داعی کے اوصاف

دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوںکی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں، یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (Common Sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعی حق کی اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتی ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ آپ نکال لیتی ہے

ترجمہ: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جائو، اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریقِ کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند، تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ (سورۃ الاعراف: آیات 199تا 202)
تفہیم: ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت و تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو تعلیم دینا نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اُن سب لوگوں کو یہی حکمت سکھانا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اٹھیں۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے:
1۔ داعیٔ حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو، متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق، عامۃ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے۔ نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے۔ مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی، بہتان تراشی، ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو، اس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے۔ سخت گیری، درشت خوئی، تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعالِ طبع اس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے، بنتا نہیں ہے۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ’’غضب اور رضا دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں، جو مجھ سے کٹے میں اُس سے جڑوں، جو مجھے میرے حق سے محروم کرے میں اُسے اُس کا حق دوں، جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اُس کو معاف کردوں۔‘‘ اور اسی چیز کی ہدایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن لوگوں کو کرتے تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشرواولاتنفرواو یسرواولا تعسروا، یعنی جہاں تم جائو وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے مژدۂ جانفزا ہو، نہ کہ باعثِ نفرت، اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے۔‘‘ اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمائی ہے کہ فبما رحمۃ من اللّٰہ لنت لھم ولو کنت فظًّا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک ’’یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو، ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔‘‘ (آل عمران:159)
2۔ دعوتِ حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی اُن سیدھی اور صاف بھلائیوںکی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں، یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام (Common Sense) کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے۔ اس طرح داعی حق کی اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتی ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ آپ نکال لیتی ہے۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں، کیونکہ عام انسان، خواہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں، جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اُس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کررہے ہیں تو رفتہ رفتہ ان کے دل خودبخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعیٔ حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخرکار میدانِ مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہیں جن کے ذاتی مفاد نظامِ باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہوں، یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سو فیصد اورکہیں 80 اور 90 فیصد باشندے مسلمان ہوگئے۔
3۔اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ الجھا جائے خواہ وہ الجھنے اور الجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملے میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف اُن لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اتر آئے اور حجت بازی، جھگڑالو پن اور طعن و تشنیع شروع کردے تو داعی کو اُس کا حریف بننے سے انکار کردینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں الجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعتِ دعوت اور اصلاحِ نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے۔
4۔ نمبر3 میں جو ہدایت کی گئی ہے اسی سلسلے میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعیٔ حق مخالفین کے ظلم اور اُن کی شرارتوں اور اُن کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزعِ شیطانی (یعنی شیطان کی اکساہٹ) ہے اور اسی وقت اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہہ نکلنے سے بچائے اور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اس سے دعوتِ حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہوجائے۔ دعوتِ حق کا کام بہرحال ٹھنڈے دل سے ہی ہوسکتا ہے اور وہی قدم صحیح اٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر، خوب سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے۔ لیکن شیطان جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعیٔ حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر حملے پر داعیٔ حق کو اکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اپیل جو شیطان داعی کے نفس سے کرتا ہے، اکثر بڑی بڑی پُرفریب تاویلوں اور مذہبی اصطلاحوں کے غلاف میں لپٹی ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی تہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی (اللہ سے ڈرتے اور بدی سے بچنے کے خواہش مند) ہیں وہ تو اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی برے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوتِ دین کا مفاد کس طرزعمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے، تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلے میں نہیں ٹھیر سکتے اور اس سے مغلوب ہوکر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انہیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جاکر ان کے قدم نہیں رکتے۔ مخالفت کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔
اس ارشاد کا ایک عمومی محل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہلِ تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیر متقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ جو لوگ حقیقت میں اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ برائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ برے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اُن کے دل کو چھو جاتا ہے تو انہیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک انگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ وہ برے خیالات، بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلافِ مزاج ہوتی ہیں جس طرح انگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ، یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انہیں محسوس ہوجاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اُن کا ضمیر بیدار ہوکر اس غبارِ شر کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ اللہ سے ڈرتے ہیں، نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے، وہ اپنے نفس میں برے خیالات، برے ارادے، برے مقاصد سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے بالکل اسی طرح جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے۔
اور اس کے ساتھ واذا قریَٔ القراٰنُ فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔ واذکر ربک فی نفسک تضرعاً وخیفۃً ودون الجھر من القول بالغدووالاصال ولا تکن من الغافلین۔
ترجمہ: جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ، اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ (الاعراف:205-204)
تفہیم: یعنی یہ جو تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تم لوگ قرآن کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو اور شوروغل برپا کرتے ہو تاکہ نہ خود سنو اور نہ کوئی دوسرا سن سکے، اس روش کو چھوڑ دو اور غور سے سنو تو سہی کہ اس میں تعلیم کیا دی گئی ہے۔ کیا عجب کہ اس کی تعلیم سے واقف ہوجانے کے بعد تم خود بھی اسی رحمت کے حصہ دار بن جائو جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہوچکی ہے۔ مخالفین کی طعن آمیز بات کے جواب میں یہ ایسا لطیف و شیریں اور ایسا دلوں کو مسخر کرنے والا اندازِ تبلیغ ہے کہ اس کی خوبی کسی طرح بیان کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ جو شخص حکمتِ تبلیغ سیکھنا چاہتا ہو وہ اگر غور کرے تو اس جواب میں بڑے سبق پا سکتا ہے۔
یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی، خواہ وہ زبان سے ہو یا خیال سے۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی یاد سے مقصود نماز ہے اور صبح و شام کا لفظ دائمًا، کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی یاد میں مشغول رہنا ہے۔ یہ آخری نصیحت ہے جو خطبہ کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہوجائے۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اس کا رب ہے اور وہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کا بندہ ہے اور دنیا میں اس کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا۔ پس جو شخص راہِ راست پر چلنا اور دنیا کو اُس پر چلانا چاہتا ہو اُس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اُس کو لاحق نہ ہوجائے۔ اسی لیے نماز اور ذکرِ الٰہی اور دائمی توجہ الی اللہ کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔
(تفہیم القرآن، جلد دوم، سورۃ الاعراف، 199تا 202 اور 205-204)

حصہ