائے جاتے لیکن انہیں سرکے میں ڈال کر رکھا جاتا ہے‘ ان کا اچار بھی مختلف طریقوں سے ڈالا جاتا ہے اور بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ یہ بھوک بڑھاتا اور قبض رفع کرتا ہے۔
زیتون کے درخت ایشیائے کوچک (موجودہ ترکی کا وہ علاقہ جو ایشیا میں شامل ہے)‘ بحرین‘ الجزائر‘ یونانی‘ ترکی‘ اٹلی‘ امریکا اور آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی بلوچستان میں زیتون کے درخت ملتے ہیں تاہم فی الحال ان سے مالی فوائد حاصل نہیں کیے جارہے ہیں۔ یونان میں ایٹیکا کا علاقہ زیتون کی کاشت اور اس کی اعلیٰ اقسام کے لحاظ سے دنیا بھر میں اوّل نمبر پر ہے۔
زیتون کے پتے اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتے ہیں۔ پتوں کو کوٹ کر جلدی امراض میں استعمال کروایا جاتا ہے۔ داد اور تعفن والے خراب زخموں پر ان پتوں کا لیپ فائدہ مند ہوتا ہے۔ زیتون کے پتوں کا رس لے کر اس کی نصف مقدار شہد ملا لیا جائے اور نیم گرم کرکے کان میں ڈالا جائے‘ اس طرح کان بہنے‘ دانوں اور پھنسیوں کی شکایت دور ہو جاتی ہے۔ کانوں کا میل بھی صاف ہو جاتا ہے۔ پتوں کو سرکہ میں جوش دے کر کلیاں کرنے سے دانتوں کا درد ور ہو جاتا ہے۔
زیتون کے پھل اور پتوں کا رس نچوڑ کر ہلکی آنچ پر پکایا جائے تو وہ شہد کی طرح گاڑھا ہو جاتا ہے۔ اسے منہ اور دانتوںکے امراض میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً منہ میں سفید زخم پیدا ہو جائیں‘ زبان یا منہ میں سوزش ہو جائے یا دانتوں میں درد ہو یا دانت سیاہ اور خراب ہو جائیں‘ ایسے تمام امراض میں زیتون کے پھل اور پتوں کا رس مفید ہے۔ یہ رس مختلف جلدی امراض سے بھی نجات دلاتا ہے۔ بعض اطبا نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اسے بہت دنوں تک کھانے سے چیچک کے نشانات دور ہو جاتے ہیں۔ زیتون کی لکڑی کو اگر آگ پر جلایا جائے تو اس سے روغن نکلتا ہے یہ روغن پھپھوندی سے پیدا ہونے والے امراض مثلاً داد‘ چنب ل‘ سر کی خشکی اور گنج کو دور کرتا ہے۔ زیتون کے پھل کی گٹھلی کو باریک پیس کر چربی میں ملا لایا جائے تو یہ ناخنوں کے امراض میں فائدہ مند ہے۔ زیتون کی چھال بھی اپنے اندر خوبیاں رکھتی ہے۔ منہ کے امراض میں زیتون کی چھال کژ جوشاندے سے کلیاں کروائی جاتی ہیں۔
زیتون کے درخت کے تمام اجزا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور مفید جزو اس کا روغن ہے۔ یہ روغن زیتون کے تازہ پکے ہوئے پھلوں کو نچوڑ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ کھانا پکانے کے کام بھی آتا ہے اور مختلف سلادوں میں ملا کر علیحدہ صورت میں اسے کھایا بھی جاتا ہے۔ زمانۂ قدیم میں اسے روشنی پیدا کرنے کے لیے بطور ایندھن استعمال کیا جاتا تھا۔ روغنِ زیتون کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے جلایا جائے تو یہ دھواں نہیں دیتا۔ اسے بیرونی طور پر مختلف جلدی‘ عصبی اور عضلاتی امراض میں لگایا جاتا ہے‘ جھلسے ہوئے اعضا پر روغنِ زیتون لگانے سے سکون ملتا ہے۔ اسے مختلف قسم کے مرہوں میں بھی ملا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہی روغنِ زیتون استعمال کیا جائے جس کی رنگت سبز یا سنہری ہو‘ سیاہ رنگ کا روغن زیتون مضرِ صحت ہے۔
ابن سینا نے لکھا ہے کہ روغن زیتون کو پکا کر اگر شہد کی طرح گاڑھا کر لیا جائے تو یہ روغنِ کلونجی اور روغن بلساں سے بھی اچھا کام کرتا ہے۔ عام روغنِ زیتون کو اگر پابندی کے ساتھ سر پرلگاتے رہیں تو نہ بال گرتے ہیں اور نہ جِلد سفید ہوتی ہے۔ روغنِ زیتون کو برابر مقدار میں روغن گل میں ملا کر سر پر لگائیں۔ اطبا نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر اس تیل کی سلائی روزانہ آنکھوں میں لگائی جائے تو آنکھوں کی سرخی غائب ہو جاتی ہے اور موتیا بند میں کمی آجاتی ہے۔ زیتون کے تیل کے مالش سے جسم کے عضلات اور پٹھوں کو طاقت ملتی ہے اور پٹھوں کا درد جاتا رہتا ہے اسی لیے گٹھیا اور عرق النساء کی صورت میں اسے استعمال کروایا جاتا ہے۔
جِلد پر روغنِ زیتون کی مالش کرتے رہنے سے جلد نرم و نازک رہتی ہے اور چہرے کی بشاشت قائم رہتی ہے۔ ناسور کو بھرنے کے لیے روغن زیتون سے بہتر کوئی دوا نہیں ہے اس کے علاوہ روغن زیتون قبض رفع کرتا ہے اور پیچش میں بھی مفید ہے۔ یہ پیٹ کے کیڑوں کو بھی ہلاک کرتا ہے۔ پیشاب لاتا ہے اور گردوں اور پتے کی پتھری کو توڑ کر جسم سے خارج کرنے کا سبب بنتا ہے۔ پتے کی پتھری میں عموماً چکنائی کے استعمال سے پرہیز کروایا جاتا ہے چونکہ چکنائی جگر کے فعل کو متاثر کرتی ہے لیکن روغنِ زیتون ایسی شے ہے کہ جسے پتے کی پتھری کے مریضوں تک کو زیادہ مقدار میں دینے سے نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوتا ہے۔
پتھریوں کے لیے یہ نسخہ مفید ثابت ہوا ہے۔ چولائی کی بھاجی پچاس گرام کی مقدار لے کر اسے باریک تراش لیا جائے اور اسے دو پیالی پانی میں ایک جوش دے کر چھان لیا جائے اس کے بعد اس میں ایک لیموں کا رس نچوڑ دیا جائے‘ اس میں کھانے کے دو چمچے روغن ِ زیتون کا اضافہ کر دیا جائے اور صبح نہار منہ یا سہ پہر چار بجے پلا دیا جائے۔
روغنِ زیتون کا ایک حیرت انگیز فائدہ زہر خورانی کے علاج میں دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر اس طرح کا زہر کسی طرح جسم میں پہنچ جائے جو معدے اور آنتوں میں خراش اور زخم پیدا کر دیتا ہو مثلاً سنگھیا‘ تیلنی مکھی (اسپنشن فلائی) وغیرہ تو پیٹ میں شدید درد ہو جاتا ہے جس سے مریض کی ہلاکت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں مریض کو روغن زیتون بار بار پلانا چاہیے اس طرح نہ صرف جلن اور تکلیف کم ہو جاتی ہے بلکہ زخم بھی بھر جاتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ لعاب دار اشیا مثلاً لعاب اسپغول یا لعاب بہدانہ بھی شامل کر دیے جائیں تو جلد فائدہ ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں روغنِ زیتون پر بھی تحقیق ہوئی ہے۔ برطانیہ اور امریکا کے طبی ماہرین نے اسے مؤثر دوا اور بہترین غذا قرارع دیا ہے۔ گردوں کے امراض میں جہاں نائٹروجن والی غذائیں نہیں دی جاسکتیں‘ وہاں روغنِ زیتون بہترین غذا ہے۔ یہ سوزش والی جگہوں کو تسکین دیتا ہے۔ بچوں کے دید قبض میں اس کا حقنہ (انیما‘‘ کرونا‘ سدوں کو بہ سہولت خارج کر دیتا ہے۔
محترم ڈاکٹر خالد غزنوی نے طب نبویؐ پر بڑا سائنٹفک کام کیا ہے۔ زیتون کے بارے میں آپ لکھتے ہیں کہ یہ ستر امراض کی دوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے تحریر کیا ہے کہ چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باسور (بواسیر) کے علاج میں زیتون کو مفید قرار دیا ہے اس لیے ایسے مریضوں کو رات سوتے وقت کھانے کے دو چمچے روغن زیتون پلایا جاتا ہے۔ دو چمچے مہندی کے پتوں کو پیس کر اس میں آٹھ چمچے روغنِ زیتون ملا لیا گیا اور اسے پانچ منٹ تک جوش دیا گویا تاکہ مرہم بن جائے بواسیر کے پرانے مریضوں کو رات سوتے وقت اور صبح اجابت کے لیے جانے سے قبل یہ مرہم لگانے کی ہدایت کی گئی۔ اکثر مریض اسی دوا سے ٹھیک ہو گئے اور کوئی دوا دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ بعض مریض جن کی جسمانی حالت بہت کمزور تھی اور زخم بہت زیادہ تھے‘ انہیں روزانہ چار گرام ’’قسطِ شیریں‘‘ (ایک قسم کی لکڑی) کھانے کے بعد کھلائی گئی۰ تین سے چار ماہ میںیہ مریض مکمل طور پر شفا یاب ہو گئے تاہم ان مریضوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ آئندہ قبض نہ ہونے دیں اور روغن زیتون کو اپنی غذا کا لازمی حصہ بنا لیں۔
بالوں کو گرنے سے روکنے‘ انہیں گھنا کرنے اور سر کی جلد کے مختلف امراض میں بھی روغنِ زیتون مفید ہے۔ اس غرض سے کلونجی‘ حب الرشاد (بالون)‘ مہندی برابر مقدار میں لے کر باریک پیس لیں اور چھ گنا مقدار میں روغنِ زیتون میں ملا کر پندرہ منٹ تک ہلکی آنچ پر پکا لیں۔ پھر اسے چھان کر رکھ لیں اور تیل کی طرح بالوں میں لگایا کریں۔ یہ تیل سر کی پھنسیوں‘ خارش اور جلدی امراض مثلاً داد اور بغلوں کی خارش میں مفید ثابت ہوا ہے۔
ایک جلدی مرض ’’سورائسس‘‘ ہٹیلا مرض ہے اور طبِ جدید ابھی تک اس کا مستقل علاج دریافت نہیں کرسکی ہے۔ قسط شیریں‘ سناء مکی اور مہندی کو برابر مقدار میں لے کر پیس لیا جائے اور اس کی چار گنا مقدار میں روغن زیتون ملا کر پکا لیا جائے پھر اسے چھان کر متاثرہ حصوں پر لگایا جائے۔ مفید ثابت ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں لیے گئے ایک جائزے (سروے) کے مطابق روغنِ زیتون پینے والے کسی فرد کو پیٹ کے سرطان کی شکایت نہیں ہوئی۔ جاپان میں تحقیق سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی ہے بلکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کئی دنوں تک روغنِ زیتون پلا کر معدے اور آنتوں کے سرطان کا علاج کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر خالد غزنوی نے لکھا ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات الجنب (پسلی کا درد جو کہ پھیپھڑوں کے غلاف میں سوزش ہو جانے یا پانی بھر جانے سے ہوتا ہے۔) روغن زیتون استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اس لیے اطباء نے پھیپھڑوں کے مریضوں کو روغن زیتون پلایا۔ دمہ کے مریضوں میں اس کے استعمال سے قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے۔ نزلہ زکام اور انفلوائنزا میں بھی اسے بہت فائدہ مند پایا گیا ہے۔
ڈاکٹر خالد نے تپ دق کے سلسلے میں خان بہادر ڈاکٹر سعید احمد خان کے تجربات بھی بیان کیے ہیں۔ (ڈاکٹر سعید پاکستان میں تپ دق کے سب سے بڑے سینی ٹوریم ڈاڈر ضلع مانسہرہ کے تیس سال تک سپرنٹنڈنٹ رہے ہیں) انہوں نے بتایا کہ مدارس کے موناپلی سینی ٹوریم میں دق کا ایک مریض داخل تھا‘ اس کی پانچ پسلیاں نکالی جا چکی تھیں اور اب اس کی آنتیں بھی متاثر ہوگئی تھیں۔ اس وقت تک آنتوں کی دق لاعلاج تصور کی جاتی تھی‘ اسی لیے اسے جواب دے دیا گیا۔
مریض نے رو رو کے اللہ سے دعائیں مانگنی شروع کردیں۔ کچھ دن بعد اسے خواب میں اشارہ ملا کہ روغن ِ زیتون‘ بالائے بنفشی شعاعیں(الٹرا وائلٹ ریز) اور ایک دوا استعمال کرے۔ دوا کا نام تو وہ بھول گیا لیکن روزانہ تین اونس روغن زیتون پینے لگا اور شعاعیں لگواتا رہا۔ تین ماہ بعد وہ بالکل تن درست ہو کر اسپتال سے رخصت ہو گیا اس کامیاب تجربہ کے بعد ڈاکٹر سعید نے چالیس سال تک دق کے مریضوں کا جب بھی علاج کیا انہوں نے روغن زیتون ضرور استعمال کروایا اور ان کا کوئی مریض ضائع نہیں ہوا۔
زیتون انسان کے لیے قدرت کا بہت بڑا تحفہ ہے‘ جن علاقوں میں یہ آسانی سے ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے وہاں تو تمام لوگوں کو اسے باقاعدگی سے استعمال کرنا چاہیے‘ یہ آپ کو صحت مند اور توانا رکھے گا اور مختلف امراض سے مقابلے میں آپ کا بہترین محافظ ثابت ہوگا۔
nn

حصہ