سوشل میڈیا مساوات

268

پاکستان میں برساتی موسم جاری ہے ، سندھ و بلوچستان میں بارش سے آنے والی سیلابی تباہی بہت شدید رہی۔امداد کے لیے جانے والے پاک فوج کے ہیلی کاپٹر حادثہ سے بھی لوگ خاصے جذباتی ہوئے۔ سماجی میڈیا پر عوام کی خدمت کرنے والے فوجیوں کو خوب خراج تحسین پیش کیا گیا۔خاصے ٹرینڈ چلے، اس کے اثرات تین دن صاف نظر آئے ، میں سوچ رہاتھا کہ شاید اب پاک فوج پر تنقیدکا عمل رک جائے گا کیونکہ بہرحال کمانڈ تو اس وقت جنرل باجوہ ہی کر رہے ہیں ۔مگر ایسا نہ ہواباجوہ سولڈ دی نیشن کا ہیش ٹیگ 4 اگست کوٹرینڈ لسٹ میں داخل کر دیا گیا، اسکی وجہ ممنوعہ فنڈنگ فیصلہ بن گیا۔عمران خان کا بیرون ملک ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ بلا شبہ بہت تاخیر سے آیا تاہم یہ حیران کن بات ہے کہ عوامی مقبولیت میں کوئی ہمیں کمی محسوس نہیں ہوئی۔انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ ،فراڈ،دھوکہ دہی کو فخریہ سچ اور معمولی غلطی بنا کرپیش کیا گیا پھر اس کے موازنے ن لیگ و زرداری سے کیے گئے ۔ظاہر سی بات ہے ایسے موازنے پر تو لوگ عمران خان کے عمل کو نیکی جیسا ہی جانیں گے۔ستم یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بھی افواج پاکستان سے جوڑ دیا گیا۔باوجود اسکے کہ عمران خان کے سابقہ بیانات کی وڈیوز سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا ہیڈ لائنز میں بھی بار بار چلائی جاتی رہیں جس میں وہ صاف صاف فرما رہے ہیں کہ میں کچھ غلط کروں تو مجھ پر کیسز بنائیں ، یہ اچھی بات ہے۔مگر اب سارا معاملہ الٹ ہوگیا، جو کیا ہے وہ جرم ہی نہیں قرار دے رہے تو اس پر کیا کریں۔اس پورے ٹرینڈ میں جماعت اسلامی ہی وہ پاکستان کی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی جو ہر قسم کے اعتراض اور الزام سے پاک نظر آئی ۔سوشل میڈیا پر اس موقع کا خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس عوام کوجو ایماندار و دیانتدار قیادت چاہتے ہیں ، جماعت اسلامی کو ایک متبادل کے طورپر پیش کیا گیا۔
دوسرا قابل ذکرواقعہ اس ہفتہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکی ڈرون حملے کا تھا، جس میں دو میزائل فائر کیے گئے۔ گذشتہ سال افغانستان سے انخلاء کے بعدامریکہ کی جانب سے ایسا اقدام عالمی توجہ لے گیا۔اس حملہ میں ڈاکٹر ایمن کو شہید کیا گیاجنہیں القاعدہ کا قائد قرار دیا جاتا تھا۔مصر میں علما کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایمن ایک دہائی سے افغانستان میں ہر لحاظ سے انتہائی پس منظر میں تھے۔انکی تمام حیات میدان جہادسے جڑی شدید صعوبتوں سے وابستہ رہی ، ان پر کئی قاتلانہ حملے ہوتے رہے۔امریکی میڈیا اسکو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہا ہے۔اخبار نیو یارک ٹائمز نے صدر بائیڈن کے الفاظ میں لکھا ہے کہ ” اب انصاف دیا جا چکا ہے ، یہ دہشت گرد اب باقی نہیں رہا۔” دیگر میڈیا ذرائع نے اس حملے میں 10 معصوم شہریوں کی اموات کو بھی نمایاں کیا ہے ،تاہم سی آئی اے نے خاموشی اختیار کی۔ طالبان کا بھی ایک ٹرینڈ اسی واقعہ کے ذیل میں ٹوئٹر پر بنا جب انہوں نے اپنا بیانیہ دیا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ امریکی حکومت کے اہم گڑھ کابل میں ڈاکٹر صاحب کسی جگہ موجود ہیں۔رائٹرز کےمطابق موجودہ افغان حکومت تادم تحریر مشورہ کر رہے ہیں کہ اس حملے پرامریکہ کوکیسے جواب دینا ہے، جبکہ امریکہ اس کو قطری معاہدے کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے۔اس کے ذیل میں چلنے والے ٹرینڈ میں افغانستان کی موجودہ حکومت کے مخلف اقدامات کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے ۔ اس ذیل میں وہاں خواتین کے حوالے سے موضوعات کوخاصا ایشو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔مساوات کے نعرے کو عالمی سطح پر نافذ کرنا ، بہرحال شیطانی ایجنڈا ہے۔افغانستان اس لیے گرم موضوع ہے۔ہمیں سمجھنا ہوگاکہ اسلام میں تمام انسان برابر نہیں ۔ نہ مرد ،مرد کے برابر ہے۔ نہ عورت عورت کے برابر ہے اور جب عورت عورت برابر نہیں تو مرد و عورت کی برابری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مرد عورت جیسے کپڑے نہیں پہن سکتا عورتوں کی وضع قطع اختیار نہیں کر سکتا۔ عورت مرد جیسی خوشبو نہیں لگا سکتی تو پھربرابری کیسی ۔لہذا ان کے حقوق بھی مساوی نہیں جو مرتبہ عشرہ مبشرہ کا ہے وہ مرتبہ اصحاب بدر کا نہیں ،جو مرتبہ اصحاب بدر کا ہے وہ عام صحابہ کا نہیں۔ قبل از فتح مکہ اور فتح مکہ کے بعد کے اصحاب کا مرتبہ برابر نہیں۔ اسلام میں تمام عورتیں اور تمام نوجوان برابر نہیں لہذا حضرت حسن رضی اللہ عنہ وحضرت حسین رضی اللہ عنہ جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا عورتوں کی جنت میں سردار ہیں لہذا تمام جوان مرد اور جوان عورتیں بھی برابر نہیں سب کے مرتبے الگ الگ ہیں۔ مساوات کا سبق پڑھانے والے توحید اور شرک، حق اور باطل، خیر اور شر میں کسی تفریق کے قائل نہیں ان کی نظر میں ہر عقیدہ اور نظریہ جسے کوئی انسان قبول کرلے، برابر اہمیت اور حیثیت رکھتا ہے۔ اور کسی بھی عقیدہ کی بنا پر انسانوں کے مابین کوئی تفریق کرنا، بنیادی حقوق انسانی کے خلاف اور جرم ہے۔ جبکہ اسلام عقیدہ و ایمان کی بنیاد پر انسانیت کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک اہل ایمان، انبیاء علیھم السلام کے سچے پیروکار جنہیں عباداللہ، عبادالرحمنٰ مومنین، مسلمین اور حزب اللہ ،الجماعۃ وغیرہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور دوسرے خواہشاتِ نفس کے بندے، کفار، مشرکین، منافقین، عبد الدینار اور حزبِ شیطان کہے جاتے ہیں۔ بعض لوگ عدل کے بدلےمساوات کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ عظیم غلطی ہے۔ مساوات ‘کی اصطلاح عدل کی جگہ پر کسی صورت استعمال نہیں کی جاسکتی۔کیونکہ مساوات دو چیزوں کے درمیان برابری کا تقاضا کرتی ہے جبکہ عدل اِنہی دو چیزوں کے درمیان جداجدا حیثیت کا تقاضا کرتا ہے ۔ قرآنِ کریم میں اکثر وبیشتر مساوات کی نفی کا ہی تذکرہ آیا ہے ۔جو شخص دین اسلام کو انسانی حقوق کے منشور کے مطابق ثابت کرنے کے لئے مساواتی دین کہتاہے، اس نے اسلام کی بابت غلطی کھائی ہے۔ اسلام تو دینِ عدل اور احسان ہے ۔
عالمی جریدے نیوز ویک کی اہم اسٹوری تھی کہ نینسی کے دورہ تائیوان پرسوشل میڈیا پر کیسا رد عمل آیا۔580 ملین سے زیادہ فعال ماہانہ صارفین رکھنے والی چینی سوشل میڈیا سائٹ ویبو نے پیلوسی کا طیارہ تائیوان ہوائی اڈے پر پہنچنے کے فوراً بعد 30 منٹ کے لیے موبائل ایپ ہی بند کردی۔ویبو کے صارفین اکثر پیلوسی کو ایک “پرانی چڑیل” کے طور پر بیان کرتے رہے۔ نیو یارک ٹائمز نے تبصرہ کیا کہ “قوم پرستی کی تبلیغ کے خطرات چینی سوشل میڈیا پر چل رہے ہیں”۔ جبکہ چین کے سرکاری خبر رساں اداروں کی طرف سے بنائے گئے ٹرینڈنگ ہیش ٹیگز میں “امریکی-تائیوان کی ملی بھگت اور اشتعال انگیزی شامل ہے؛ جو لوگ آگ سے کھیلتے ہیں وہ اس سے ہلاک ہو جائیں گے”- “1.4 بلین لوگ چین کی خودمختاری کے معاملات میں مداخلت سے متفق نہیں ہیں، ” بیجنگ تائیوان کو اپنے علاقے کا حصہ قرار دیتا ہے۔”چین کی مبینہ کالونی تائیوان میں امریکی نمائندہ نینسی پلوسی کا اچانک دورہ عالمی منظر نامے پر امریکہ بمقابلہ چین کی سرد جنگ کو خاصا گرم کرچکا ہے۔ کہنے کو تو تائیوان مشرقی چین میں 36 ہزار اسکوائر کلومیٹر کاایک الگ جزیرہ ہے،مگر مکمل استعماری تاریخ رکھتا ہے،پہلے پرتگال، پھر چینی سلطنت،پھر جاپان، پھر ماوزے تنگ ،پھر تادم تحریر اس جزیرے پر اپنا راج چاہتا ہے، گوکہ وہاں اپنے الیکشن بھی ہوتے ہیں مگر ہم تائیوان کو مکمل آزاد و خود مختار نہیں کہہ سکتے۔ چین نے تائیوان کو اپنا ایک منقطع ہو جانے والا صوبہ قرار دیا ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو طاقت کے ذریعہ اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ لیکن تائیوان کے سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس کی حیثیت ایک صوبے سے کہیں زیادہ ہے، اُن کی اس دلیل کے مطابق کہ یہ ایک خود مختار ریاست ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ معاشی طور پر بے حد مضبوط بھی ہے ۔اب چین تائیوان میں تنازعہ ہے تو امریکہ اپنے عالمی راج کے اثرات دکھانے کے لیے کوششیں کرتا رہتا ہے اور یہ تازہ کوشش بھی اسی تاثر کا حصہ ہے۔عالمی سیاسی ماہرین کے مطابق چین کو اس معاملے پر رد عمل نہیں دینا چاہیے،مگر چین نے اپنی فوجی مشقوں کا آغاز کردیا ہے چین کے نائب وزیر خارجہ زی فینگ نے کہا کہ ’پلوسی کے دورے کی نوعیت شیطانی‘ ہے۔ انھوں نے اس کے سنگین نتائج سے خبردار کیا اور کہا کہ چین خاموش نہیں بیٹھے گا۔روس نے بھی چین کی حمایت کی ہے اور نینسی پلوسی کے دورے کو واضح اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین کو اپنی خودمختاری کے تحفظ میں کارروائی کرنے کا حق ہے۔
اس کا بائیکاٹ کردو۔ اس کو نہیں چلنے دیں گے۔ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ بھارت اس وقت عملاً بائیکاٹی ملک کی نظیر بن چکا ہے۔ بھارتی ریاست راجستھان کے ایک انگریزی میڈیم نجی اسکول میں دوسری جماعت میں پڑھائی جانے والی ایک کتاب کے ایک سبق میں ’’امی، ابو اور بریانی‘‘ کے الفاظ پر شدید احتجاج شروع ہوگیا۔یہ کتاب غیر مسلم طلبہ کو بھی پڑھائی جارہی تھی ، بچوں پر اس کے اثرات ہوئے اور انہوں نے گھر میں اپنی ماں کو ’’امی‘‘ پکارا ، اپنے والد کو ’’ابو‘‘ پکارا ، ساتھ ہی کھانے کے لیے ’’بریانی‘‘ کا مطالبہ بھی کیا تو والدین کو تشویش لاحق ہوگئی ایسے الفاظ سن کر ، اُنہیں اپنی تہذیب، زبان ، مذہب کو خطرہ لگنے لگا، وہ بھاگے بھاگے گئے اسکول اور شکایت کی ۔ یہی نہیں انہوں نے الفاظ کاخطرہ محسوس کرتے ہوئے مقامی ’’بجرنگ دل‘‘ اور ’’وشوا ہندو پریشد‘‘ کے عہدیداران کو بھی اپنے خوف سے آگاہ کیا۔ یہ بھارت میں ’’ہندوتوا‘‘ کے نظریے کے غلبہ پرقائم مذہبی تشدد پسند اور عسکریت پسند تنظیمیں ہیں۔جن کی سرپرستی ہر بھارتی سرکار کرتی رہی ہے۔بجرنگ دل کا ظاہری نعرہ ہندو مذہب کی’’خدمت، تحفظ اور تہذیب‘‘ ہے۔ویسے یہ ہندو کی مذہبی بنیادوں پر کھڑی تہذیب کا دفاع بھی کرتے ہیں ، جیسا کہ خواتین کی بے پردگی، بے حیائی، ناچ گانے ، ویلنٹائن ڈے جیسے ایام کو بزور قوت رکواتے بھی ہیں۔مگر اہم بات یہ ہے کہ ہم جنس پرستی کے عالمی ایجنڈے کے معاملے پر ان میں ، ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس میں تقسیم رائے نظرآتی ہےجبکہ انکی مذہبی اقدارمیں ہم جنس پرستی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔بہرحال ہم واپس چلتے ہیں راجھستان میں ، جہاں تین الفاظ نے ہندو تہذیب کو خطرات لاحق کر دیے،جبکہ حیرت انگیز بات ہے کہ دوہزار سال سےمسلمان ان کے درمیان بس رہے ہیں جن میں ایک ہزار سال تو مسلم حکمرانی کے تھے۔یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب مشرقی بھارت کی ریاست جھاڑکھنڈ میں بڑے پیمانے پراسکولوں کا ہی ایک تنازعہ شروع ہوا ۔ریاست کے جمتارا ضلع میں مسلم اکثریتی علاقوں میں 100 سے زیادہ سرکاری اسکولوں نے اتوار کی چھٹی ختم کرکے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کردیا۔ یہ تو تھا تصویر کا ایک رُخ دوسری جانب بھارت میں اگلے ماہ جاری ہونے والی ایک مذہبی عنوان سےجڑی فلم کے ٹریلر میں فلم کے ہیرو کسی مندر میں جوتوں سمیت بھاگتے دکھائی دیے۔ بس یہ منظر اُ ن سےبرداشت نہ ہوا چنانچہ فلم کی آمد سے قبل بائیکاٹی سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس مہم کے بعد اب بھارتی فلمسٹار عامر خان کی ایک تازہ فلم پر بائیکاٹی مہم شروع ہوگئی،اب کی بار موضوع یہ ہے کہ عامر خان نے اپنی کچھ سال پرانی ماضی کی ایک فلم میں ہندو مذہب کا مذاق اڑایا تھا اور انہوں نے ہندوستان کے بارے میں ایسے الفاظ کہے کہ یہ جگہ رہنے کے قابل نہیں۔

حصہ