تقسیم مسلمان اور پاکستان

224

آزادیِ فکر
آزادیِ افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادیِ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!۔

یہ ہر شخص پر عیاں ہوگیا تھا کہ آبادیوں کے اندر جن دو گھروں میں دیواریں مشترک تھیں اور آبادیوں کے باہر جن دو کھیتوں کی منڈیریں باہم پیوست تھی، وہ اب ایک دوسرے سے میلوں دور ہوچکے تھے۔ ملک کی تقسیم کو اب کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس حقیقت کے پیش نظر ایک نئی اسٹریٹجی اختیار کی گئی۔ طے یہ پایا کہ پاکستان ٹلا نہیں تو اس کی کتربیونت اتنی بے دردی سے کردی جائے کہ مسلمان کے پلے کچھ نہ پڑے۔ شملہ کے وائسریگل لاج میں کہ جہاں پنڈت نہرو، مائونٹ بیٹن کے مہمان بن کے ٹھیرے، پہلے ایک منصوبہ بنایا گیا جسے پنڈت جی نے برافروختگی کے عالم میں مسترد کردیا۔ وائسرائے کے مشیروں نے فوراً دوسرا منصوبہ بنایا جس پر وہ رضامند ہوگئے۔ بھنگی کالونی، وائسریگل لاج اور وائٹ ہال ایک ہی تسبیح کے تین دانے تھے جو مستقل ایک دوسرے کے تعاقب میں تھے۔
پلان قائداعظم کو پیش کیا گیا۔ چونکہ تقسیم کا اصول اُس کی خشتِ اوّلین تھا، اس لیے قائد نے بھی قبول کرلیا۔ گویہ سب کچھ قائداعظم کی نگاہ سے پوشیدہ رہ کرکیا گیا۔ تاہم پلان کے معمار ان کے بنیادی مطالبے یعنی مسلمانوں کے حقِ خود ارادیت سے اعراض نہ کرسکے۔
ہندوستان کی تقسیم مان لی گئی لیکن اس اہتمام کے ساتھ کہ مسلمانوں کو جو کچھ ملے وہ مشتمل ہو دو کٹے ہوئے بازوئوں پر۔ مشرق میں ایک علاقے پر اور وہ بھی استصواب رائے کے ذریعے، سندھ پر اسمبلی کی قرارداد کے بعد، سرحد پر وہ بھی رائے عامہ کا تعین ہوچکنے پر۔ قائد جانتے تھے کہ مسلمانوں کی اکثریت جس خطے میں ہے وہ کسی صورت میں اپنے آپ سے غداری نہیں کرے گا، اور جس خطے میں وہ اقلیت میں ہے وہاں وہ کسی صورت میں اکثریت سے غداری نہیں کرے گا۔ قوم یوں متحد و متفق ہوچکی تھی۔
2 جون کو دفتر کے اندر ہی احباب جمع تھے کہ خبر آئی کہ کل آل انڈیا ریڈیو سے پنڈت نہرو، قائداعظم اور بلدیو سنگھ لوگوں سے خطاب کریں گے۔ احمد علی خان مسکرا کے کہنے لگے ’’خطرہ ہے کہ کوئی سمجھوتا ہوگیا ہے‘‘۔ سمجھوتے کی نوعیت کیا ہوگی، تقریروں میں کیا کیا کہا جائے گا اور کیا کیا نہیں کہا جائے گا، اس پر احباب کے درمیان ہر طرح کی قیاس آرائیاں ہوئیں۔ بہرکیف جب محفل برخاست ہوئی، ہر شخص مسرور اٹھا کہ کشتی کنارے آلگی۔ اور یہ ثمر تھا گہری سوچ اور بھرپور عمل کا۔
مسلمانوں نے مختلف اوقات پر یوں بھی سوچا کہ:
-1 اس ملک سے ہجرت کرلی جائے۔ لیکن یہ طریقہ سراسر جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ تھا۔ تاہم انگریز سے جو دشمنی تھی اور بے چارگی کے عالم میں ہیجان اُس کے خلاف دلوں کے اندر بپا تھا، یہ تحریک اس کا مظہر تھی۔ چونکہ یہ تحریک ایک بہت بڑے مسئلے کا بہت چھوٹا حل تھی، اس لیے ناکام ہوگئی اور مہاجروں کے آلام و مصائب کے درمیان ختم ہوگئی۔
-2 ہندوئوں کے ساتھ مل کر ایک قوم بنائی جائے۔ اس جذبے کی راہ میں دونوں قوموں کے اپنے اپنے تشخص حائل ہوگئے اور مسلمانوں کو ایک طویل اور مخلص جدوجہد کے بعد جو تلخ تجربہ ہوا، اس کی بنا پر اسے مسترد کردیا گیا۔ یہ نیشنلسٹ مسلمانوں کا نقطہ نظر تھا۔
-3 پوری قوم عسکریت کے سانچے میں ڈھال کر غلبہ حاصل کیا جائے۔ ہندو اور انگریزوں کی مشترکہ قوت اس منصوبے کے خلاف صف آرا ہوگئی اور تحریک کچل دی گئی۔ یہ خاکساروں کا مسلک تھا۔
-4 ملک تقسیم کرلیا جائے۔ یہ حل ملّی رجحانات کا عکس اور سیاسی تجربے کا ماحصل تھا۔ اس کے تحت نئے حالات سے جو کچھ مل جائے اس پر سردست قناعت کی جائے۔ یہ مسلم لیگ کا مؤقف تھا۔
جذباتی طور پر ہندوستان سے قطع تعلق کچھ کم تکلیف دہ امر نہیں تھا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا نعرہ بلند ہوتے ہی لوگوں کو سرپیر کا ہوش نہ رہا، وہ جذبات کی ایک پوری دنیا کو اپنی سادہ خیالی سے فراموش کردیتے ہیں۔ ایک وطن کو توڑنا، صدیوں کی رفاقت کو (اور رفاقت بھی ایسی کہ جہاں اسلاف تک مشترک ہوں) ختم کردینا، سماجی میل ملاپ اور دکھ درد میں سانجھ کو یک قلم متروک کردینا بڑے قلبی ہیجان کا موجب ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی وہ نسل جس کے ہاتھوں میں پاکستان نے جنم لیا وہ اس ہیجان سے گزر رہی تھی۔ موجودہ نسل کے عامۃ الناس کو چھوڑیے، اس نسل کے دانشور بھی اس کیفیت کا صحیح ادراک نہیں کرسکتے۔ اس لیے کہ یہ ایک واردات تھی جو اسی نسل تک محدود رہی اور جو بعد میں آنے والوں پر نہیں گزری۔
میں جب موجودہ نسل کے اندر اپنے وطن سے بے نیازی دیکھتا ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ انہیں کہوں ’’اے کاش تمہیں پہلے ہندوستان سے محبت ہوتی اور پھر تمہارے لیے اس کی تقسیم ناگزیر بھی ہوتی۔ آپ اقبال کے ساتھ یہ بھی کہتے ؎
اے آبِ رودِ گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو
اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا!!“
اور پھر یہ کہتے ’’(تاریخ کے اس دور میں) بڑے اہم مفادات دائو پر لگے ہوئے ہیں۔ تعداد میں ہم سات کروڑ ہیں اور ہندوستان کی ہر دوسری قوم سے زیادہ یک جان و ہم آہنگ ہیں۔ فی الواقع ہندو مسلمان ہی اس قابل ہیں کہ جن پر دورِ حاضر کی اصلاحات میں سے لفظ قوم کا صحیح اطلاق ہوسکتا ہے۔ ہندو ہر میدان میں ہم سے آگے ہونے کے باوجود ابھی ایسی ہم آہنگی حاصل نہیں کرسکے جو کسی (انبوہ) کو قوم بناتی ہے اور جو ہمیں اسلام سے مفت، تحفتاً ملی ہے‘‘۔
آپ نے محمد علی جوہر کو یہ کہتے سنا ہوتا کہ ’’جہاں ہندوستان اور اسلام کی بات ہورہی ہوتی ہے، میں وہاں دیوانہ ہوجاتا ہوں‘‘۔ اور اس کے ساتھ آپ نے رودادِ چمن بھی پڑھی ہوتی جس میں انہوں نے گاندھی جی کے دام میں الجھنے کے دنوں کی داستان رقم کی ہے۔
آپ قائداعظم کی اُن مساعی سے واقف ہوتے جو انہوں نے ہندو مسلم سفیر کی حیثیت سے انجام دیں، اور پھر اُن سے یہ بھی سنا ہوتا کہ ہماری طرزِ حیات اور ہمارا اندازِ فکر ہمیں علیحدہ قوم بناتے ہیں اور ہم کسی صورت میں بھی کسی غیر کے جور و ستم کے تحت زندگیاں گزارنے پر رضامند نہیں ہوں گے۔
پھر آپ اُن اَن گنت اور انجانے کارکنوں کو بھی جانتے ہوتے جو جوانیاں لے کر انگریز کی جیل میں گئے اور بڑھاپے لے کے لوٹے۔
ایسی صورت میں تقسیم کو کسی نعرے نے حقیقت نہیں بنایا بلکہ جی کے اندر سے ابھرنے والے طوفان نے جسے مسلم تشخص کہا جاسکتا ہے، ہمارے لیے اس تلخابے کو شیریں بنایا۔
(”آہنگ بازگشت“)

حصہ