قیصروکسریٰ قسط(62)

202

تھوڑی دیر بعد ہم سب ایک ٹھنڈے اور میٹھے چشمے کا پانی پی رہے تھے۔ یہ خانہ بدوش عیسائی تھے اور ان کا سردار ایک رحم دل آدمی تھا۔ ہم چار دن اُس کے مہمان رہے۔ اس کے بعد ہمارا سفر انتہائی ناخوشگوار تھا۔ راستے کے آباد علاقوں کے شہروں میں ایرانیوں کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے ہم چھوٹی چھوٹی بستیوں میں قیام کرتے تھے۔ اور ان بستیوں میں داخل ہونے سے پہلے ہم اپنے شامی رہنما کو بھیج کر دشمن کی نقل و حرکت کے متعلق اطمینان کرلیتے تھے۔ غسانی قبائل کے لوگ ہمارے حال پر بہت مہربان تھے اور ان کے بعض سردار ہمارے بیمار ساتھیوں کو اگلی منزل تک پہنچانے کے لیے اونٹ اور گھوڑے بھی مہیا کردیتے تھے۔ فلسطین کے علاقے میں داخل ہونے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ دشمن غزہ پر قابض ہوچکا ہے، اس لیے میرے وہ ساتھی جو شام اور فلسطین کے باشندے تھے مایوس ہو کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور میں دو مصری اور سات رومی سپاہیوں کے ہمراہ صحرائے سینا عبور کرنے کے بعد یہاں پہنچا ہوں‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ انطونیہ آپ کے متعلق بہت پریشان تھی‘‘۔
کلاڈیوس نے انطونیہ کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’مجھے آپ کی والدہ کی وفات کی اطلاع مل گئی تھی۔ مجھے اس کا بہت دُکھ ہے‘‘۔
فرمس نے پوچھا۔ ’’آپ کے باقی ساتھی کہاں ہیں؟‘‘
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’میں انہیں مستقر پر چھوڑ آیا ہوں‘‘۔
’’میں انہیں یہاں بلالیتا ہوں۔ آپ سب ہمارے مہمان ہیں‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’نہیں! وہ تھکے ہوئے ہیں اور اب سو رہے ہوں گے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ جلد از جلد یہاں سے روانہ ہوجائیں‘‘۔
انطونیہ کے چہرے پر اچانک اداسی چھا گئی اور اس نے منہ پھیر لیا۔
کلاڈیوس نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ’’ہمیں کسی تاخیر کے بغیر اسکندریہ پہنچنا چاہیے تھا لیکن میں اپنے ساتھیوں کو مجبور کرکے یہاں لے آیا ہوں۔ میرے لیے یہاں پہنچنا زندگی کا اہم ترین مسئلہ تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ کے والد میری باتوں سے کیا تاثر لیں گے لیکن خدا گواہ ہے کہ جب میں صحرا میں پیاس سے تڑپ رہا تھا۔ اور میری نگاہوں کے سامنے موت کے سوا کچھ نہ تھا تو اس وقت بھی میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اگر قدرت مجھے چند گھڑیاں زندہ رہنے کی مہلت دے اور میرے پر لگ جائیں تو میں سیدھا بابلیون پہنچ کر تمہارا گھر تلاش کروں گا اور تم سے کہوں گا کہ قید کی حالت میں میرے تمام سپنے تمہارے متعلق تھے۔ میں تمہارے ابا جان سے کہوں گا کہ میں ایک شکست خوردہ فوج کا سپاہی ہوں۔ ایک ایسی قوم کا فرد ہوں جس کا سارا غرور خاک میں مل چکا ہے۔ میں اپنے حال سے نادم اور مستقبل سے مایوس ہوں لیکن اگر میں عظیم ترین فتوحات حاصل کرنے کے بعد یہاں آتا تو بھی آپ کے سامنے دوزانو ہو کر یہ التجا کرتا کہ… میں آپ کی بیٹی کے لیے دنیا کی ہر نعمت اور ہر راحت ٹھکرانے کو تیار ہوں‘‘۔
انطونیہ آنکھوں میں مسرت کے آنسو اور چہرے پر حیا کی سرخیاں لیے وہاں سے اُٹھی اور بھاگ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
کلاڈیوس، فرمس کے چہرے سے اس کے دل کی کیفیت کا اندازہ نہ کرسکا اس نے کہا۔ ’’اگر میری یہ بات آپ کے نزدیک گستاخی ہے تو آپ میرے لیے بدترین سزا تجویز کرسکتے ہیں۔ میں اپنے نام و نسب کا فخروغرور اس گھر کی چار دیواری سے باہر چھوڑ آیا ہوں۔ امن کے زمانے میں، میں اس گفتگو کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کرتا اور میری کوشش یہی ہوتی کہ آپ مجھے اچھی طرح پرکھ لیں۔ یہ بھی ممکن تھا کہ میری بجائے میرے والد یا چچا کی طرف سے کوئی ایلچی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ اس طوفانی دور کی مجبوریوں کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ میں زیادہ سے زیادہ دو دن اور یہاں ٹھہر سکوں گا۔ اگر آپ اس وقت مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے تو میں آج شام یا کل صبح حاضر ہوجائوں گا‘‘۔
فرمس کچھ دیر بے حس و حرکت بیٹھا کلاڈیوس کی طرف دیکھتا رہا پھر اُس نے مڑ کر دوسرے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’انطونیہ اِدھر آئو!‘‘ انطونیہ جھجکتی شرماتی کواڑ کی اوٹ سے نمودار ہوئی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی آگے بڑھی۔
فرمس نے کہا۔ ’’بیٹی! یہ نوجوان تم سے شادی کی درخواست لے کر آیا ہے اور میں تمہارے چہرے سے اس درخواست کا جواب پڑھ سکتا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کہ اب تک تم دونوں کے درمیان کیا باتیں ہوئی ہیں، اور تم ایک دوسرے کو کس حد تک جانتے ہو… تاہم میں تمہیں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کلاڈیوس روم کی سینٹ کے ایک معزز رکن کا بیٹا اور اسکندریہ کے گورنر کا بھتیجا ہے اور تمہارا باپ صرف بابلیون میں ایک معمولی سرائے کا مالک ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے احتجاج کیا۔ ’’جناب! میں نے اپنے باپ یا چچا کا ذکر نہیں کیا۔ میں صرف اپنے خلوص پر بھروسا کرکے یہاں آیا ہوں‘‘۔
فرمس نے کہا۔ ’’میں تمہارے خلوص پر شبہ نہیں کرتا لیکن یہ ضروری ہے کہ تم کم از کم اپنے چچا سے اجازت حاصل کرلو‘‘۔
کلاڈیوس نے پرامید ہو کر کہا۔ ’’اگر آپ نے میری درخواست قبول کرلی ہے تو اپنے چچا سے اجازت حاصل کرنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی‘‘۔
فرمس نے شفقت سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری درخواست میری اکلوتی بیٹی کی ان گنت دعائوں کا جواب ہے۔ مجھے صرف یہ اندیشہ تھا کہ انطونیہ نے کہیں تمہاری شرافت اور ہمدردی سے متاثر ہو کر اپنے مستقبل کے متعلق غلط امیدیں قائم نہ کرلی ہوں۔ لیکن تم میری توقع سے زیادہ شریف اور انطونیہ میری امیدوں سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوئی ہے اور میں تم دونوں کو مبارک باد دیتا ہوں۔ میں آج شام سے پہلے پہلے انطونیہ کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دینے کو تیار ہوں لیکن تم بھی شاید یہ پسند نہ کرو گے کہ ہم پر ایک عالی نسب رومی کو بہکانے یا ورغلانے کا الزام عائد کیا جائے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ تم کم از کم اپنے چچا کو اپنا ہم خیال ضرور بنالو‘‘۔
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا‘‘۔
تیسرے دن کلاڈیوس اسکندریہ کا رُخ کررہا تھا، انطونیہ کے ساتھ رفاقت کے تصور سے اُسے اپنے مستقبل کی تمام منزلیں دلکش دکھائی دیتی تھیں لیکن اُس کے دل کی گہرائیوں میں ایک خلش ابھی تک موجود تھی۔ انتہائی کیف و سرور کی حالت میں اُسے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ وہ مہیب تاریکیاں جو اُس نے شام اور فلسطین میں دیکھی تھیں اُس کے ہمراہ بھاگ رہی ہیں۔ وہ اپنے دل میں کہتا۔ ’’کلاڈیوس تم جیسے ہزاروں نوجوان اور انطونیہ جیسی ہزاروں لڑکیاں جنگ کے طوفان کی نذر ہوچکی ہیں اور اب یہ طوفان وادیٔ نیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تم اُس سلطنت کے سپاہی ہو جس کا مستقبل ہر لحظہ تاریک تو ہوتا جارہا ہے۔ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ تم انطونیہ کو اپنی رفیقہ حیات بنانے کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کرتے؟‘‘۔ اور پھر جب اس قسم کے خیالات اُسے ناقابل برداشت حد تک تکلیف دہ محسوس ہونے لگتے تو وہ اپنے دل کو تسلیاں دینے کی کوشش کرتا۔ نہیں! میں غلطی پر نہیں ہوں۔ ایک بے بس انسان اگر ان غیر یقینی حالات میں زندگی سے مسرت کے چند مہینے، چند دن یا چند لمحے چھین لے تو یہ غلطی نہیں۔ اور یہ بھی ناممکن نہیں کہ مصر کے کسی میدان میں ہم ایرانیوں کے سیلاب کا رُخ بدل دیں۔ انطونیہ کی محبت مجھے ایک سپاہی کے حصے کی ذمہ داریاں پورا کرنے سے منع نہیں کرے گی بلکہ اب مجھے اُس سلطنت کی حفاظت کے لیے جان دیتے ہوئے بھی تکلیف محسوس نہیں ہوگی جس کے ایک گوشے میں انطونیہ کا خاندان آباد ہے۔
چند دن بعد انطونیہ کے صحن میں بیٹھی شام کی خوشگوار ہوا کا لطف اُٹھارہی تھی۔ فرمس ابھی تک سرائے سے واپس نہ آیا تھا۔ دروازے پر کسی نے دستک دی نوکر جو دروازے کے قریب بیٹھا تھا اُٹھ کر آگے بڑھا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ انطونیہ جو دروازے کے باہر ذرا سی آہٹ پا کر بے چین ہوجایا کرتی تھی چند ثانیے انتظار کرنے کے بعد اٹھی اور بھاگتی ہوئی نیم وا دروازے کے قریب جا پہنچی۔ سامنے کلاڈیوس گھوڑے کی باگ تھامے کھڑا تھا اور نوکر اس سے کہہ رہا تھا۔ ’’جناب! میں آپ کو جانتا ہوں، لیکن آقا اِس وقت گھر پر نہیں اس لیے آپ تھوڑی دیر بعد تشریف لائیں‘‘۔
کلاڈیوس انطونیہ کو دیکھ چکا تھا اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’بہت اچھا تم میرا گھوڑا اندر لے جائو میں یہیں دہلیز پر بیٹھ کر تمہارے آقا کا انتظار کرتا ہوں‘‘۔
انطونیہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا۔ ’’یہ بہت بیوقوف ہے‘‘۔
نوکر نے پریشان ہو کر انطانیہ کی طرف دیکھا اور پھر کلاڈیوس کے ہاتھ سے گھوڑے کی باگ لے لی۔
کلاڈیوس اندر داخل ہوا اور تھوڑی دیر بعد وہ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے بے تکلفی سے باتیں کررہے تھے۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’انطونیہ میں اپنی زندگی کی اہم ترین مہم میں کامیاب ہو کر واپس آیا ہوں۔ میرے چچا نے صرف شادی کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ میرے والدین کو مطمئن کرنے کے لیے ایک لمبا چورا خط بھی لکھ دیا ہے‘‘۔
انطونیہ جو مسرت کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی کچھ دیر خاموشی سے اُس کی طرف دیکھتی رہی، بالآخر اُس نے کہا۔ ’’آپ نے اپنے چچا کو یہ تو نہیں بتایا ہوگا کہ وہ غریب لڑکی جسے آپ نے اپنی خدمت کے قابل سمجھا ہے، ایک سرائے کے مالک کی بیٹی ہے‘‘۔
کلاڈیوس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’نہیں! میں نے اپنے چچا سے یہ کہا تھا کہ فرمس کی حسین بیٹی کی آنکھیں آسمان کے ستاروں سے زیادہ روشن ہیں اور وہ چیتھڑوں میں ملبوس ہو کر بھی قسطنطنیہ کی شہزادیوں کے دوش بدوش کھڑی ہوسکتی ہے۔ میری چچی نے تمہارے خدوخال، قدوقامت اور صحت کے متعلق ان گنت سوال کیے تھے، اور میرا پہلا اور آخری جواب یہ تھا کہ انطونیہ وہ سب کچھ ہے جس کی میں تمنا کرسکتا تھا۔ میں نے اپنے چچا سے تمہارے رشتہ داروں کا ذکر کیا تھا اور انہوں نے بطلیموس کو بال بچوں سمیت ایک رات کھانے پر بلایا تھا، اس دعوت میں اسکندریہ کے چند مقامی معززین بھی شریک تھے اور چچا جان نے اُن کے سامنے ہمارے رشتے کا اعلان کیا تھا۔
انطونیہ کی آنکھیں تشکر کے آنسوئوں سے لبریز ہورہی تھیں، اُس نے کہا۔ ’’کلاڈیوس مجھے خوف محسوس ہوتا ہے‘‘۔
’’مجھ سے؟‘‘ اُس نے سوال کیا۔
’’نہیں! آپ سے نہیں۔ میں اپنی خوش نصیبی سے ڈرتی ہوں۔ سچ سچ بتائیے، آپ کسی دن مجھ سے خفا تو نہیں ہوجائیں گے۔ میرا مطلب ہے کہ آپ کسی دن یہ تو نہیں سوچنے لگیں گے کہ آپ کا فیصلہ غلط تھا‘‘۔
’’تمہیں مجھ پر یقین نہیں آتا؟‘‘۔
وہ بولی۔ ’’جب آپ میرے سامنے ہوتے ہیں تو میرے لیے توہمات بھی حقیقت بن جاتے ہیں۔ لیکن جب آپ میری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں تو مجھے انتہائی قابل یقین باتیں بھی خواب و خیال محسوس ہونے لگتی ہیں۔ کاش! آپ ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہ سکتے۔ میں ابھی آپ کی آمد سے پہلے یہ سوچ رہی تھی کہ شاید آپ کسی اور محاذ پر جاچکے ہیں‘‘۔
کلاڈیوس تھوڑی دیر کے لیے سوچ میں پڑ گیا، پھر اُس نے کہا۔ ’’اگر میرے اختیار میں ہو تو میں ایک لمحہ کے لیے بھی تم سے دور رہنا پسند نہ کروں، کاش! ہم کسی ایسے دور افتادہ جزیرے میں پیدا ہوتے جو ایران و روم کی جنگ کے اثرات سے محفوظ ہوتا لیکن ہم وقت کے طوفانوں کے سامنے بے بس ہیں۔ موجودہ حالات میں ہم زیادہ سے زیادہ یہ تمنا کرسکتے ہیں کہ یہ جنگ کسی دن ختم ہوجائے گی اور پھر زمانے کی ہر کروٹ ہماری خواہشوں کے مطابق ہوگی‘‘۔
انطونیہ نے کہا۔ ’’مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ زیادہ دیر یہاں نہیں ٹھہر سکیں گے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ