قیصروکسریٰ قسط(61)

197

انطونیہ نے پوچھا۔ ’’آپ واپس آئیں گے؟‘‘
’’ہاں! میں نے بندرگاہ کے ناظم سے وعدہ کیا ہے کہ پناہ گزینوں کو نکالنے کے لیے اسکندریہ سے مزید جہاز لانے کی کوشش کروں گا‘‘۔
’’آپ بہت رحمدل ہیں‘‘۔ لڑکی نے احساس مندانہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
انطونیہ کی ماں نے جو ان کے قریب لیٹی ہوئی تھی پانی مانگا اور کلاڈیوس بھاگ کر لکڑی کا ایک کٹورا بھر لایا۔
’’اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ اس نے پانی پلانے کے بعد پوچھا۔
انطونیہ کی ماں نے جواب دیا۔ ’’میں ٹھیک ہوں بیٹا! خدا تمہارا بھلا کرے‘‘۔
چند دن سفر کے دوران میں کلاڈیوس اور انطونیہ ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے تھے اور ایک دن جب ان کا جہاز اسکندریہ کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہورہا تھا۔ وہ یہ محسوس کررہے تھے کہ کاش! یہ سفر اتنی جلدی ختم نہ ہو۔ انطونیہ کی ماں کے لیے پالکی کا انتظام کرنے کے بعد کلاڈیوس ان کے ساتھ چل دیا۔ تھوری دیر بعد یہ لوگ انطونیہ کے ماموں بطلیموس کے مکان میں داخل ہوئے۔ بطلیموس اسکندریہ کا ایک خوشحال تاجر تھا اس نے کلاڈیوس کو کھانے کے لیے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے جواب دیا۔ ’’میں کسی تاخیر کے بغیر اپنے چچا کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ اگر موقع ملا تو پھر کسی وقت حاضر ہوجائوں گا‘‘۔
بطلیموس نے کہا۔ ’’تو پھر آپ شام کا کھانا میرے ساتھ ضرور کھائیں؟‘‘
کلاڈیوس نے جواب دیا۔ ’’اگر میں یہاں ٹھہر سکا تو ضرور آئوں گا لیکن ممکن ہے کہ چچا جان غزہ سے پناہ گزینوں کو نکالنے کی مہم مجھے سونپ دیں اور میں آج ہی یہاں سے روانہ ہوجائوں۔‘‘
انطونیہ نے بطلیموس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’ماموں جان! مجھے یقین ہے کہ غزہ سے دوبارہ واپس آنے تک یہ ہمارے گھر کا راستہ بھول چکے ہوں گے‘‘۔
’’نہیں! انطونیہ‘‘ بطلیموس نے جواب دیا۔ ’’یہ ہمیں شکریہ کا موقعہ دینے میں بخل سے کام نہیں لیں گے‘‘۔
انطونیہ، جو اپنی ماں کے بستر کے قریب بیٹھی بڑی مشکل سے اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کررہی تھی، اُٹھ کر باہر نکل گئی۔ کلاڈیوس نے اُٹھ کر مصافحے کے لیے بطلیموس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اس نے کہا۔ ’’نہیں، جناب! میں دروازے تک آپ کے ساتھ چلوں گا‘‘۔
’’نہیں، نہیں، تکلف کی ضرورت نہیں آپ مریضہ کے پاس تشریف رکھیے!‘‘ کلاڈیوس نے یہ کہہ کر بطلیموس سے مصافحہ کیا اور اسے کچھ اور کہنے کا موقع دیے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
انطونیہ صحن میں کھڑی تھی۔ کلاڈیوس اس کے قریب پہنچ کر رُکا اور ایک ثانیہ توقف کے بعد بولا۔
’’انطونیہ! میں اس گھر کا راستہ نہیں بھولوں گا‘‘۔
انطونیہ نے کہا۔ ’’میں مرتے دم تک آپ کا انتظار کروں گی‘‘۔ اور اس کے ساتھ اس کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
’’خدا حافظ! انطونیہ‘‘۔ کلاڈیوس یہ کہہ کر آگے بڑھا، رکا اور ایک ثانیہ مڑ کر دیکھنے کے بعد لمبے لمبے قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
گھر کی عورتیں چند قدم دور کھڑیں انطونیہ کی طرف دیکھ رہی تھیں اور ان کی نگاہوں میں ان گنت سوالات تھے لیکن انطونیہ ان کی طرف توجہ دینے کے بجائے کمرے میں چلی گئی۔
بطلیموس جو مریضہ سے باتیں کررہا تھا۔ قدرے توقف کے بعد انطونیہ سے مخاطب ہو کر بولا۔ ’’بیٹی! میں تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں لیکن تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ رومی ہے اور اسکندریہ کے حاکم کا بھتیجا ہے۔ ‘‘انطونیہ کوئی جواب دینے کی بجائے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر سسکیاں ضبط کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
O
ان واقعات کے چند ہفتے بعد فرمس، بابلیون سے ہوتا ہوا اسکندریہ پہنچا تو اس کی بیوی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہی تھی۔ نیک دل شوہر کی نگاہوں کے سامنے آٹھ پہر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد اس نے اپنا سفرحیات ختم کردیا۔ چند دن بعد، فرمس نے اپنی بیٹی کے ساتھ بابلیون جانے کا ارادہ کیا لیکن بطلیموس کے اصرار پر وہ ایک ہفتہ اور اس کے ہاں ٹھہرنے پر رضا مند ہوگیا۔ اس عرصہ میں اسکندریہ کے کئی جہاز غزہ سے پناہ گزینوں کو لے کر واپس آچکے تھے لیکن انطونیہ کو کلاڈیوس کے متعلق کوئی اطلاع نہ ملی۔ ماں کی موت کے صدمے کے باعث وہ زندگی کی بیشتر دلچسپیوں سے کنارہ کش ہوچکی تھی لیکن کلاڈیوس کو بھول جانا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ اسے بطلیموس کے یہ الفاظ بار بار یاد آتے تھے کہ کلاڈیوس ایک رومی ہے اور اسکندریہ کے حاکم کا بھتیجا ہے۔ تاہم انتہائی مایوسی کی حالت میں بھی وہ اس خود فریبی میں مبتلا رہنا چاہتی تھی کہ کلاڈیوس کسی دن اس کی تلاش میں آئے گا۔
کوئی دروازے پر دستک دیتا تو اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں۔ کوئی غزہ سے آنے والے زخمیوں اور پناہ گزینوں کا ذکر چھیڑتا تو وہ اس کے منہ سے کلاڈیوس کا ذکر سننے کے لیے بیتاب ہوجاتی۔ اسکندریہ چھوڑنے سے ایک دن قبل وہ بطلیموس کی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ اپنی ماں کی قبر دیکھ کر واپس آرہی تھی۔ ایک کشادہ بازار سے گلی میں داخل ہوتے وقت اسے بطلیموس کا حبشی غلام دکھائی دیا جو چلنے کی بجائے بھاگ رہا تھا۔
بطلیموس کی بیوی نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم کہاں جارہے ہو۔ اور اتنے بدحواس کیوں ہو؟‘‘
غلام نے جواب دیا۔ ’’جناب! میں آقا کو دکان سے بلانے جارہا ہوں، ایک رومی ان سے ملنا چاہتا ہے‘‘۔
انطونیہ نے بے چین ہو کر پوچھا۔ ’’وہ کہاں ہے؟‘‘
’’میں اسے اندر بٹھا آیا ہوں‘‘۔ غلام نے جواب دیا۔
’’ابا جان گھر پر ہیں؟‘‘
’’نہیں وہ ابھی باہر نکلے تھے۔ میرا خیال ہے کہ وہ بھی دکان پر ہوں گے‘‘۔
غلام یہ کہہ کر بھاگ گیا۔ اور بطلیموس کی بیوی نے کہا۔ ’’بیٹی مبارک ہو۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور آئے گا۔ اب چلو!‘‘
انطونیہ ان کے ساتھ چل پڑی۔ مہمانوں کا کمرہ ڈیوڑھی سے ملا ہوا تھا لیکن انطونیہ کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی اور وہ تذبذب کی حالت میں دوسری عورتوں کی طرف دیکھنے لگی۔ بطلیموس کی بیوی نے اپنی بیٹیوں کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہاں سے کھسک گئیں۔ پھر وہ انطونیہ کی طرف متوجہ ہوئی ’’بیٹی! تم ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہو، جائو!‘‘
انطونیہ چہرے پر شرم و حیا کی سرخیاں لیے ملاقات کے کمرے میں داخل ہوئی لیکن وہاں کلاڈیوس کی بجائے ایک اجنبی بیٹھا ہوا تھا وہ ان گنت نغمے جو انطونیہ کے دماغ میں گونج رہے تھے اچانک خاموش ہوگئے۔
’’آپ غزہ سے آئے ہیں؟ اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’جی ہاں!‘‘ رومی نے اُٹھ کر جواب دیا۔
’’آپ کو کلاڈیوس نے بھیجا ہے؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘
’’وہ یہاں نہیں آئیں گے؟‘‘
’’وہ ضرور آئیں گے لیکن ابھی نہیں۔ ان دنوں غزہ میں جمع ہونے والے پناہ گزینوں اور زخمیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور جب تک انہیں وہاں سے نکال نہیں لیا جاتا کلاڈیوس واپس نہیں آسکے گا۔ اگر میں غلطی نہیں کرتا تو آپ انطونیہ ہیں۔ کلاڈیوس نے مجھے آپ کے لیے ایک ضروری پیغام دیا ہے وہ کہتے تھے کہیں آپ یہ سمجھ نہ لیں کہ میں آپ کے گھر کا راستہ بھول چکا ہوں۔ وہ یہ بھی پوچھتے تھے کہ آپ کی والدہ کی صحت کیسی ہے؟‘‘
انطونیہ نے پرامید ہو کر پوچھا۔ ’’آپ واپس غزہ جائیں گے‘‘۔
’’جی ہاں! میں آج ہی کسی جہاز پر روانہ ہوجائوں گا‘‘۔
آپ کلاڈیوس کے پاس میری طرف سے یہ پیغام لے جائیں کہ میری والدہ وفات پاچکی ہیں‘ میرے والد یہاں پہنچ گئے ہیں اور میں ان کے ساتھ بابلیون جارہی ہوں‘‘۔
رومی نے پوچھا۔ ’’کیا میں انہیں یہ پیغام بھی دے سکتا ہوں کہ آپ اُن سے خفا نہیں ہیں؟‘‘
’’کس بات پر‘‘
’’ان کا خیال تھا کہ شاید آپ ان کی معذرت قبول نہ کریں‘‘۔
’’آپ انہیں یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ میں ان سے خفا نہیں ہوں‘‘۔ انطونیہ یہ کہہ کر مسکرائی اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔
رومی نے کہا۔ ’’میں بطلیموس کی وساطت سے آپ کو اُن کا پیغام پہنچانا چاہتا تھا۔ آپ کا نوکر انہیں بلانے گیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اب میں اپنا فرض پورا کرچکا ہوں۔ اس لیے مجھے اجازت دیجیے۔ یہاں مجھے بہت کام ہیں‘‘۔
انطونیہ نے پوچھا۔ ’’آپ کھانا نہیں کھائیں گے؟‘‘
’’نہیں! میں کھانا کھا چکا ہوں۔ اب مجھے اجازت دیجیے‘‘۔ رومی یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا‘‘۔
O
چند دن بعد فرمس اپنی بیٹی کے ساتھ بابلیون پہنچ گیا۔ کئی سال ایک منفعت بخش کاروبار سے اُس نے جو سرمایہ جمع کیا تھا وہ عمر بھر کی ضرورت کے لیے کافی تھا۔ لیکن وہ بیکار بیٹھنے کا عادی نہ تھا۔
اس نے دریائے نیل کے کنارے ایک سرائے خرید لی اور اپنا پرانا دھندا شروع کردیا۔
فلسطین کی طرح مصر میں بھی یہ عام تاثر پایا جاتا تھا کہ اگر ایرانی لشکر نے یروشلم کا رُخ کیا تو اسے عبرتناک تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یروشلم میں شکست کھانے کے بعد اُن لوگوں کے حوصلے ٹوٹ گئے جو آخری وقت قدرت کے کسی معجزے کا انتظار کررہے تھے۔ اس کے بعد جب غزہ میں بھی رومیوں کی سطوت کے پرچم سرنگوں ہوگئے تو شام اور فلسطین کی طرح وادیٔ نیل کے شہروں اور بستیوں میں بھی موت کے بھیانک سائے دکھائی دینے لگے۔
بابلیون پہنچنے کے بعد کلاڈیوس کے متعلق انوطنیہ کو آخری اطلاع یہ ملی تھی کہ وہ غزہ سے اچانک یروشلم کے محاذ پر چلا گیا ہے۔ اس کے بعد کئی ماہ تک اسے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟‘‘
ایک اتوار کی صبح وہ اپنے باپ کے ساتھ گرجے جانے کی تیاری کررہی تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی اور چند ثانیے بعد نوکر بھاگتا ہوا اندر آیا اس نے فرمس کو اطلاع دی کہ ایک رومی افسر آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا نام کلاڈیوس بتاتا ہے۔ ایک ثانیہ کے لیے کائنات کی تمام مسرتیں سمٹ کر انطونیہ کے چہرے پر آگئیں۔ فرمس تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا باہر نکلا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کلاڈیوس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے واپس آیا اور یہ تینوں ایک کمرے میں بیٹھ گئے۔ انطونیہ تصور میں پہروں اس سے گلے اور شکوے کیا کرتی تھی لیکن اب اس کی زبان گنگ ہوچکی تھی اور اُسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کے ماضی اور حال کے درمیان سارے خلاء پُر ہوچکے تھے۔
فرمس نے کہا۔ ’’آپ کو میرے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت کی ضرورت نہ تھی۔ ہم مدت سے آپ کا انتظار کررہے تھے۔
انطونیہ کے اصرار پر میں چار مرتبہ اپنا نوکر اسکندریہ بھیج چکا ہوں لیکن وہاں بھی آپ کے متعلق کسی کو معلوم نہ تھا‘‘۔
کلاڈیوس نے کہا۔ ’’مجھے غزہ سے کمک کے ساتھ یروشلم کی طرف بھیجا گیا تھا لیکن شہر سے چند کوس دور دشمن کی ایک فوج نے گھیرے میں لے لیا اور ہم شدید نقصان اٹھانے کے بعد ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ میں ان چند خوش قسم لوگوں میں سے تھا جنہیں دشمن نے غلامی کے قابل سمجھ کر قتل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ چند ماہ اردن کے ایک قلعے میں قید رہنے کے بعد میں جنگی قیدیوں کے ایک قافلے کے ساتھ ایران کی طرف روانہ ہوا۔ میں دشمن کی غلامی سے بچنے کے لیے ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھا۔ چند رومی اور شامی نوجوان میرے ساتھ مل گئے۔ کئی ہفتے سفر کرنے کے بعد ہمیں ایک رات شدید آندھی کے باعث فرار ہونے کا موقعہ مل گیا۔ میرے ساتھ بائیس آدمی تھے۔ لیکن چار، رات کی تاریکی میں، ہم سے بچھڑ گئے۔ صبح کے وقت ہمارے سامنے ایک لق ودق صحرا تھا۔ آندھی سے اُڑتی ہوئی ریت میں ہمارے پائوں کے نشان مٹتے جارہے تھے اور ہمیں یہ اطمینان تھا کہ اگر دشمن سواروں نے ہمارا پیچھا کیا تو بھی ان کے لیے ہمارا کھوج لگانا آسان نہیں ہوگا۔ دوپہر تک ہمارے تین ساتھی مارے پیاس کے دم توڑ چکے تھے اور باقی جان کنی کے عالم میں تھے اور ہماری یہ حالت تھی کہ اگر دشمن کے سوار آجاتے تو ہم پانی کا ایک گھونٹ حاصل کرنے کے لیے آپ کو ان کے حوالے کردیتے۔ تیسرے پہر ہم ایک بلند ٹیلے کے سائے میں لیٹے تھے۔ آندھی تھم چکی تھی لیکن ہمیں اپنی موت سے زیادہ کسی بات کا یقین نہ تھا۔ ایک شامی نوجوان جسے ہم اپنا رہنما تسلیم کرچکے تھے۔ آہستہ آہستہ ٹیلے پر چڑھنے لگا اور میں بھی گرتا سنبھلتا اس کے پیچھے ہولیا۔ ٹیلے کے دوسری طرف تنگ وادی میں خانہ بدوش عربوں کا ایک قافلہ دکھائی دیا۔
(جاری ہے)

حصہ