پاکستان میں خودکشی کے بڑھتے واقعات ،ذمہ دار کون …؟

361

پچھلے دنوں قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کے بی ایس کے طالب علم محمد ظاہر نے اپنی موٹر سائیکل کو ذوالفقار آباد پُل پر روکا اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔
ایسا ہی ایک واقعہ ضلع نگر کے گاؤں غلمت سے تعلق رکھنے والے سجاد حسین نامی نوجوان کا ہے جس نے راکا پوشی ویو پوائنٹ پُل پر سے نالے میں کود کر جان دے دی۔
ضلع تھر پارکر میں 2020 میں خودکشی کے 79 واقعات پیش آئے۔ 2021 میں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں خود کشی کے 225واقعات رپورٹ ہوئے۔ جن میں تقریبا نصف تعداد خواتین کی تھی۔ ضلع صوابی میں2021میں خودکشی کے 141 واقعات پیش آئے۔ان میں بھی بڑی تعداد خواتین کی تھی۔
یکم دسمبر 2021 کو کراچی کے ایک معروف شاپنگ سینٹر میں پیش آنے والا خودکشی کا دلدوز واقعہ بھلایا نہیں جاسکتا۔ جب ایک نوجوان نے بے روزگاری کی وجہ سے تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر جان دے دی۔
کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پرایک وڈیو وائرل ہوئی ہے جو عائشہ نامی ایک بچی نے بنائی ہے جس کا تعلق ہندوستان کے ایک مسلم گھرانے سے ہے‘ اس نے وڈیو کوسوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کیا اور پھر ندی میں چھلانگ لگا کر اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا…اللہ کی پناہ۔ یہ وڈیو جس کے پاس بھی پہنچی اُس کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں خود پورے دن اپنی قوتِ برداشت کو جمع کرکے اس کا تھوڑا حصہ سن اور دیکھ پائی اس خودکشی کے بہت سے اذیت ناک اسباب سامنے آئے ہیں جو ایک دوسری پوسٹ سے معلوم ہوئے۔ یہ محض جہیز کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک نوجوان کی تساہلی، ذمہ داریوں سے غفلت، مردانگی کے زعم‘ عورت کو کمتر سمجھنے کی روایت، بے راہ روی، ہوسِ زر اور رشتوں کے علاوہ حقوق و فرائض کے عدم تحفظ کی داستان بھی ہے اور ایک محبت کرنے والی معصوم سادہ سی شریکِ حیات کی توہین و تذلیل کا شاخسانہ بھی۔
بھارت میں جہیز کے سبب ایسے واقعات بہ کثرت پیش آتے ہیں۔ رواں صدی کے آغاز سے خودکشیوں کے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا اس عفریت کی لپیٹ میں ہے جس طرح کوروناکی وجہ سے دنیا ایک جنجال میں گرفتار ہو چکی ہے اسی طرح ان واقعات نے بھی وبائی شکل اختیار کر لی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے جامعہ کراچی کی ایک طالبہ کا اندوہناک واقعہ پیش آیا جو اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہ تھا لیکن اس سے پچھلے واقعات دب دبا گئے تھے جبکہ یہ واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا۔ نامعلوم روزانہ ایسے کتنے ہی واقعات رونما ہوتے ہیں جو کہ رپورٹ نہیں ہو پاتے یا نہیں کیے جاتے۔ جب بھی میٹرک یا انٹر کا رزلٹ آتا ہے فیل ہونے والے بچوں کی خودکشی کے واقعات زیادہ سننے میں آتے ہیں جو ناکامی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اور والدین یا سرپرستوں کے ڈر سے یہ بھیانک قدم اٹھالیتے ہیں۔
شہر ہوں یا دیہات‘ امیر ہوں یا غریب، مرد ہوں یا عورت، جوان ہوں‘ بچے ہوں یا بوڑھے خودکشی کے واقعات ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگوں میں رونما ہورہے ہیں۔
مجھے کئی بچیوں کے حوالے سے بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا۔کئی ایک میری بڑی قابل اور باصلاحیت اسٹوڈنٹس ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو برداشت نہیں کر پائیں اور ان پر خودکشی کا جنون سوار ہو گیا۔ جن میں سے دو ایسی تھیں جن کے ساتھ تو مجھے پوری رات چیٹنگ کرنی پڑی تاکہ انہیں اس خوفناک ارادے سے باز رکھ سکوں۔ علی الصباح ان کے گھر جا پہنچی اور ان کے مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی الحمد للہ !آج وہ زندگی میں مصروف عمل ہیں۔ کئی ایک فیس بک پر بھی تھیں جن کے ایسے مسائل تھے کہ بس… لیکن اللہ کے حکم سے وہ واپس لوٹ آئیں۔ ایسی ہی واقعات میرے بیٹے نے مجھے بتائے کہ انہوں نے بھی اپنے کئی دوستوں کو سخت مایوس کن بدترین صورت حال سے باہر نکالا جو ان کی تعلیمی میدان میں ناکامی یا گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے اُن پر مسلط ہو چکی تھی الحمد للہ وہ نوجوان آج بہترین اور کامیاب زندگی میں داخل ہو چکے ہیں۔
میں خود 2009 سے اپنی ملازمت کے حوالے سے اعصاب شکن مسائل سے نبرد آزما ہوں لیکن الحمد للہ ! اس باری تعالیٰ سے تعلق قائم ودائم رکھے ہوئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی مدد سے بقیہ امور ذندگی کو بھی جاری رکھا ہوا ہے اور بد عنوان لوگوں سے مقابلہ بھی جاری ہے۔
اس واقعے نے مجبور کیا کہ یہ تحریر لکھوں سو یہاں پر خودکشی کے کچھ اسباب و عوامل بیان کر رہی ہوںمجھے امید ہے آپ کے کمنٹس کے ذریعے کچھ اور بھی اسباب سامنے آئیں گے جن تک ہمیں پہنچنا ضروری ہے۔
خود کشیوں کے بڑھتے ہوئے رحجان میں سرکار اور سرکاری اداروں کی غفلت سے مہنگائی‘ بے ر وزگاری اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل تو بڑے اسباب ہیں لیکن بہت سے دیگر اہم عوامل بھی ہیں جو خودکشی کے واقعے کی پیچھے کار فرما ہوتے ہیں۔ مثلاً
٭…اللہ اور رسول سے کمزور تعلق یا لا تعلقی۔
٭…ضابطہ حیات یعنی قرآن سے بے بہرہ ہونا۔
٭…فکر آخرت سے لا پروائی۔
٭… اصل اسلامی تعلیمات کی بجائے خودساختہ مذہبی و مسلکی روایات پر عمل کرنا۔
٭… ظاہر کو باطن پر ترجیح۔
٭… زندگی کے تمام اور خصوصاً شادی بیاہ خوشی و غمی کے معاملات کی انجام دہی میں بے جا رسم ورواج اور روایات کی پاس داری ۔
٭…خاندان کی تعمیر اور نشوونما میںدقیانوسی نظام کی پیروی۔
٭…ازدواجی زندگی اور تعلقات میںبد نیتی، خودغرضی اور مفاد پرستی۔
٭…عدل وانصاف کی عدم دستیابی یعنی عدالتی نظام کا درہم برہم ہونا۔
٭…ایک دوسرے کے لیے ہمدردی کے جذبات نہ رکھنا۔ حق تلفی کو معمولی بات گرداننا۔
٭…حقوق و فرائض کی ادائی میں مجرمانہ غفلت اور حق تلفی کو اہمیت نہ دینا۔
٭…حرام اور حلال میں تمیز نہ کرنا۔
٭…رشتوں میں عدم مساوات اور عدم احترام۔
٭…اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانا۔
٭… زندگی کو دین و دنیا دونوں حوالے سے غیر متوازن گزارنا۔
٭…بے جا احساس تفاخر ،غرور و تکبر۔
٭… احساس برتری یا احساس کمتری میں مبتلا ہونا۔
٭…انسانی فطرت اور مزاج کے برعکس امورزندگی کی انجام دہی۔
٭…ریا کاری‘ مصنوعی اور بناوٹی انداز کا رہن سہن اور معمولات حیات۔
٭… نجی زندگی میں غیروں کی نقب زنی۔
٭… علم و عمل میں فاصلہ ہونا۔
٭… صبر و ضبط ، تحمل ارو برداشت کا نہ ہونا۔
٭… دوسروں کے ظرف اور صبر وضبط کی حد سے بڑھ کر آزمائش۔
٭…جدید سہولتوں‘ ایجادات، گیمز اور سوشل میڈیا کا بے جااستعمال۔
اور یہاں ہمیں اچھی طرح یہ بھی جان لینے کی ضرورت ہے کہ:
اللہ تعالیٰ نے جہاں آپس میں ایک دوسرے کی جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت کو فرض قرار دیا ہے وہاں اس نے اپنی جان کا تحفظ بھی لازم ٹھہرایا ہے۔ زندگی صرف ایک مرتبہ ہی ملتی ہے اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کرنے کو حرام قرار دیتے ہوئے گناہ کبیرہ و جہنم میں پہنچانے والا سنگین جرم ٹھہرایا ہے۔ قرآن کریم میں یہ بات متعدد جگہ بیان ہوئی ہے دو ایک اہم آیات یہ ہیں۔
’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ آپس کی خوشی سے تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ (النساء: 29)
’’اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پرآسان ہے۔‘‘ (النساء 30)
’’اور اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔‘‘(سورہ البقرہ 195)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں تم کو آزمائش میں ڈالوں گا تم اس میں پورے اترو گے تو تم کو انعام بھی دوں گا۔ بشرطیکہ تم صبر و حکمت دانش مندی اور بہادری سے اس امتحان سے گزرو‘ اپنی جان کو ہلاکت سے بچاؤ۔
’’اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔‘‘البقرہ (155)
’’وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘ البقرہ(156)
ہمارے پیارے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کی بے حد مذمت فرمائی۔ آپؐ کا فرمان ہے۔
’’تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو اس کی زندگی سے نیکیوں میں اضافہ ہوگا اور اگر وہ راہِ راست پر نہیں تو اسے توبہ کی توفیق مل سکتی ہے۔‘‘
اور فرمایا ’’تمہارے بدن کا تم پر حق ہے۔ اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘
سب سے درخواست ہے کہ اس گناہ کبیرہ کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں۔

حصہ